زندگی کا انقلابی تجربہ۔ امریکی رُکن کانگریس

نمائندہ Keith Ellison اپنے حج کی ادائیگی کو ایک انقلابی تجربہ بتاتے ہیں۔ مائینا پولیس سے کانگریس میں ڈیمو کریٹک کے اس رکن کا کہنا ہے کہ ’’ہم حقیقتاً اسے کسی سیاسی چیز میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ میرے لیے تو یہ ایک ایسی کوشش تھی جس سے میں حتی المقدور بہترین آدمی بن سکوں‘‘۔ Ellison جو امریکی کانگریس میں منتخب ہونے والے پہلے مسلمان رُکن ہیں معاصر Star Tribune کے Mitch Anderson سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میرے کانگریس کے رُکن ہونے سے حج کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ موصوف کا کہنا ہے کہ حج میں شرکت کر کے انہیں پیروان اسلام میں موجود یکسانیت کا علم ہوا جو دنیا کے گوشے گوشے سے ادائیگی حج کی خاطر یہاں تشریف لاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ حیرت انگیز طور پر ایک انقلابی تجربہ تھا۔ میں اسے کبھی نہیں بھولوں گا۔ ۳۰ لاکھ لوگ پوری دنیا سے ایک ایسے ملک میں جمع ہوتے ہیں جہاں بہت زیادہ بے چینی ہے۔ Ellison کہتے ہیں کہ ’’میں نے دورانِ حج عوام کا ایک جمِ غفیر دیکھا جس میں اشراف سے لیکر گلیوں میں صفائی کرنے والے کم مایہ جاروب کش تک شریک تھے لیکن حج میں سبھوں کے ساتھ یکساں سلوک تھا۔ ہر کوئی محض ایک حاجی تھا آپ کسی کے جوتوں پر نظر ڈال کر اس کی معاشی حیثیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں کیونکہ ہر کوئی سینڈل پہنے ہوئے ہوتا ہے۔ دورانِ حج سفید احرام میں کعبہ کے گرد طواف کرتے ہوئے مرد و خواتین کو دیکھ کر کوئی احترام و عقیدت کے جذبے سے سرشار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ کوئی بھی شخص دنیا کے ہر کونے سے آئے ہوئے مومنین کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے جن میں گورے بھی ہیں اور کالے بھی، طویل القامت بھی ہیں اور چھوٹے قد کے بھی، امیر بھی ہیں اور غریب بھی۔ یہاں ہر کوئی یکساں حیثیت میں ایمانی و انسانی اخوت سے مربوط خدا کے سامنے صف بستہ ہے‘‘۔ Ellison سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ کون ہیں، گورے ہیں یا کالے ہیں، امریکی ہیں یا افریقی ہیں۔ یا یہ کہ آپ کہاں سے آئے ہیں خصوصاً جب آپ بغیر سلے ہوئے کپڑے کے دو ٹکڑوں پر مشتمل احرام میں ملبوس ہو کر خدا کے لیے کعبہ کا طواف کرتے ہیں‘‘۔

Ellison کا کہنا ہے کہ وہ سعودی عرب میں عام حاجی کے طور پر مناسکِ حج ادا کرنا چاہتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ کوئی جانے کہ وہ امریکی کانگریس کے رُکن ہیں لیکن ان کی خواہش کے علی الرّغم لوگوں نے انہیں پہچان لیا اس لیے کہ ۲۰۰۶ء میں ان کا کانگریس میں انتخاب ایک بڑی خبر تھی جس کے بعد ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ان کی تصویریں نمایاں ہوئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس عبادت کے موقع کو کسی سیاسی موقع میں تبدیل کروں لیکن عوام تو عوام ہیں۔ ان کے ذہن میں جو باتیں تھیں وہ اس حوالے سے گفتگو کرنا چاہتے تھے‘‘۔

(بشکریہ: سعودی مجلہ ’’حج و عمرہ‘‘- مارچ ۲۰۰۹)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*