
کسی بھی قتلِ عام کو اُس وقت قتلِ عام قرار نہیں دیا جاتا جب قتل ہونے والے اقلیت میں ہوں، کمزور ہوں اور کوئی بھی نہ تو انہیں چاہتا ہو، نہ ان کی نگہبانی کا فریضہ انجام دینے کو تیار ہو۔ فی زمانہ اس کی واضح ترین مثال برما کے روہنگیا مسلمان ہیں۔ کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ کوئی ان کی داد رسی کو تیار نہیں۔ کسی کو پروا نہیں کہ وہ کس حال میں زندہ ہیں۔ کسی کو یہ احساس نہیں کہ برمی روہنگیا مسلمان بھی انسان ہیں اور ان کے دکھ بھی پوری انسانیت کے دکھ ہیں۔
حال ہی میں سات ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان ایک چھوٹے جہاز پر سوار ہوکر برما سے فرار ہوئے، تب ان کی کہانی کسی حد تک دنیا کے سامنے آئی۔ سمندر میں بے یار و مددگار بھٹکنے والے روہنگیا مسلمانوں پر عالمی میڈیا نے تھوڑی سی توجہ دی تو علاقائی حکومتوں کی غیرت بھی تھوڑی بہت جاگی۔ شدید گرمی میں ہزاروں روہنگیا مسلمان جب چھوٹے سے جہاز میں بحیرۂ انڈمان میں سرگرداں تھے، تب اُن کے پاس خوراک کا ذخیرہ بھی ختم ہوچلا اور پینے کا پانی بھی خطرناک حد تک کمیاب ہوگیا۔ ڈھائی ہزار خوش نصیب روہنگیا مسلمان اس وقت انڈونیشیا کے کیمپ میں مقیم ہیں۔
میانمار (برما) اور تھائی لینڈ میں روہنگیا مسلمانوں کی اجتماعی قبریں دریافت کی جارہی ہیں۔ ہزاروں روہنگیا مسلمان اپنی سرزمین یعنی میانمار سے بھاگنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی زندگی شدید خطرے میں ہے اور عالمی برادری اب تک تماشا دیکھ رہی ہے۔ میانمار میں کم و بیش آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمان ہیں۔
اہل تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ اور نوبل انعام یافتہ دیگر عالمی شخصیات نے میانمار کی حکومت اور جمہوریت کی چمپئن آنگ سانگ سُوچی پر زور دیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم روکیں مگر اس اپیل کا کوئی خاص اثر اب تک دکھائی نہیں دیا۔
روہنگیا مسلمان کم و بیش پچاس سال سے شدید مظالم اور اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں مگر اب تک دنیا نے ان کے مصائب پر خاص توجہ نہیں دی۔ برمی حکومت کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا مسلمان دراصل انیسویں صدی کے اوائل میں بنگال سے لائے گئے تھے۔ تب برطانوی راج تھا اور انگریزوں نے انہیں مزدوروں کی حیثیت سے برمی سرزمین پر آباد کیا تھا۔ انگریزوں نے ایسا ہی ایک مسئلہ سری لنکا کی سرزمین پر بھی کھڑا کیا جب چائے کے باغات میں کام کرنے کے لیے موجودہ بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے تامل نسل کے لوگوں کو شمالی سری لنکا میں آباد کیا۔
میانمار کے اراکانی ساحل پر بنگالی صدیوں سے آباد ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو باقی بنگالیوں سے الگ کرنے والی دو باتیں ہیں۔ ایک تو ان کی جلد کی رنگت کا سیاہ ہونا اور دوسرے ان کا مسلمان ہونا۔ میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو کچرے کے ڈھیر سے زیادہ وقعت نہیں دیتی اور ان سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ برمی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو نسلی تطہیر، قتل عام اور نسلی منافرت سے کم کچھ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سربیا میں البانوی و بوسنیائی نسل کے مسلمانوں اور بوسنیا اور کوسوو میں کیتھولک عیسائیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔
میں نے ایشیا میں نسل پرستی کو ابھرتے ہوئے دیکھا ہے، بالخصوص سری لنکا اور میانمار کے بدھسٹوں میں۔ اس کا پہلا مظہر سری لنکا میں تاملوں کے خلاف پھوٹنے والے فسادات تھے۔ تب بدھ راہبوں نے بھی تاملوں کے خلاف اٹھنے والی لہر میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
مگر ذرا ایک منٹ ٹھہریے۔ میں نے ہمیشہ بدھ ازم کو ایک شائستہ اور تمام اہم سماجی اقدار کے حامل مذہب یا مسلک کے روپ میں دیکھا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ بدھسٹ عام طور پر بہت نرم خُو اور انسان دوست ہوتے ہیں۔ میری پہلی کتاب ’’دی وار ایٹ دی ٹاپ آف دی ورلڈ‘‘ دلائی لامہ سے گفتگو سے ملنے والی تحریک کا نتیجہ تھی۔ میں جب بھی ایشیا میں ہوتا ہوں تو بدھسٹ مندروں میں مراقبہ کرنا پسند کرتا ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ سری لنکا اور میانمار میں چیخنے چلانے اور نفرت کو ہوا دینے والے بدھ راہب کہاں سے آئے؟ سیدھی سی بات ہے کہ یہ سب کچھ راتوں رات یا اچانک تو نہیں ہوسکتا۔ ہمیں اندازہ ہونا چاہیے کہ بدھسٹوں میں جو نفرت دکھائی دے رہی ہے، وہ ایک زمانے تک پنپتی رہی ہوگی۔ سری لنکا کی خانہ جنگی میں سنہالی اکثریت نے تامل اقلیت کو دبوچنے کی کوشش کی اور اس کیفیت کو جنم دینے میں بدھ راہبوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اگر ذہن پر زور دیجیے تو آپ کو ویتنام کے وہ بدھ راہب بھی یاد آجائیں گے جو خودسوزی کرلیا کرتے تھے۔
میانمار میں بھی یہی ہوا ہے۔ ۱۹۴۵ء سے اس خطے میں طرح طرح کی نفرتیں پنپتی رہی ہیں۔ علاقائیت اور نسل پرستی نے لوگوں کو کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ میانمار کی سرزمین پر آباد روہنگیا مسلمانوں کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ میں مست تھے اور پرسکون زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنا پسند کرتے تھے۔ پھر ان کے خلاف نفرت کی آگ کیوں بھڑکی یا کس نے بھڑکائی؟ برما میں فوج نے جیسے ہی اقتدار سے دست بردار ہونا قبول کیا، مسلمانوں کے خلاف نفرت نے سر اٹھالیا۔
انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ انسان دوستی اور جمہوریت نوازی کا راگ الاپنے والی میانمار کی لیڈر آنگ سانگ سُوچی نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ مغرب نے ان پر بہت زور دیا ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ اور کچھ کرنا تو خیر دور کی بات ہے، وہ اس موضوع پر ایک لفظ بھی بولنے کو تیار نہیں۔ میانمار میں عام انتخابات نومبر میں ہونے والے ہیں۔ آنگ سانگ سُوچی روہنگیا مسلمانوں کے حق میں کچھ کہہ کر بدھسٹ ووٹرز کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تطہیر کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
میں نے برسوں پہلے آنگ سانگ سُوچی کے سامنے کھڑے ہوکر، جب وہ فوجی حکومت کی اسیر تھیں، ان کی مشکلات کی تفصیل سنی تھی اور جمہوریت کے حوالے سے ان کی جدوجہد کو بھی جانا تھا۔ اب میں یہ سوچتا ہوں کہ دوسرے بہت سے سیاست دانوں کی طرح سُوچی کے الفاظ کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ ہوسکتا ہے کہ نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی آنگ سانگ سُوچی کو دیا جانے والا امن کا نوبل انعام واپس لینے کے بارے میں سوچے، جیسا کہ وہ براک اوباما کو دیے جانے والے امن کے نوبل انعام کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
میانمار کہتا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو نہیں رکھنا چاہتا۔ انڈونیشیا کہتا ہے کہ چند ہزار کو عارضی طور پر رکھا جاسکتا ہے۔ آسٹریلیا کو روہنگیا مسلمانوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت اپنے لوگوں کا پورا نہیں کرسکتی تو روہنگیا کے مسلمانوں کا کہاں سے پورا کرے گی؟ ایسے میں روہنگیا مسلمان بے وطن لوگ ہیں جو دکھوں کے سمندر میں تیر رہے ہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اس معاملے میں کیا کر رہے ہیں۔ اسلام کی حفاظت کا دعویٰ کرنے والا سعودی عرب کیا کہتا ہے؟ سعودی حکومت امریکا سے ۱۰۹؍ارب ڈالر کا اسلحہ اور جنگی سامان خرید رہی ہے جبکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ اس جنگی ساز و سامان کو استعمال بھی نہیں کرسکتی۔ روہنگیا کے بے یار و مددگار مسلمانوں کے لیے سعودی عرب کے پاس کچھ نہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب دوسرے مسلمان تکلیف میں ہوں تو ان کا بھرپور ساتھ دیا جائے۔ یہی جہاد کے فلسفے کا نچوڑ بھی ہے۔
اس وقت سعودیوں کو ایران کے خلاف منصوبے تیار کرنے سے فرصت نہیں۔ ایسے میں وہ روہنگیا مسلمانوں پر کیوں توجہ دیں گے؟ انہیں عراق اور شام میں باغیوں کی بھرپور معاونت بھی کرنی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سعودی شہزادے اسپین اور فرانس میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کی تیاری بھی تو کر رہے ہیں۔ اتنی ساری مصروفیات میں وہ روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے کیا سوچیں؟ روہنگیا مسلمانوں کی اخلاقی مدد کرنے والوں کی کمی نہیں مگر اس وقت انہیں عملی مدد درکار ہے۔ وہ کوئی علاقہ چاہتے ہیں جہاں سکون سے رہ سکیں۔ انہیں خوراک اور بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ روزگار بھی درکار ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بوسنیا اور کوسوو کی طرح روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں بھی امریکا ہی کو مرکزی کردار ادا کرنا پڑے گا۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ امریکا عالمی پولیس مین کا کردار ادا کرے۔ اچھا ہے کہ وہ نجات دہندہ بن کر ابھرے۔ اس میں وہ کم از کم کسی کا بھلا تو کرے گا۔ میانمار کی حکومت کو انتباہ کرنے کا وقت آگیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام سے باز آجائے یا پھر غیر معمولی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔
“The Rohingya – Adrift on a sea of sorrows”. (“ericmargolis.com”. May 30, 2015)
Leave a Reply