
تعارف
ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان میانمار (برما) سے ہجرت کررہے ہیں۔ کئی مہاجرین سمندر کے ذریعے تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انخلا کرنے والوں کی تعداد میں یہ اچانک اضافہ دراصل میانمار حکومت کی اراکان میں ستر کی دہائی کے اواخر سے اپنائی گئی دیرینہ امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ تارکینِ وطن کا المیہ یہ ہے کہ انہیں میانمار کے پڑوسی ممالک پناہ دینے میں قدرے تذبذب کا شکارہیں۔ اس کی وجہ ان ممالک میں مہاجرین کو نہ سنبھال پانے کا ڈر ہے۔
روہنگیا کون ہیں؟
روہنگیا، میانمار کی مغربی ریاست راکھین (اراکان) میں رہائش پذیر ایک مقامی نسلی مسلمان اقلیت ہے۔ یہ لوگ سنی مسلمان ہیں اور تصوف سے متاثر۔ اندازاً دس لاکھ روہنگیا اراکان کی آبادی کاایک تہائی بنتے ہیں۔ روہنگیا مسلمان، میانمار کے اکثریتی بدھ مت کے پیروکاروں سے مذہبی، نسلی اور لسانی لحاظ سے مختلف ہیں۔
روہنگیا مسلمان دراصل پندرہویں صدی کی اراکانی مسلمان ریاست میں آنے والے ہزاروں مسلمانوں کی اولادیں ہیں۔ برطانوی نوآبادیاتی قبضے کے دوران (انیسویں اور بیسویں صدی میں) کئی مسلمان اراکان آئے، یہ وہ وقت تھا جب اراکان اور بنگال پر برطانوی قبضہ قائم تھا۔ ۱۹۴۸ء میں برما کو آزادی ملی، جبکہ ۱۹۸۹ء میں برما کا نام میانمار میں تبدیل ہوا۔ اس دوران تمام ہی حکومتوں نے روہنگیا کو ملک میں موجود ۱۳۵ نسلی گروہوں میں سے ایک کے طور پر شناخت کرنے سے انکار کردیا۔ روہنگیا کو حکومت بنگال سے آئے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن کے طورپر دیکھتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اراکان میں صدیوں سے آباد ہیں۔
میانمار کی حکومت اور اکثریتی بدھسٹ آبادی دونوں ہی روہنگیا کی اصلاح کو مسترد کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس اصلاح نے ۱۹۵۰ء کی دہائی میں مسلمان گروپ کو ایک سیاسی اوراجتماعی شناخت عطاکی۔ گوکہ لفظ روہنگیا کی اصل کے بارے میں کچھ اختلافات ہیں مگر اس خیال کو قبولِ عام حاصل ہے کہ ’روہنگ‘ اراکان کے لیے ’روہنگیا‘ میں رائج تلفظ ہے۔ ’گیا‘ یا ’گا‘ کے معنی ہیں ’سے‘ (یعنی روہنگیا: اراکان سے)۔ اراکان پروجیکٹ (تھائی ایڈووکیسی گروپ کے ڈائریکٹر کرس لیوا) کے مطابق ’روہنگیا‘ لفظ اس مسلمان نسلی گروہ کی سابقہ اراکانی سلطنت کی سرزمین سے تعلق کا ثبوت ہے۔
روہنگیا کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکاری ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر روہنگیا کے پاس کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہیں، یعنی عملاً بے وطن ہیں۔ ۱۹۴۸ء کا شہری قانون تو امتیازی تھا ہی مگر ۱۹۸۲ء میں فوجی حکومت کے متعارف کردہ شہری قانون کی سخت ترین شقوں نے روہنگیا کی آبادی کے لیے مکمل شہریت کا حصول ناممکن بنادیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک روہنگیا کو عارضی مکینوں کی حیثیت سے رجسٹرڈ کیا جاتا تھا۔ ۹۰ کی دہائی میں مسلمانوں (روہنگیا اور غیر روہنگیا دونوں ہی کے لیے) White Card کا اجرا کیا گیا۔ ان کارڈز کے ذریعے کچھ حقوق تو تھے البتہ یہ مملکت کا شہری ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ کرس لیوا کا کہنا ہے کہ اگرچہ کارڈز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی مگر وہ پھر بھی روہنگیا کے لیے میانمار میں عارضی رہائش کی نشاندہی کرتا تھا۔
۲۰۱۴ء میں حکومت نے اقوام متحدہ کی مدد سے ایک ریفرنڈم کروایا۔ تیس سال میں یہ اپنی قسم کا پہلا ریفرنڈم تھا۔ بدھ شکھوں کی جانب سے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی کے باعث حکومت نے روہنگیا مسلمانوں پر یہ پابندی عائد کردی کہ وہ ریفرنڈم میں حصہ صرف اپنے آپ کو بنگالی رجسٹر کروا کر لے سکتے ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں کے ۲۰۰۵ء کے آئینی ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کے حق کے خلاف بدھ شکھوں کے شدید احتجاج اور دباؤ پر حکومت نے White Card کو معطل کرکے روہنگیا کے (چند عرصہ قبل ہی حاصل ہونے والے) حق یعنی ووٹ پر عملاً پابندی لگا دی۔ حالانکہ ۲۰۰۸ء کے آئینی ریفرنڈم اور ۲۰۱۰ء کے عام انتخابات میں روہنگیا ووٹ ڈال سکتے تھے۔ ۲۰۱۵ء کے انتخابات کو منصفانہ اور شفاف باور کرایا جاتا ہے۔ ان انتخابات میں کوئی مسلمان امیدوار نہیں تھا۔ انٹرنیشنل کرائس گروپ کے مطابق ملک بھر میں پھیلے مسلم مخالف جذبات کی وجہ سے مرکزی حکومت بھی مسلمانوں کے حق میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتی جو کہ اُس کے لیے سیاسی دشواری کا باعث ہو۔
کرس لیوا کہتے ہیں کہ تمام تر تشدد، مسلم مخالف مہم اور ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے باوجود مسلم اقلیت اپنی روہنگیا شناخت کے زیر سایہ متحد ہے۔
روہنگیا میانمار کیوں چھوڑ رہے ہیں؟
شادی پر پابندی، خاندانی منصوبہ بندی، روزگار، تعلیم، مذہبی آزادی اور گھومنے پھرنے کی آزادی جیسے معاملات پر حکومتی پالیسیاں روہنگیا کے خلاف ایک منظم امتیازی سلوک کی نشانیاں ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (NEAN) میں انسانی حقوق کے ارکانِ پارلیمان نے اپریل ۲۰۱۵ء میں لکھا: ویتنام کی امریکی جنگ کے بعد خطے میں سب سے بڑے انخلا کا سبب روہنگیا پر ظلم و ستم ہے۔
راکھین (اراکان) میانمار کی سب سے کم ترقی یافتہ ریاست ہے۔ عالمی بینک کے تخمینے کے مطابق ۷۸ فیصد سے زیادہ خاندان غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر افلاس، کمزور بنیادی انفرااسٹرکچر اور روزگار کے مواقع کی کمی نے مسلمانوں اور بدھوں میں دراڑ گہری کی ہے۔ مذہبی اختلافات کی وجہ سے بعض اوقات کشیدگی میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔
۲۰۱۲ء میں روہنگیا مردوں کے ایک گروہ کے اوپرایک بدھ عورت کی عصمت دری اور قتل کے الزامات کے بعد فسادات پھوٹ پڑے، بدھ قوم پرستوں نے اس دوران کئی گھر جلائے ۲۸۰ لوگوں کو قتل کیا، جس کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا اپنا گھر چھوڑ گئے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق روہنگیا کش فسادات دراصل انسانیت کے خلاف جرم اور نسل کشی کی مہم ہے۔ ۲۰۱۲ء سے خطے کی بے گھر آبادی نہایت خراب قسم کے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ علاقائی حقوق کی تنظیم Forkly Rights کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ مسلمان (اکثر روہنگیا) چالیس سے زیادہ حراستی مراکز میں قید ہیں۔
ظلم و ستم سے بچنے کے لیے میانمار سے اسمگلروں کی مدد سے نکل رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کیٹ اسکیوئز کا کہنا ہے کہ میانمار میں حالات کی خرابی کا اندازہ اس سے لگانا چاہیے کہ روہنگیا رکنے کے اوپر خطرناک سمندری سفر کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت (IOM) کے مطابق جنوری ۲۰۱۴ء اور مئی ۲۰۱۵ء کے درمیان ۸۸ ہزار مہاجرین نے افلاس اور ظلم سے بچنے کے لیے سمندر یعنی خلیجِ بنگال کا رُخ کیا۔
اکتوبر ۲۰۱۶ء میں بنگلادیش میانمار سرحد پر فوجی چوکیوں پر حملوں کے بعد راکھین میں تشدد پھوٹ پڑا۔ مقامی حکومت اورانتظامیہ نے روہنگیا عسکریت پسندوں پر ان حملوں کا الزام لگایا، اس کے بعد فوج اور پولیس نے ذمہ داروں کو پکڑنے اور سیکورٹی سخت کرنے کا کہہ کر تلاشی مہم شروع کردی۔ اس مہم میں درجنوں مارے گئے اور ۳۰ ہزار سے زیادہ بے گھر ہوئے۔ میتھیو اسمتھ جو جنوب مشرقی ایشیائی ایڈووکیسی گروپ کے CEO ہیں، کہتے ہیں ’’انتظامیہ کے پاس علاقے میں روہنگیا کے خلاف کارروائی کی تاریخی نظیر موجود ہے اور ہم فکرمند ہیں کہ یہ کارروائیاں پھیل رہی ہیں‘‘۔
ہیومن رائٹس واچ نے اکتوبر اور نومبر میں تباہ ہونے والے سیکڑوں روہنگیا گھروں کی سٹیلائٹ تصاویر جاری کی ہیں، ۲۰۱۲ء کے بعد تشدد کے واقعات کا یہ سب سے ہولناک سلسلہ ہے۔ نومبر کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ سرکاری ناکہ بندی کی وجہ سے عالمی امدادی ایجنسیاں ضروری غذائی اجناس اور طبی مدد نہیں پہنچا پارہی تھی۔ اس ہی مہینے نومبر ۲۰۱۵ء میں جون مک کسک سربراہ برائے یو این ایجنسی برائے مہاجرین نے کہا تھا کہ میانمار کی حکومت روہنگیا کی نسل کشی کررہی ہے۔ ملائیشیا کے وزیر خارجہ نے بھی میانمار کی حکومت کے اقدامات کو نسل کشی کہا اور ایسے اقدامات سے باز آجانے کو بھی کہا۔ اس کے علاوہ تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور بنگلادیش میں مظاہرین نے روہنگیا پر ظلم و ستم اور ان کے قتل عام کی مذمت کی۔ دریں اثنا میانمار کی حکومت نے اپنی توجہ ملک میں امن و استحکام برقرار رکھنے کی کوششوں کو نمایاں کرنے پر مرکوز کی ہوئی ہے۔
روہنگیا کہاں ہجرت کررہے ہیں؟
بنگلادیش
کئی روہنگیا نے پڑوسی ملک بنگلادیش جانے کو ترجیح دی ہے۔ یو این ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے اندازے کے مطابق بنگلادیش میں اس وقت ۳۲ ہزار سے زائد رجسٹرڈ اور دو لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ مہاجرین موجود ہیں۔ تاہم اکثر مہاجر کیمپوں کے حالات نہایت تشویشناک ہیں، جس کی وجہ سے روہنگیا خلیج بنگال میں پُرخطر سفر مول لیتے ہیں۔
ملائیشیا
اقوام متحدہ کے مطابق جون ۲۰۱۶ء تک ملائیشیا میں آباد ڈیڑھ لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین میں سے ۹۰ فیصد کا تعلق میانمار سے تھا، ان میں سے بھی اکثر روہنگیا ہی ہیں۔ ملائیشیا تک صحیح سلامت پہنچنے والے روہنگیا کا کوئی قانونی اسٹیٹس نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کے اہل خانہ تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ علاقے میں جاری اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ کی سرگرمیوں کا گڑھ ہے۔ روہنگیا کے لیے یہ ٹرانزَٹ پوائنٹ کا بھی کام دیتا ہے، پناہ گزین یہاں کشتی کے ذریعہ بنگلادیش یا میانمار سے آتے ہیں اور پھر زمینی راستے سے ملائیشیا یا سمندری راستے سے انڈونیشیا یا ملائیشیا ہی چلے جاتے ہیں۔ ۲۰۱۳ء کی ایک رائٹرز رپورٹ کے مطابق کچھ تھائی حکام اسمگلروں سے سازباز کرکے گرفتار روہنگیا کے استحصال میں ملوث ہیں۔
۲۰۱۶ء میں امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی اسمگلنگ کے اوپر رپورٹ میں درجہ بندی کے دوران تھائی لینڈ کو تیسرے درجہ سے بڑھا کر دوسرے درجہ میں رکھا گیا ہے اور اسے مردوں، عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ کے حوالے سے ایک منزل، منبع اور راہداری فراہم کرنے والا ملک سمجھا گیا ہے۔ ۲۰۱۶ء کی رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا دوسرے درجہ، ملائیشیا دوسرے درجہ کے لیے واچ لسٹ جبکہ میانمار بہتری کے بعد تیسرے درجہ پر ہے۔ ۲۰۱۰ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے فوجی حکومت نے (مبینہ حراستی مراکز میں اجتماعی قبروں کی دریافت کے بعد) اسمگلروں اور اسمگلنگ کے خلاف کارروائی ترجیحی بنیادوں پر کی ہے۔ مگر کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ تادیبی اقدامات نے سمندر میں لاوارث جہازوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ انسانی المیہ مزید خراب ہوسکتا ہے۔
انڈونیشیا
انڈونیشیا میں بھی روہنگیا کی بڑی تعداد ہے، جو اگرچہ دوسرے ممالک سے نسبتاً کم ہے۔ بہار ۲۰۱۵ء میں روہنگیا مہاجرین کے بڑھتے ہوئے انخلا پر انڈونیشیا کے فوجی سربراہ کا کہنا تھا کہ امیگریشن پابندیوں کو نرم کرنے سے انڈونیشیا میں مہاجرین کی آمد بہت بڑھ جائے گی۔ عالمی دباؤ کے باوجود انڈونیشیا نے صرف ایک ہزار روہنگیا کو پناہ دی اور ان کو ہنگامی امداد اور تحفظ فراہم کیا۔
مئی ۲۰۱۵ء میں جب نقل مکانی کا عروج چل رہا تھا، اس وقت بین الاقوامی دباؤ کافی بڑھ گیا، جس کی وجہ سے انڈونیشیا اور ملائیشیا نے ہزاروں مہاجرین کو عارضی پناہ گاہ فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ تھائی لینڈ نے مہاجرین کو اپنے ملک سے باہر نہ نکالنے کی منظوری دی۔ جبکہ ملائیشیا نے سمندر میں مہاجرین سے بھری لاوارث کشتیوں کی تلاش اور بچاؤ مہم شروع کی۔ میانمار کی بحریہ نے بھی مہینے کے آخر میں ابتدائی بچاؤ مہم شروع کی۔ جوٹوری جو IOM ایشیا کے ترجمان ہیں نے اس علاقائی ردعمل کو ’سمندری پنگ پانگ کا کھیل‘ کہا۔
مہاجرین کے بحران کو حل کرنے کے لیے کیا کیا جارہا ہے؟
میانمار کی پہلی سویلین حکومت جس کی قیادت آنگ سانگ سوچی کی نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی (NLD) کررہی ہے، NLD کو نومبر ۲۰۱۵ء کے انتخابات میں شاندار فتح ملی تھی۔ کابینہ کے اراکین میں مختلف سیاسی اور نسلی گروہوں کی نمائندگی موجود ہے، مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ NLD بدھ قوم پرستوں کی حمایت کھو بیٹھنے کے ڈر سے روہنگیا اور دوسرے برمی مسلمانوں کی وکالت کرنے سے گریزاں ہے۔ بہرحال آنگ سانگ سوچی نے امن اور مصالحت کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے، انہوں نے اگست ۲۰۱۶ء میں نورکنی کمیشن بنایا جس کی سربراہی کوفی عنان (سابق سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ) کر رہے ہیں۔ کمیشن کا مقصد راکھین (اراکان) میں نسلی جھگڑے کا حل تبادلہ خیال کے ذریعہ نکالنا ہے۔ مشوراتی کمیٹی کی حتمی رپورٹ اگست ۲۰۱۷ء کے آخر تک متوقع ہے۔ رپورٹ کا کام ایسی سفارشات مرتب کرنا ہے، جس سے اس افلاس زدہ ریاست میں نسلی کشیدگی میں کمی اور ترقیاتی کاموں کی مدد ہوسکے۔ کوفی عنان ستمبر ۲۰۱۶ء میں مستوے (راکھین کے دارالحکومت) آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کی تعمیر کے لیے دونوں برادریوں کو بداعتمادی کی دہائیوں سے نکلنا ہوگا اور انصاف، عدل اور برابری جیسی مشترکہ اقدار کو اپنانا ہوگا۔
اس سب کے باوجود راکھین (اراکان) میں تشدد کی لہر بڑھ رہی ہے۔ CFR کی جہوثہاکرلانتزک بدامنی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’بڑے پیمانے پر انتخابی کامیابی کے باوجود آنگ سانگ سوچی کی حکومت کے لیے یہ بدامنی خطرہ ہے‘‘۔ دوسرے تجزیہ کاروں کو شک ہے کہ جمہوری انتخاب سے آنے والی سویلین حکومت روہنگیا کے لیے کچھ کرسکے گی۔ بالخصوص آنگ سانگ سوچی اوران کی حکومت کی اس اقلیتی گروہ کے ساتھ ہونے والے برتاؤ پر خاموشی۔
دسمبر ۲۰۱۶ء میں میانمار کی رہنما نے ’’عالمی کھلاڑیوں‘‘ پر نفرت کی آگ بھڑکانے کاالزام عائد کیا ہے۔ دوسرے مبصرین کے مطابق نیا کمیشن مسئلے کو سلجھانے کے لیے امید کی نایاب کرن ہے۔
علاقائی طورپر آسیان (ASEAN) کی جانب سے اس بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی مشترکہ یا متفقہ کوشش نظر نہیں آتی۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ریاستوں کے پاس مہاجرین کے حقوق کے لیے کوئی قانونی فریم ورک موجود نہیں ہے۔
انڈونیشیا، ملائیشیا، میانمار اور تھائی لینڈ تمام ہی آسیان ممالک کو ابھی بھی یو این ریفیوجی کنونشن اور اس کے پروٹوکول کی توثیق کرنا ہے۔ روہنگیا بحران اور نتیجتاً رکن ممالک میں روہنگیاپناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر آسیان اس لیے خاموش رہا کیونکہ تنظیم کی یہ اصولی پالیسی ہے کہ وہ اپنے اراکین کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ مگر اس پالیسی نے علاقائی تنظیم کے اندر تمام ہی آوازیں خاموش نہیں کی ہیں۔ آسیان انسانی حقوق کے ارکان پارلیمنٹ کی تنظیم (موجودہ اور سابق قانون سازوں کاایک نیٹ ورک جوانسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے کام کرتاہے) کے چیئرپرسن اور ملائیشیا کی پارلیمنٹ کے رکن چارلس سینٹیاگو نے نومبر ۲۰۱۶ء میں لکھا ’راکھین (اراکان) میں بڑھتے ہوئے تشدد پر خاموش رہنا جرم میں شرکت کے برابر ہے‘۔ جبکہ لندن میں قائم اوورسیز ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے لی یین فین کا کہنا ہے ’’گوکہ آسیان رکن ممالک بحران کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ان میں سیاسی عزم کی شدید کمی ہے۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ، اراکان پروجیکٹ اور فورٹیفائے رائٹس جیسے ایڈوکیسی گروپ، عالمی کھلاڑیوں سے میانمار کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی اپیل کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ جیسے کہ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے نکولس کرسٹاف کا ماننا ہے کہ ’’جب تک روہنگیا پر ظلم ختم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک امریکا کو میانمار کے ساتھ معمول کے تعلقات نہیں رکھنے چاہییں اور یہ بھی کہ امریکی امداد اور سرمایہ کاری اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت پر ہونے والی پیشرفت سے مشروط ہونی چاہیے‘‘۔ دیگر افراد جیسے کہ میانمار میں امریکی مشن کی سابق سربراہ اور یوایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی سینئر مشیر پرسکیلا کلیپ کا کہنا ہے کہ میانمار پر پورا الزام رکھ دینا دراصل ملک کی پیچیدہ اور تاریخی نسلی تنوع کو صحیح طریقے سے سمجھنا نہ ہوگا۔ کلیپ لکھتی ہیں کہ میانمار پر اس انسانی بحران کا الزام لگا دینا عالمی برادری کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہ وقت ہے ایک حقیقت پسندانہ اور قابل عمل حل کی طرف بڑھنے کا۔
ابھی تک امریکا اور دوسری عالمی طاقتوں نے اقلیتی گروہوں کو ظلم و ستم سے بچانے کے لیے میانمار کی حکومت سے مزید کام کرنے کو کہا ہے۔ پھر بھی ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی اس مسلمان اقلیت کے لیے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے تاکہ یہ مزید کسی سماجی اورمذہبی استحکام کے نقطۂ اشتعال کا باعث نہ بنے۔ جیسے کہ کلیپ نے مارچ ۲۰۱۶ء کی CFR رپورٹ میں لکھا بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ راکھین ریاست میں اقتصادی ترقی اور ثالثی کے لیے واشنگٹن کو مدد کرنی چاہیے۔ ’’امریکا کو روہنگیا کے بحران کو حل کرنے میں دنیا کی قیادت کرنی چاہیے۔ میانمار کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں بھی!‘‘
“The Rohingya Migrant Crisis”.
(“cfr.org”. January 12, 2017)
ماشاء اللہ اچھی كوشش ہے روہنگیا مسلمانوں كے مسائل كے بارے میں لوگوں كو بالكل علم نہیں ہے اس لیے اس مسئلے كی حقیقت كو مزید اجاگر كرنے كی ضرورت ہے
یہاں مسئلے كو بڑی تفصیل سے بیان كیا گیا ہے لیكن غیر مربوط ہے اس كو ایک مضمون كی صورت میں بیان كرنے كی ضرورت ہے نیز اختصار كے ساتھ اس كو الگ سے بھی بیان كیا جا سكتا ہے جس سے اس ظلم اور بربریت كی وجہ معلوم ہو سكے جس كی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی
اور كیا پاكستان كےقیام كے وقت ان مسلمانوں نے كوئی ایسا مؤقف اپنایا تھا كہ انگریز كے جانے كے بعد انہیں پاكستان كی طرح الگ اسلامی ملک بنا دیا جائے
اس مسئلے میں بنگلہ دیش كا سركاری مؤقف كیا ہے بنگلہ دیشی حكومت اس كو حل كرنے میں كوئی تعاون كرے گی یا الٹا اس کو خراب كرے گے
باہر سے رہ كر پاكستان سعودی عرب اور تركی جیسے بڑے ممالک اس مسئلے كو كس طرح حل كروا سكتے ہیں
ان سوالات كے جوابات كی قارئین كو اشد ضرورت ہے