
زیرِ نظر مضمون تقریباً ۱۵؍برس قبل لکھا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں جدت اور سہولت کے باعث دنیا میں میڈیا کا کردار بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یہ مضمون آج کے دور سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔
۲۰ ویں صدی ایجادات، تخلیقات، تنوع اور تسخیر ارض و سما کی سَمت بڑی پیش رفت کی صدی ہے۔ یوں تو آج کی غالب تہذیب اس صدی کی پیداوار نہیں، کوئی چار پانچ صدیوں نے اس کی پرورش کی ہے لیکن انسانی تہذیب نے جو دولت، قوت اور وسائل حاصل کیے تھے، وہ تنہا اس صدی کے حاصلات کے آگے ماند پڑ جاتے ہیں۔ کسی انسانی تہذیب نے وہ آلات، وہ علم، وہ قدرت اور وہ ہتھیار نہیں بنائے جو آج کی انسانی تہذیب کی دسترس میںہیں۔ برقی قوت سے لے کر خلائی جہازوں تک، زمین کی تہیں چیرنے سے سمندر میں غوطہ زنی تک اور ایٹم بم سے کمپیوٹر تک انسانوں کے ہاتھ جو کچھ آج ہے کبھی نہیں تھا۔ اسی لیے جہاں آج کا دور تیز تر تبدیلیوں کا دور ہے وہاں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تہذیبی جبر ابھی تک ناشکستہ ہے۔ یعنی قومیں اور قوتیں ابھرتی اور ڈوبتی جارہی ہیں لیکن باطل سیکولر تہذیب جوں کی توں ہے، تاج برطانیہ کا زوال ہوا، امریکی استعمار اپنے خول سے باہر آیا، جرمنی اور جاپان منہ کے بَل گرے، سوویت یونین تشکیل پایا اور پارہ پارہ بھی ہو گیا لیکن سیکولر تہذیب اپنی تمام تر قہر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ انسان ابھی تک اسی کا اسیر ہے اور انسانی نصب العین اسی تہذیب میں اپنے لیے بلند تر اور وقیع تر منصب کا حصول ہے۔ انقلابات عالم کے باوجود تہذیب حاضر و موجود کا استقرار نتیجہ ہے اس بات کا کہ کائناتی وسائل میں سے جو گراں بہا حصہ اسے ملا ہے، وہ ماضی کی تمام تہذیبوں سے بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے ابھی تک سیکولرازم ناشکستہ ہے۔
آج کی انسانی تہذیب کے ہاتھوں میں جدید میزائل، ٹینک اور طیارے، ایٹم اور ہائیڈروجن بم ہیں جو اگر پوری طرح استعمال ہو جائیں توزمین پر کوئی زندہ نہیں بچے گا۔ پھر کہاں کی تہذیب اور کیسا تمدن؟ تباہی کی یہ صلاحیت بھی پہلی بار اسی صدی میں انسانوں کے ہاتھوں آئی ہے۔ اس نے چھوٹے پیمانے پر اس تباہی کا مزہ بھی چکھ لیا ہے۔ جب ہیروشیما اورناگاساکی پر دو ایٹم بم گرائے گئے۔ کہتے ہیںکہ اس تباہی نے دوسری عالمگیر جنگ کو مزید تباہ کن ہونے سے روک دیا اور جنگ کا خاتمہ کر دیا لیکن اس کے بعد تقریباً چوالیس سال تک دنیا میں ایک نئی طرح کی عالمگیر جنگ جاری رہی۔ عرف عام میں اسے سرد جنگ کہا گیا اور سرد جنگ دراصل تیسری عالمی جنگ تھی جس میں کوئی ایٹم بم گرا اور نہ اپنے وقت کی دونوں حریف سپر طاقتوں کی افواج باہم ٹکرائیں، لیکن اس کے باوجود ایٹم بم کی دھونس نے ساری دنیا کو دو کیمپوں میں بانٹ کر ایک نئی طرح کی کشمکش میں مبتلا رکھا۔ یہ جنگ پوری انسانیت کے اعصاب پر سوار تھی۔
قصہ مختصر یہاں اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تیسری عالمگیر جنگ (سرد جنگ) کے خاتمہ کے بعد دنیا عالمی سطح کی معرکہ آرائیوں، کشمکش اور جنگوں کے دور سے نکل آئی ہے؟ ہماری رائے میںایسا نہیں ہے بلکہ اب چوتھی عالمگیر جنگ شروع ہو چکی ہے، جو اقداری اور تہذیبی جنگ کی شکل اختیار کر لے گی اور جس میں آج کی غالب تہذیب اور اس کیمپ کا موـثر ترین ہتھیار نہ ایٹم بم ہوگا اور نہ میزائل، اس کے برعکس ابلاغ عامہ (Mass Media) کا ’’اسلحہ‘‘ مؤثر ترین کردار ادا کرے گا۔
انسان اپنے خیالات دوسروںتک پہنچانے کے لیے اول دن سے الفاظ، علامات اور نقوش کا سہارا لیتا رہا ہے۔ پہلے زبان استعمال ہوتی تھی۔ پھر پتھر، پتے اور چمڑے کا استعمال شروع ہوا۔ قلم اور کاغذ ایجاد ہوئے۔ پرنٹنگ پریس لگے۔ کتب، رسائل، اخبارات اور میگزین نکلے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ریڈیائی لہروں کی دریافت ہوئی۔ ریڈیو ٹرانزسٹر، ٹیلی فون، ٹیلی پرنٹر، ٹیلیکس، فیکس، ٹیلی ویژن اور اب کمپیوٹر اور سٹیلائیٹ چینل… گویا ابلاغ کے طرح طرح کے اور جدید سے جدید تر ذرائع کی ایجادات کا سلسلہ لگا ہوا ہے۔ دنیا کا گوشہ گوشہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ گویا پرانی کہانیوں کا جام جہاں نما ہاتھ آگیا ہے۔ اسی طرح انسان کے جسمانی طور پر آنے جانے والے اور پہنچنے اور اشیا پہنچانے کے تیز تر آلات بنا لیے گئے ہیں۔ مہینوں کا سفر دنوں میں بلکہ گھنٹوں میں طے ہونے لگا ہے۔ اڑن کھٹولا کہانیوں سے نکل کر حقیقی زندگی میں آن پہنچا ہے۔ انہی دو اسباب سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ دنیا ایک مختصر سے گائوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ زمینی گائوں (Global Village) اتنا مربوط اور باہم اتنا اثر انداز ہونے اور اثر لینے والا بن چکا ہے کہ اب کوئی شہر، خطہ، ملک الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ نظریات اور واقعات کسی پہاڑ یا ندی نالے یا سمندر و صحرا کے سامنے ٹھہر اور ٹھٹھر نہیں جاتے بلکہ ہوا کے دوش پر اور لہروں کی سواری پر ساری رکاوٹیں اور سارے فاصلے بے اثر کرتے چلے آتے اور چلے جاتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک اور اہم عنصر عالمی معیشت اور تجارت کا فروغ ہے۔ پہلے بھی ملکوں کے درمیان ایسے روابط تھے اور اس سلسلے میں ایک کا اثر دوسرے پر پڑتا تھا مگر اب تو ملٹی نیشنلزم کا ایسا جن بوتل توڑ کر نکل آیا ہے کہ ماضی قریب کی نیشن اسٹیٹس ہوں یا جغرافیائی اور نظریاتی آہنی دیواریں یہ سب کو پھاندتا ہوا اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر ہوا جاتا ہے۔ اب ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بین الریاستی ادارے خود ریاست سے بلند تر اور موثر تر ہو چکے ہیں۔
آج گلوبل ولیج (ارضی گائوں) میں آسان و سریع آمدورفت، ہمہ گیر و ہمہ وقت اور چشم زدن میں کوندے کی طرح لپکنے والے ذرائع ابلاغ اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے عالمی تجارتی ادارے گویا ایسی مثلث بنا رہے ہیں جو آج کی پوری انسانیت کو اپنی گرفت میں کس لے گی۔ دولت اور پیدائش دولت کے ذرائع مٹھی میں رکھنے والے، ذرائع ابلاغ کی مدد سے انسانی اذہان، قلوب، جذبات اور احساسات، خواہشات، اَقدار، روایات، تعلیم، سماج، شخصیت سازی یہاں تک کہ حکومت و ریاست سازی کو بھی کنٹرول کریں گے۔ کچھ نادیدہ ہاتھ واقعات کی اسٹیئرنگ کو حسب خواہش گھمائیں گے اور خوب و ناخوب کے نت نئے بدلتے پیمانوں کے گرد ساری انسانی دنیا کو گردش دیں گے۔
روز مرہ کی زندگی میں آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح ابلاغی حربوں سے کچھ کا کچھ کر دیا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے لیے جو چیزیں ناگزیر نہیں، انہیں ناگزیر اور مطمحِ زندگی تک بنا دیا جاتا ہے۔ سیاسی نعرہ یا کسی کمپنی کی مصنوعات کا اشتہار، ابلاغی ذرائع سے بچے بچے کی زبان پر آجاتا اور ہر محفل و مجلس کا موضوع بن جاتا ہے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں میڈیا آپ کی زندگی میں دخیل ہے۔ آپ کے بچوں کا استاد ہے۔ خود آپ کا رفیق بلکہ رہنما ہے۔ کیا اور کیسا کھائیں، کیا اور کیسا پہنیں، کہاں اور کتنی جگہ پر رہیں، کیا اور کس کو چاہیں، کیا اور کس کو اپنائیں یا ترک کریں۔ فیصلہ آپ نہیں کرتے، آپ سے کرایا جانے لگا ہے۔ وہ بھی اس طرح نہیں کہ آپ جبر محسوس کریں بلکہ مسمرائز ہو کر آپ خوشی سے عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ پچھلے کسی رمضان المبارک میں پاکستانی الیکٹرانک میڈیا نے اپنی کمپنی کے فلیش جوتوں کی ایسی اشتہار بازی کی کہ مارکیٹ میں ان جوتوں کا حصول دشوار ہو گیا۔ اِدھر مال آتا اور اُدھر نکل جاتا۔ ایک چھوڑ متعدد کمپنیوں نے ایسے جوتے بنانے شروع کر دیے۔ تب بھی سپلائی طلب سے کم ہی رہی۔ یہ جوتے ہر بچے کی چاہت بن گئے۔ مہنگے داموں ملنے والے اس جوتے کا اشتہار دیکھ کر میں سوچا کرتا تھا کہ جو باپ اپنے بچے کو یہ جوتے نہ دلا سکے گا وہ بچے کی ناآسودہ خواہش اور اصرار دیکھ کر ذہنی مریض بنے گا اور وہ بچہ بھی احساس محرومی سے گھائل نفسیات لے کر جوان ہوگا۔ یہ تو ایک مثال ہے، بہت محدود دائرہ کی لیکن اس کے مطابق آپ فہرست بناتے چلے جائیے۔ آپ کو اپنی نسل کا مستقبل صاف نظر آنے لگے گا۔ مستقبل کا معاشرہ مادی کشاکش اور ناآسودہ روحوں کی آویزش سے تڑپتا دکھائی دے گا۔
آئیے! اس بات کو ذرا وسیع تر کینوس میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۱۹۷۹ء میں ایران کے انقلاب نے مغرب کے اہلِ دماغ اور پالیسی سازوں کو ہکا بکا کر دیا تھا۔ وہ مبہوت تھے۔ ان کے سارے جائزے، اندازے اور منصوبے خاک میں مل گئے تھے۔ ان کا مضبوط کھونٹا شہنشاہ ایران یوں اکھڑ چکا تھا جیسے کہ ریت میں کوئی تنکا کھڑا تھا۔ ذرا سی ہوا میں اُڑ کر بکھر گیا۔ مغربی مدیروں، سفارتکاروں، سیاست کاروں اور دانشوروں کو اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ ایران میں انقلابی جذبات اور انقلابی تحریک گھاس میں پانی کی طرح پھیل چکی ہے۔ شاہ کا سارا ٹھاٹ باٹ پڑا رہ گیا۔ اس کی دولت و سطوت، اس کی سپاہ اور اس کے سراغ رساں ادارے سب دھرے رہ گئے۔ مغربی تہذیب کے کاسمیٹکس ایرانی شہری زندگی کا غازہ بن چکے تھے لیکن بے کار گئے۔ انقلابی لہروں نے شاہ، شاہ کے وفاداروں، اس کی افواج، اس کے اداروں، سب کو تلپٹ کر کے رکھ دیا، نہ وہ خود اپنا دفاع کر سکا اور نہ مغرب اس کو بچا سکا۔
ایران کا یہ انقلاب اہل مغرب کے لیے ایک ڈرائونا خواب تھا۔ آج بھی وہ اس سے پیچھا نہیں چھڑا پارہے ہیں۔ مغرب کے اہل دماغ اور حکمت کار اس واقعہ کے بعد سیکڑوں مطالعاتی گروپوں میں اس بات پر غور کرنے لگے کہ ’’حساب ہمارا جوں کا توں… کنبہ لیکن ڈوبا کیوں؟‘‘… برسوں کے سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اصل اہمیت عوام کی ہے۔ جمہوریت، آزادی اور ابلاغیات کا کردار سلب کر لیا ہے یا اس میں معتدبہ کی کمی کر دی ہے۔ چنانچہ مغربی استعمار نے اپنا نیا ایجنڈا مرتب کیا جس کے چیدہ نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ حکمرانوں کو اخلاقی اور مالی لحاظ سے کرپٹ کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ معاشرے میں موجود اشرافیہ (Elite) کو بھی دولت اور ہوس کا پجاری بنا دیا جائے تاکہ وہ استعماری منصوبوں میں مزاحم نہ ہو بلکہ معاون بنے۔
۲۔ مسلم عوام کی خصوصاً اور سابق تیسری دنیا سے متعلق اقوام کی قلب ماہیت کر دی جائے۔ ان کی سوچ و فکر، ان کی اقدار و روایات، ان کی پسند و ناپسند اور ان کے معیارات بدل دیے جائیں۔ ان کا انفرادی نصب العین حاضر و موجود تہذیب باطلہ کی روشنی سے جگمگانا اور شکم و شہوت کے بتوں کے گرد چکر کھانا ہو۔ اسٹینڈرڈ آف لیونگ کے بعد کوالٹی آف لائف پر سارا زور ہو۔ مگر یہ کوالٹی صرف مادی اور حیوانی حوالوں سے ہو، اس کی کوئی اخلاقی و روحانی جہت نہ ہو۔ دوسری طرف ان اقوام کا کوئی اجتماعی نصب العین نہ بننے پائے اور اگر پہلے سے کوئی ہے تو وہ ختم ہو جائے۔ اگر کوئی اجتماعی مطمحِ نظر ہو تو وہ عالمی استعماری بینڈ میں شامل ’’باجے‘‘ سے زیادہ کردار ادا نہ کرے۔
۳۔ کھلی معیشت اور منڈی کی معیشت جیسے نعرے دے کر ملٹی نیشنلزم کو فروغ دیا جائے۔ یہ بین الاقوامی کمپنیاں دراصل مغربی تہذیب کی داعی، ترویج کار اور پشتیبان ہوں گی اور استعمار کے اغراض و مقاصد کے حصول کا وسیلہ بھی۔ مسلم دنیا اس کے آگے ڈھیر ہوگی۔ ان کی حیثیت ایک صارف معاشرے سے زیادہ کچھ نہ ہوگی۔
۴۔ لبرل ازم کو فروغ دے کر اور فرقہ وارانہ تضادات کو بھڑکتی آگ بنا کر ایک طرف مسلم اقوام سے روحِ جہاد سلب کر لی جائے تو دوسری طرف ان کا اتحاد پارہ پارہ کر دیا جائے۔ پھر کہاں کی تحریک، کیسی انقلابیت اور کون سے امتیازی نظریات؟ گویا مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہوگا اور سیکولر تہذیب کی آنکھوں میں بکھرتا چلا جائے گا۔
۵۔ مسلم سوسائٹیز میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو بین الاقوامی اہمیت دے کر ان کے اندر ’’قومی‘‘ خودشناسی اور اکثریت سے بیزاری پیدا کی جائے۔
۶۔ مسلم عوام کے لاشعور میں پنہاں عقیدتوں اور تصورات کے محل اس طرح رفتہ رفتہ مسمار کر دیے جائیں کہ انہیں اس کا شعور بھی نہ ہو اور کام بھی تمام کر دیا جائے۔ اس پہلو سے وقتاً فوقتاً مسلم معاشرے کا درجہ حرارت اور اپنی پیش قدمیوں کوناپنے کے لیے شیطان رشدی، تسلیمہ نسرین اور توہین رسالت جیسے سانحات دانستہ پیدا کروائے اور مشہور کیے جاتے ہیں۔
۷۔ خاندانی نظام کو غتربود کر دیا جائے۔ انسان کے لیے اس کے بوڑھے والدین اور بالآخر اپنے بچے بھی بوجھ بن جائیں۔ زندگی گزارنے کا عمل مہنگا کر دیا جائے تاکہ شرفا کی عورتیں بھی کام کاج کر کے گھر کی آمدنی بڑھانے پر مجبور ہو جائیں۔ ہمارے ملک میں بے تحاشا مہنگائی کا ایک ہدف یہ بھی ہے اور مہنگائی کیونکر بڑھ رہی ہے، اس کھلے راز سے سب واقف ہیں۔ عالمی استعمار کے مالیاتی اداروں کا اس باب میں کردار جتنا گھنائونا ہے، اتنا ہی نمایاں بھی ہے۔
۸۔ بنیاد پرستی کے جراثیم جس خطے، ادارے اور طبقے میں پائے جائیں، وہاں ’’جراثیم کش‘‘ چھڑکائو کر دیا جائے۔ ٹریڈ یونینوں کا خاتمہ، تعلیمی اداروں سے نظریاتی اور تخلیقی ماحول کی رخصتی۔ وہاں سے صرف منشی، مستری، اور بہترین خوشنما ڈگریوں اور ٹائٹلز کے ساتھ باہر آئیں۔ یہ ایم بی اے پیدا کرنے والے ادارے، یہ ہماری انجینئرنگ اور میڈیکل کی فیکلٹیاں، یہ ہنرمند بنانے والے نام نہاد ادارے۔ بظاہر یہ ماہرین پیدا کر رہے ہیں اور ہزاروں پیدا کر چکے ہیں، لیکن ذرا غیر جذباتی ہو کر جائزہ لیجیے تو کیا یہ چلتے ہوئے نظام اور وقت کے ساہوکار کے منشی، مستری، مشتہرین اور خدمت گار نہیں؟ آخر پاکستان میں اعلیٰ تخلیق کار، سائنسدان، ریسرچ اسکالرز پیدا ہونا کیوں بند ہو گئے؟ جتنے انگریزی دور میں نکلتے تھے، اب اتنے بھی نہیں نکلتے۔ آخر کیوں؟
۹۔ مسلم معاشروں اور مسلم قلوب و اذہان کو یکسر بدلنے کے لیے برساتی کیڑوں کی طرح نام نہاد غیر سیاسی، بظاہر سماجی اور رفاہی اور نام کے لحاظ سے ’’غیر سرکاری تنظیمیں‘‘ (Non-Governmental Organizations) جنہیں عرف عام میں NGOs کہا جاتا ہے، قائم کی جائیں۔ چنانچہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تیس گھنٹے پر ایک نئی این جی او رجسٹرڈ ہونے کی اوسط ہے جو رجسٹریشن نہیں کراتیں، وہ ان کے علاوہ ہیں۔ ان تمام NGOs کا دائرہ کار چند عنوانات تک محدود ہے۔
الف۔ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت
ب۔ عورتوں کی صحت
ج۔ خاندانی بہبود اور آبادی میں اضافہ کی روک تھام
د۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی
ہ۔ بچوں کی پرورش
و۔ ماحولیات کا تحفظ
ز۔ قبل از اسلام کے آثار ہائے قدیمہ کا تحفظ
ح۔ فنونِ لطیفہ کا فروغ
یہ سارے یا بیشتر عنوانات غیر سیاسی بے ضرر بلکہ بظاہر آپ کے اور ہمارے نقطہ نظر سے درست یا درست سے قریب تر ہیں۔ لیکن ان کی مدد سے پاکستان میں (اور بنگلہ دیش میں بھی اور دیگر مسلم اور سابق تیسری اقوام میں بھی) چالیس پچاس ہزار رضاکار پیدا کر دیے گئے ہیں جو لبرل ازم، اباحیت، مادیت اور اپنی اَقدار و روایات سے بغاوت کے چلتے پھرتے کارندے ہیں۔ ان میں بیشتر خواتین ملیں گی۔ یہ الگ دنیا ہے جو ہماری سوسائٹی میں ایڈز کے جرثوموں کی طرح انجیکٹ کر دی گئی ہیں۔
۱۰۔ مسلم معاشروںاور تیسری دنیا یا مشرق کی صدیوں سے جمی جمائی سوسائٹیز کو ادھیڑنے اور بے باک و بے حیا بنانے کے لیے سب سے خطرناک آلہ اور ہتھیار جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں، میڈیا کا استعمال ہے۔ پرنٹ میڈیا بھی اور الیکٹرانک میڈیا بھی۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ خلیج کی جنگ کے بعد ساری ترقی یافتہ دنیا کے میڈیامین اور میڈیا کے سرمایہ کاروں کی یلغار ایشیا پر ہو رہی ہے۔ سال میں کئی سٹیلائیٹ چھوڑے جاتے ہیں جن کے ذریعہ متعدد نشریاتی چینلز کام کرتے ہیں۔ اس وقت ایشیا کا سب سے بڑا میڈیا انوسٹر مرڈوک نامی ارب پتی ہے، جس کے والدین امریکا سے آسٹریلیا جابسے تھے۔ وہ ۱۹۹۱ء سے مسلسل نئے نئے چینل خرید رہا ہے۔ اسٹار ٹی وی کا پورا نیٹ ورک جس میں برصغیر کا معروف ترین ژی ٹی وی چینل شامل ہے، اس کی ملکیت ہے۔ عرصہ پہلے اس کے بارے میں رپورٹ چھپی تھی کہ وہ جو نیٹ ورک چلا رہا ہے اس میں سالانہ پچاس ملین ڈالر (دو ارب روپے سے زائد) کا خسارہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود چینل پر چینل خریدے جارہا ہے۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ کیا کوئی تاجر اور وہ بھی یہودی، اتنے بڑے خسارہ کی سرمایہ کاری کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے؟ جب کہ آئندہ بھی منافع کا امکان بہت کم ہے۔ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے کہ یہ ایسا مشنری کام ہے جو یہودی منصوبہ سازوں نے سو سال پیشتر طے کیا تھا۔ دنیا بھر میں بے حیائی، بے غیرتی اور اباحیت کا فروغ۔
ہمارے ہاں کے ٹی وی چینلز نے بھی بڑی سرعت و تابعداری لیکن بدسلیقگی سے یہ سارے کام اپنے ذمہ لے لیے ہیں اور اب ان میں پھکڑ پن کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ لگتا ہے کہ پوری قوم کو بھانڈ بنا دیں گے۔
سارے مسلم ممالک میں یہی ہو رہا ہے۔ ہم مغربی تہذیب کا سپٹک ٹینک بننے کے لیے چنے گئے ہیں۔ ان کی خوبیاں، ان کی خوئے آزادی، ان کی صفائی ستھرائی، محنت اور دیانت وغیرہ ہمارے کام کی باتیں نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ پرنٹ میڈیا کا کردار بھی کم گھنائونا نہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے جرائد چھپ رہے ہیں جن میں ناگفتہ بہ تصاویر، رپورٹیں، خبریں، سرخیاں، چٹکلے اور تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ یہ غلاظت (Tabloid) جرائد کے لیے مختص نہیں رہ گئی۔ اب تو اول درجے کے اخبارات بھی رفتہ رفتہ اپنے صفحات اس ناپاکی سے تر کرتے جارہے ہیں۔ اشتہارات ساری دنیا میں دعوت کے حوالے سے بے نیاز چھپ سکتے ہیں لیکن ہماری تجارت و صحافت تھکے اعصاب پر یہ ایسی سوار ہے کہ پانچ لاکھ کی گاڑی کے ساتھ عورت کی تصویر دینا ضروری ہے، حالانکہ کوئی ایک خریدار بھی اس عورت کی تصویر کی وجہ سے گاڑی نہیں خریدے گا۔ غرض رفتہ رفتہ، زینہ بہ زینہ، قدم بہ قدم ہماری سوسائٹی مغرب کی پامال راہوں پر لے جاکر دُم کٹی لومڑی کی مانند بنانے کا عمل جاری ہے۔ جب یہ عمل آگے بڑھ چکا ہوگا تو ایمان و غیرت اور تحریک و جہاد کا دَم خود بخود گھٹ چکا ہو گا۔
آج کی میڈیا وار یعنی چوتھی عالمگیر جنگ کے فریق غالب کا یہ ہی خواب ہے، مقصد اور ہدف ہے اور فی الوقت اس کے قدم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں کم ازکم پاکستانی معاشرے میں اسلامی حوالے، اسلامی امنگیں، اسلامی اہداف، اسلامی تحریک، اسلامی قیادت سب غیر متعلق بن چکی ہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والی اور بار بار اٹھ کھڑی ہونے والی یہ قوم آج سود کے بیوپاریوں کے لیے دل و جان چھڑکتی ہے، ووٹ نچھاور کرتی ہے۔ یہ اقداری تبدیلی آج کی میڈیا وار کی ایک نمایاں کامیابی ہے اور مستقبل قریب میں اس میں اضافہ ہی ہوگا۔
دوسری طرف اس اقداری تبدیلی کا یہ اثر ہے کہ میڈیا کے محاذ پر اسلامی قوتوں کے جو مورچے ہو سکتے ہیں، وہ کم بھی ہیں اور بے آباد بھی۔ روبرٹ مرڈوک اور ٹیڈٹرنر (سی این این کا مالک) جیسے لوگ یہودی لابی کے چندوں سے ہماری تاریخ کا بہائو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اسلامی حوالوں سے بات کرنے والے اہل زر بھی اور عام طبقہ بھی (جو ہمیشہ نظریاتی تحریکوں کا اصل سرمایہ ہوتا ہے) درپیش ابلاغی چیلنجوں سے واقف نہیں۔ نہ اس کی جیب کے بٹن اس مد میں کھلتے ہیں، نہ وہ چند روپوں کا ایثار کر کے اپنے اخبار و جرائد کی رگوں میں خون کی چند بوندیں دینا چاہتا ہے۔ حالانکہ آج بظاہر پھلتے پھولتے اشاعتی اور ابلاغی ادارے بھی چندوں سے بے نیاز نہیں۔ خواہ یہ چندے اشتہار کے نام پر ہوں یا کسی اور ڈھب سے۔ خود ہمارے ملک میں نہ جانے کتنے اشاعتی ادارے استعماری اغراض سے سمجھوتہ کر کے اور سودا چکا کر قائم ہو رہے ہیں اور چل رہے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ اب کوئی سفارت خانے سے ڈالر کی تھیلی نہیں لیتا۔ وہ ملٹی نیشنلز کے اشتہارات اور مصنوعات کی تشہیر کے ذریعہ کروڑوں روپے ’’قانونی‘‘ اور ’’شفاف‘‘ طریقوں سے لیتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا وار میں یہ سیکولر اور لبرل تہذیب کے مورچے ہیں جو بنتے اور آباد ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ان کے مقابلے پر کون سے اور کتنے اسلامی تہذیب کے میڈیا کیمپس ہیں؟ اپنے میڈیا مورچے بنائے بغیر دشمن تہذیب کی ہمارے اپنے گھر کے اندر سے جاری گولہ باری کو نہ روکا جاسکے گا اور نہ ان کا منہ پھیرا جاسکے گا۔ شاید ہم عالمی واقعات و حالات کے کسی کروٹ بدلنے سے خود بخود پہنچ جانے والے فائدے کا انتظار کر رہے ہیں۔ شاید یہ موقع اور فائدہ حاصل ہو جائے۔ خدا کرے کہ کم ازکم ایسا تو ضرور ہو۔
(مذکورہ مضمون کراچی یونین آف جرنلسٹس کے ۱۹۹۷۔۱۹۹۸ء کے مجلہ ’’دی جرنلسٹ‘‘ سے لیا گیا ہے)
☼☼☼
Leave a Reply