
فنونِ لطیفہ کی مختلف انواع ہوں یا طبیعاتی و تکنیکی امور‘ ریاضی کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس دورِ تہذیب میں اسے انتہائی عظمت ملی۔
زبان اور فکر کا الجبرا اتنی خوبصورتی کے ساتھ عربی اور دوسری زبانوں میں مستعمل ہے کہ ان سے اسلام کی اعلیٰ ترین اقدار کی جھلک ملتی ہے۔ یہ اسلام کے روحانی انداز کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ ریاضی کو قدیم روایات میں کس قدر اہمیت حاصل تھی۔
مسلمانوں کو ابتدا ہی سے ریاضی‘ خصوصاً اس کی دو شاخوں علم الاعداد اور علم ہندسہ سے بڑا لگائو رہا ہے۔ ان کا براہِ راست تعلق اسلامی تعلیمات کے جوہر سے ہے۔ اس حقیقی جوہر کو ہم وحدانیت کے فلسفے یعنی ’’توحید‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
خدا ایک ہے۔ پس نمبروں کی پوری سیریز میں نمبر اپنے ماخذ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ وحدانیت کی علامت ہے اور پھر اگر آپ ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ نمبروں کا پورے کا پورا سلسلہ بذاتِ خود توحید یعنی وحدانیت کی طرف جاتا ہے۔ وہ یوں کہ یہ نمبر درحقیقت ایک سیڑھی کی مانند ہیں۔ آپ اس پر چڑھ کر بے شمار عددوں سے وحدانیت کی طرف جاسکتے ہیں۔
’’اخوان الصفا‘‘ کے نظریات میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں درج ہیں۔
عربی حروفِ تہجی کے حروف کی عددی علامت الجفر کی سائنس سے منسلک ہے۔ انہیں حضرت علیؓ ابنِ ابی طالب نے مرتب کیا تھا۔ یہ ہماری کتابِ مقدس یعنی قرآنِ کریم کے بعض پیغامات سے بڑی گہرائی اور اندرونی صفات کی وضاحت کرتے ہیں۔
فیثا غورس کے فلسفے سے اتفاق کرنے والے لوگ اسلامی پیغامات کے زورِ کلام کو سمجھنے کے لیے صرف امداد دیتے تھے۔ ان کا ماخذ وہ الہام تھا جو خدا نے اپنے برگزیدہ نبیوں پر اتارا۔ اس کے دوسرے ماخذوں میں اسلام کی روحانی اور لسانی تعلیمات تھیں‘ جنہیں ان کی مقدس اشکال سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
عظیم الشان فلسفے سے لے کر گھریلو مٹی کے برتنوں تک میں ہمیں تمام دنیا ایک مربوط شے کی صورت میں دکھائی دے گی۔ اس کا براہِ راست تعلق علمِ ریاضی سے ہے۔ ہم ان باتوں کو روایتی انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو قدیم زمانے میں ریاضی سے بڑا لگائو تھا اور انہوں نے اس پر بڑا کام کیا تھا کیونکہ وہ اس میں پوشیدہ روحانیت کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
روایتی ریاضی اور جدید ریاضی میں اہم اور بڑا فرق یہ ہے کہ روایتی ریاضی اشکال اور اعداد کے صفاتی نظریات سے متعلق تھی لیکن اس کے برعکس جدید ریاضی اشکال اور اعداد کی مقداری نظریات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس موضوع پر فیثا غورس اور ایچ سیزر نے کتابیں لکھی ہیں۔ فیثا غورس کی ریاضی کو دوسری سائنسوں پر بھی نافذ کیا گیا ہے۔ ایرانی ذرائع ہندوستانی مکاتب ہائے فکر سے متاثر تھے۔ ان کا تعلق علمِ نجوم سے بھی تھا۔ اس طرح مسلمانوں نے ہندوستانیوں سے جو کچھ لیا اس میں بھی اس علم کی آمیزش تھی۔ اس سلسلے میں مسلمانوں نے برہمن گپتا اور آریہ بھٹ کی تحریروں سے استفادہ کیا۔
ارشمیدس نے بھی اسلام کے لیے بڑا کام کیا۔ اس کا یہ کام بلاواسطہ تھا۔ اس نے اپنی تحریروں میں علم ہندسہ پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے۔ مسلمانوں نے ان تحریروں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ عربی میں بھی زیرِ نظر سوالات پر بڑا کام موجود ہے۔ یہ تو ارشمیدس نے کیا ہے اور یا کسی اور نے کیا ہے لیکن اسے ارشمیدس ہی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان فلسفوں کا ماخذ یونانی مفکرین نہیں تھے۔ اس لیے یہ گمان کیا گیا کہ شاید یہ ساری تحقیق بھی ارشمیدس ہی کا کام ہے۔
کتابِ اعداد:
جب بھی کبھی مغربی مفکرین اسلامی تہذیب پر غور و فکر کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں عربی ہندسوں کا خیال آتا ہے جو چوتھی صدی ہجری سے دسویں صدی ہجری تک اسلامی دنیا سے مغرب کی طرف منتقل ہوئے۔ اہلِ عرب کی اس ایجاد نے مغرب میں خاصی اہمیت حاصل کر لی۔ اس کی اہمیت کے بارے میں بعض مغربی مورخین نے ایسی قوت کو نئے طریقے سے استعمال کرنے سے تعبیر کیا۔
نیز ان مورخین نے یہ بھی کہا کہ اس کام کی اہمیت بالکل ایسی ہے جیسے شمالی یورپ کے علاقے کی آبادکاری۔ ان تمام کے ساتھ ساتھ طرزِ کتابت اور مواد کا جائزہ لیتے وقت لاتعداد دقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تب کہیں جا کے ہم ریاضی کی دوسری شاخوں تک پہنچ سکیں گے۔
آج اگر کوئی اسلامی دنیا کا سفر کرے۔ اسلام کے مشرقی علاقوں سے گزرے تو وہ دیکھے گا کہ مغرب بعید جیسے مصر کے علاقوں میں اب بھی اسی نوعیت کے ہندسے لکھے جاتے ہیں:
۹ ۸ ۷ ۶ ۵ ۴ ۳ ۲ ۱ ۰
شمالی افریقہ میں بھی اسی طرز کے ہندسے لکھے جاتے ہیں۔ یہ طرز شمالی افریقہ اور عرب خطوں کے درمیان ماضی کے تاریخی رشتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اب یہ عربی طریقہ کہلاتا ہے اور تمام مشرقی اسلامی ممالک میں مستعمل ہے۔
دراصل مسلمان اس طرز کو انگلیوں پر شمار کرتے تھے۔ یہ طرز ’’حساب الہاد‘‘ کہلاتا تھا۔ چونکہ مسلمانوں نے یہ طریقہ ہندوستان سے لیا تھا‘ اسی لیے اسے ہندی طریقہ بھی کہتے ہیں۔
اس وقت تک اعشاری نظام بھی دریافت ہو چکا تھا۔ ان علوم سے مسلمانوں نے مزید علوم ماخذ کیے۔ حساب الجمل دریافت کیا جس میں حروفِ تہجی کو عددی ہندسوں کی علامت کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اس طریقے کی بنیاد یونانی طرز پر رکھی گئی۔ جلد ہی یہ علم مسلمان دنیا سے دوسرے علاقوں میں پھیل گیا۔
چونکہ یونانی گنتی کو نجومی زیادہ تر استعمال کرتے تھے۔ اس لیے انہی کے حوالے سے اسے حساب النجوم کہا جانے لگا۔ نویں صدی ہجری کے آخر میں سبط المردانی نے اپنی کتب میں اس طریقے پر خاصہ تحقیقی کام کیا ہے۔ جہاں تک اعشاری نظام کا تعلق ہے مسلمانوں نے بہت سے دوسرے طریقوں کو آپس میں مخلوط کر کے اس طریقے کی بنیاد ڈالی ہے۔
عربی یا ہندی طرز کتاب الاعداد پہلی بار محمد ابن موسیٰ الخوارزمی نے استعمال کیے۔ اس کا اصل مسودہ تو گم ہو گیا لیکن اس کے ترجمے ابھی تک پائے جاتے ہیں۔ اس کتاب کا تو لندن سے ترجمہ بھی شائع ہوا تھا۔ مغرب اور مغربی زبانوں پر اس ترجمے کا بڑا گہرا اثر مرتب ہوا چنانچہ انگریزی ہسپانوی اور دوسری اہم زبانوں میں استعمال ہونے والے الفاظ بھی ان ہی سے بنے تھے۔
چوتھی صدی ہجری میں ابوالحسن اقلیدسی نے ایک کتاب تحریر کی جس میں کمال مہارت کے ساتھ ہندوستانی گنتی کو انگلیوں پر شمار کرنے کے طریقے سے ملا کر بحث کی۔ البتہ اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح ڈسٹ بورڈ نظام کو ہٹا کر اسے سیاہی اور کاغذ کے نظام سے مربوط کر دیا جائے۔
اس کے برعکس اس سے قبل ابو الوفا نے گنتی کو ڈسٹ بورڈ تکنیک پر منضبط کرنے کی بجائے کھلا چھوڑ دیا تھا۔ جبکہ ابوالوفا کے بعد اسی صدی میں ابوالحسن النساوی نے علمِ ریاضیات پر ایک اور جامع کتاب تحریر کی۔ یہ کتاب اس نے پہلے فارسی میں اور پھر عربی میں لکھی۔ پانچویں صدی ہجری تک اعشاری نظام اور یہ دونوں نظام پوری طرح رائج ہو چکے تھے اور مسلمانوں سے ہوتے ہوئے مغربی دنیا تک پہنچ چکے تھے۔ اس کے بدلے میں وہاں سے انہیں ایسی معلومات حاصل ہوئیں جو زندگی میں تجارت وغیرہ کے حسابات رکھنے میں بے حد معاون ثابت ہوئیں۔
تخمینہ اور عددی نظریہ:
مسلمانوں میں عدد اور شماریات کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ ابتدا میں مسلمان یونانیوں کے اتباع میں ’’علم الاعداد‘‘ اور ’’علم الحساب‘‘ میں تفریق رکھتے تھے۔ بعد میں کئی بار مؤخر الذکر کو علم الجبرا کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا۔ جسے انہوں نے ترقی دی۔ بعد کی صدیوں میں یہی دونوں نام مستعمل تھے جبکہ ’’حساب‘‘ کا لفظ یونانیوں سے اخذ کیا گیا جسے مستند مصنفین نے بھی اپنایا۔
زیادہ تر مسلمان ریاضی دانوں نے عددی علوم پر لکھا لیکن شاذ و نادر ہی کوئی مقالہ ایسا بھی لکھا گیا جو محض اسی علم کے لیے مخصوص تھا۔
زمانۂ قدیم میں مسلمان جن باتوں پر توجہ دیتے تھے ان کا تعلق طلسمی مربعوں اور محبانہ اعداد سے تھا۔ وہ انہیں پراسرار سائنسی علوم‘ سحر اور علمِ کیمیا گری میں استعمال کرتے تھے۔ جہاں تک طلسمی مربعوں کا تعلق ہے‘ اسے جابرین حیان نے کیمیا گری میں استعمال کیا ہے اور ’’اخوان الصفا‘‘ نے اس کا حسابی طریقے سے جائزہ لیا ہے جو ان مربعوں کے چھتیس قسم کے اجزا سے واقف تھا۔ شمس الدین بونی نے اس پر مزید تحقیق کی اور نسبتاً بڑے مربعے بنانے کے لیے کلیہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ محبانہ اعداد کا کلیہ ثابت بن قرۃ نے بنایا تھا۔
اس گہرے غور و فکر سے اعداد کی کثیر تعداد کا مطالعہ شروع ہوا جس سے بہت سے ریاضی دانوں کا واسطہ پڑتا تھا۔ مثال کے طور پر چوتھی صدی ہجری میں الخارجی نے اپنی کتاب ’’الفخری‘‘ میں اکثریتی اعداد کے لیے باقاعدہ ایک باب مختص کیا ہے۔ جبکہ اس کے ہم عصر البیرونی نے اس کے بارے میں متعدد مضامین تحریر کیے۔ اس سلسلے میں البیرونی کا بہترین کام شطرنج سے متعلق ایک مسئلہ تھا جو یوں ہے:
شطرنج ایجاد کرنے والے نے جب بادشاہ کو تحفۃً شطرنج پیش کیا تو اس نے خوش ہو کر اس سے پوچھا کہ اسے کیا انعام دیا جائے تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اسے شطرنج کے خانوں کے مطابق اس ترتیب سے اناج کے دانے دیے جائیں کہ پہلے خانے میں ایک دانہ‘ دوسرے میں دو‘ تیسرے میں چار اور اسی طرح اگلے خانوں میں پچھلے خانوں سے دوگنے دانے ہوں۔ اسی طرح چونسٹھ خانوں میں دانے بھر دیے جائیں۔ بادشاہ نے پہلے تو یہ بات مان لی لیکن بعد میں حساب کتاب کے بعد پتا چلا کہ اتنے دانے تو اس کی پوری ریاست میں موجود نہیں۔ ریاضی کے اس مخصوص مسئلے کو البیرونی نے حل کیا۔ البیرونی کا جواب یہ تھا۔
کل: ۶۱۵‘ ۵۵۱‘ ۷۰۹‘ ۰۷۳‘ ۷۴۴‘ ۴۴۶‘ ۱۸ دانے۔
کثیرالاعداد اور حساب غیاث الدین جمشید کاشانی کی تحقیق سے اپنی انتہائی شکل تک پہنچا جو ایران کا مشہور ریاضی دان تھا۔ اس نے ریاضی میں حیرت انگیز اضافے کیے جو صدیوں تک نظرانداز کیے جانے کے بعد اب منظرِ عام پر آرہے ہیں۔ کاشانی نے نہ صرف اعشاری کسور ایجاد کیں جن سے نامکمل اعداد کو حل کیا جاسکتا تھا بلکہ اس نے نامعلوم رقم کی صحیح قیمت معلوم کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کیا۔ اسی کو ہندسی مشین بنانے والا بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے حساب پر ایک ’’معرکۃ الآرا‘‘ کتاب بھی تحریر کی۔
عددی سائنس میں دلچسپی صرف ایران تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ صفوی عہد میں اس پر بہت کام ہوا تھا جن میں سے شیخ بہائو الدین عاملی‘ ملا محمد باقر یزدی قابلِ ذکر ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مسلمہ ذہین و فطین عاملیؔ تھے۔ وہ بیک وقت ریاضی دان‘ ماہرِ تعمیرات‘ صوفی‘ فقیہہ شاعر اور کیمیا دان تھے اور ان کی تحقیق کو پورے غور و فکر سے دنیا نے پڑھا اور پرکھا۔ یہ کوئی غیرمتوقع بات نہیں ہے کہ سوتر نے مسلمان ریاضی دانوں کے بارے میں اپنے کلاسیکل کام کو اختتام تک پہنچایا اور ہندسی نظریات پر ’’خلاصۃ الحساب‘‘ نامی کتاب تحریر کی۔
طوسی اور کاشانی کے عہد میں اسلامی دنیا میں مستند علما کا ایک گروہ پیدا ہو چکا تھا۔ ان میں سے بہترین ابو العباس ابن بنا المراکشی تھا‘ جس نے ساتویں صدی ہجری میں ریاضی کی تمام شاخوں پر تقریباً ستّر کتابیں تحریر کیں‘ جن میں سب سے زیادہ مشہور تلخیص ’’عمل الحساب‘‘ تھی جو اس مضمون پر مسلمانوں کی بہترین کتاب شمار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مغرب میں ابن حمزہ المغربی نے بھی دسویں صدی ہجری میں ترکی زبان میں ’’تحفۃ الاعتماد‘‘ نامی کتاب فلسفۂ اعداد پر تحریر کی۔ اس نے اکثریتی عددی سلسلے سے لوگارتھم تک پہنچنے کے لیے ٹھوس بنیاد تیار کی۔ اس کے ہمعصر ایران میں ملّا باقر یزدی تھے۔
جہاں تک اسلامی دنیا کے وسط کا تعلق ہے اس میں دو نام قابلِ ذکر ہیں‘ جنہوں نے عددی سائنس پر کام کیا۔ ابوالعباس ابن ہائم المصری جو آٹھویں صدی ہجری میں ہوئے۔ انہوں نے حساب اور الجبرا پر کتابیں لکھیں۔ ایک صدی بعد بدرالدین المریدنی نے ’’تحفۃ الباب فی علم الحساب‘‘ لکھی جس میں فلسفہ اعداد اور کسور کے بارے میں بحث شامل تھی۔
مسلمانوں نے اپنے طور پر اعداد کی نئی تعریف واضح کی جو اور کسی کے ظاہر کردہ مفہوم کو سامنے رکھ کر کی گئی تھی۔ اس کی مدد سے نسبت کی وضاحت کی جاتی ہے۔ اس عمل میں اگر کسر کو نکال دیا جائے تو نسبت استدلالی ہو جاتی ہے اور اگر نہ نکالی جائے تو خلافِ منطق شمار ہوتی ہے۔ خیام جس نے اس معاملے پر خاصی بحث کی ہے‘ خلافِ منطق کسر کو بھی ایک عدد شمار کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ خلافِ عقل کسر کی تشریح بھی ایک عدد کی صورت میں کی جاسکتی ہے۔ طوسی نے بھی یہی کہا ہے کہ ہر نسبت ایک عدد ہی ہے۔
مسلمانوں نے شماریات کی تکنیک کو مزید آگے بڑھایا۔ خاص طور پر ناصرالدین طوسی کے دائرے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس نے خطِ مماس کے جدول میں ایک کروڑ میں سے ایک عدد کو درست قرار دیا۔
جیومیٹری:
مسلمانوں نے جیومیٹری کے مطالعے کا آغاز اقلیدس وغیرہ کے فلسفوں سے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عہدِ عباسی تک مسلمان اس میدان میں بہت آگے بڑھ چکے تھے۔ بغداد میں جیومیٹری پر سب سے زیادہ کام ہو رہا تھا۔ موسیٰ یا بنو موسیٰ کے بیٹوں نے اس سلسلے میں جو کچھ تحریر کیا وہ قابلِ تحسین ہے۔ ان کی کتاب ’’معارف مصحۃ الاشکال‘‘ علمِ ہندسہ کا گراں مایہ سرمایہ ہے۔ اس سارے تبصرے کا بعد میں لاطینی میں ترجمہ ہوا‘ جس کا فیونکی اور تھامس براڈورڈن پر بھی اثر پڑا تیسری صدی ہجری میں ثابت ابن قرۃ نے مربعے اور مکعب پر بھی کتابیں لکھیں اور معائنے کے طریقے کو استعمال کیا‘ جس سے کلیات کے متوقع نتائج کی ترقی پذیر صلاحیت کا پتا چلایا۔ ثابت نے مخروطی اشیا کے مطالعے کو آگے بڑھایا اور کسی مخروطی جسم کے قطعے کا رقبہ معلوم کرنے کا طریقہ بھی دریافت کیا۔
چوتھی صدی ہجری میں ابوالعباس نے ثابت بن قرۃ کے کام کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے ابو عبداﷲ المحانی کی تخلیقات پر بھی تحقیق کی۔ اقلیدس پر بھی انہوں نے اہم تبصرہ کیا۔ انہوں نے سکندری ریاضی پر بھی کام کیا۔ علم ہندسہ پر اس ضمن میں دوسرا اہم کام ابوالوفا بوزجانی نے کیا۔ انہوں نے جیومیٹری کے اطلاق پر بحث کی۔ ابو سہل الکوہی کے کام کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا‘ جس نے ارشمیدس وغیرہ کے پیدہ کردہ سوالات کا حل تلاش کیا۔ اس نے ایسی مساواتیں ایجاد کیں جو دوسرے درجے کی طاقت یا اس سے زائد درجے کی طاقت کے سوالات کو حل کرتی تھیں۔ ابن الہیشم نامی ماہرِ طبیعات نے آئسو میٹری پر کام کیا۔ پانچویں صدی ہجری میں جیومیٹری پر جو کام ہوا وہ بعد کی صدی میں ختم نہ ہوا بلکہ جاری رہا۔ ابوالجد نے البیرونی کے ساتھ ریاضی کے سوالات پر بحث کی اور دائرے کو نو برابر حصوں میں تقسیم کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ ان کے ہم عصر ابوالسید السنجری نے مخروطی اشکال کا مطالعہ کیا اور زاویے کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے دائرے کو اس طرح قطع کرنے کا طریقہ بھی دریافت کیا۔ علمِ ہندسہ میں اس وقت ایک نیا باب کھل گیا جب خیام اور اس کے بعد طوسی نے متوازی خطوط کے نظریے سے متعلق اقلیدس کے پانچویں اصولِ موضوعہ کا تجزیہ کیا۔ اقلیدس کے علمِ ہندسہ کی ساری بنیاد اسی قیاس پر کھڑی تھی۔ خیام نے اپنے ایک رسالے میں یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ ایک چوکور ا ب ج د پر غور کریں جس کے خطوط ا ب اور ج د برابر ہیں یہ دونوں خطوط ب ج پر عموداً واقع ہیں۔ لہٰذا یہ ایک مستطیل بن گئی جسے مغربی ریاضی کی تاریخ کے ساتھ بھی مربوط کیا جاتا ہے۔ اس چوکور میں زاویہ ا اور د برابر ہیں اور ۹۰ درجے سے کم‘ ۹۰ درجے سے زیادہ یا قائمہ زاویے بھی ہو سکتے ہیں۔ خیام نے ثابت کیا ہے کہ صرف تیسری بات صحیح ہو سکتی ہے اور اقلیدس کے پانچویں دعوے کو اس نے ثابت کیا ہے۔ خیام اور طوسی دونوں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ اگر پہلی بات درست تسلیم کر لی جائے تو ایک تکون کے زاویوں کا مجموعہ ۱۸۰ درجے سے کم ہو گا۔ اس کے بعد کے مسائل ابھی تک مغربی ماہرین بھی حل نہیں کر سکے۔ تاہم خیام نے پانچویں دعوے کے خاص کردار کی اہمیت کو جان لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ایک اصول کی طرف اشارہ کیا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اگرچہ یہ اس جیومیٹری سے منسلک تھی لیکن پھر بھی اپنی ایک جداگانہ حیثیت کی حامل تھی۔ اس کا مواد طبعی حقائق کی ٹھوس بنیادوں پر استوار تھا۔ جیومیٹری کی یہ شاخ سطح اور ٹھوس اجسام کے بارے میں تھی۔ انہوں نے بہت سے ان مسائل کو بھی حل کیا جنہیں یونان کے ان مفکرین نے ظاہر تو کر دیا تھا لیکن ان کو حل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں نے جیومیٹری کو الجبرا کے ساتھ بڑی خوب صورتی سے مربوط کیا اور الجبرا کے ناقابلِ سوالات کو جیومیٹری کی مدد سے حل کرنے کا طریقہ بھی دریافت کر لیا۔ یہ اس قسم کی سائنس کی طرف پہلی پیشقدمی تھی۔ مسلمانوں نے خاص طور پر علامتی جیومیٹری کی طرف توجہ دی جس کی مدد سے انہوں نے آرٹ اور فنِ تعمیرات میں جیومیٹری کے استعمال کی اہمیت کو واضح شکل دی۔ یہ کام انجام دیتے وقت انہوں نے جیومیٹری کی ماہیت کے متعلق خصوصیات کو ذہن میں رکھا۔ جیومیٹری کی یہ خصوصیات ’’کائنات کے عظیم معمار‘‘ کی عقل و دانش کے نمونوں کو ظاہر کرتی ہیں۔
ہموار اور کروی علمِ مثلثات:
یونانی ریاضی دانوں خاص طور پر مارکس نے وتر اور علم مثلثات (ٹرگنومیٹری) پر تحقیق کی تھی لیکن مسطح اور ٹھوس اجسام کے خطوط اور زاویوں اور قائمہ الزاویہ مثلث کے ضلعوں اور زاویوں کا باہمی ربط مسلمانوں ہی کی ایجاد ہے۔ یہ مسلمان ریاضی دان ہی تھے جنہوں نے علمِ مثلثات کے کلیے بالصراحت سب سے پہلے دریافت کیے۔ درحقیقت سائن (Sine) کا لفظ براہِ راست عربی لفظ ’’جیب‘‘ کا ترجمہ ہے۔ اس سے پہلے تیسری صدی ہجری میں الوطنی نے علمِ نجوم میں علمِ مثلثات سے کام لیا تھا۔ الوطنی ہی نے کرومی مثلثات کو ترقی دی تھی۔ اسی زمانے کے ایک اور علمِ نجوم کے ماہر حبش الحاب نے پہلی مرتبہ مماس (Tan) کو استعمال کیا۔ اسے Since‘ Cos اور Cot کے محلِ استعمال کا بھی علم تھا۔ تاہم اس زمانے میں سب سے زیادہ ترقی اس علم کو ابو الوفا ابو زجانی نے دی۔ وہ بطلیموس سے متاثر نہ تھا۔ یہ ساری تحقیق مثلثات سے متعلق تھی۔ ابو الوفا ہی نے سب سے پہلے کرومی مثلث کے لیے سائن تھیورم کی دلیل دی تھی۔ ’’قطرالزل‘‘ بھی انہی نے ایجاد کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اس ایجاد کو کوپرنیکس سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کی اس تحقیق نے بہت سے دوسرے ریاضی دانوں میں تجسس کا مادہ پیدا کیا۔ ابو نصر العراق‘ ابو محمود الخنجدی اور ابنِ یونس نے بھی اس میدان میں اپنا حصہ ادا کیا۔ لیکن البیرونی ہی وہ ماہرِ ریاضی دان تھا جس نے سب سے زیادہ کام کیا۔ اس نے اپنی تصنیف ’’الکلید علم النجوم‘‘ میں زیرِ بحث موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے۔ وہ واحد ریاضی دان تھا جس نے کرومی مثلثات کو الگ بنیادوں پر کھڑا کیا۔
ریاضی کی دوسری شاخوں کی طرح علمِ مثلثات پر بھی پانچویں صدی ہجری میں خاصہ کام ہوا لیکن یہ کام ادھورا تھا۔ اس لیے ناصرالدین طوسی نے اس پر مکمل طور پر نظرثانی کی جس کی تحقیق کو تاریخ میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
بہرحال چاہے طوسی کا کام ہو یا البیرونی کا‘ یہ ایک امر مسلّمہ ہے کہ مثلثات کے علم کو مسلمان ریاضی دانوں ہی نے پروان چڑھایا اور اسے ایک علیحدہ سائنس کی صورت میں متعارف کرایا۔ تاہم یہ بات بڑی تحیر خیز ہے کہ کئی مسلمان ملکوں میں مثلثات کے کلیوں کے نام‘ جو کہ خالص عربی میں تھے۔ انہیں فرانسیسی یا انگریزی ہم معنی ناموں میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اسے اسلامی دنیا کے اداروں میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ بھی جدید طبیعات کی طرح مغرب سے درآمد کی گئی ہو۔
الجبرا:
مثلثات کی طرح الجبرا کی تعلیم و تحقیق کا سہرا بھی مسلمانوں ہی کے سر جاتا ہے جیسا کہ عربی کے لفظ ’’الجبر‘‘ سے اس کی اصل کا پتا جھلکتا ہے۔ اس ضمن میں اہلِ اسلام نے یونان‘ ہندوستان اور بابل کے ذرائع کو استعمال کیا۔ تیسری صدی ہجری کے دوسرے مسلمان سائنسدانوں نے بھی اس علم پر کام کیا اور وہ محمد ابنِ موسیٰ الخوارزمی کی تحقیق کو بھی مات کر گئے۔ انہوں نے ریاضی کی اس شاخ کو بڑی ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا تھا جو مابعدالطبیعاتی اصولوں سے قریب تھا اور اسلامی عقائد اس کا محور تھے۔
الجبرا پر مسلمانوں کا سب سے پہلا کام ’’کتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلہ‘‘ نامی کتاب الخوارزمی نے لکھی تھی‘ جسے حقیقت میں اس علم کو الجبرے کا نام دیا گیا۔ جبر کے معنی ہیں کسی نامکمل چیز میں کچھ گھٹا بڑھا کر کسی نتیجے پر پہنچنا اور مقابلہ سے مراد ہے کہ مساوات کی دونوں سمتیں برابر ہو گئی ہیں۔ چیسٹر کے رابرٹ نے اس کتاب کا لاطینی میں ترجمہ کیا اور اس طرح مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔
چوتھی صدی ہجری میں الخوارزمی نے ذہانت و فطانت سے جس اعلیٰ کام کا آغاز کیا تھا‘ اسے پروان چڑھانے کے لیے بہت سے ریاضی دان سامنے آئے۔ ابو کمال الشجاع نے پانچ مساواتیں حل کیں۔ ابو عبداﷲ المحانی نے ارشمیدس کے ایک مسئلے کو حل کیا جسے اس نے اپنی تصنیف ’’کرہ اور سلنڈر‘‘ میں رقم کیا تھا کہ ایک دائرے کو خط سے اس طرح قطع کیا جائے کہ دونوں حصے مقررہ تناسب سے ہوں۔ اس نے اس سوال کو لا۲+ ا ج لا۲ کی مساوات سے حل کرنے کی کوشش کی آج بھی یہ مساوات اسی کے نام سے منسوب کی جاتی ہے۔
ابو جعفر الخازن نے اسی مساوات کو مخروط کے تقاطع سے حل کیا۔
چوتھی صدی ہجری کے ایک اور اہم ماہرالجبرا الخجندی نے ایک رسالے میں یہ ثابت کیا کہ ہم ا۲+ب۳=ج۳ کی مساوات کو کسی طرح بھی حل نہیں کر سکتے اگر یہ سارے عددوں کی صورت میں ہوں۔ ابوالجد نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ وہ پہلے ریاضی دان تھے جنہوں نے تیسرے درجے کی مساوات کو جیومیٹری کی مدد سے حل کیا۔ ان سے کچھ عرصہ قبل الخارجی نامی ریاضی دان نے الجبرا پر مسلمانوں کی تحقیق کے بارے میں اپنی ’’کتاب الفخری‘‘ میں وضاحت کر دی تھی۔ دوپکے نے اس کتاب کا ترجمہ کر کے مغرب میں اس کتاب کو متعارف کرایا۔ اس سے الخارجی کے کام اور تحقیق کے بارے میں مغرب والوں کو روشناس ہونے کا موقع ملا۔
صدیوں تک علمِ ریاضی نے ترقی کے جو مراحل طے کیے‘ عمر خیام کی شاعری میں وہ اپنے عروج تک پہنچے۔ عمر خیام ایک مشہور شاعر کے علاوہ ریاضی دان بھی تھا۔ فزجیرالڈ نے جب اس کی رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ کیا تو مغرب کو اس کا اور اسے مغرب کا شکرگزار ہونا چاہیے لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اسے تاریخ میں کبھی بھی ریاضی دان کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ عمر خیام نے بڑے زور دار اور باربط طریقے سے تیسرے درجے کی مساواتوں کو جیومیٹری کی مدد سے حل کیا۔ اس کا یہ کام اس قدر ٹھوس اور منظم بنیادوں پر کھڑا ہے کہ آج بھی اس کے کام کو ریاضی کا اصل مواد قرار دیا جاسکتا ہے۔ آج بھی ہم الجبرا کے طلبا کو تعلیم دینے کے لیے اس کے کام کو مشعلِ راہ بنا سکتے ہیں۔
خیام کے بعد مسلمانوں نے اس علم سے بے توجہی برتی اور وہ آہستہ آہستہ اس سے دور ہٹتے گئے۔ گو تھوڑا بہت کام جاری بھی رہا لیکن الخوارزمی اور خیام جیسا ریاضی دان پیدا نہ ہو سکا۔
تاہم نویں صدی ہجری میں اندلس میں ابوالحسن الباسطی (جسے القلصدی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے) نے ایک کتاب ’’کشف الاسرار عین علم الجبر‘‘ لکھی۔ یہ ریاضی دان خاصہ مشہور ہوا۔ یہ اولین کام تھا جس سے مغرب والوں پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ مسلمانوں ہی نے الجبرا کی علامات سب سے پہلے ایجاد کیں۔
ریاضی‘ اسلامی آرٹ اور فنِ تعمیر:
اسلامی آرٹ اور فنِ تعمیر سے واقفیت رکھنے والوں پر یہ عیاں ہے کہ ان فنون میں ریاضی کا خاصہ اہم کردار ہے اور یہ کردار زندگی کے دوسرے شعبوں کی نسبت زیادہ جامع اور مرکزی ہے۔ نہ صرف موسیقی اور شاعری ہی میں ریاضی کے اصول اپنائے گئے بلکہ پلاسٹک آرٹس‘ قالینوں کے نقشہ جات اور مساجد کے زیب و زینت کے نمونوں میں بھی جیومیٹری اور اعداد کی سائنس وسیع پیمانے پر مستعمل ہے۔
ان تمام باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ریاضی میں سرے سے کوئی قابلِ ذکر کام کیا ہی نہیں۔ کیونکہ نہ تو انہوں نے پینٹنگ پر توجہ دی اور نہ ہی سنگ تراشی پر جیسا کہ مسیحی دنیا اور ہندوستان میں اس فن کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ اس چشم پوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام میں جیومیٹری کو اس طریقِ کار پر استعمال کیا گیا کہ مغرب کے لوگوں پر اس کی مقدس اصلیت آشکار ہی نہ ہو سکی۔ اگر کوئی زندگی کے ان روایتی سرچشموں کا مطالعہ کرتا ہے جن کا تعلق ریاضی کی واضح حقیقتوں سے اور مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے ہے تو اس پر یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ ہندسہ اور اشکال تین حقائق پر مبنی ہیں۔ مظاہرِ قدرت‘ ذہن کی کرشمہ سازیاں جسے نکوماکوس سائنٹیفک کا نام دیتا ہے اور بیرونی دنیا کی مادی اشیا کے مماثل مقدار کے عدد اور اشکال‘ جدید دنیا صرف دوسرے اور تیسرے حقائق کے بارے میں جانتی ہے جبکہ اسلام ان تینوں سے خوب آشنا ہے۔ اسلامی آرٹ اور فنِ تعمیر میں ریاضی کا استعمال مادی اشیا سے ذہنی اختراعات اور طبعی میلان ہی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا ذریعہ بھی ہے جس کی چھاپ مادی اشیا پر موجود ہے اور یہ ایک ایسی سیڑھی ہے‘ جس کے ذریعے مادی اشیا کے مطالعے سے ہم روحانی حقائق تک پہنچ سکتے ہیں۔ جو سب سے زیادہ پختہ حقائق ہیں جن کے سامنے طبعی حقائق کی حیثیت تصورات سے زیادہ نہیں ہے۔ اس لیے اسلام میں ریاضی کا تصور جدید ریاضی کی طرح صرف مادی اشیا تک ہی محدود نہیں ہے۔
(بشکریہ: ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘۔ لاہور۔ فروری‘ مارچ ۱۹۸۱ء۔۔۔ ترجمہ: غلام مرتضیٰ)
اللّٰہ پاک آپ کو جزائے خیر دے نئی نسل کو آپ روشناش کرایا آپنے ہمارے ان اصلاف سے جن کے اس دنیا پر احسانات ہیں