
خلافت کا منشور جاری ہونے کے بعد مسلمانوں کی جانب سے سرکارِبرطانیہ سے دنیا بھر میں خلافت قائم کرنے کی سمت میں مدد فراہم کرنے کا واضح مطالبہ کیا گیا۔ اسی اثنا میں مسلمانوں کو بھی اس مقصد کے لیے متحد رہنے کا مطالبہ سامنے آیا۔ ان مطالبات کی موجودگی میں بال گنگا دھر تلک نے نہ صرف گاندھی کے مشوروں کی حمایت کی بلکہ اُسے یہ یقین بھی تھا کہ مسلمانوں کوغیر مذہبی بنیادوں پر سیلف رول یا سوراج (swaraj) کے موقف پر کانگریس میں شامل کیا جاسکتا ہے لیکن آر ایس ایس (Rashtriya Swayamsevak Sangh: RSS) کے بانی کیشا بلی رام ہیج ور نے اس کی کھل کر مخالفت کی کہ تحریکِ عدم تعاون (non-cooperation movement) کو تحریک ِ خلافت کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے تحریک خلافت کو کانگریس کی حمایت حاصل ہوگی جس کی وجہ سے تحریکِ خلافت کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوگی۔ گویا اس طرح خلافت کے موقف کو تقویت میسر آئے گی (ص۱۵)۔ ہیج ور اور گاندھی کے درمیان اس بات پر اختلاف بڑھا کہ ہیج ور نے خلافت تحریک اور عدم تعاون کی تحریک پر خلط مبحث پیدا کردیا اور اس نے دیہی علاقوں، مرکزی صوبوں اور بمبئی میں مہم چلائی۔ نفرت پھیلانے کے الزام میں ہیج ور کو گرفتار کرلیا گیا (ص۱۶)۔
صحافی نیلان جن پادھے (Nilanjan Mukhopadhyay) نے اپنی نئی کتاب The RSS: Icons of the India Right (۲۰۱۹ء) میں پہلا باب ہی کیشا بلی رام ہیج ور کے حالات پر تحریر کیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز میں مغل عمل داری میں بہت سے بے زمین برہمنوں کے خاندانوں کو نظام آباد ڈسٹرکٹ سے زبردستی بے دخل کردیا گیا۔ ان بے دخل ہندوؤں میں سے اکثر نے ناگپور کو اپنا ٹھکانا بنالیا جہاں ماراٹھا بونسل کی حکومت تھی۔ کیشا رام بلی رام ہیج ور کے پرداداکا شمار بھی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا۔(ص۱)
مصنف نے گاندھی کے اُس اقدام کو سراہا ہے، جس میں تحریک خلافت اور عد م تعاون کی تحریک کو باہم یکجا کیا گیا تھا تاکہ سرکارِ برطانیہ کی طاقت کا مقابلہ کیا جائے۔ گاندھی کے اس ایک قدم نے بھارت کی پوری آبادی کو برطانیہ مخالفت کے موقف پر جمع کیا۔ سرکارِ برطانیہ کے خلاف اس اتحاد سے پہلے کسی قسم کا سیاسی اتحاد نہ تھا۔ (ص۳۸۲)
آرایس ایس کے اکثر راہنما تحریک خلافت کے مخالف رہے ہیں۔ وینایک دمودار سوارکر نے بھی گاندھی کی مخالفت کی اور خلاف تحریک کو بھارت کے لیے آفت قرار دیا (ص۷۵)۔ دین دیال اُپادھیا نے بھی کہا کہ ’خلافت تحریک کو قومی تحریک کہنا اصل میں قوم پرستی پر ایک داغ ہے۔ ہم نے مسلمانوں میں اس فکر کو پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھیں بھارت کا شہری رہتے ہوئے بیرونی طاقتوں کے سامنے سرنگوں نہیں کرنا ہے‘۔(ص۲۱۹)
۴۶۲ صفحات پر مشتمل اس کتاب کا پیش لفظ کچھ اس طرح ہے: آرایس ایس کے گیارہ راہنماؤں کے ناموں پر مبنی ابواب تشکیل دیے گئے ہیں، جن کے ذریعے اس جماعت کے نظریات اور بھارت کے اہم واقعات میں اس کے کردار کو پیش کیا گیا۔ ان راہنماؤں کے نام یہ ہیں: کیشا ؤ بَلی رام ہیج ور، وینایک دمودار سوارکر، مادھو سداشوگول والکر، سیاما پرشاد مکرجی، دین دیال اُپادھیا، بلا صاحب دیوراس، وجے راج سندیا، اَٹل بہاری واج پائی، لال کرشن ایڈوانی، اشوک سنگھال اور بال ٹھاکرے۔
آر ایس ایس:بابری مسجد کا اِنہِدام
ان گیارہ افراد میں لال کرشن ایڈوانی بھی شامل ہے، جسے بھارت کی سیاسی لغت میں نئے نئے الفاظ پیش کرنے کے تعلق سے بھی شہرت حاصل ہے۔ انھوں نے بھارت کے شہروں میں موجود سیاسی بیانیے میں لب ٹارڈ (Libtard) اور بھکت (bhakt) جیسے الفاظ متعارف کرائے۔ لِب ٹار ڈ سے مراد ایسامتشدد لبرل (unyeilding liberal) ہے جو متعصب بھی ہو۔ ’بھکت‘ اُسے کہتے ہیں جو موجود حکومت کی حمایت میں اندھا پیروکار (blind devotee) ہو۔ ایڈوانی نے جعلی سیکولر ازم اور اصل سیکولر ازم کے درمیان فرق کو اس طرح نمایاں کیا ہے: سنگھ پری وار (sangh privar) اور اس کی ذیلی تنظیمیں (subsidiaries) اصل سیکولر ازم پر یقین رکھتی ہیں، جس کی بنیاد مساوات (equality for all) پر رکھی گئی ہے نہ کہ کسی ایک کو خوش رکھنے (appeasement of none) پر توجہ دی جائے۔ اس کے برعکس دوسری جماعتیں جن میں مسلمان جماعتیں خاص طور پر اہم ہیں جو صرف مذہبی اقلیتوں کو خوش رکھنے پر اپنی توانائی صَرف کرتی ہیں جو دراصل ہند و مخالفت ہے۔ اس وجہ سے انھیں جعلی سیکولر ازم کہا جاتا ہے(ص۲۷۷)۔
سنگھ پری وار میں ہمیشہ سے مَرد فیصلہ ساز حیثیت میں نمایاں رہے ہیں۔ وجے راج سندیا (Rajmata Vijaya Raje Scindia) واحد خاتون تھی جسے سنگھ پری وار میں بھارت گیر شہرت ملی۔ اب یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ مستقبل میں کسی دوسری عورت کو کبھی ایسی کوئی شہرت میسر آئے۔ سندیا ستمبر ۱۹۹۰ء میں وِشوا ہندو پریشد (Vishwa Hindu Parishad) کے کئی منصوبوں میں متحرک رہی۔ گجرات شہر میں ایل کے ایڈوانی کی رتھ یاترا (rath yatra) کا آغاز بھی اسی کے ہاتھوں ہوا، جس نے بھارت کے سیاسی منظرنامے کو اس طرح تبدیل کردیا کہ بی جے پی کو بھارت کی سیاست میں مرکزی شہرت حاصل ہوگئی۔ اس نے بیان دیا کہ بابری مسجد کے تنازعے کو ہر صورت میں تحفظ فراہم کیا جائے گا اور بعد میں جب اس سے پوچھا گیا کہ جس وقت بابری مسجد کے تین میناروں کو گرایا گیا تو اس وقت وہ کیا سوچ رہی تھی۔ اس پر اُس نے جواب دیا کہ ـ’خدا بھی ایسا چاہتا تھا۔ یہ خدا کی مرضی تھی‘۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد وہ سیاست سے الگ ہوگئی(ص۳۵۰)۔
آر ایس ایس نے ۱۹۸۰ء کے بعد سے کئی ایسی قراردادیں منظور کیں، جن میں ہندوؤں کو اُکسایا گیا تھا کہ اُن کے لیے کامیابی یقینی ہے اگر وہ قربانی دینے سے دریغ نہ کریں اور اس احتجاج میں بھرپور انداز سے حصہ لیں۔ بلا صاحب دیوراس (Balasaheb Deoras) کی جانب سے ـ اس قسم کی یقین دہانیوں اور ۱۹۹۱ء میں ہونے والے انتخابات کے نتائج نے ایودھیامیں رام مندر بنانے کی تائید حاصل کرلی۔ بی جے پی کی انتخابات میں کامیابی کو ایودھیا میں مندر بنانے کی جانب ایسا غیر مبہم فیصلہ سمجھا گیا، جو مرکزی حکومت اور اتر پردیش دونوں کے لیے تھا، تاکہ مندر بنانے کے لیے ہر طرح کی رکاوٹ کو دور کیا جائے۔ آر ایس ایس کے ایک سینئر راہنما جس نے اپنا نام مخفی رکھنے کی صورت میں بتایا کہ بابری مسجد کا انہدام منصوبہ بندی کے تحت ہوا یا نہیں، اس بارے میں جاننے کے لیے بلا صاحب کے بیان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بلا صاحب نے بابری مسجد کے انہدام کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ مسلمان اب جان سکیں گے کہ اس وقت کیسا محسوس ہوتا ہے جب ایک عبادت گاہ کو مسمار کیا جاتا ہے۔
(ترجمہ: جاوید احمد خورشید)
“The RSS: Icons of the Indian Right”. (“Tranquebar, Chennai 2019”)
Leave a Reply