
چینی حکومت نے کچھ دن پہلے ایک بڑے پراپرٹی ڈیلر کمپنی پر پابندی عائد کر دی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ چاند کی زمین بیچ رہی تھی۔ یہ کمپنی جس کا نام ’’مونا ولیج‘‘ تھا چینی عوام کو ایک ملین ہیکڑ سے زیادہ زمین بیچ چکی ہے۔ یہ کمپنی جس کو زمین بیچتی تھی اس کو وہاں کے نقشے‘ ایک نمونہ (جس پر اس کی املاک کی نشاندہی رہتی تھی) اور زمین سے متعلق ملکیت کے کاغذات بھی مہیا کرتی تھی۔ اس خبر کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چینی حکومت نے اس کمپنی کو دھوکا دہی یا جھوٹا کاروبار کرنے کے جرم میں بند نہیں کیا ہے بلکہ ان مسائل اور شکایات کا سیلاب روکنے کے لیے اس پر پابندی عائد کی ہے جو غیرملکی کمپنیوں کی جانب سے آنا شروع ہوئی تھیں اور جن کا دعویٰ یہ ہے کہ چاند کی ملکیت اور اس کی زمین کی خرید و فروخت کے اختیارات ان کے حق میں محفوظ ہیں۔
امریکا اور یورپ میں ایسی کمپنیاں ہیں جن کا یہ کاروبار بہت آگے تک پہنچا ہوا ہے۔ صرف ۲۰۰۴ء میں اس کاروبار سے ۲۵ ملین ڈالر کی کمائی کی گئی تھی۔ مثال کے طورپر برطانیہ میں ’’مونا لینڈ‘‘ کے نام سے ایک کمپنی ہے جو ۱۵ فیصد لوگوں کو چاند پر سستے داموں زمین خریدنے پر آمادہ کرچکی ہے۔ صرف امریکا میں ۲۳۴۵ بااختیار سائٹس ہیں جو چاند‘ مریخ اور نظام شمسی کے دوسرے کواکب پر زمین کی خرید وفروخت کے اختیارات اور حقوق کی مالک ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بیشتر کمپنیوں نے یہ حقِ فروخت کسی ایک شخص یا افراد سے خریدا ہے جس نے پہلے ہی اس کی ملکیت کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ مثال کے طور پر امریکا کی بیشتر کمپنیوں نے یہ حقوق ایک امریکی وکیل ڈینس ہوب سے خریدے ہیں جس نے ۱۹۶۲ء میں چاند کی ملکیت پر اپنا دعویٰ کیا تھا اور اس کو اپنے نام رجسٹریشن کرایا تھا۔ برطانیہ اور آسٹریلیا میں یہ حقوق ایک موسیقی کے ادارے ’’مون لائٹ‘‘ سے خریدے گئے تھے جس نے تقریباً ۸۰ سال لندن کے پراپرٹی رجسٹریشن آفس میں چاند کی ملکیت اپنے نام رجسٹرڈ کرائی تھی۔
لیکن میری حقیر معلومات کے مطابق سب سے پہلا احمق شخص جس نے چاند کو اپنے نام رجسٹرڈ کرایا تھا وہ چیلی کا شاعر جینا روکا جارڈو تھا جس نے ۱۹۵۳ء میں یہ حماقت کی تھی اور اس کی وجہ سے وہ اتنا مشہور ہوا تھا کہ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں ’’ناسا‘‘ نے چاند پر اپنا راکٹ ’’اپولو‘‘ اتارنے کے لیے اس شخص سے اجازت لی تھی۔ ۱۹۵۳ء میں جینا رکا جارڈو نے یہ درخواست کی کہ ’’سب سے پہلے ہاتھ بڑھانے‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے کسی دوسرے کو اس کی ملکیت نہ دی جائے۔ چنانچہ وہ رات میں اپنے شب خوابی کے لباس میں نکلا ( اس اندیشے سے کہ کہیں صبح تک کوئی اس پر سبقت نہ لے جائے) اور اپنے نام چاند کا رجسٹریشن کرا لیا۔ اس رجسٹریشن کو قانون کی رو سے درست سمجھا گیا کیونکہ اس سے پہلے چاند کے کسی سابق مالک کا وجود نہیں ملا۔ اس کے لیے روکاجارڈو کو بلدیہ کے آفیسر کو دینے کے لیے ۴۲ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
ہمیں ایک ستارے کو بیچنے کا واقعہ یاد آگیا جو انٹرنیشنل اسٹار رجسٹری کی ملکیت تھا۔ یہ تنظیم بین الاقوامی رجسٹریشن رکھتی ہے جو صرف دو سو ڈالر کے عوض آپ کی اپنی پسند کا ستارہ آپ کی ملکیت میں دے دی گی۔ اب تک صرف امریکا میں ۴۵۵ ہزار افراد معروف ستارے خرید چکے ہیں یا انہیں اپنے نام کرچکے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ نومبر ۲۰۰۴ء میں عرب امارات کے اخبار ’’البیان‘‘ نے مشرق وسطیٰ کی ایک خاتون رانیا القاسم کا انٹرویو شائع کیا تھا۔ اپنے انٹرویو میں اس نے جن چیزوں کا ذکر کیا‘ اس میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ امریکا و برطانیہ کے جاگیری ریکارڈ میں ستاروں کی فروخت عام ہے اور ستاروں کی جائے وقوع کی توثیق اُن فلکی نقشوں سے کی جاتی ہے جنہیں ’’ناسا‘‘ نے جاری کیا ہے۔ اس نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ ساڑھے سات لاکھ لوگوں نے ستارے خریدے ہیں جن میں برطانیہ کے ولی عہد‘ مشہور ایکٹرٹوم کروز‘ معروف کھلاڑی زین الدین زیدان بھی شامل ہیں۔ سیاروں کے علامی خریداروں میں ۹۰۰ سعودی ہیں جن کے پاس ایک یا ایک سے زائد سیاروں کی ملکیت ہے۔
(عربی روزنامہ ’’الریاض‘‘ سے ترجمہ)
Leave a Reply