
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ وہ بدعنوانی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، لیکن ہفتہ کی رات کابینہ کے وزرا اور سینئر شہزادوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریوں نے بہت سے عرب مبصرین کو حیران و پریشان کردیا کہ ان کا قدم اقتدار اور اختیار کو تقویت دینے کا خطرناک کھیل ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان، ۳۲ سالہ سعودی ولی عہد نے سلطنت کی انتہائی ممتاز کاروباری اور سیاسی شخصیات کے خلاف کارروائی کی ہے تاکہ ملک میں سیاسی غلبے کے علاوہ تیل سے مالا مال سلطنت میں صوابدیدی تبدیلیاں رونما کی جائیں۔ لیکن سعودی عرب کی ملکیت ’’العربیہ نیوز چینل‘‘ کے مطابق گرفتارشدگان میں ۱۱ شہزادے، ۴ وزرا اور درجنوں دیگر افراد شامل ہیں۔ ایک سعودی کاروباری کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان ایک ’’نیا سعودی عرب‘‘ تخلیق کررہے ہیں۔ مزید یہ کہ بدعنوانی کے خلاف مہم، ایک جارحانہ لیکن متنازع طرزِ عمل ہے جس کے تحت سعودی خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے علاوہ مذہبی پولیس پرپابندیوں کا نفاذ کیاگیا ہے۔
گرفتار شدگان کی فہرست میں شہزادہ متعب بن عبداللہ بھی شامل ہیں، جو سابق شاہ کے بیٹے اور سعودی نیشنل گارڈ کے سربراہ ہیں اور یہ عہدہ روایتی طور پر قبائلی قوت کا مظہر ہوتا ہے۔ نیشنل گارڈ، شاہی خاندان میں توازن برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ہوتاہے لیکن شہزادہ متعب بن عبداللہ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے یہ توازن بگاڑ دیا تھا۔
ایسامعلوم ہوتاہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب میں روایتی نظام طرزِ حکمرانی کو دانستہ مسمار کر رہے ہیں، جو ایک سست رو لیکن بعض اوقات شاہی خاندان میں موثر اتفاق اور رضامندی پرمشتمل ہے، لیکن نوجوان شہزادے نے جارحانہ انداز میں انتظامی اختیار اور قوت کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسے اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیاہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے ان کے اس جارحانہ طرزِ عمل کا آغاز اس وقت ایک ہفتے پہلے ہوگیا تھا، جب انہوں نے دنیا بھر کے فنی ماہرین اور کاروباری تجربہ کار افراد کی ایک کانفرنس کی میزبانی کی۔ ہفتہ کی رات کی گئی گرفتاریوں سے مخملی دستانے میں آہنی مکے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی اس مہم کا احوال ایک ویڈیو کلپ میں بیان کیا ہے، جو اس وقت سعودی میڈیا پر گردش کررہی ہے جس میں وہ عوام کو یقین دلارہے ہیں کہ بدعنوانی میں ملوث کسی بھی فرد کو (خواہ شہزادہ ہو یا وزیر یا کوئی دوسرا فرد) معاف نہیں کیا جائے گا۔ ان گرفتاریوں کے ساتھ ہی ایک سپریم کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے تاکہ گرفتار شدگان کی بدعنوانی کی تفتیش کی جائے۔ کمیٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ ضرورت کے مطابق کوئی بھی ضروری قدم اٹھا سکتی ہے جس کے تحت بدعنوانی میں ملوث فرد کے اثاثے ضبط کرنے کے علاوہ اس پر سفری پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے اس قدم کے ذریعے وہ راستہ اختیار کیا ہے جو انہیں سعودی نوجوانوں میں مقبول بنا سکے۔ نسلوں سے بدعنوانی، سعودی معاشرے میں سرایت کرچکی ہے جس کے باعث شاہی خزانہ کھوکھلاہو چکا ہے، اور ملک میں جدیدیت کی راہ میں مشکلات کھڑی ہورہی ہیں۔ سعودی ولی عہد کا یہ قدم ان سعودی نوجوانوں کو متحرک کرسکتاہے جو ایک نئی سلطنت کے خواہاں ہیں۔ وہ یہ بھی توقع کررہے ہیں کہ وہ مذہبی برادری کی حمایت سے ملک سے اشرافیہ کا قلع قمع کردیں گے۔
سعودی ولی عہد نے اب سابق بادشاہ عبداللہ کی طرف سے قیادت کے تخلیق شدہ نظام کو منتشر کردیا ہے، جن کی وفات ۲۰۱۵ء میں ہوئی۔ شہزادہ متعب کے علاوہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے شہزادہ ترکی بن عبداللہ کو بھی گرفتار کرلیا ہے جو ایک اور ممتاز بیٹے اور صوبہ ریاض کے سابق گورنر ہیں۔ علاوہ ازیں خالد بن توجیری کی بھی گرفتاری ہوئی ہے جنہوں نے عبداللہ کے شاہی دربار کے سربراہ کی حیثیت سے عملی وزیراعظم کا کردار ادا کیا تھا۔ جون میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سابق ولی عہد محمد بن نائف کو بھی عہدے سے ہٹا دیا تھا جنہوں نے بالآخر ان کے ۸۱ سالہ والد کا جانشین بننا تھا۔
اصلاحات کا نعرہ بلند کرنے کے ساتھ اس ہفتے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے اختیار کیا گیا مطلق العنان طرزِ عمل دیگر ممالک مثلاً چین کے مطلق العنان طرزِعمل کے مترادف ہے۔ جہاں چینی صدر شی جن پنگ نے بھی بدعنوانی کے خلاف مہم کے نام پر اپنے سیاسی مخالفین کو نکال باہر کیا ہے۔
سعودی ولی عہد کو ٹرمپ اور ان کے بااعتماد حلقے کی مضبوط حمایت حاصل ہے، جو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو ایک اصلاح پسند سمجھتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ گزشتہ ماہ ٹرمپ کے سینئر مشیر اور داماد Jared Kushner نے ریاض کا نجی دورہ کیا اور دونوں نے کئی راتیں اکٹھے بسر کیں، جن کے دوران انہوں نے ایک دوسرے کو اپنی داستانیں سنائیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو بجاطور پرسعودی ٹرمپ کہا جاسکتا ہے، لیکن چینی صدر شی جن پنگ کی طرف سے بدعنوانی کے خلاف مہم سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے مثال ثابت ہوسکتی ہے۔
“The Saudi crown prince just made a very risky power play”. (“Washington Post”. Nov.5, 2017)
Leave a Reply