
چند پولیس چوکیوں پر۲۰۱۷ء میں ایک چھوٹے مگر تربیت یافتہ مزاحمتی گروپ کے حملوں کے بعد میانمار کی فوج نے روہنگیا نسل کے مسلمانوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن شروع کیا۔ روہنگیا نسل کے مسلمانوں کو میانمار کی حکومت باضابطہ شہری تسلیم نہیں کرتی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ بنگالی مسلمان ہیں۔ کریک ڈاؤن میں ۱۰ ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ ۸۰۰ دیہات مکمل تباہی سے دوچار کردیے گئے اور کم و بیش ۸ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو نقل مکانی کرکے بنگلادیش کی سرزمین پر پناہ لینا پڑی۔ اس کریک ڈاؤن کو اقوام متحدہ نے ’’ٹیکسٹ بک کیس آف ایتھنک کلینزنگ‘‘ قرار دیا ہے۔ حقائق تلاش کرنے پر مامور ایک مشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جو کچھ ہوا وہ میانمار کی حکومت کی طرف سے قتل عام کی نیت کے اظہار کا نتیجہ تھا۔
دو سال سے کم و بیش ۱۰ لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلادیش میں پناہ گزین کیمپوں تک محدود ہیں۔ بین الاقوامی امداد کا گراف گرچکا ہے، اس لیے بہت سے روہنگیا پناہ گزین انسانی اسمگلروں کے ہتھے لگ چکے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کا بحران خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ علاقائی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ عام روہنگیا مسلمان تو خیر باعزت اور پُرسکون زندگی چاہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مظالم سہنے والے بہت سے روہنگیا نوجوان غیر معمولی مزاحمت کے لیے تیار ہیں۔ اگر انہیں کہیں سے مدد مل جائے تو صورتِ حال میانمار اور بنگلادیش دونوں کے لیے انتہائی خطرناک ہوجائے گی۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ میانمار کو سفارتی سطح پر طویل غیر معمولی تنہائی اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے جدوجہد کرنے والی آنگ سانگ سوچی بھی اپنی سیاسی وراثت کو داغ دار کرنے کے لیے تیار ہے۔ میانمار ایک بار پھر سفارتی اور سیاسی اعتبار سے چین کی طرف جھک رہا ہے۔ اگر بین الاقوامی دباؤ جاری رہا تو میانمار کی اقتدار پرست فوج کو رام کرنا انتہائی دشوار ہوگا۔ انتخابات کے موقع پر بُدھسٹ نیشنل ازم کو روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف ہوا دینا میانمار کی سیاست کا ایک اہم جُز رہا ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کی واپسی کے لیے میانمار کی حکومت نے بنگلادیشی حکومت سے بات چیت بھی کی ہے مگر اب تک ایک بھی روہنگیائی مسلمان نے تحفظ کی باضابطہ قانونی ضمانت اور مکمل شہریت کے بغیر میانمار کی سرزمین پر دوبارہ قدم رکھنے سے صاف انکار کیا ہے۔ معاملات سلجھتے دکھائی نہیں دے رہے۔ میانمار کی حکومت نے نومبر ۲۰۱۸ء میں روہنگیائی مسلمانوں کی واپسی سے متعلق دوطرفہ معاہدے پر عمل کے معاملے میں تساہل اور تاخیر سے کام لیا ہے اور دوسری طرف سرحد پر چوکسی مزید بڑھادی گئی ہے۔
آسٹریلیا کے اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے سیٹلائٹ کے ذریعے صورتِ حال کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ میانمار کی فوج روہنگیائی مسلمانوں کے دیہات کو تباہ کرتی جارہی ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کے خالی کیے ہوئے متعدد دیہات میں فوج اور پولیس کی چوکیاں اور دیگر تنصیبات قائم کردی گئی ہیں۔ چند ایک دیہات کو سلامت رہنے دیا گیا ہے اور ان میں وہی لوگ آباد ہوسکے ہیں جنہیں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ میانمار کے قانون کے تحت متروک زمین سے ملکیتی حق ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر روہنگیائی مسلمان بنگلادیش سے واپس آ بھی جائیں تو وہ اپنی ہی زمین پر آباد نہیں ہوسکیں گے۔
بنگلادیش میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں بسے ہوئے ۹ لاکھ سے زائد روہنگیائی مسلمانوں کے لیے بین الاقوامی حمایت اور مدد میں کمی آتی جارہی ہے۔ عالمی برادری اس طرف متوجہ نہیں۔ ۲۰۱۸ء میں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کا کمیشن ان پناہ گزینوں کے لیے مطلوبہ حد تک فنڈنگ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بحران عالمی برادری کے حوالے سے پس منظر میں جاتا جارہا ہے۔ ۲۰۱۸ء میں جس قدر فنڈ چاہیے تھے ان کا ۶۹ فیصد تک حاصل ہوسکا۔ باقی بوجھ بنگلادیشی حکومت کو برداشت کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ نے ۲۰۱۹ء کے لیے ۹۲ کروڑ ڈالر کی اپیل کی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے لیے قائم کیے گئے پناہ گزین کیمپوں کی حالت ابتر ہے۔ صحتِ عامہ کے حوالے سے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
امداد کے خلا کو پُر کرنے کے لیے ان پناہ گزین کیمپوں میں اسلامی سول سوسائٹی تنظیمیں داخل ہوچکی ہیں، جو خوراک اور تعلیم کے علاوہ صحتِ عامہ کے مسائل حل کرنے پر بھی بھرپور توجہ دے رہی ہیں۔ بنگلادیشی اسلامی گروپ، بشمول حفاظتِ اسلامی جو تشدد میں ملوث رہی ہے، ان پناہ گزین کیمپوں میں ایک ہزار سے زائد مدارس قائم کرچکے ہیں۔ روہنگیائی مسلمان عمومی طور پر امن پسند اور اعتدال پسند رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال ان کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ وہ اب انتہا پسندی کی طرف جاسکتے ہیں اور صورتِ حال فلسطین یا شام جیسا رنگ بھی پکڑ سکتی ہے۔
علاقائی سطح پر اس بحران کے حوالے سے میانمار پر سفارتی دباؤ برائے نام ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم ’’آسیان‘‘ میں روہنگیائی مسلمانوں کا مسئلہ علاقائی رائے عامہ کو تقسیم کرنے والے اشوز میں سرفہرست ہے۔ اب تک صرف ملائیشیا اور کسی حد تک انڈونیشیا نے یہ بحران حل کرنے کے لیے سفارتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ میانمار کو تھائی لینڈ، ویتنام اور فلپائن تک سے اس بحران پر حمایت حاصل ہوئی ہے۔
ملائیشیا نے روہنگیائی مسلمانوں کو پناہ گزین کے طور پر قبول کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ ملائیشیا میں اس وقت رجسٹرڈ روہنگیائی پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ ۷۶ ہزار ہے۔ ملائیشیا کی حکومت چاہتی ہے کہ ان پناہ گزینوں کو معیشت کا باضابطہ حصہ بنادیا جائے مگر اس حوالے سے ریاستی سطح پر شروع کیے جانے والے پروگراموں کو زیادہ کامیابی اس لیے حاصل نہیں ہوسکی کہ روہنگیائی مسلمان ملائیشیا کے زرعی شعبے میں کام نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس شعبے میں اجرت بہت کم ہے۔
دی اراکان روہنگیا سالیڈیرٹی ایسوسی ایشن (ارسا) نے بنگلادیشی سرزمین پر واقع پناہ گزین کیمپوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اُس نے اب تک اپنے ایجنڈے کے ۲۲ مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ ارسا سے وابستہ ہونے والے نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
بنگلادیشی فوج نے ارسا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے، مگر یہ سب کچھ نیم دلانہ سا تھا۔ پناہ گزینوں کو ڈھنگ سے چلانے کے لیے بنگلادیشی حکومت کو بھی ایک ایسی تنظیم درکار ہے جو باضابطہ ڈھانچا رکھتی ہو اور طاقت کا مظاہرہ کرنا بھی جانتی ہو۔ اب مشکل یہ ہے کہ ایسی کسی بھی تنظیم سے اپنے تعلق کا برملا اعلان کرنا بنگلادیشی حکومت کو خاصا مہنگا پڑسکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں عالمی امداد کا بہاؤ کمزور پڑسکتا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ ارسا جیسی تنظیم سے تعلق رکھنے کی صورت میں میانمار کی فوج سے مذاکرات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسے میں بنگلادیشی حکومت اور فوج دونوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ ارسا جیسی تنظیم سے خفیہ تعلق برقرار رکھیں، نوجوانوں کو تربیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور اگر اس معاملے میں ارسا کی تھوڑی بہت مدد بھی کرنی پڑے تو کی جائے۔ ایسی صورت میں بنگلادیشی فوج مذاکرات کی میز پر میانمار کی فوج سے مات نہیں کھائے گی۔
پناہ گزین کیمپوں میں غیر معمولی اثر و رسوخ رکھنے کی صورت میں ارسا کے تو مزے ہوگئے ہیں۔ ایک طرف وہ عالمی برادری سے ملنے والے فنڈ تک رسائی پانے میں کامیاب ہوئی ہے اور دوسری طرف دنیا بھر میں پھیلے ہوئے روہنگیائی مسلمانوں سے بھی ’’عطیات‘‘ وصول کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ ملائیشیا میں آباد روہنگیائی مسلمانوں سے اس تنظیم نے ۲۰ ہزار ڈالر اس دھمکی کی بنیاد پر بٹورے کہ بنگلادیشی سرزمین پر قائم کیمپوں میں اُن کے رشتہ داروں کو کچھ ہوسکتا ہے! ملائیشیا کی اسپیشل برانچ میں انسدادِ دہشت گردی کے سربراہ نے بتایا کہ ملائیشیا میں بہت سے روہنگیائی مسلمانوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، جس کے باعث وہ بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ میانمار کی ریاست رکھائن میں اب بھی اُن کے اہل خانہ ہیں اور ارسا کے ارکان اُنہیں نقصان پہنچانے کی دھمکی دے کر وصولی کرتے ہیں۔
ارسا کے پاس ہتھیار ہیں نہ تربیت یافتہ جنگجو۔ وہ میانمار کی فوج کے خلاف کوئی بڑی مہم چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے میں بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ بنگلادیش میں قائم پناہ گزین کیمپوں تک خود کو محدود رکھ کر ’’عطیات‘‘ بٹورے جائیں۔ یہ کیمپ ہی اُس کی طاقت کا مرکز ہیں۔ رکھائن میں بدھسٹ انتہا پسند گروپ البتہ بہت منظم اور مضبوط ہیں۔ اس ریاست میں چونکہ انٹرنیٹ بند کیا جاچکا ہے، اس لیے وہاں کی صورتِ حال کے بارے میں پوری درستی کے ساتھ کچھ جان پانا انتہائی دشوار ہے۔
جنوب مغربی ایشیا میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب کے ہاتھوں روہنگیائی مسلمانوں کے بحران میں شدت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ بنگلادیش کے پناہ گزین کیمپ بھی سیلاب کی زَد میں ہیں، جس کے نتیجے میں کم و بیش ۶۰ ہزار افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں کیونکہ اُن کی جیسی تیسی چھت بھی چھن چکی ہے۔ تھائی لینڈ میں حالیہ گرفتاریوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی اسمگلنگ نیٹ ورک ڈٹ کر کام کر رہے ہیں۔
ارسا سے لاحق خطرات اگرچہ کم ہیں مگر روہنگیائی مسلمانوں میں انقلابی جذبات کو بھڑکانے والے عوامل تو بہت ہیں۔ اگر ارسا جیسی تنظیمیں زیادہ کامیاب نہ بھی ہوں تو بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے انتہا پسند گروپوں کی طرف سے روہنگیائی نسل کے مسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرنا چنداں دشوار نہیں۔
ارسا نے القاعدہ یا داعش جیسے گروپوں سے کسی بھی نوع کی مدد پانے کا انکار کیا ہے۔ پہلے اس گروپ کا نام حرکت الیقین تھا۔ یہ اعتدال پسندی کا دعویٰ کرتی رہی ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پناہ گزین کیمپوں میں اِس نے سخت تر اصول نافذ کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔
بین الاقوامی جہادی گروپوں نے روہنگیائی مسلمانوں کی مدد کے حوالے سے اب تک محض رسمی نوعیت کے اعلانات کیے ہیں۔ القاعدہ نے روہنگیائی مسلمانوں کو دربدر کرنے پر میانمار کی حکومت سے بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے ستمبر ۲۰۱۷ء کے ایک بیان میں القاعدہ نے کہا ’’اراکان میں مسلم بھائیوں کو جو کچھ سہنا پڑا ہے اُس کی سزا دیے بغیر چارہ نہیں۔ میانمار کی حکومت کے ہاتھوں جو کچھ اراکان کے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا ہے وہی کچھ اب میانمار کی حکومت کو بھی بھگتنا پڑے گا‘‘۔
داعش کے رہنما شیخ ابو ابراہیم الحنیف نے داعش کے ایک جریدے دبیق سے انٹرویو میں کھل کر کہا تھا کہ ’’جیسے ہی ہم میانمار کی حکومت پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے، حملے ضرور کریں گے‘‘۔ بھارت میں بھی القاعدہ کے چند ارکان پکڑے گئے ہیں، جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کو حملوں کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ داعش کے لیڈر ابو بکر البغدادی نے جولائی ۲۰۱۴ء کی ایک تقریر میں روہنگیائی مسلمانوں کا حوالہ دیا تھا، تاہم اُس کے بعد سے اُس نے کچھ نہیں کہا۔
اسلام کو خطرے میں بتاکر نوجوانوں کو بھرتی کرنا بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے انتہا پسند گروپوں کا وتیرہ رہا ہے۔ ایسے میں روہنگیائی مسلمانوں کے لیے حمایت کے معاملے میں نیم دلانہ رویے کا اظہار حیرت انگیز ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عرب دنیا سے ابھرنے والے جہادی گروپوں نے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کے حوالے سے ہمیشہ بے رخی پر مبنی رویہ اپنایا ہے۔ اگر ان گروپوں نے کبھی روہنگیائی مسلمانوں کی بھرپور مدد کا ارادہ کیا بھی تو ایسا محض موقع پرستی کی بنیاد پر کیا ہوگا۔
ملائیشیا اور دیگر ممالک میں انقلابی نظریات رکھنے والے انتہا پسند روہنگیائی مسلمانوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ رواں سال جنگجویانہ ذہنیت کے حامل چار روہنگیائی مسلمانوں کو ملائیشیا میں گرفتار کیا گیا ہے۔
مئی میں دو روہنگیائی، ایک ملائیشین اور ایک انڈونیشین مسلمان کو گرفتار کیا گیا۔ یہ چاروں داعش سے بیعت تھے۔ انہوں نے تفریحی مراکز کے علاوہ ہندو، عیسائی اور بدھسٹ معابد کو تباہ کرنے اور کوالا لمپور میں میانمار کے سفارت خانے کو بم سے اڑانے کا عہد کیا تھا۔ علاوہ ازیں وہ چند بڑے سیاسی قتل بھی کرنا چاہتے تھے۔
جون میں ملائیشین پولیس نے ایک روہنگیائی مسلمان اور داعش کے ایک رکن کو گرفتار کیا۔ ان دونوں نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے جانے والے ایک پیغام میں بنگلادیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو قتل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ملائیشیا کی ریاست کیداہ سے تعلق رکھنے والے ایک امام کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس ریاست میں روہنگیائی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ ملائیشیا کے وزیر دفاع مات صابو نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ بحران اگر مزید زور پکڑے گا تو روہنگیائی مسلمانوں کو خود کش بمبار کے طور پر اور دیگر حیثیتوں میں استعمال کرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
ملائیشیا میں روہنگیائی سول سوسائٹی اور انجمنوں نے عام روہنگیائی مسلمانوں میں انقلابی جذبات کی روک تھام کے لیے بہت کام کیا ہے۔ انہوں نے عام روہنگیائی مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے امن پسندی کی طرف لانے کی کوشش کی ہے کہ جنگجویانہ ذہنیت کے مظاہرے سے ملائیشیا میں آباد تمام روہنگیائی مسلمانوں کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی اور ہجرت کرنے والوں کے لیے بھی اضافی مسائل پیدا ہوں گے۔ اس حوالے سے کام کرنے والے ایک ملائیشین سرکاری افسر نے بتایا کہ روہنگیائی مسلمان اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ملائیشیا نے ان کے معاملے میں غیر معمولی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان میں منتقم مزاجی برائے نام ہے کیونکہ ماضی میں انہوں نے بہت کچھ سہا ہے۔ یہ ذہنیت اُن کے مسائل میں صرف اضافہ کرے گی۔
مگر خیر، ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ انقلابی ذہن رکھنے والے بہت چھوٹی تعداد میں درکار ہوتے ہیں۔ ایک سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ پورا ایکو سسٹم موجود ہے، بس ٹریگر کی دیر ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The security challenges of the intractable Rohingya crisis”. (“warontherocks.com”. July 31, 2019)
Leave a Reply