
سوئٹزر لینڈ کا بھلا ہو کہ جو یورپ کا تنہا ملک ہے جس نے غزہ میں رونما ہونے والے واقعات کی مذمت کی جرأت کی ہے۔ سوئس حکومت نے کہا کہ یہ اجتماعی سزا ہے۔ یہ تناسب کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل نے وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں جن کا بین الاقوامی قانون شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے تقاضہ کرتا ہے۔ لیکن جنیوا کنونشنز کا مسکن ہونے کے ناطے جو کہ ۲۰ ویں صدی کے نقصانات سے باہر آنے میں ایک کلیدی اور قانونی پیش رفت کی حیثیت رکھتے ہیں‘ سوئٹزر لینڈ کا فرض بنتا ہے کہ وہ آواز اٹھائے۔ اس ملک کے بیانات یورپی یونین کی بے شرمی پر مبنی کمزور آواز کے برعکس ہیں۔ فلسطینیوں نے دو اسرائیل سپاہیوں کو قتل کیا اور ایک سپاہی کو گرفتار کرلیا۔ اس کے جواب میں اسرائیلیوں نے پاور اسٹیشن تباہ کردیا‘ پانی و سیوریج کے نظام کو درہم برہم کر ڈالا‘ پلوں کو تباہ کرڈالا نیز تیز رفتار جہازوں کی پروازیں بچوں کو دن رات خوفزدہ کررہی ہیں۔ یہ سارے مظالم بھوکے عوام پر توڑے جارہے ہیں جو زیر محاصرہ ہیں گویا کہ وہ جگہ فلسطینیوں کے لیے ایک بہت ہی بڑا قید خانہ ہے۔ یورپ کا ردعمل کیا ہے؟ مبہم سا اظہار تشویش اور تحمل کی تلقین۔ کیا یہ ورلڈ کپ والا پاگل پن ہے‘ یا پھر آخری لمحوں میں گرمیوں کی چھٹیوں کے لیے دی جانے والی رعایتی پیکج کے لئے بھیڑ؟ کیا یورپی رہنما اسرائیلی کالم نگار Gideon Levy کی جرأت کا دسواں حصہ بھی نہیں دکھا سکتے ہیں جس نے گزشتہ ہفتہ ’’حارِذ‘‘ میں لکھا: ’’یہ کسی بھی طرح جائز نہیں کہ ساڑھے سات لاکھ لوگوں کو بجلی سے محروم کردیا جائے اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ ۲۰ ہزار لوگوں سے گھر چھوڑنے کے لیے کہا جائے اور اس کی آبادیوں کوبھیانک ویرانے میں تبدیل کردیا جائے یہ بھی جائز نہیں کہ حکومت کے نصف لوگوں کو اور پارلیمنٹ کے ایک چوتھائی لوگوںکو اغواء کرلیا جائے۔ وہ ریاست جو ایسا کرتی ہے وہ کسی بھی طرح کسی دہشت گرد تنظیم سے مختلف نہیں ہے۔‘‘ گزشتہ دنوں ارکان پارلیمنٹ کے سامنے اپنی دو گھنٹے کی حاضری کے دوران ٹونی بلیئر ظاہر کر سکے وہ یہی ہے کہ وہ چہار دیواری پر بیٹھنے والے ایک روایتی تماشائی ہیں۔ انہوں نے فرمایا ’’ میں نے برسوں اس صورتحال سے متعلق کافی معلومات حاصل کی ہیں جن کی بناء پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں پڑنا اور کسی بھی فریق کی مذمت کرنا زیادہ مفید نہیں ہے۔‘‘
اسرائیلی‘ فلسطینی تنازعہ میں یورپ کی بے حسی و کمزوری حقیقتاً ایک پرانا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی تازہ ترین شدت کاآغاز جنوری میں حما س کی فتح کے بعد ہوا۔ یہ وہ واقعہ ہے جس کے عظیم ترین اثرات اسرائیل پر مرتب ہونا لازمی ہے اور یہ فلسطینی ریاست کے ساتھ ہر ریاست کے تعلقات پر بھی اثرانداز ہوگا۔ اس کے علاوہ پوری عرب دنیا میں سیاسی اسلام بھی اس سے متاثر ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے درمیان مغرب کی تصویر کو بھی یہ متاثر کرے گا۔ مختصر یہ کہ یہ وہ لمحہ ہے جب خاموشی برائے غور و فکر کی سفارتی تکنیک کو اختیار کرنا عین وقت کا تقاضہ خیال کیا جائے گا۔ یہ حربہ ہمیشہ غیر ضروری تاخیر پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس وقت یہ حقیقی ضرورت ہے کہ مسئلے کا تجزیہ کیا جائے اور کسی نتیجے پر پہنچنے میں جلدی کرنے سے قبل رابطے سے کام لیا جائے۔ کوئی جلدی نہیں ہے جبکہ اسرائیل صدر محمود عباس کے ساتھ مذاکرات کرنے سے پہلے ہی انکار کررہا ہے۔ اس کے باوجود یورپی یونین بڑی پھرتی سے امریکا اور اسرائیل کی صف میں جاکھڑے ہوئے اور حماس سے یہ مطالبہ کرنے لگے کہ وہ اپنی پالیسی تبدیل کرے ورنہ بصورتِ دیگر اسے سزا بھگتنی ہوگی۔ چار عناصر پر مشتمل ایک قدرے حالیہ باڈی اس لیے تشکیل دی گئی ہے کہ امریکا‘ یورپی یونین‘ روس اور اقوامِ متحدہ کی پالیسی میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے یہ امریکی وزارتِ خارجہ کے آلہ کے طور پر ایک ایسے جال میں تبدیل ہوجائے جس کے ذریعہ دوسرے ممالک کو بھی اسی خط پر لایا جاسکے۔ یہ چار رکنی باڈی بھی حماس سے وہی مطالبہ کرتا ہے جو اسرائیل کے مطالبے سے مختلف نہیں ہے۔ بعض یورپی سفارتکار کو اپنی عجلت پر اب افسوس ہے۔ فلسطینیوں کی امداد بند کرنے ان سے رابطہ منقطع کرلینے کو وہ غلطی تصور کررہے ہیں۔ گزشتہ ماہ غزہ کو امداد بحال کرنے کے طریقے کی تلاش کے حوالے سے فرانسیسی اقدام چار رکنی باڈی کی جانب سے اپنی غلطی کا پہلا اعتراف ہے۔ حماس کے ساتھ رابطے سے انکار بھی ایسی ہی غلطی تھی خاص طور سے ایسی حالت میں جبکہ حماس ایک سال سے یکطرفہ جنگ بندی پر عامل ہے۔ (یہ وہ نکتہ ہے جس کو اسرائیل دبا دینا چاہتا ہے۔) یہ حقیقت کہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا ہے لیکن اسے اس کے ساتھ گفتگو میں کبھی رکاوٹ نہیں سمجھنا چاہیے جبکہ اسی طرح کی تحریکوں مثلاً Tamil Tigers ‘IRA یا ETA سے اس کی حکومتوں نے گفتگو کی ہے۔ ایک بار پھر شکرگزار ہونا چاہیے سوئٹزر لینڈ کا کہ غیریورپی ارکان جن کا حماس کے ساتھ رابطہ ہے اور وہ دوسری یورپی یورپی حکومتوں کے لیے ثالث کا کام کررہے ہیں جنہوں نے اپنے آپ پر خوامخواہ حماس کے ساتھ رابطہ نہ کرنے کی پابندی عائد کرلی ہے۔ حالیہ بحران کا نتیجہ غیر واضح ہے۔ جب بھی یہ ختم ہوتا ہے تو یورپ کے لیے یقیناً وہ موقع آئے گا کہ وہ اسرائیل اور امریکا کی حمایت کرنے کی اپنی بے فائدہ پالیسی ترک کردے۔ اولمرٹ حکومت نہ صرف حماس کو بلکہ محمود عباس کو بھی تباہ کردینا چاہتی ہے۔ شیرون کی طرح یہ ہر معتدل فلسطینی پر بھی ضرب لگانا چاہتی ہے اُن کو یہ احساس دلانے کی خاطر کہ وہ کس قدر بے بس ہیں۔ یہ صرف بالادستی کی خواہاں ہے مذاکرات کی نہیں۔آیا ان کا حتمی ایجنڈا فلسطینیوں کو بھوکا مارنا ہے تاکہ وہ مصر‘ اُردن حتی کہ اس سے بھی دور فرار کر جائیں یا صرف غزہ کو بے روزگاروں کا قید خانہ بنا کر رکھنا ہے۔ مغربی کنارہ کو Bantustans کے ایک گچھے میں تبدیل کرکے اسرائیلی پالیسی تنازعہ سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ہر قرارداد کا مذاق اُڑا رہی ہے۔ یورپی یونین کو یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ امن کے معاملے میں فلسطینیوں کا کوئی شریک نہیں ہے۔ انہیں کوئی شریک اُسی وقت مل سکتا ہے جب اسرائیل فلسطینیوں کے کام کرنے کے حق کو تسلیم کرلے۔ وہ بیانات جن میں فلسطینی ریاست کے وجود کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے اُس وقت تک کھوکھلے تصور کیے جائیں گے جب تک اولمرٹ یہودی بستیاں بسانے اور دیوار کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھتا ہے نیز اس بات کی وضاحت سے انکار کرتا ہے کہ کس طرح یہ ریاست ایک موثر مملکت کے طور پر کام کرے گی۔ کام کرنے کے حق کو تسلیم کیے بغیر اس کے وجود کے حق کو تسلیم کرنا ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔ المرٹ اور اس کی لیبر پارٹی کے حلیفوں کو آخری سنجیدہ اسرائیلی امن فارمولا پر بھی اپنا موقف واضح کرنا چاہیے جو یہود البارک کی تجاویز کا حصہ تھا۔ جسے آج سے پانچ سال قبل Taba میں سامنے لایا گیا تھا۔ فلسطینیون نے انہیں تسلیم نہیں کیا لیکن حالات مایوس کن تھے یعنی بارک حکومت زوال آمادہ تھی اور یاسرعرفات بیمار تھے۔ اس طرح کی تجویز اس وقت قابل قبول ہوسکتی ہے اور اسے دوبارہ سامنے لانا چاہیے۔ اگر Taba, Kadima کے مقابلے میں کسی کمتر چیز کو پیش کرنا چاہتی ہے یا فلسطینیوں پر مسلط کرنا چاہتی ہے تو پھر اسرائیل یہ ہرگز دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ تنازعہ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ آخری بات یہ کہ اسرائیل کو بہرحال تشدد ترک کرنا ہوگا خاص طور سے فلسطینی رہنمائوں کا قتل بند کرنا ہوگا۔ اس سال اسرائیلی حملوں میں فلسطینی شہریوں کی جو تعداد قتل ہوئی وہ اسرائیلیوں کے مقتول افراد سے کہیں زیادہ ہے۔ حماس گزشتہ سال سے جنگ بندی کا اعلان کیے ہوئے ہے۔ حقائق ان دعوئوں تصدیق نہیں کرتے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اشتعال انگیزیوں کا جواب دے رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے فلسطینیوں کا اسرائیل کے فوجی آئوٹ پوسٹ پر جو حملہ تھا اس کے بعد اسرائیل کی مسلط کردہ تباہی کہیں زیادہ عظیم تھی۔ بعض لوگ یہ دلیل پیش کریں گے کہ اگر یورپی یونین اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کرتی ہے تو وہ اسرائیل پر اپنا اثر و رسوخ کھو دے گی۔ لیکن اس مبینہ اثر و رسوخ سے کیا حاصل ہوا جبکہ شیرون اور اولمرٹ اقتدار میں رہے۔ ریکارڈ بہت ہی خراب ہے۔ حکومتیں اس وقت زیادہ اثر و رسوخ کی حامل ہوتی ہیں جبکہ اخلاقی لحاظ سے پاک ہوں اور سیاسی موقف کے لحاظ سے مضبوط ہوں۔ مذمت اور سیاسی تنہائی زمین پر وہ حقائق تخلیق کرتی ہے جو انتخابی حلقوں کو ہوشیار کرسکتے ہیں اگر فوری طور سے وہ حکومتوں کو تبدیل نہ کرسکیں تب بھی۔ لیکن مشاہدین صرف اسرائیل میں تو نہیں بلکہ پورے عالم میںہیں جو یورپ سے صحیح موقف کی توقع کرتے ہیں۔’’آیا اسرائیل سننے کے لیے تیار ہے یا نہیں‘‘ اسے ایک فیصلہ کن عامل نہیں ہونا چاہیے۔
(The Guardian News Service July 7,2006)
Leave a Reply