
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر بین الاقوامی امن فوج تعینات نہ کی گئی تو صلیبی دہشت گرد گروہوں کے ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کے باعث ’’جمہوریہ وسطی افریقا‘‘ کے مسلمان اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے جمہوریہ وسطی افریقا کی حکومت اور فرانس سے مطالبہ کیا ہے کہ جمہوریہ وسطی افریقا میں بچے کھچے مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمائندہ جان گِنگ نے بھی جنیوا میں ایک نیوز کانفرنس میں خبردار کیا تھا کہ اگر جمہوریہ وسطی افریقا کے حالات پر قابو نہ پایا گیا تو صلیبی دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کا قوی اندیشہ ہے، انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی ویسے ہی حالات پیدا کیے جارہے ہیں جیسے اس سے قبل روانڈا اور بوسنیا میں پیدا کیے گئے، جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ انہوں نے معاملے کی سنگینی کو واضح کیا اور عالمی طاقتوں پر الزام لگایا کہ وہ سالہا سال سے دانستہ طور پر جمہوریہ وسطی افریقا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے چشم پوشی کررہی ہیں۔ یہ نیوز کانفرنس انہوں نے جمہوریہ وسطی افریقا کے پانچ روزہ دورہ کے بعد کی تھی۔
جمہوریہ وسطی افریقا، وسطی افریقا کی ایک ریاست ہے۔ اس کے چاروں اطراف میں دیگر افریقی ممالک ہیں، شمال میں ’’چاڈ‘‘ مشرق میں ’’سوڈان‘‘، جنوب میں ’’کانگو‘‘ اور مغرب میں ’’کیمرون‘‘ کی ریاستیں ہیں۔ ساحل سمندر سے محروم یہ ملک 620,000 مربع کلومیٹر کے کل رقبہ کامالک ہے، جہاں ۲۰۰۸ء کی مردم شماری کے مطابق ۴ء۴ ملین کی کل آبادی رہائش پذیر ہے اور’’بنگوئی‘‘ یہاں کا دارالحکومت ہے۔ ۱۳؍اگست ۱۹۶۰ء کو فرانسیسی استعمار یہاں سے رخصت ہوا تو یہاں کے عوام نے آزادی کا سانس لیا۔ یہاں کی اکثریت مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہے اور آبادی میں ۱۵ ؍فیصدکی شرح سے مسلمان کلمہ گو بھی سب سے بڑی اقلیت کی صورت میں موجود ہیں۔ دورِ غلامی کی باقیات کے طور پر فرانسیسی زبان یہاں کی دفتری زبان ہے جبکہ مقامی زبان ’’سونگو‘‘ ہے جو باشندگان کے درمیان کثرت سے بولی جاتی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صلیبی ملیشیا وہاں کے مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کر رہی ہے۔ ایک عینی گواہ حسین ابراہیم نامی طالب علم نے، جو بے حد سہما ہوا تھا، بتایا کہ اس کے سامنے صلیبی دہشت گردوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور انہیں جانوروں کی طرح ذبح کیا۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک ماہ قبل گھر چھوڑ چکا ہے اور سینیگال کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے تھا، جہاں سے بمشکل ہجرت کر کے اب مہاجر کیمپ پہنچا ہے۔ تادمِ تحریر لاکھوں مہاجرین سلطنت مالی کے دارالحکومت ’’باماکو‘‘ میں خیمہ نشین ہیں، جو صدیوں اور نسلوں سے جمہوریہ وسطی افریقا کے باشندے اور باسی تھے۔ عالمی تنظیم مہاجرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پچاس ہزار سے زائد افراد ہیں جنہیں جمہوریہ وسطی افریقا سے نکالنا ضروری ہے۔ ان افراد کے انخلا کے لیے یہ عالمی تنظیم حکومت مالی کے ساتھ مل کر طیاروں کا انتظام کررہی ہے، کیونکہ زمینی راستوں میں صلیبی دہشت گردکسی مسلمان کو زندہ چھوڑنے کے روادار نہیں ہیں۔ جمہوریہ وسطی افریقا میں اس وقت حالات پر گرفت رکھنے کے لیے ۱۶۰۰؍فرانسیسی افواج اور ۴۰۰۰؍افریقی سپاہ موجود ہے اور اس کے باوجود صلیبی ملیشیا کو کھلی چھٹی ہے اور مسلمانوں پر اٹھنے والے ہاتھوں اور مسلمانوں کا نشانہ لینے والی بندوقوں کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ بادی النظر میں شاید یہ افواج بھی صلیبی دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کررہی ہیں اور وہاں کی شہری آبادیوں کو بچانے میں بُری طرح ناکام ہیں۔ فروری ۲۰۱۴ء کے آغاز میں ایمنسٹی انٹرنیشل کے وفد نے ایک مسلمان بستی ’’یالوکے‘‘ کا دورہ کیا جس میں 30,000 مسلمان آباد تھے اور آٹھ مساجد قائم تھیں۔ دورے کے وقت صرف پانچ سو مسلمانوں نے ایک مسجد میں پناہ لی ہوئی تھی اور ’’انٹی بلاکا‘‘ کے صلیبی دہشت گرد بقیہ کل مساجد اور املاک کو نذر آتش کررہے تھے اور گھروں میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا جبکہ اقوام متحدہ کی امن فوج اپنی آنکھوں سے ان حالات کا تماشا دیکھ رہی تھی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک آٹھ لاکھ سے زائد افراد پڑوسی ملکوں کے مہاجر خیموں میں پناہ گزین ہو چکے ہیں، جن کی خوراک کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ کم و بیش ایک سال سے چلنے والی چکی، جس میں مسلمان بُری طرح پِس رہے ہیں، اس پر کسی مسلمان راہنما نے کوئی بیان تک نہیں دیا۔ لے دے کے انسانی بنیادوں پر دیارِ غیر سے ہی کچھ صدائیں بلند ہوئیں۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے ٹھیکیدار اداروں نے بھی مجرمانہ چپ سادھ رکھی ہے۔ صرف ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امرعبداﷲ نے ان حالات پر افسوس کا اظہار کیا ہے، صلیبی ملیشیا کی قتل و غارتگری کی مذمت کی ہے اور اپنے ملک کی طرف سے متاثرین کے لیے امداد بھیجنے کا بھی ارادہ ظاہر کیاہے۔
صلیبی دہشت گرد تنظیم ’’اینٹی بلاکا‘‘ مذکورہ ریاست میں خون کی ہولی کھیل رہی ہے اور اب تک مسلمانوں کی کئی بستیاں اور گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹا چکی ہے۔ اس تنظیم کی تاسیس اُس وقت ہوئی، جب ریاست کے صدر کی حیثیت سے ایک مسلمان راہنما نے حلف اٹھایا اور اب جب کہ وہ مسلمان راہنما منصب صدارت سے مستعفی ہو چکے ہیں تو بھی اس تنظیم کے انتقام میں کوئی فرق نہیں آیا۔ خالصتاََ مذہبی تعصب کی بنیاد پر وہاں کے صلیبیوں نے مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے یہ تنظیم بنائی۔ اس تنظیم میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔ گلے میں لٹکتے ہوئے تعویذ سے یہ لوگ پہچانے جاتے ہیں، جو اِن کے دہشت گردانہ لباس کا لازمی حصہ ہے۔ یہ گروہوں کی صورت میں کل ریاست کے اندر منڈلاتے رہتے ہیں۔ ان پر کوئی قانون اور کسی ضابطے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جب کسی مسلمان بستی پر حملہ آور ہوتے ہیں تو عورتوں، بچوں اور بزرگوں کا بھی خیال نہیں کرتے۔ ’’اینٹی بلاکا‘‘ کی قیادت کے مطابق ان کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اپنے ملک کو آزاد ی دلانا چاہتے ہیں۔
اسی افریقا میں اگر حالات مختلف ہوتے اور مسلمانوں کے ہاتھوں شہریوں کے قتل کی خبریں آرہی ہوتیں تو دنیا میں کہرام مچ جاتا، عالمی ادارے اور سیکولر میڈیا چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتا، معاشی پابندیاں لگ جاتیں اور اقوام متحدہ کی افواج جہازوں میں بھر بھر کر وہاں پہنچ جاتیں۔ اس سیکولر تہذیب نے جس طرح انسانیت کی آنے والی نسلوں تک کا استحصال کیا ہے، اس کی نظیر ملنا شاید ممکن نہ ہو، لیکن اب مغرب کے گھپ اندھیرے کے بعد مشرق سے پھوٹنے والی افق کی روشنی انسانیت کے لیے بالیقیں نوید صبح روشن ہے۔
Leave a Reply