
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل،مصر، سوڈان اور شام کے درمیان ۱۹۶۷ء میں چھڑنے والی جنگ کو پچاس برس گزر چکے ہیں، تاریخ نے خطہ میں جنگ کی ہولناکیوں کو طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھلایا نہیں ہے، اس جنگ کا دورانیہ ایک ہفتے سے کم تھا لیکن اس کی گونج نصف صدی گزرنے کے بعد بھی سنائی دیتی ہے۔
مصر نے اقوام متحدہ کی امن فوج کو غزہ اور سینا سے نکلنے کا حکم دیا تھا اور آبنائے تہران کو اسرائیل کے لیے بند کردیا تھا جواب میں اسرائیل نے مصر کی ایئرفورس پر حملہ کر کے جنگ کا آغازکیا،اسرائیل نے حملے میں پہل کی تھی لیکن اکثر مبصرین کسی بھی خطرے سے قبل دفاعی حملے کے طور پر اسے اسرائیل کے لیے جائز قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل نے صرف مصر پر حملہ کیاتھا اور وہ اس جنگ کو پھیلانا نہیں چاہتاتھا لیکن مصر کے ساتھ ساتھ سوڈان اور شام کی شمولیت نے اس جنگ کو مشرق وسطیٰ میں پھیلادیا،یہ جنگ عرب دنیا کے لیے بہت مہنگی ثابت ہوئی،صرف چھ دنوں کی اس جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی، وادی سینا، گولان ہائٹس، مغربی کنارہ سمیت پورے یروشلم پر قبضہ کر لیا، اس جنگ سے پہلے اسرائیل ایک چھوٹا سا علاقہ تھا لیکن اس جنگ کے بعداسرائیل کا موجودہ رقبہ پرانے اسرائیل سے تین گنا زیادہ بڑھ گیا۔ چھ دن کی مسلسل کوششوں کے بعد جنگ بندی کے معاہدے پردستخط ہوئے۔
اس جنگ نے اسرائیل کی برتری ثابت کردی اور اسرائیل کو ختم کرنا ناممکن ہوگیا، اپنی بقا کے لیے اسرائیل نے ۱۹۴۸ء اور ۱۹۵۶ء میں جنگیں لڑیں لیکن ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد دنیا نے اسرائیل کو مستقل ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ نئی اسرائیلی ریاست دنیا میں ایک مقام رکھتی ہے۔ وہ عرب رہنما جو اسرائیل کو ختم کرنے کی باتیں کرتے تھے اب وہ اسرائیل کو ۱۹۶۷ء سے پہلے کی سرحدوں تک لانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تاہم چھ روزہ جنگ کے بعد بھی امن قائم نہیں ہوسکا یہاں تک کہ ۱۹۷۳ء کی جنگ کی نوبت آئی اور ۱۹۷۳ء کی جنگ کا نتیجہ کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدے کی شکل میں سامنے آیا۔ اس دوران عرب ممالک کے اندرونی تنازعات ابھر کے سامنے آنے لگے عرب ریاستوں پر اسرائیل کا قبضہ عرب رہنماؤں کے لیے ناسور بن کر ابھرا، اس جنگ میں عرب دنیا کے لیے یہ سبق ہے کہ فیصلہ کن فوجی کارروائی کانتیجہ سیاسی حل کے مقابلے میں پرامن اور نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد اس مسئلے کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں ایک قرارداد منظور کی گئی اس قرارداد میں اسرائیل کی سرحدوں اورا س کے دفاعی حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کامطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ دے،یہ قرارداد اس قدر مبہم تھی کہ ہر پڑھنے والے نے اس کے مختلف مطلب نکالے، اقوام متحدہ کے لیے کوئی بھی قرارداد منظور کرنا آسان ہے لیکن اس پر عمل کروانا مشکل ہوتاہے۔
امریکا نے باربار اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مسئلے کو حل کرانے کی کوشش کی، اس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین، اقوام متحدہ نے بھی کئی بارکوششیں کیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم نہ ہوسکا۔ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو قرار داد کو صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایاجاسکتا،امن کے لیے ضروری ہے کہ تنازعہ کے متعلق ایک ایسی قرارداد تیار کی جائے جس پر دونوں فریق متفق ہو ں اور دونوں ہی مصالحت کے لیے تیار ہوں ورنہ باہر سے کسی بھی ملک کی امن کے لیے کی گئی کوشش ناکام ہوگی۔
۱۹۶۷ء کی جنگ کے اثرات بڑے پیمانے پر ظاہر ہوئے،فلسطینیوں کو عالمی سطح پر مانا گیا اور سنا گیا، جب کہ اس وقت بہت سے فلسطینی مصر اور اردن میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ کیا فلسطینیوں کے درمیان آپس میں اس بات پر اتفاق نہیں پیدا ہوسکتا کہ اسرائیل کو کچھ حصہ دے کر باقی فلسطین کی ریاست کو آزاد کروالیا جائے۔
اسرائیل کچھ حصہ کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہے، وہ صحرائے سینائی کو واپس کرنے پر رضامند ہے، گولان ہائٹس بھی شام کو واپس کرنے کو تیار ہے اور یکطرفہ طور پرغزہ کو بھی چھوڑنے پر راضی ہے، مگر وہ یروشلم کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہے، وہ چاہتا ہے کہ یروشلم میں یہودی اورمسلمان دونوں مل کر رہیں اور اقتدار اسرائیل کے ہاتھ میں ہو۔ لیکن امن معاہدہ اس وقت کھٹائی میں پڑ جاتا ہے جب مغربی کنارہ کا معاملہ درپیش ہوتاہے،کچھ اسرائیلیوں کے مطابق مغربی کنارہ ہی اسرائیل کی بقا کا محافظ ہے، مغربی کنارہ جب تک اسرائیل کے قبضہ میں ہے تب تک فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے امن و امان کی ضمانت ہے،بین الاقوامی برادری کے مطابق اب یہ اسرائیل کے ہاتھ میں ہے کہ وہ امن چاہتا ہے یا معاملات کو اسی طرح لٹکا کے رکھتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان سفارتکاری کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔کئی بار اسرائیل اور فلسطین اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آمنے سامنے بیٹھے ہیں، دونوں ممالک زمینوں کی تقسیم کے ذریعے دو ریاستوں کا قیام چاہتے ہیں لیکن کس زمینی حصے کو تقسیم کیا جائے اور کس کو چھوڑ دیا جائے، یہ ابھی تک طے نہیں کرسکے۔ یہ دونوں ممالک ہی اس مسئلے کو حل نا کرنے کی بدترین قیمت چکا رہے ہیں۔
معاشی اور اقتصادی صورتحال سے قطع نظرفلسطین ابھی تک ایک مکمل ریاست نہیں بن سکا ہے اور نا ہی ابھی تک اپنے لوگوں کواوسط معاشرتی زندگی فراہم کر سکا ہے۔اسرائیل کا مقصد مستقل یہودی آبادی کا قیام، جمہوریت، تحفظ اور خوشحال ریاست کا قیام ہے جسے اس وقت فلسطینیوں سے اور زمینی حقائق سے خطرہ لاحق ہے۔
خطے کی صورتحال میں اس وقت دنیا کی نظریں روس، چین اور شمالی کوریا پر لگی ہیں، اس وقت اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن قائم ہو بھی گیا تب بھی شام، عراق، یمن اور لیبیا میں جنگ کی صورتحال ہی رہے گی۔ چھ روزہ جنگ کے پچاس سال مکمل ہونے پر کچھ لوگوں نے اس صورتحال کو قبول کرلیا جب کہ کچھ لوگ ابھی بھی امن کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“The six day war at 50”. (“project-syndicate.org”. May 23, 2017)
Leave a Reply