
کسی بھی قوم کوزوال کا شکار ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ شدید قسم کا سیاسی بحران اس کا نقیب ہوتا ہے جو نظام کا شیرازہ بکھیرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ معیشت اور حکومتی اداروں پر شدید قسم کے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس طرح کسی خوشحال ملک کو ناکام ریاست کا روپ دھارنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
اس عمل کو دیکھیں اور پھر اپنے ملک کو او رتیسری دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں پر نظر دوڑائیں تو کافی کچھ سمجھ میں آجاتا ہے۔ افغانستان اور صومالیہ جیسے ملک بھی اچھے خاصے چل رہے تھے اور پھر وہ غلط راہ پر نکل پڑے۔ ہماری اپنی کچھ ناکامیاں ہیں اور ہم ان کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔ آج تھائی لینڈ جیسی تیزی سے ترقی کرتی قوم کو بھی اس حقیقت کا سامنا ہے۔
تھائی لینڈ کے مسائل پوری دنیا میں اشرافیہ اور عوام کے درمیان جاری چپقلش کی ایک مثال ہیں۔ بنکاک میں شورش برپا کرنے والے ’’ریڈ شرٹس‘‘ بڑی حد تک دیہی علاقوں کے مزدور اور شہری علاقوں کے غریب لوگ ہیں جنہوں نے تھاکس شناوترا کو اپنا لیڈر بنا لیا۔ حکمران اشرافیہ کی نمائندگی موجودہ وزیراعظم ابھیسیت ویجچیواکر رہے ہیں۔ جن کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ اوکسفورڈ کے گریجویٹ ہیں۔
انسانی تاریخ کے جس دور کو بھی دیکھ لیں دنیا میں ہر جگہ حکمرانوں اور رعایا کے درمیان تقسیم کی ایک بالکل واضح لکیر کھنچی نظر آتی ہے۔ اشرافیہ کسی نہ کسی صورت میں ریاستی قوت کو کنٹرول کر رہی ہوتی ہے۔ جمہوریتوں میں اسے آزادی کا ایک فہم اور اشرافیہ کے ایک مخصوص دھڑے کے انتخاب میں عوام کا کردار پیدا کر کے معتدل بنا لیا جاتا ہے۔ آمریتوں میں وہ سیدھے سیدھے محکوم ہوتے ہیں۔ باقی ہر چیز درمیان میں کہیں آ جاتی ہے۔
اشرافیہ کے کنٹرول کی نوعیت کیا ہو، اس کا تعین تاریخ کرتی ہے۔ امریکا اور یورپ کی بہت سی جمہوریتوں میں میگا کارپوریشن ایک نئی اشرافیہ کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ خاص طور پر امریکا میں پورے جمہوری عمل بشمول میڈیا پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ یورپ میں اگرچہ یہ کم ہے لیکن انتخابی جمہوریت کے جدید طریقوں میں ارتقاء کے ساتھ ساتھ یہ بھی بڑھ رہا ہے۔
تیسری دنیا میں جمہوریت کی اس شکل کو مسلمہ حیثیت حاصل کرنے میں مشکلات درپیش آئیں کیونکہ اشرافیہ اقتدار سے محرومی کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ مشرق وسطیٰ کی بادشاہتیں اور آمریتیں اس کی ایک مثال ہیں۔ وہ ایک ریاستی انتظامیہ کے ذریعے اپنا کنٹرول برقرار رکھتے ہیں جس میں فوج، پولیس اور خفیہ ایجنسیاں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ پریس کو آزادی نہیں دی جاتی اور نہ ہی انتخابات کرائے جاتے ہیں یا پھر اس کا ایک ڈھونگ سا رائج کر دیا جاتا ہے۔
ایک طویل عرصے تک وسطی اور جنوبی امریکا میں آمریتیں حکمران رہیں۔ ان ملکوں کے حکمران اقتدار کی مساوات میں نچلے طبقات کو شامل کرنے پر تیار نہ تھے۔ اس کا ایک نسلی پہلو بھی تھا کیونکہ بالعموم عوام انڈین یا پھر مقامی باشندے تھے جبکہ حکمران طبقات یورپی تھے۔
گزشتہ صدی کے وسط میں ہر طرف اٹھنے والی بغاوتوں اور تحریکوں کے نتیجے میں یہ صورتحال کسی حد تک بدل چکی ہے۔ حکمرانوں نے امریکا کی حمایت سے شدید ظلم و ستم کی صورت میں اپنا ردعمل ظاہر تو کیا لیکن بالآخر انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے۔ کیوبا میں انقلاب آیا اور اس نے آمریت کی ایک اور شکل اختیار کرلی۔ دوسروں نے اپنی اپنی طرز کی جمہوریتیں تیار کر لیں۔ لیکن یہ حقیقت کہ غربت سے آگے آنے والے لوگ مثلاً وینزویلا میں ہوگو شاویز اور برازیل میں لالو، اس وقت برسراقتدار ہیں، تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بعداز استعماری دور کے معاشروں نے یورپی اقدار کے زیر اثر جمہوریت کا ہار اپنے گلے میں ڈال لیا۔ یہ بات ایشیا پر خاص طور پر صادق آتی ہے جہاں اہم ترین مثالوں میں بھارت اور سری لنکا شامل ہیں۔ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک میں جمہوریت کی کامیابی قدرے کم ہی ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔
بعداز استعماری دور کا افریقا جمہوریت کی کسی بھی قسم کو باقاعدہ شکل دینے میں بڑی حد تک ناکام رہا۔ ایک مسئلہ یہ رہا کہ استعماری قوتوں نے من مانی لکیریں کھینچ کر ایک ایک ملک میں کئی مختلف نسلی گروہوں کو جمع کر دیا، یہ ہولناک باہمی نسلی تنازعات اور خونریزی کا باعث بنا رہا۔ روانڈا اور برونڈی اس کی چند مثالیں ہیں۔
زمبابوے ایک قدرے بہتر مثال بن سکتا تھا لیکن سفید فام مخالف جذبات نے موگابے کو آمر بننے کا موقع فراہم کر دیا۔ جنوبی افریقا ایک ایسی روشن مثال ہے جہاں لوگوں نے ایک پرامن تحریک کے ذریعے سفید فام اشرافیہ سے اقتدار چھین لیا۔ انہوں نے لاتعداد مشکلات اور مظالم کا سامنا کیا لیکن اقتدار کی منتقلی نیلسن منڈیلا کے وژن کی بدولت ممکن ہو گئی۔
سابق کمیونسٹ ملکوں میں اگرچہ ہر بات میں عوام کا لفظ سننے کو ملتا تھا لیکن یہ پولیس اسٹیٹ بن گئے۔ مارکسسٹ پارٹیاں جو برسراقتدار آئیں نیا حکمران طبقہ بن گئیں او رتمام مراعات ان کے حصے میں آ گئیں۔ سابق مشرقی یورپ میں عوامی جدوجہد کے نتیجے میں یہ صورتحال بدل چکی ہے۔ بہت سے ملکوں میں عوام کو اقتدار میں شامل کر لیا گیا ہے اور وہاں اب جمہوریت رائج ہے۔ دوسرے ممالک مثلاً چین وغیرہ میں کہانی ابھی چل رہی ہے۔
اس وسیع اور طائرانہ جائزہ سے ایک سبق ملتا ہے۔ ریاستوں اور معاشروں کو کوئی ایسا طریقہ نکالنا پڑتا ہے جس میں ریاست پر عوام کا کنٹرول ہو یا وہ اس میں شامل ہوں بصورت دیگر شورش اس ملک کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس میں وہ عدم مساوات کلیدی کردار ادا کرتی ہے جو ہمیشہ سے انسان کے ساتھ چل رہی ہے۔ مساوات ایک ناممکن خواب ہے، یہاں تک کہ ارادے کتنے بھی نیک ہوں ہر شخص کے لیے ایک جیسی اشیا ضروریہ یا خوراک تک رسائی ممکن نہیں۔ لیکن لوگوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بہت سی چیزیں مل بانٹ کر رہنا پڑتا ہے۔
جمہوریت سے بات تو بن جاتی ہے لیکن محض جمہوریت ہی کافی نہیں ہوتی۔ اگر یہ اس طرح کی ہو جس میں سب کچھ اشرافیہ کے پیٹ میں چلا جائے تو عوام ایک دن بغاوت کر دیں گے۔ بھارت میں لگتا ہے کہ یہ ہونے والا ہے۔ تقریباً تین اضلاع نام نہاد مائواسٹ بغاوت سے ’’متاثرہ‘‘ ہیں۔ یہ غریبوں کی بغاوت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایک ممتاز بھارتی نے پچھلے دنوں مجھے بتایا کہ اگر غربت میں جلد ازجلد کمی نہ لائی گئی تو یہ سب کے سب گلے میں پھندے ڈال کر گھروں کی چھتوں سے لٹکے ہوئے ہوں گے۔
نیپال کے ’’اصل‘‘ مائواسٹ بھی دیہی علاقوں کے غریب تھے جنہوں نے ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اشرافیہ کو مجبور کر دیا کہ وہ انہیں بھی نظام میں شامل کرے، یہ نیا بندھن اپنے حصے کے درد تو سہہ رہا ہے لیکن تشدد کم ہو گیا ہے۔ جاگیرداری نظام کی باقیات کے باعث حالات مکمل طور پر بے عیب کبھی بھی نہیں ہوں گے۔ لیکن معاشرہ اب معاشرہ لگنے لگا ہے۔
پاکستان میں طالبان مذہب کی پرت اور تیس سالہ افغان جنگ کے اثرات کا ایک پیچیدہ مظہر ضرور ہیں لیکن غربت اور ریاست سے اجنبیت ایک فیصلہ کن عامل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی قیادت کے اپنے عزائم کچھ بھی ہوں لیکن ان کا کارکن ایک شائستہ زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہتا۔ اگر ریاست انہیں معاشی مواقع، تحفظ اور انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ آگ ٹھنڈی پڑ جائے گی۔
لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے محض طاقت یا ریاستی قوت کا استعمال کافی نہیں۔ ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہو گا، یہاں تک کہ کامیاب آمریتیں بھی اس بات کو سمجھتی ہیں اور مشرق وسطیٰ کی طرح وہ عوام کو خاموش رکھنے کے لیے خاطر خواہ دولت انہیں ضرور منتقل کرتی ہیں۔
ہر معاشرے کو توازن پیدا کرنے کے لیے اپنا کوئی طریقہ تیار کرنا پڑتا ہے۔ اب ایک طرف لوگوں کو محروم رکھنا اور دوسری طرف ریاست کا نظام چلانا ممکن نہیں رہا۔ یہ ایسا سبق ہے جس سے ہمیں ضرور کچھ سیکھنا ہو گا۔
(بشکریہ: ’’دی نیوز‘‘۔ ترجمہ: شاہد سجاد)
Leave a Reply