
حج کو ایک مسلمان کی زندگی کا نقطۂ کمال بتایا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹنگ کا زور عام طور سے لوگوں کے دورانِ حج تجربات پر ہوتا ہے۔ لیکن اس عظیم اور متحرک اجتماع حج میں شرکت کے دورس فوائد کیا ہیں؟ ہارورڈ کینڈی اسکول آف گورنمنٹ نے ایک سروے بعنوان Estimating the Impact of the Haj: Religion & Tolerance in Global Gathering (’’حج کے دوررس اثرات: مذہب و رواداری اسلام کے عالمی اجتماع میں‘‘) شائع کیا ہے۔ اس سروے کی بنیاد ۱۶۰۰ پاکستانی زائرین حج ہیں جن کا ۲۰۰۶ء کی قرعہ اندازی میں نام نکل آیا تھا۔ اس سروے کی بعض دلچسپ اطلاعات ہیں۔ اس سروے کی دریافت یہ ہے کہ حج حاجیوں کے درمیان رواداری کو فروغ دیتا ہے اور مغرب کے تئیں کسی منفی رویئے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے۔ یہ عبادت درحقیقت زائرین کے درمیان دوسرے مذاہب و ثقافت کے حوالے سے تحمل و برداشت کے رویئے کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس سروے سے پتہ چلتا ہے کہ حج حجاج کرام کے نقطۂ نظر کی تشکیل میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ مقامی عقائد و اعمال سے عالمی اسلامی عمل کی جانب لوگوں کو آمادہ کرتا ہے جس میں رواداری اور عورتوں کے تئیں ہمدردانہ رویوں کا اظہار بطور خاص قابلِ ذکر ہے۔ ڈیوڈ کلنگگ اسمتھ، عاصم اعجاز خواجہ اور مائیکل کریمر یہ وہ تین تحقیق کار ہیں جنہوں نے اپنی تحقیقات کی بنیاد اُن اعداد و شمار پر رکھی ہے جو ۲۰۰۶ء کے سروے کے دوران ۱۶۰۰ پاکستانیوں سے انٹرویو کے نتیجے میں حاصل ہوئے تھے۔ اس کا جو طریقہ تھا وہ حج ویزا کے لیے کامیاب اور ناکام درخواست گزاروں کا موازنہ کرنا تھا جن کا تحقق پاکستان قرعہ اندازی کے ذریعہ کرتا ہے۔ اس تحقیق کی دریافت یہ ہے کہ حج میں شرکت سے عالمی اسلامی اعمال کی انجام دہی کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً نماز و روزہ میں اور مقامی عقائد و روایات مثلاً تعویذ گنڈوں اور جہیز وغیرہ کے رجحان میں کمی آتی ہے۔ حج مختلف نسلی گروہوں اور اسلامی فرقوں کے مابین مساوات و ہم آہنگی کے رجحان کو فروغ دیتا ہے اور یہ لوگوں کو عورتوں کے تئیں ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے پر آمادہ اور راغب کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ عورتوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔
اسلامی دنیا کے مابین اتحاد کو فروغ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر مسلموں سے نفرت کی جائے۔ حجاج کرام مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین امن، مساوات اور ہم آہنگی کو فروغ دیئے جانے کے زیادہ حامی ہوتے ہیں، شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ حج کے نتیجے میں جو تبدیلیاں آتی ہیں وہ دنیا بھر کے حجاجِ کرام کے ساتھ ملاقات اور باہمی تعامل کے سبب ہیں، یہ مذہبی ہدایات و احکامات یا حج کے بعد حجاج کے تبدیل شدہ سماجی کردار کے سبب نہیں ہیں۔
ان کی تحقیق کی دریافت یہ بھی ہے کہ اسلام کی بقاء بطور ایک مربوط عالمی مذہب کا مضبوط ضامن بھی حج ہے۔ امتداد زمانہ کے ساتھ مذاہب اپنے دور دراز کے پیروکاروں کے سبب جداگانہ تعبیرات کے حامل ہوئے جو بالآخر علیحدہ مذاہب میں تبدیل ہونے کا سبب بنیں۔ رپورٹ کے مطابق تحقیق کاروں کا تجزیہ ہے کہ حج اسلام میں اختلاف و انتشار کو کم کرتا ہے اس طرح کہ یہ حاجیوں کو اعمال کے ایک مشترک مجموعہ کی سمت رہنمائی کرتا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے حوالے سے زیادہ متحمل بناتا ہے۔ جن حاجیوں کو سروے کے لیے منتخب کیا گیا تھا انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں مختلف نسلی و فرقہ وارانہ گروہ کی حیثیت مساوی ہے اور ان گروہوں کا ہم آہنگی کے ساتھ مل کر زندگی گزارنا ممکن ہے۔ تحقیق کے اہم نکات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حج توہم پرستانہ عقائد کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور عورتوں کے تعلیم و روزگار کے حق کو تسلیم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ مثلاً حاجیوں کے چھ فیصد لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ عورتیں مردوں سے روحانی اعتبار سے بلند ہوتی ہیں۔ اس طرح کی رائے رکھنے والے لوگوں میں ماضی کے مقابلے میں گویا ۵۰ فیصد کا اضافہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق لوگوں میں پاکستان میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں عورتوں کے معیار زندگی کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے اور ان جرائم کے حوالے سے بھی جو عورتوں کے خلاف آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ ہر سال تقریباً ۱۵۰ ممالک سے کوئی ۲۵ لاکھ مسلمان مکہ میں حج کے لیے جمع ہوتے ہیں اگرچہ حج صرف مخصوص دنوں میں ہوتا ہے تاہم لوگ ایک مہینہ مکہ اور مدینہ میں عبادات کی انجام دہی کی خاطر قیام کرتے ہیں۔ حجاج نسلی، قومی، فرقہ وارانہ اور مرد و عورت کے فرق سے بلند ہو کر ایک ہی طرح کے مراسمِ عبودیت نیز ایک ہی طرح کے لباس کے ذریعہ اسلام کی روحِ مساوات کو نمایاں کرتے ہیں۔ حج مسلمانوں کو عظیم موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ دوسرے ممالک و دوسری قومیتوں سے آئے ہوئے حجاج کرام کے ساتھ مناسک حج کے ذریعہ ہم آہنگی پیدا کر سکیں۔
سروے میں شامل کیے گئے دو تہائی لوگوں کا خیال ہے کہ حج کے دوران اس کا امکان نہیں ہوتا ہے کہ لوگ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگوں سے میل جول اختیار کریں۔ رنگ و نسل کے اس تنوع میں دینی اتحادو اتفاق کی رسّی ایک دوسرے کو باہم جوڑے رکھتی ہے۔ حجاج کرام کی مشترک شناخت سفید رنگ کے احرام اور ایک ہی طرح کے مناسکِ حج سے ہوتی ہے۔ جبکہ مختلف گروہوں میں گہرا رابطہ زبان کی رکاوٹوں کی وجہ سے کم ہے نیز حجاج کا اپنے اپنے ملک کے لوگوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں منقسم ہونے کی وجہ سے بھی رابطہ کم ہو پاتا ہے۔ گروہی فطرت کے پیش نظر ہر ایک گروہ کے رنگ ڈھنگ اور معاشرتی عادات و اطوار علیحدہ اور مختلف ہوتے ہیں جن کا مشاہدہ ہر ایک کے لیے مفید ہوتا ہے۔ زائرین حج پر مترتب ہونے والے اثرات کی تفہیم سے نہ صرف اسلام اور اس کے اداروں سے واقفیت ہوتی ہے بلکہ عمومی طور سے مسلمانوں کے عقائد و تشخص کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ خصوصی دلچسپی کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح یہ تجربہ ایک دوسرے سے متعلق ایک دوسرے کے خیالات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے باہمی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کی استواری میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا معاشرتی میل جول پر مبنی فلسفے تاکید کرتے ہیں کہ دو گروہوں کے ساتھ روبرو ہونے میں ہمدردی یا نفرت کا پیدا ہونا باہمی میل جول کی نوعیت پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ سماجی شناخت سے متعلق لٹریچر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کسی گروہ سے میل جول کے ذریعہ ایک مضبوط رابطہ ممکن ہے اگرچہ یہ کسی باہر کے گروہ کے تئیں منفی احساسات کے ہی سبب ہو۔ بہت سے حجاج کرام کا یہ خیال ہے کہ حج ہمارے اندر عالمی مسلمان برادری کے ساتھ یکجہتی کا احساس ابھارتی ہے۔ میلکم ایکس کے احساسات اس کی واضح مثال ہے۔ ۱۹۶۰ء میں میلکم ایکس نے حج ادا کیا۔ مکہ سے روانہ کیے گئے ایک خط میں میلکم ایکس نے لکھا: ’’پوری دنیا سے یہاں لاکھوں افراد ادائیگی حج کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ہم سب ایک طرح کے مناسک کی بجا آوری میں مصروف ہیں جو ہمارے اندر وحدت و اخوت کا مظہر ہے اور امریکا میں میرا تجربہ بتاتا ہے کہ اس چیز کا تصّور کبھی بھی سفید فام اور غیر سفید فام لوگوں کے مابین نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جو کچھ میں نے یہاں دیکھا ہے اور تجربہ کیا ہے اس کے پیش نظر میں مجبور ہوا ہوں کہ میں اپنے سابق فکری سانچے کو ازسرِ نو ترتیب دوں اور اپنے پہلے کے حاصل شدہ نتائج کو ایک طرف رکھ دوں‘‘۔ ۱۴ صدیوں سے زائد عرصے سے مسلمان مکہ کا سفر کرتے چلے آ رہے ہیں اس طرح کہ مکہ کا راستہ وہ راستہ بن گیا ہے جس پر انسانوں نے سب سے زیادہ سفر کیا ہے۔ مسلمان خواہ غریب ہوں یا امیر، صحتمند ہوں یا بیمار مکہ پہنچنے کے لیے مشرق سے مغرب کا سفر کرتے ہیں تاکہ حج ادا کریں جو ارکانِ اسلام میں سے ایک ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے دوران حتیٰ کہ ۱۹ ویں صدی تک زائرین پیدل، کاروان کی شکل میں، بحری جہازوں میں مہینوں سالوں اور بسا اوقات دسیوں سال کا سفر کر کے اس دینی فرض کی ادائیگی کی خاطر مکہ آیا کرتے تھے۔ جن زائرین کے پاس پیسے کی کمی ہوتی تھی تو وہ راستے میں کہیں قیام کرتے تھے اور مزدوری وغیرہ کے ذریعہ کچھ کما کر پھر آگے بڑھتے تھے۔ جب ۲۰ ویں صدی میں آٹو موبائل اور ہوائی جہاز کا رواج عام ہوا پھر مہینوں اور سالوں کا سفر دنوں اور گھنٹوں میں آ گیا۔
جدیدیت نے حج کی عبادت کو ایک عالمی تجربے میں تبدیل کر دیا۔ اس نے مسلمانوں میں ایک عالمی اُمت ہونے کے احساس کو بیدا رکیا کیونکہ مسلمان مکہ میں دنیا کے دور دراز گوشے سے حج کے لیے آنے لگے۔ یہ رپورٹ مرتب کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مغرب کو یہ احساس ہوا کہ حج غیر مسلموں کے لیے منفی اثرات کا حامل ہے۔ بعض لوگ اس تشویش میں مبتلا ہو گئے کہ حج کے ذریعے مسلمانوں میں اتحاد کی وسیع تر فضا پیدا ہونے سے غیر مسلموں کو نقصان ہو گا۔ بعض دوسروں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ حج اسلام کی ایک مخصوص قسم کو تشکیل دے رہا ہے۔ اس سروے کی دریافت یہ ہے کہ حجاج کرام اس کے نتیجے میں روزہ اور فرض و نفل نماز کی طرح کے اعمال انجام دیں گے جو پوری دنیا کے مسلمانوں میں یکساں طور سے مقبول ہے۔
حج ایسے اعمال کی انجام دہی کو کم اہمیت دیتا ہے جو آفاقی حیثیت کے حامل کم ہوتے ہیں اور مقامی رنگ اُن پر زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ مثلاً شادی وغیرہ میں زیورات اور جہیز وغیرہ کا چلن۔ علاوہ ازیں حج روزمرہ کی عبادات کو مسجد میں انجام دیئے جانے کے رجحان میں ۲۶ فیصد کا اضافہ کرتا ہے جبکہ نوافل روزے رکھنے کے رجحان میں تقریباً دو گنا کا اضافہ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی زیورات کے استعمال کو ۸ فیصد تک گھٹاتا ہے اور کنواری لڑکی سے شادی کو بیوہ سے شادی پر ترجیح دیئے جانے کا جنوبی ایشیا میں جو رجحان ہے اس میں بھی ۱۸ فیصد کمی لاتا ہے۔ جہاں تک تحمل و رواداری کے جذبے میں اضافے کا تعلق ہے تو شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ حجاج کرام جب وطن واپس لوٹتے ہیں تو دوسرے ممالک کے لوگوں کے حوالے سے ان کے خیالات قدرے مثبت ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رپورٹ میں ہے ’’حجاج کرام یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف لسانی و فرقہ وارانہ گروہ برابری کا درجہ رکھتے ہیں اوران گروہوں کا ہم آہنگی کے ساتھ رہنا بالکل ممکن ہے۔ مساوات و ہم آہنگی کے یہ خیالات غیر مسلموں کو بھی اپنے دائرے میں سمیٹ لیتے ہیں۔ ۲۲ فیصد حجاج یہ اعلان کرنا پسند کرتے ہیں کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ برابر حیثیت رکھتے ہیں اور گیارہ فیصد حجاج یہ نشاندہی کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف مذاہب سے وابستہ افراد آپس میں ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔ سروے میں ایسے شواہد جمع کیے گئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حجاج کرام ایک دوسرے کے تئیں پُرامن رجحان رکھتے ہیں۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’’اس بات کے شواہد کم ملتے ہیں کہ حج میں شرکت سے مذہب کے سیاست اور ریاست میں فزوں تر کردار کا ثبوت ملتا ہو۔ یا یہ کہ حج سے مغرب کے تئیں منفی خیالات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ بلکہ حجاج اس مؤقف پر کم یقین رکھتے ہیں کہ ریاست کو مذہبی احکام نافذ کرنا چاہیے اور یہ کہ مذہبی رہنما ہی لوگوں کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں۔ سروے کے مطابق حاجیوں اور غیر حاجیوں کی رائے مغربی اقدار اپنائے جانے کے حوالے سے یکساں ہے‘‘۔
اتحاد اور مساوات کے جذبات جو حج کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اس کا دائرہ کسی حد تک مرد و عورت کے فرق کے ماوراء بھی وسیع ہوتا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی ملتی ہے کہ ’’حجاج عورتوں کے اوصاف اور ان کی صلاحیتوں کے حوالے سے بہت مثبت خیالات کے حامل ہوتے ہیں۔ حجاج کرام دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں عورتوں کی حالتِ زار کے حوالے سے بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں اور وہ پاکستان میں عورتوں کے خلاف انجام دیئے جانے والے جرائم پر بھی بہت نالاں ہیں۔ حجاج کرام پیشہ ورانہ شعبوں میں عورتوں کی تعلیم کے اور ان کے کردار کے بھی حامی ہیں۔ ایسے حجاج کی تعداد میں ۸ فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے جو اپنی بیٹیوں اور پوتے پوتیوں یا نواسے نواسیوں کو پیشہ ورانہ علوم کو ترجیح دینے کی تاکید کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گو کہ اس طرح کے خیالات زیادہ تر خاتون حجاج میں پایا جاتا ہے تاہم مرد حجاج کے خیالات بھی اس سے مختلف نہیں ہیں‘‘۔ اگرچہ اس کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے کہ دوران حج مترتب ہونے والے اثرات کے پیچھے کون سے عوامل ہیں تاہم جو سب سے اہم عامل نظر آتا ہے وہ حجاج کا دنیا بھر کے مسلمانوں سے ارتباط ہے۔ تحقیق کاروں کی نظر میں حجاج کرام باضابطہ مذہبی معلومات بہت زیادہ نہ رکھنے کے باوجود’’تجرباتی معلومات‘‘ بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں خاص طور سے اسلامی عقائد و اعمال میں تنوع، اسلام میں عورتوں کے کردار اور اس سے بھی زیادہ اپنے ملک سے ماوراء دنیا سے متعلق موضوعات پر۔ اس طرح کی معلومات پر حج کے بہت اچھے اثرات پڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں دوسرے گروہوں کے تئیں دوسرے گروہوں کی جو رواداری ہے اس کی وسعت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور پھر بڑے گروہ اُن چھوٹے گروہوں سے بھی گفت و شنید اور نشست و برخاست کر پاتے ہیں جو دوران حج مختلف پس منظر کے حامل لوگوں سے وسیع تر معاشرتی تعامل (Interaction) کے مشتاق ہوتے ہیں۔
عورتوں کے حوالے سے حجاج کرام کے خیال میں تبدیلی بیرونی دنیا سے سامنا ہونے کے سبب ہے اس لیے کہ حج کے دوران اس بات کا موقع ملتا ہے کہ حجاج مشاہدہ کر سکیں کہ کس طرح مختلف ممالک کے مسلمان باہم تعامل کرتے ہیں حتیٰ کہ مختلف انسان باہم کس طرح ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔
سروے کا کہنا ہے کہ ہمارا تجزیہ ہے کہ حج مسلمانوں کو عقائد و اعمال کے ایک مشترک مجموعہ کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے ان کے اندر پائے جانے والے اختلاف و انتشار کو کم کر سکتا ہے اور اس طرح وہ مسلمانوں کو خود اپنے اندر پائے جانے والے اختلافات کے حوالے سے زیادہ متحمل اور روادار بنا سکتا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی ایک مشترکہ شناخت معرضِ وجود میں آسکتی ہے۔ یہ چیز باالخصوص اسلام جیسے مذہب کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے جو کسی ایسی مرکزیت سے عاری ہے جو اس کے لیے عقائد و اعمال کا کوئی مشترک مجموعہ وضع کر سکے جو اتحاد و یگانگت کا باعث ہو‘‘۔ تاریخی اعتبار سے حج نے تجارتی فوائد کے مواقع پیدا کیے ہیں اور اس کے ذریعہ اقتصادی، ثقافتی اور سائنسی نظریات کی تبلیغ بھی ہو سکتی ہے (۲۰۰۶۔ Boss) موجودہ دنوں کے حج پر مطالعے سے جو ہم نے نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ حج اسلام کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ دنیا کے مذاہب کو درپیش اُس ارتقائی مشکل سے نجات دلائے اس طرح کہ عقائد و اعمال جو مقامی رنگ و بُو کی وجہ سے اختلاف کی جانب مائل ہوتے ہیں ان میں یکسانیت و ہم آہنگی پیدا کرے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’حج اینڈ عمرہ‘‘ شمارہ نومبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply