
فروری ۱۹۴۶ء میں جب سرد جنگ کا آغاز ہو رہا تھا،ماسکو میں واقع امریکی سفارت خانے میں تعینات جارج کینن نے پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل ایک ’’کیبل‘‘ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بھیجی۔اس خفیہ پیغام میں جارج نے سوویت یونین کے مزاج کو سمجھانے اور اس پر جوابی حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کی۔ایک برس بعد یہ طویل پیغام ’’فارن افیئرز‘‘ میگزین میں تجزیے اور تفصیل کے ساتھ کالم کی صورت میں شائع ہوا۔ اس کالم میں کینن کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کے Marxist-Leninist نظریات دراصل حقیقت تھے اور وہ ان نظریات سے ہی عالمی منظرنامے کو دیکھتے تھے، ان کے یہ نظریات اور ان کے اندر پائے جانے والے عدم تحفظ نے انھیں توسیع پسندانہ عزائم رکھنے پر مجبور کیا۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سوویت یونین لازمی طور پر تصادم کا راستہ اختیار کرے گا۔ انھوں نے ایک اہم نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ روس نے ایک عالمی طاقت کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے سے کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی۔ اس سب کے بعد امریکا کو اپنی طویل مدتی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سوویت یونین کی طرف سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنا تھا۔ اگر امریکا ایسا کرتا تو سوویت یونین کی طاقت خود بخود کم ہونے لگتی۔ اس وقت روس کا گھیراؤ نہ صرف ضروری تھا بلکہ کافی بھی تھا۔
کینن کا وہ پیغام ان لوگوں کے لیے اہم متن بن گیا، جو امریکا اور روس کے مابین تنا زع کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ سرد جنگ کے خاتمے تک امریکا نے روس کے گھیراؤ کی حکمت عملی اختیار کیے رکھی، باوجود اس کے کہ اس حکمت عملی کو کئی بار تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا اوراسے متنازع بھی بنایا گیا۔ جیسا کہ کینن نے پیشگوئی کی تھی سرد جنگ کے خاتمے کی وجہ صرف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طاقت اور تسلسل کے ساتھ کھڑے رہنے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ سوویت یونین کی تباہی کی ذمہ دار خود اس کے نظام کی کمزوریاں اور تضادات ہیں۔
اب ۷۰ برس بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایک مرتبہ پھر ایک کمیونسٹ حریف کا سامنا ہے،جو امریکا کو اپنے دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔ علاقائی تسلط اور عالمی اثرورسوخ کا خواہاں ہے۔ واشنگٹن اور بیجنگ میں موجود بہت سے ماہرین کے لیے امریکا چین سرد جنگ کے تجزیے کے لیے روس امریکا سرد جنگ کو نظرانداز کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ایسے میں امریکی پالیسی سازوں کو چاہیے کہ کینن کی بتائی ہوئی ’’گھیراؤ کی پالیسی‘‘ کو اپ ڈیٹ کر کے اس پر عمل کریں۔ اس سا ل اپریل میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر پالیسی اور پلاننگ Kiron Skinner نے کینن طرز کی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا لیکن اس مرتبہ حریف ’’چین‘‘ تھا۔
دولت سے طاقت تک
آج کے چین کے بارے میں دو مرکزی حقائق ہیں۔ پہلا یہ کہ حالیہ دور میں جس تیزی سے چین نے معاشی ترقی کی ہے اس کی مثال دنیا نے نہیں دیکھی۔دوسری حقیقت یہ کہ چین میں جابرانہ قسم کا آمرانہ نظامِ حکومت ہے، اور ایک غیر منتخب کمیونسٹ پارٹی طویل عرصے سے حکومت کر رہی ہے، جس نے آزادی اظہار رائے کے حقوق کو سلب کر رکھا ہے اور لوگوں کو سخت قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ ژی جن پنگ کا دور تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی نے تھوڑی بہت آزادی جو لوگوں نے Deng Xiaoping کے اصلاحاتی دور میں اپنے لیے حاصل کی تھیں وہ بھی سلب کر لی ہیں۔ اور یہ خبریں بھی منظر عام پر آرہی ہیں کہ حکومت نجی کمپنیوں کے معاملات میں بھی بے جا مداخلت کر کے ان پر اپنا کنٹرول بڑھا رہی ہے۔
ان پالیسیوں کی بڑی وجہ اس بات پر اصرار ہے کہ چینی ترقی کا ماڈل مغرب کے ماڈل سے کئی گنا بہتر ہے۔۲۰۱۷ء میں ژی جن پنگ نے ایک تقریر کے دوران کہا کہ ’’بیجنگ ترقی پذیر ممالک کے جدید دور سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ایک نئی مثال قائم کر رہا ہے‘‘ اور ’’وہ ممالک جو اپنی آزادی اور تحفظ کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں ان کے لیے نئی راہیں کھول رہا ہے‘‘۔کمیونسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ مغرب جس جمہوریت کا راگ الاپتا ہے، اس کا واحد مقصد غریب ممالک کی خود مختاری اور ان کی معیشت کا سودا کرنا ہے۔ چین کا خیال ہے کہ جس طرح اس نے معاشی نمو کے حصول کے لیے آمریت کا سہارا لیا ہے،اسی طرح دیگر ممالک کو بھی کرنا چاہیے۔اگرچہ اس طرح کے اعتقادات نے بیرونی دنیا کے ممالک کو تو زیادہ متاثر نہیں کیا،تاہم ملک کے عوام کا اپنے راہنما ’’ژی‘‘ اور پارٹی قیادت کی پالیسی پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ چینی قوم ایک بالکل نئے انداز میں اور پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بن کر ابھری ہے۔
اس قسم کے خیالات کی اصل وجہ چینی قوم کے معیار زندگی میں غیر معمولی بہتری اورچینی قوم پرستی میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی نے چینی قوم کی عظمت اور ان کی راست بازی کے حوالے سے بے پناہ پروپیگنڈا کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چینی عوام اپنی کامیابیوں پر نہ صرف فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ اس ترقی کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔پارٹی یہ بھی کہتی ہے کہ بیرونی دنیا خاص کر امریکا ہماری پیش رفت کو ختم کرنا چاہتا ہے یا پھر وہ اس ترقی کو روک دینا چاہتا ہے۔بالکل اسی طرح کا پروپیگنڈا روس بھی کیا کرتا تھا۔
تعصب پر مبنی اس قوم پرستی کو بھی ایک خاص نقطہ نظر دیا گیا، اس کے تحت انیسویں صدی کے وسط سے تاریخ بتائی جاتی ہے، جہاں ۱۹۴۹ء سے کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالا یا پھر تاریخ کا وہ حصہ بتایا جاتا ہے جب بیرونی طاقتیں چین پر جابرانہ تسلط قائم کیے ہوئے تھیں۔ اگرچہ تاریخ کے اس رُخ میں کچھ صداقت بھی ہے لیکن کمیونسٹ پارٹی عوام کو یہ بتاتی ہے کہ چین کو اگر بیرونی حملوں سے کسی نے بچایا ہوا ہے تو وہ صرف اور صرف کمیونسٹ پارٹی ہے۔ جیسا کہ کمیونسٹ پارٹی کے لیے عوام کو یہ دلیل دینا مشکل تھا کہ اس ملک کے عوام ریاست کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے، اس لیے یہاں آمریت قائم رہنی چاہیے، تو پارٹی نے یہ موقف اپنا لیا کہ ایک پارٹی کی اور مرکزی حکومت کا قیام ضروری ہے تاکہ ملک بیرونی حملہ آور قوتوں سے محفوظ رہے۔ لیکن اختیارات کی مرکزیت کو اس انتہائی سطح پر لے جانے کے شدید قسم کے نتائج برآمد ہوں گے۔ جیسا کہ کینن نے اس وقت سوویت یونین کے بارے میں کہا تھا کہ ’’اگر کبھی سیاسی مفادات کے لیے پارٹی کو نقصان پہنچایا گیا یا پھر اس کو توڑ پھوڑ کا شکار کیا گیا تو روس طاقتور ترین ملک سے کمزور ترین ملک کی صورت اختیار کر لے گا اور اس قوم کی حالت بھی قابل رحم ہو گی‘‘۔
چین میں موجودہ قوم پرستی کا ایک پریشان کن پہلویہ بھی ہے کہ وہاں عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ چین ایک ’’نیشن اسٹیٹ‘‘ ہے، لیکن درحقیقت چین کو ایک سلطنت کی طرح چلایا جاتا ہے۔ چینی سرزمین کا چالیس فیصد سے زائد حصہ وہ ہے جہاں رہنے والے لوگ خود کو چینی نہیں سمجھتے تھے۔ اس حصے میں انر منگولیا، تبت، زی جیانگ شامل ہیں۔ اگرچہ حکومت نے ان اقلیتوں کو خصوصی حقوق دیے ہوئے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی اس قوم پرستی کی لپیٹ میں آگئے اور ۹۸ فیصد چینی قوم کے لوگ (Han) ہی ان پر حاوی ہو گئے۔ جن لوگوں نے مزاحمت کی انہیں جیلوں اور حراستی مراکز میں ڈال دیا گیا، بالکل اسی طرح جس طرح سوویت سلطنت میں اپنے حقوق کی آواز اٹھانے والوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا تھا۔
خارجی معاملات پر نظر ڈالی جائے تو پڑوس میں موجود دنیا کی بدمعاش ریاست شمالی کوریا سے چین بہترین تعلقات قائم کیے ہوئے ہے، دیگر پڑوسیوں کے ساتھ مستقل جھگڑے چلتے ہی رہتے ہیں، جیسا کہ تائیوان سے، بیجنگ اسے اپنا ہی ایک صوبہ سمجھتا ہے۔ اس طرح کے جھگڑے چین کے لیے سفارتی اور سیاسی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ چین کے مختلف فوجی ایڈوینچروں نے اس کے سامنے بہت سے دشمن لاکھڑے کیے ہیں۔ جنوبی چینی سمندر میں جاپان کے ساتھ تنازع کھڑا ہو گیا ہے اور دوسری طرف چین کے ڈر سے جنوبی کوریا امریکا سے دفاعی میزائل سسٹم خریدنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس طرح چین کے سارے ایڈونچر اس کے لیے مشکلات کا باعث بنے ہیں۔مشرقی ایشیائی ممالک کو چین کی طرف سے درپیش چیلنجوں میں پچھلی ایک دہائی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیا کے لوگوں میں چین کی طرف سے عدم تحفظ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔انھیں یہ یقین ہونے لگا ہے کہ مستقبل میں اس خطے میں چین غالب قوت ہو گا اس لیے انھیں پہلے سے تیاری کرنی ہو گی۔
اس تاثر کی بنیادی وجہ چین کی بے پناہ معاشی ترقی ہے۔ سوویت یونین اور امریکا کے درمیان جو معاشی فرق تھا، اس کا اگر آج کے دور میں چین اور امریکا کے درمیان معاشی طاقت کے فرق سے مقابلہ کیا جائے تو چین سوویت یونین کے مقابلے میں آگے ہے۔ اگرچہ معاشی نمو کی رفتار اب سست روی کا شکار ہے لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں جاپان کی طرح چین بھی معاشی جمود کا شکار ہو جائے گا، وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اگر چینی اشیا پر غیر ملکی ٹیرف میں یہ اضافہ قائم بھی رہتا ہے تو چین نے اپنی داخلی مارکیٹ اتنی طاقتور کرلی ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں اس کا متبادل حل آسانی سے نکال لے گا۔اور ایشیا کا بقیہ حصہ جو کہ سرد جنگ کے آغاز پر موجود مغربی یو رپ کے مقابلے میں نہ صرف بڑا ہے بلکہ معاشی طور پر متحرک بھی ہے، اسے اندیشہ ہے کہ چین انھیں ٹیرف کی مار نہ مارے۔
فوجی اور تزویراتی لحاظ سے امریکا اور چین کا تقابلی جائزہ لینا کافی مشکل کام ہے۔فوجی لحاظ سے دیکھا جائے تو چین کا امریکا سے کوئی مقابلہ نہیں۔امریکا کے پاس ۲۰ گنا زیادہ ایٹمی وارہیڈ ہیں، کئی گنا بڑی فضائی فوج ہے اور امریکا کا دفاعی بجٹ بھی تین گنا زیادہ ہے۔امریکا کے پاس چین کے پڑوس میں جاپان اور جنوبی کوریا کی صورت میں اتحادی بھی ہیں اور بھارت اور ویت نام بھی ممکنہ اتحادیوں میں شامل ہیں،اور یہ اتحادی بہت تیزی سے اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔لیکن اس طرح کا کوئی اتحادی یورپ میں چین کے پاس نہیں ہے۔اس سب کے باوجود مشرقی ایشیا میں طاقت کا توازن چین کی طرف جھک رہا ہے۔آج چین کے پاس اتنے بین البراعظمی میزائل، طیارے، بحری جہاز موجود ہیں کہ اس نے خطے میں اپنی برتری ثابت کردی ہے۔ چینی میزائل فورس بحرالکاہل میں امریکی فضائی اڈوں،طیارہ بردار جہازوں کو ایسا چیلنج پیش کررہے ہیں کہ امریکا اس خطے میں اپنی بالادستی کا دعویٰ نہیں کر سکتااور چین کی دفاعی ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ ساتھ یہ معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے، جیسا کہ چین نے اب اپنی بحری فوج کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اور اس کے علاوہ جدید ترین ڈرون، خلائی پروگرام میں چین کی طرف سے کی جانے والی ترقی اسے امریکا کے برابر لاکھڑا کرنے میں مدد دے گی۔ اگرچہ سرد جنگ کے وقت کاامریکا اور روس کے درمیان دفاعی ترقی کی نسبت اتنی نہیں تھی جتنی کہ اب چین اور امریکا کے درمیان ہے،لیکن چین میں یہ صلاحیت ہے کہ بہت تیزی سے اس خلا کو پُر کر سکتا ہے۔
سب کچھ ماضی جیسا ہی ہے!
ماضی کے سوویت یونین اور آج کے چین میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔سب سے پہلے تو دونوں ریاستوں میں کمیونسٹ حکمران ہیں۔گزشتہ چالیس برس سے چین کی معاشی ترقی نے مغرب کی نظروں سے اس حقیقت کو ہٹا دیا کہ یہ ملک کمیونسٹ آمریت کے ذریعہ چلایا جا رہا ہے۔ چینی آمروں کے چند ایک ظالمانہ اقدامات کے علاوہ مغرب کو یہ یقین ہونے لگا کہ چین لبرل ازم اور جمہوریت کی طرف رواں دواں ہے اور آج مغرب کا وہ یقین بیوقوفی کی علامت محسوس ہوتا ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی اپنی حکمرانی کو مستحکم کر رہی اور اقتدار کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہتی ہے۔صدر ژی نے ۲۰۱۷ء میں اعلان کیا تھا کہ ’’پارٹی کو مضبوط کرنے کا عمل تیز رفتاری سے جاری ہے‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ’’سینٹرل کمیٹی کی قیادت کو متحد رکھنے اور اپنی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے مزید محنت کرنی ہو گی۔ قوم میں پارٹی کی حیثیت ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی جیسی ہو گی‘‘۔
ایک اور مماثلت یہ کہ جس طرح سوویت یونین یورپ پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا تھا بالکل ویسے ہی آج چین مشرقی ایشیا پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنا چاہتا ہے۔یہ خطہ آج امریکا کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا سرد جنگ کے آغاز کے وقت یورپ تھا۔ اس غلبے کے حصول کے لیے چین وہی حربے استعمال کر رہا ہے جو سوویت یونین کیا کرتا تھا،مثلاً سیاسی اور فوجی استحصال، تقسیم کر کے حکمرانی کرنے کے حربے۔ اور چین یہ حربے سوویت یونین سے بھی زیادہ بہتر طریقے استعمال کر رہا ہے۔ اگر امریکا نے ان حربوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے تو۲۰۲۰ء کے اختتام تک مشرقی ایشیا میں انڈونیشیا سے لے کر جاپان تک چین اکیلا ٹھیکے دار ہو گا۔
سوویت یونین کے راہنماؤں کی طرح چین بھی ایک دور میں امریکا کو اپنا دشمن سمجھتا تھا۔یہ عوام میں تو بہت محتاط اور شائستہ رہتے ہیں اور عالمی روایات کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ تاہم پارٹی کے اجلاسوں میں کھلے عام یہ بات کی جاتی ہے کہ امریکا چین کی ترقی کو روکنے کے لیے بیرونی دباؤ اور اندرونی مداخلت کی ہر ممکن کو شش کرتا ہے۔ اسی طرح چینی کمیونسٹ پارٹی اپنے عوام میں مغرب اور امریکا کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھتی ہے۔یہی کام ماضی میں اسٹالن بھی کیا کرتا تھا۔چینی کمیونسٹ پارٹی نے لوگوں کو یہ باور کرواد یا ہے کہ امریکی ہم سے صرف اس لیے نفرت کرتے ہیں کیوں کہ ہمارا تعلق چین سے ہے اور یہ امریکی ہم پر حکومت کرنا چاہتے ہیں ان کے راستے کی واحد رکاوٹ ’’چینی کمیو نسٹ پارٹی‘‘ ہے۔
ماضی اور حال
چین سوویت یونین نہیں ہے۔سوویت یونین کی نظریاتی کشمکش پوری دنیا کو ایک ساتھ دیکھتی تھی،لینن اور اسٹالن کے نظریات کے مطابق کمیونزم کو نافذ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ شاہانہ بیوروکریسی اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جائے اور اگر پوری دنیا پر کمیونزم کو غلبہ حاصل ہو گا تو ہی سوویت یونین کی برتری قائم رہ سکے گی۔تاہم چین کا نظریہ اس سے مختلف ہے۔ان کے ہا ں عالمی سطح پر تبدیلی کو مدنظر نہیں رکھا جا تا بلکہ چینی قوم پرستی پر ہی فوکس کیا جاتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ واشنگٹن ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ضرور ہے لیکن وہ اپنی ترقی اور مقاصد کے حصول کے لیے امریکی نظامِ حکومت یا امریکا کو شکست دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔اس کے علاوہ سوویت یونین کی نسبت چینی معاشرے کی امریکا سے مماثلت زیادہ ہے۔سوویت یونین کے لوگ سوشلسٹ معاشی پالیسیوں کو نہ صرف قبول کر چکے تھے بلکہ وہ ان پر عمل بھی کرتے تھے،اس کے برعکس چینی عوام کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ موجودہ دور کی مارکیٹ میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کریں۔عوام کی اکثریت کے لیے’’کمیونزم‘‘صرف حکمراں پارٹی کا نام ہے نہ کہ کوئی ہدف، جسے حاصل کرنا ہے۔ اگرچہ ژی کی مرکزیت قائم کرنے کی جو کوششیں ہیں انھیں عوام کی حمایت حاصل ہے لیکن خود ژی بھی اصلاحات سے پہلے والے چین کی طرف لے جانے کی حامی نہیں ہیں۔جہاں چین عام دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھا۔
مزید یہ کہ چینی عوام نے پچھلی چند دہائیوں میں ملک میں امن اور ترقی کے مزے لوٹے ہیں۔ جبکہ ۱۹۴۷ء میں روس تیس سال کی جنگ اورانقلابی جدوجہدکے بعدعالمی طاقت بن کر سامنے آیا تھا۔کینن کا کہنا تھا کہ ’’روسی جسمانی اور روحانی طور پر تھکے ہوئے تھے‘‘۔جب کہ چینیوں کا تجربہ اس کے بالکل الٹ ہے۔چین کی دو تہائی آبادی نے امن اور ترقی کے علاوہ کچھ دیکھا ہی نہیں ہے۔ملک کی طرف سے آخری فوجی مداخلت ۳۰ برس قبل ویت نام میں ہوئی تھی،اس کا آخری بڑا تنازع کوریا کے ساتھ جنگ کی صورت میں ۷۰ سال قبل پیش آیا تھا۔اس لیے ایک طرف تو ماضی کی چند دہائیوں کی کامیابی اور امن نے عوام کو جنگ کے خطرات سے محتاط رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔دوسری طرف ماضی قریب میں جنگ کا تجربہ نہ ہونے اور اس کی تباہ کاریوں کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ جنگ کے حوالے سے دھمکی آمیز گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔آج کل چینیوں میں خاص کر نوجوانوں میں یہ خیا ل عام ہوتا جا رہا ہے کہ ہمیں امریکا سے بچنے کے لیے جنگ لڑنی پڑے گی۔اگرچہ ژی اور اس کے ساتھیوں کا شمار عمومی طور پر رسک لینے والوں میں نہیں ہوتا۔ لیکن بحران کی صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ چینی عوام دوسری جنگ عظیم کے بعد کے تھکے ہوئے روسی عوام کی نسبت ۱۹۱۴ء کے جرمنوں جیسے جوش و خروش کا مظاہرہ کریں گے۔
عالمی سطح پر طاقت کا توازن بھی کینن کے دور جیسا نہیں رہا۔آج کی دنیا سہ قطبی کے بجائے کثیر قطبی ہوتی جا رہی ہے۔ اگرچہ یہ عمل بتدریج جاری ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل حقیقی ہے۔سرد جنگ کی طرح دو عالمی طاقتوں کے درمیان تنازع دنیا کو bipolarنہیں بنائے گا بلکہ آج کے دور میں دو عالمی طاقتوں کے درمیاں تنازع دیگر طاقتوں کو بھی اپنی مرکزی حیثیت بنانے میں مدد دے گا،کیوں کہ اب نظریاتی جنگ تو ہے نہیں، ساری لڑائی معاشی مفادات کی ہے۔ امریکا اور چین جتنا ایک دوسرے سے مقابلے بازی کریں گے اتنا ہی دوسری طاقتوں کو برتری حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔نتیجتاً جلد یا بدیر ہو گا یہ کہ علاقائی طاقتیں وجود میں آئیں گی بلکہ وہ اپنا تسلط بھی قائم کریں گی۔
امریکا کی داخلی صورت حال بھی سرد جنگ کے دور سے یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے۔امریکا کی سوسائٹی میں اس وقت بھی ووٹر تقسیم تھے لیکن جو تقسیم،تعطل اور تعصب کی صورت حال اب امریکی سیاست میں ہے ایسی سرد جنگ کے وقت نہ تھی۔اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نہ صرف اندرونی طور بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اپنے مقاصد اور منزل سے دور ہوتا جا رہا ہے۔امریکا کا موقف اور اس کا قدو کاٹھ اتنی تنزلی کا شکار کبھی نہیں ہوا جتنا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں ہوا ہے۔حالت یہ ہو گئی ہے واشنگٹن کے قریب ترین اتحادی بھی اسے قابل اعتماد شراکت دار سمجھنے کو تیار نہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت سے پہلے ہی امریکی خارجہ پالیسی کی اشرافیہ اس بات کا اقرار تو کرتی رہتی تھی کہ خارجی معاملا ت میں اتفاق رائے کی شدید کمی ہے۔لیکن بیورو کریسی اس کمی کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ اب دنیا کے ممالک امریکی قیادت کی استعداد کے بارے میں سوال کرتے نظر آتے ہیں، جب کہ ماضی میں مسائل پر امریکی موقف اور پالیسی کو ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔
سوویت یونین کے مقابلے میں امریکی معیشت چین کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ اسے الگ کرنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔جیسا کہ کینن معیشت کے بارے میں کافی علم رکھتے تھے،انھوں نے اس وقت کہا تھا کہ ’’سوویت یونین کا معاشی گھیراؤ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،کیوں کہ اس نے عالمی معیشت میں شامل ہونے سے انکاری ہو کر خود ہی اپنے آپ کو محدود کر لیا ہے‘‘۔ چین اس معاملے میں یکسر مختلف ہے کیوں کہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار میں برآمدات کا حصہ ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔اور امریکا اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔چینی معیشت کو امریکی معیشت سے جدا کرنے کے لیے سیاحت کی پابندی،تجارتی پابندیاں اور اسی طرح کے دیگر سیاسی ہتھکنڈے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک باقاعدہ جنگ نہ مسلط کر دی جائے، جس کے تحت چین سے کسی بھی قسم کا معاشی رابطہ ناممکن ہو جائے۔ محصولات میں اضافے جیسے اقدامات قلیل مدتی فوائد تو پہنچا سکتے ہیں تاہم اگر طویل مدتی تناظر میں اسے دیکھا جائے تو چین ان اقدامات سے خود انحصار ہوتا چلا جائے گا اور ایسے اقدامات سے امریکا کے وقار کو بھی ٹھیس پہنچ رہی ہے۔اس لیے چین سے رقابت کو ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے اور اس پالیسی میں ایک دوسرے پر معاشی انحصار کو بھی جاری رہنا چاہیے اور اس سب کے علاوہ چینی رہنماؤں کے پاس کھیلنے کے لیے کچھ ایسے عالمی پتے بھی ہیں جو کہ سوویت یونین کے پاس نہ تھے۔سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اندرونی طور جس طبقاتی سیاست کا شکار تھا اس کے مقابلے میں چین عالمی دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی،عدم مساوات، عالمی اتحاداور تجارت جیسے موضوعات پر اکٹھا کرنے کی بات کرتا ہے۔جس کی وجہ سے بیرونی دنیا میں اس کا مثبت تشخص اجاگر ہوتا ہے۔ اگرچہ چین جیسے ملک کی جانب سے ان مسائل پر بات کرنا نہایت مضحکہ خیز ہے، لیکن چوں کہ امریکا ان مسائل پر دنیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے تو چین نے اس ناکامی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ جمہوری نظام کی نسبت آمرانہ نظام حکومت میں ان مسائل سے بہترطریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔
امریکی ذہنیت پر مرکوز توجہ
چینی طرزِعمل اور طرزِ سیاست اور پھر موجودہ دنیا میں امریکی کردار اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ دشمنی ۴۷۔۱۹۴۶ء طرز کی نہیں ہے،جس کی نشان دہی کینن نے کی تھی۔ جہاں فوری جنگ کے امکانات کم ہیں، وہیں محدود تعاون کے نتیجے میں مشکلات بھی زیادہ ہیں۔اسی طرح قوم پرستی کے نتیجے میں تنازعات کا دائرہ وسیع ہونے کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔اس کے علاوہ چین جس خطرناک طریقے سے ایشیا میں امریکا کی پوزیشن چرانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اتنی تو اسٹالن نے بھی امریکا سے یورپ چھیننے کے لیے نہیں کی تھی۔اگر امریکا چین سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے اثرورسوخ کو قائم کرنے کے لیے ایک طویل مدتی مہم تیا رکرنی ہو گی اور یہ مہم تزویراتی ترجیحات اور طویل مدتی منصوبہ بندی کے حوالے سے امریکا کی اپنی اہلیت کی بھی جانچ کرے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت تیزی سے بدلتے معاشی حالات،تیزی سے ترقی کرنے والی ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب ماضی میں اپنائی جانے والی ’’گھیراؤ کی پالیسی‘‘تو نا ممکن ہے،وہ بھی چین جیسے ملک میں جہاں معلومات کا بہاؤ بھی بہت تیز ہے اور جو اپنے آپ کو دنیا سے الگ تھلگ بھی نہیں رکھنا چاہتا۔
اگرچہ امریکا اور چین کے مابین تنازع سرد جنگ کی طرز کا نہیں ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کینن کے مشوروں کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔جیسا کہ کینن نے کہا تھا کہ یو رپ میں امریکا کو اپنی مداخلت اور اثرورسوخ میں اضافہ کرنا چاہیے بالکل اسی طرح امریکا کو چاہیے کہ ایشیا کے وہ ممالک جو چین کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں ان کے ساتھ تزویراتی سطح پر تعلقات قائم کرے۔سوویت یونین کے مقابلے کے لیے ۱۹۴۸ء میں امریکا نے ’’مارشل پلان‘‘(جو کہ بنیادی طور پر کینن کا ہی آئیڈیا تھا) جاری کیا تھا اور اس سے اگلے ہی برس نیٹو کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔بالکل اسی طرح ایشیا میں بھی یورپ کے جو اتحادی ہیں ان کے ساتھ تعاون دفاع کے ساتھ ساتھ معاشی سمت میں بھی آگے لے کر جانا چاہیے۔ درحقیقت آج کی دنیا میں معاشی پہلو ۷۰ برس پہلے کی دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور پھر چین تو ہے بھی معاشی طاقت۔اس لیے “Trans-Pacific Partnership” سے امریکی حمایت کا خاتمہ بالکل اسی طرح جس طرح کہ امریکا نیٹو بنوائے اور پھر وہ یک دم ہی اس سے علیحدگی اختیار کر لے۔ ٹرمپ کے اس اقدام کو ملک کی داخلی سیاست میں تو سراہا بھی گیا لیکن اگر خارجہ پالیسی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک تباہ کن فیصلہ تھا،جس نے چین کو خطے میں یہ پروپیگنڈا کرنے کی اجازت دی کہ امریکا ناقابل اعتبار اتحادی ہے۔
کینن کو اس بات کا اندازہ تھا کہ امریکا کو آنے والی کئی دہائیوں تک سوویت یونین کا سامنا کرنا ہو گا،اس لیے اس کی تجویز تھی کہ امریکی حکومتی مشینری کو مذاکرات اور سمجھوتوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دینی ہوگی، جتنی وہ فوجی تیاری اور خفیہ آپریشنز کو دیتی ہے۔کینن کے ساتھیوں کو ان باتوں کا اندازہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سرد جنگ کے پرامن خاتمے کی بڑی وجہ باہمی افہام و تفہیم اور مذاکرات ہی ہیں۔امریکی اور سوویت حکام میں اس قدر رابطے تھے کہ انھو ں نے طویل عرصے تک دونوں ممالک کو جنگ سے روکے رکھا اور اس دوران سوویت یونین کے امریکا کے حوالے سے نقطہ نظر میں بڑی حد تک مثبت تبدیلی آئی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو چین اپنے رویے میں سوویت یونین سے بھی زیادہ جلدی تبدیلی لا سکتا ہے۔کیوں کہ موجودہ رقابت نہ ہی کوئی تہذیبی جنگ ہے اور نہ ہی کوئی نسلی تعصب کا مسئلہ، بلکہ Skinner نے اپریل کے مہینے میں اس پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین کے ساتھ ہمارے تنازعات کو ایسے دو بڑی طاقتوں کے مابین سیاسی تنازعات کے طور پر لینا چاہیے چینیوں کی ایک بڑی اقلیت اپنے ملک کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنے کی خواہش مند ہے جہاں مکمل آزادی ہو،مساوات قائم ہوں اور پڑوسی ممالک اور امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے ہوں۔چین کو جتنا تنہا کرنے کی کوشش کی جائے گی، اتنا ہی ایسے لوگوں کی آواز قومیت کے سمندر میں ڈوبتی چلی جائے گی۔سوویت یونین کے بارے میں کینن نے کہا تھا کہ ’’سوویت یونین کے لیے ہماری پایسی ہونی چاہیے کہ انھیں ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے کا باعزت موقع ملے‘‘۔
ضرورت اس بات کی ہے امریکا ایشیا کے علاوہ بھی ماحول کو سازگاربنا کر رکھے۔ایک ایسے وقت میں جب چین اپنے عروج کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے،یہ کسی طور درست نہیں کہ روس جیسی طاقت سے تعلقات بگاڑ کر اسے دنیا بھر میں بدمعاشی کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے۔واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ روس کو مغرب کے ساتھ شراکت داری کے مواقع فراہم کرے اور مشرقی یوکرائن میں جاری تنازع کو ختم کرنے میں اس کی مدد کرے۔اگر امریکا ایساکرنے سے انکار کرتا ہے توسرد جنگ کے دور کا ایک بھیانک خواب’’روس چین اتحاد‘‘جو کہ سرد جنگ کے دوران تو نہ بن سکا لیکن اب وہ حقیقت بن کر سامنے آسکتا ہے۔ آج روس کے وسائل اور چین کی آبادی کا امتزاج مغرب کے لیے وہ چیلنج بن سکتا ہے، جس کا سامنا اسے ۷۰ برس قبل تھا۔کینن نے ۱۹۵۴ء میں کہا تھا کہ’’امریکا کو جس حقیقی خطرے کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر یورپ اور ایشیا کے وسائل کسی ایسی سیاسی قوت کے ہاتھ میں لگ جائیں جو امریکا کے مخالف ہو‘‘۔
کینن کی سب سے اہم نصیحت کاتعلق خارجہ پالیسی سے نہیں بلکہ امریکی سیاست سے تھا۔انھوں نے متنبہ کیا تھا کہ فیصلہ سازی کی قوت میں کمی کا مظاہرہ،تفریق اور داخلی تقسیم وہ بڑے خطرات ہیں جن کا اس وقت امریکا کوسامنا ہے۔کینن نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا تھا کہ عوامی مقاصد کے لیے وسائل کے استعمال کے لیے کبھی بھی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔۷۰ برس پہلے کے مقابلے میں آج کے امریکا کو اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ اعلیٰ مہارت کے حصول، دنیا کے بہترین انفراسٹرکچر اورجدید ترین تحقیق وترقی کے لیے بے پناہ وسائل صرف کرے۔ چین کے ساتھ مقابلہ کرنا کوئی سستا سودا نہیں ہے۔کینن کا کہنا تھا کہ امریکی طاقت کا انحصار امریکا کی ان صلاحیتوں پر ہے کہ وہ دنیا بھر کے لوگوں میں یہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہا کہ وہ ایسا ملک ہے جو جانتا ہے کہ اسے کیا چاہیے، اور جو ملک داخلی مسائل سے بہترین طریقے سے نمٹ رہا ہے اور عالمی طاقت ہونے کی ذمہ داریوں کا بھی ادراک کیے ہوئے ہے،اور اس میں اتنی روحانی طاقت بھی ہے کہ وہ وقت کے نظریاتی چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔
چیلنج آج بھی ماضی جیسا ہی ہے۔ چین کے ساتھ مقابلے کے لیے کینن کی پسندیدہ اصطلاح ’’امریکی ذہن‘‘پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔اور اس نکتے پر توجہ دینے کے لیے اندرونی اختلافات کو ختم کرنا ہو گا،دوسری صورت میں امریکا کی تنزلی کا سفر تیزی سے طے ہوگا اور نتیجتاً دنیا صرف ’’ملٹی پولر‘‘ ہونے پرہی نہ رکے گی بلکہ دنیا ایک ایسے خطے میں تبدیل ہو جائے گی، جہاں کسی کی حکمرانی نہ ہو گی ہر طرف خوف اور نفرت کا راج ہو گا۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The sources of Chinese conduct”.
(“Foreign Affairs”. September/October 2019)
Leave a Reply