گریگ پولنگ، سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹر نیشنل اسٹڈیز میں ایشیا میری ٹائم ٹرانسپیرنسی انشئیٹیو کے ڈائریکٹر ہیں۔ زیرنظر مضمون اُن کے ایک انٹرویو پر مشتمل ہے۔ اس انٹرویو کے مندرجات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کی صورتِ حال چین کے لیے کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ اُس کی پوری ساکھ داؤ پر لگتے لگتے رہی ہے۔ ایک وبا پر ڈھنگ سے قابو پانے میں ناکامی کا اُسے بھاری خمیازہ بھگتنا پڑتا۔
ڈھائی تین ماہ سے کورونا وائرس ہر معاملے پر چھایا ہوا ہے۔ اس وقت شاید ہی کوئی ملک ہو جو اِس وبا کے اثرات سے محفوظ رہنے میں کامیاب رہا ہو۔ ہیڈ لائنز کورونا وائرس سے شروع ہوکر کورونا وائرس پر ختم ہوتی ہیں۔ مگر خیر، اور بھی بہت سے معاملات ہیں جو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ متعدد تنازعات برقرار ہیں۔ ایشیا، وسط ایشیا، مغربی ایشیا (مشرق وسطیٰ)، جنوب مشرقی ایشیا اور دوسرے بہت سے خطوں میں بہت سی پیچیدگیاں فوری توجہ چاہتی ہیں۔ بحیرۂ جنوبی چین کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس سمندر کے کئی حصوں پر متعدد ممالک کا دعویٰ ہے۔ چین کے علاوہ ویتنام بھی ایک بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ بحیرۂ جنوبی چین میں گڑبڑ پائی جاتی ہے۔ تنازعات کے باعث کشیدگی بھی ہے۔ ویتنام کو آسیان کی قیادت ملنے کے بعد معاملات مزید خراب ہوئے ہیں۔ ویتنام سلامتی کونسل کا رکن بھی ہوا ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی معاملات پر کشیدگی نے زور پکڑا تو خطے کے کئی ممالک کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوئیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے پھوٹ پڑنے سے کیا خطے کی سیاسی و معاشی کیفیت غیر معمولی حد تک بدل سکے گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ چند ہفتوں کے دوران یہ کہانی گردش کرتی رہی ہے کہ کورونا وائرس کی پیدا کردہ صورتِ حال کا چین بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ویتنام کی فشنگ کو چینی فوج کی طرف سے نشانہ بنانا بھی ایک اہم اشو ہے۔
کورونا وائرس کے ہاتھوں دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے۔ بہت کچھ، فی الحال، بدل گیا ہے۔ ایسے میں بہت سے ممالک نے اپنے دوسرے تمام معاملات کو ایک طرف ہٹاکر کورونا وائرس کی روک تھام پر متوجہ ہونے کو ترجیح دی ہے۔ بڑے ممالک کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ ان کی اپنے مفادات اور اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ چین نے اس صورتِ حال میں بھی اپنی دوسری ترجیحات کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بعض معاملات میں وہ زیادہ مضبوط بن کر ابھرا ہے۔ خطے کے بیشتر ممالک کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والے فال آؤٹ کے شدید منفی اثرات سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں چین نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ چین کو اندرونی ملک اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے کئی مشکلات کا سامنا ہے مگر پھر بھی وہ اپنی حیثیت مستحکم تر کرنے میں مصروف ہے۔
بیجنگ کی شدید خواہش ہے کہ پورے بحیرۂ جنوبی چین میں اپنی بات بھرپور انداز سے منوائے۔ اس معاملے میں وہ سخت گیری سے کام لے رہا ہے۔ خطے میں چند اڈوں کے قیام سے اس کے لیے اپنی بات منوانا آسان ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بہت سے ’’ایکٹرز‘‘ سے مدد لے رہا ہے۔ ساؤتھ سی فلیٹ، سرکاری ادارے مثلاً چائنا نیشنل آف شور آئل کارپوریشن وغیرہ اُس کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ پالیسی یہ ہے کہ خطے میں چھوٹے ممالک کو خوفزدہ کرکے رکھا جائے۔ صدر شی جن پنگ نے خاصی جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے دور میں بھی چین اپنی پالیسی تبدیل نہیں کر رہا۔
بحیرۂ جنوبی چین پر چار ممالک کا دعویٰ ہے۔ ملائیشیا میں حکومت کی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ فلپائن کا امریکا سے وزٹنگ فورسز معاہدہ ختم ہوچلا ہے۔ ۲۰۲۰ء تبدیلیوں کا سال معلوم ہوتا ہے۔ ایسے میں چین کے لیے امکانات کی فصل اُگی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے سے پہلے چین کے لیے صورتِ حال کچھ اور تھی۔ ویتنام آسیان کا سربراہ بن چکا تھا اور اُسے سلامتی کونسل میں گردشی نشست بھی مل گئی تھی۔ تصور کیا جارہا تھا کہ ویتنام زیادہ طاقت کے ساتھ چین سے بات کرے گا اور اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ پھر کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی۔ اس نے ویتنام کی پوزیشن کمزور کردی۔ اب اس کی قیادت اپنی بات زیادہ ٹھوس انداز سے اور کھل کر منوا نہیں سکتی۔ خطے میں اگر کوئی چین کو کسی حد تک للکار سکتا ہے تو وہ صرف ویتنام ہے۔ فلپائن میں صدر ڈیوٹرٹ کو کنٹرول کرنے کی کوششیں بھی دم توڑ رہی ہیں۔ امریکی فوج کا عمل دخل برائے نام بھی نہیں رہا۔ صدر ڈیوٹرٹ اب زیادہ کھل کر کام کرسکتے ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی کے نام پر اب کوئی ایسا ڈراما نہیں ہوسکتا جس کے ذریعے فلپائن یا کسی اور ملک کو دبوچا جاسکے۔ صدر ڈیوٹرٹ کا عہدِ صدارت ۲۰۲۲ء میں ختم ہوگا۔ اس کے بعد ہی امریکا اور چین کے لیے کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
خطے میں چینی مفاد کے لیے مشکلات پیدا ہوتی رہی ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کہیں چین نے غیر معمولی سختی دکھائی ہے تو کہیں نرمی سے بھی کام لیا ہے۔ کوشش یہ رہی ہے کہ معاملات کو کسی نہ کسی طور سلجھایا جائے۔ خطے یعنی بحیرۂ جنوبی چین میں تیل اور گیس کی تلاش کے نام پر جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے وہ اب تک خاصا پیچیدہ رہا ہے۔ چین کے علاوہ ویتنام اور فلپائن بھی خطے میں اپنی بات کسی حد تک منوانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ اِن دونوں کو بھی قدرتی وسائل کی ضرورت ہے۔ توانائی کے شعبے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ تیل اور گیس کی تلاش کا کام نہ صرف یہ کہ جاری رکھا جائے بلکہ وہ کامیابی سے ہم کنار بھی ہو۔ اس حوالے سے بیجنگ اور منیلا کے تعلقات میں کشیدگی رہی ہے۔ معاملات کو درست کرنے کی کوششیں بھی جاری رہی ہیں۔
مبصرین کا اندازہ ہے کہ ویتنام ڈارک ہارس ہے یعنی کسی بھی وقت تیزی سے ابھر کر سامنے آسکتا ہے اور یوں خطے میں تھوڑی بہت قابلِ ذکر تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ ویتنام کا جارحانہ انداز خطے میں چند ایسے معاملات کو جنم دے سکتا ہے، جو چین کو پالیسی تبدیل کرنے کی تحریک دیں۔ تیل اور گیس کی تلاش کے حوالے سے چین اور ویتنام کے درمیان جو اسٹینڈ آف پایا جاتا ہے اُسے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ معاملات کو مزید بگڑنے سے روکنا ہوگا۔
چین نے کئی ’’ایکٹرز‘‘ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ صورتِ حال علاقائی ریاستوں کی صلاحیتوں کا امتحان بھی ہے یعنی یہ کہ وہ صورتِ حال کے دباؤ کو کس حد تک برداشت کرسکتی ہیں۔ کورونا وائرس کے بعد کی صورتِ حال بہت نازک ہوگی۔ کسی بھی معاملے پر اگر کوئی معمولی سا بھی تصادم ہوا تو کوئی بہت بڑا مناقشہ شروع ہوسکتا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا میں تیل اور گیس کے ساتھ ساتھ فوڈ سیکورٹی بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل معاملہ ہوگا۔ اس حوالے سے ویتنام اور فلپائن کے علاوہ ملائیشیا کو بھی تفکرات لاحق ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تینوں ریاستیں اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے ایسا کیا کرتی ہیں، جن سے چین کے لیے کچھ بھی ایسا ویسا کرنے کی گنجائش کم سے کم رہ جائے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The South China Sea in 2020: What to watch”. (“thediplomat.com”. April 17, 2020)
Leave a Reply