بحیرۂ جنوبی چین: تنازعات کی آماج گاہ؟

بحیرۂ جنوبی چین ایک مدت سے کئی ریاستوں کے درمیان تنازعات کی آماجگاہ رہا ہے مگر اب یہ سمندری خطہ چین اور امریکا کے درمیان تنازع کا بنیادی سبب بنتا جارہا ہے۔ ۳؍ اگست کو امریکی دفتر خارجہ نے چین کے جنوبی سمندر کے حوالے سے ایک سخت بیان داغا جس پر چین کا ردعمل فطری طور پر شدید تھا اور ایک سینئر امریکی سفارت کار کو بیجنگ میں دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا گیا۔

سال رواں کے دوران بحیرۂ جنوبی چین میں تنازعات اور کشیدگی نے خاصی شدت اختیار کی ہے۔ ایک طرف چین اور ویت نام اور دوسری طرف چین اور فلپائن کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔ ۱۹۸۸ء سے اب تک کوئی بڑا مسلح تصادم نہیں ہوا اور اس وقت بھی جنگی نوعیت کی کسی کارروائی کا امکان نہیں تاہم خطے میں کشیدگی برقرار ہے اور چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہیں گی۔ امریکا نے متنازع جزائر (شیشا) میں انتظامی سطح پر اپنی موجودگی کو اپ گریڈ کیا ہے اور وہاں ایک گیریژن بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ متنازع جزائر پر، جن کی ملکیت کا دعویٰ چین بھی کرتا ہے، چند سو افراد آباد ہیں۔ یہ چھوٹے جزائر بہت حد تک اسٹریٹجک نوعیت کی اہمیت رکھتے ہیں۔

چین کا بنیادی شکوہ یہ ہے کہ علاقائی سطح کے کئی تنازعات میں امریکا خواہ مخواہ متحرک ہو رہا ہے۔ بحیرۂ جنوبی چین پر چین اور تائیوان برابر کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ویت نام کا کہنا ہے کہ پاراسلز (Paracels) کے جزائر اس کے ہیں۔ چین نے ان جزائر سے ویت نام کو ۱۹۷۴ء میں بے دخل کیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انتہائی جنوب میں چھوٹے جزائر کے ایک مجموعے اسپارٹلے (Spartly) پر بھی ویت نام کا دعویٰ ہے۔ بحیرۂ جنوبی چین کے انتہائی جنوب میں واقع اکنامک زون کی ملکیت کے حوالے سے چین اور فلپائن کے درمیان تنازع چل رہا ہے۔ بحیرۂ جنوبی چین کے کچھ حصے پر ملائیشیا اور برونائی بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ علاقائی تنظیم آسیان نے اس حوالے سے ثالثی کی کوشش بھی کی ہے۔ دو سال قبل ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی میں ایک کانفرنس کے دوران امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بحیرۂ جنوبی چین کو امریکی مفادات کے لیے انتہائی اہم قرار دے کر چین کو بر افروختہ کیا۔ اور تب سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

چین نے امریکا پر ویت نام اور فلپائن کو اُکسانے کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسری طرف امریکا نے چین کے ردعمل کو اہمیت نہ دینے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ امریکا کی شہہ پر ویت نام نے بحری حدود سے متعلق نیا قانون نافذ کیا ہے اور دوسری طرف فلپائن نے بحیرۂ جنوبی چین میں تیل اور گیس کی تلاش سے متعلق نئے منصوبے شروع کردیے ہیں۔ یہ سمندری خطہ اس لیے بھی بہت متنازع ہے کہ اس میں معدنی وسائل بھرے پڑے ہیں۔ تیل اور گیس کے علاوہ ان میں معدنیات کے وسیع ذخائر بھی ہیں۔ خطے کا ہر ملک ان وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہتا ہے۔

چند ماہ کے دوران اسکاربورو شول (Scarborough Shool) کے تنازع پر چین اور فلپائن کے درمیان خاصی کشیدگی رہی ہے۔ جب طوفانوں کا موسم نزدیک آنے پر دونوں ممالک نے بحریہ کی کشتیوں کو گشت سے اور ماہی گیروں کی کشتیوں کو روکا تب کہیں جاکر معاملات کچھ درست ہوئے۔ فلپائن کا الزام ہے کہ چین نے ایک بحری گزر گاہ چھوڑ تو دی ہے مگر اس بات کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ کوئی اور ملک وہاں ماہی گیری کرسکے۔ امریکا چاہتا ہے کہ بحیرۂ جنوبی چین کے تنازعات کو خطے کے تمام فریق مل کر طے کریں جیسا کہ آسیان کر رہا ہے۔ جولائی میں وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں آسیان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تنظیم کی ۴۵ سالہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ چین کے حلیف کمبوڈیا نے بحیرۂ جنوبی چین سے متعلق متعدد ارکان کے الفاظ کو قبول کرنے سے انکار کرکے متفقہ مشترکہ اعلامیے کی راہ میں دیوار کھڑی کردی۔

انڈونیشیا کی کوششوں سے آسیان نے بہر حال ایک واضح موقف اپنایا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ سمندری حدود کے تنازع سے متعلق تمام امور دو طرفہ بنیاد پر طے کیے جائیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس معاملے میں چھوٹے ممالک مل کر کوئی مسئلہ کھڑا کریں، اور بالخصوص امریکا کی سرپرستی میں۔ چین خطے میں مزید کشیدگی روکنا چاہتا ہے اور امریکا کے حوالے سے اس کے خدشات بلا جواز نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ امریکا تمام علاقائی تنازعات سے دور رہے۔ عالمی سطح پر طاقت کا توازن اب ایشیا اور بحر الکاہل کے حق میں بدل رہا ہے۔ امریکا اس بدلتی ہوئی صورت حال میں ایشیا میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کا دو طرفہ یا علاقائی تنازعات میں ساتھ دے کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے بحیرۂ جنوبی چین کو ’’بحیرۂ مغربی فلپائن‘‘ کہہ کر چین کو مزید مشتعل کیا ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کے امور میں چین کا رویہ خاصا غیرلچکدار رہا ہے جس کے باعث خطے کے ممالک امریکی مداخلت کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ چین کے مقابلے میں امریکا اور یورپ کا ساتھ دینے کی صورت میں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔ چین نے پورے سمندری خطے پر ملکیت کا دعویٰ ضرور کیا ہے مگر اب تک یہ واضح نہیں کہ یہ دعویٰ کس بنیاد پر ہے۔ خطے کے تمام ممالک یقینا اس بات سے پریشان ہیں کہ چین پورے جنوبی سمندر کو اپنا تالاب گردانتا ہے۔

(“The South China Sea Troubled Waters”… “Economist”. August 6th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*