
ہندوستان میں لوک سبھا الیکشن کا آغاز بس دو دن بعد ہونے والا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن کے اعلان سے دو روز قبل ۹مارچ تک ۲۲۹۳ سیاسی پارٹیاں الیکشن کمیشن آف انڈیا کے تحت رجسٹرڈ ہو چکی تھیں۔ جس میں ’’بھروسا پارٹی‘‘، ’’سب سے بڑی پارٹی‘‘ اور ’’راشٹریہ صاف نیتی پارٹی‘‘ وغیرہ شامل تھیں۔ پارٹیوں کی تعداد یہیں نہیں رکی بلکہ یکم اپریل ۲۰۱۹ء کو ایک اور فہرست الیکشن کمیشن آف انڈیا نے جاری کی اور بتایا کہ ۲۲۹۳ سیاسی پارٹیوں کی تعداد اب بڑھ کر ۲۳۵۴ ہوچکی ہے، فہرست میں نئی پارٹیوں کے نام اور پتے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان دنیا میں آبادی کے اعتبار سے چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ۲۰۱۹ء میں تقریباً ۳۷ء۱ بلین آبادی یعنی ۱۳۷کروڑ افراد ہندوستان میں بستے ہیں۔ وہیں آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں لوک سبھا الیکشن میں کل ۵۵۲ سیٹوں پر انتخاب عمل میں آتا ہے۔ جس میں ۵۳۰ ممبر آف پارلیمنٹ ملک کی ریاستوں سے منتخب ہوتے ہیں، ۲۰ ممبر آف پارلیمنٹ یونین ٹیریٹریز سے اور ۲ کا تقرر صدر جمہوریہ ہند، انگلو انڈین کمیونٹی سے کرتا ہے۔
ہندوستان میں پہلی مردم شماری ۱۹۵۱ء میں ہوئی تھی اس وقت ملک کی آبادی ۶۳ء۳۷ کروڑ تھی لیکن آج یہ آبادی ۱۳۶کروڑ ۸۷ لاکھ سے زائد ہو چکی ہے اور جلد ہی ۱۳۷کروڑ ہو جائے گی۔ ملک کی آبادی کے تناظر میں اگر مسلمانوں کی آبادی کو دیکھا جائے تو ۱۹۵۱ء میں مسلمانوں کا تناسب ۸ء۹ فیصد تھاجو ۲۰۱۸ء میں بڑھ کے ۱۵فیصد یعنی ۲۰ کروڑ سے کچھ زائد ہو چکی ہے۔ اس پس منظر میں یعنی آبادی کے تناسب کے اعتبار سے مسلمانوں کی پارلیمان میں نمائندگی کا جائزہ لیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ۱۹۵۲ء میں ۱۱ مسلمان ممبر آف پارلیمنٹ یعنی کل تعداد کا ۲ فیصد منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد ۱۹۵۷ء میں ۱۹، ۱۹۶۲ء میں ۲۰، ۱۹۶۷ء میں ۲۵، ۱۹۷۱ء میں۲۸، ۱۹۷۷ء میں ۳۴، ۱۹۸۰ء میں ۴۹، ۱۹۸۴ء میں ۴۲، ۱۹۸۹ء میں۲۷، ۱۹۹۱ء میں۲۵، ۱۹۹۶ء میں۲۹، ۱۹۹۸ء میں ۲۸، ۱۹۹۹ء میں۳۱، ۲۰۰۴ء میں۳۴، ۲۰۰۹ء میں۳۰، اور ۲۰۱۴ء میں۲۴ مسلم رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔ اس پورے اعداد و شمار کی روشنی میں ۱۹۸۰ء وہ سال ہے جس میں مسلم اراکین پارلیمان کی نمائندگی سب سے زیادہ ۴۹ رہی ہے، برخلاف اس کے ۱۹۶۲ء کے بعد حالیہ و جاری پہلی لوک سبھا ۲۰۱۴ء کے نتائج تھے، جس میں سب سے کم مسلمان ممبر آف پارلیمنٹ کی تعداد ۲۴ ہو گئی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اس کے باوجود کہ مسلم آبادی کے تناسب میں بالترتیب ۱۹۵۷ء سے لے کر ۲۰۱۴ء تک اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہمارے خیال میں اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔i) سیکولر سیاسی سمجھی جانے والی جماعتوں کی شکست فاش اور ii) کمیونل جماعتوں کے گٹھ جوڑ میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے، ان کی نمائندگی کو کم کرنے یا ختم کرنے کا جذبہ۔ دوسری طرف اعداد وشمار کی روشنی میں یہ تعداد بھی ہمیں ملتی ہے کہ ہندوستان میں ۳۰ سے ۴۰ فیصد ووٹ شیئر جس لوک سبھا امید وار کو حاصل ہوتا ہے وہ عموماً کامیابی درج کراتا ہے۔ برخلاف اس کے یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں ۴۶ لوک سبھا حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کا ووٹ فیصد ۳۰ فیصد سے زیادہ ہے۔ یعنی اگر اِن ۴۶ مقامات پر ۱۰سے ۱۵ فیصد مسلم ووٹ کسی امیدوار کو مل جائے تو اس کی جیت لازمی ہے۔ اس سب کے باوجود ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں مسلم نمائندگی ۲۴ تک ہی پہنچ کر رک گئی تھی۔ اس کی وجہ بھی ہمیں جاننے کی ضرورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اِن ۴۶ مقامات پر جہاں مسلمانوں کا ووٹ شیئر ۳۰ فیصد سے زیادہ ہے، ان مقامات پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے مسلم امیدوارکھڑے کیے جاتے ہیں، ووٹ تقسیم ہوتا ہے اور نتیجہ میں ناکامی ہاتھ آتی ہے۔
مسلمانوں کی آبادی کا تناسب، مسلم ووٹوں کی تعداد، سیکولر اور غیر سیکولر سیاسی پارٹیوں سے وابستہ مسلم لوک سبھا اراکین پارلیمان کی گھٹتی بڑھتی تعدادکے تناظر میں ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا مسلمانوں کے مسائل آزادی سے لے کر آج تک ہندوستان میں حل ہوتے نظر آرہے ہیں؟ نیز یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آزادی سے قبل اور اس کے بعد مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے؟ اس کے باوجود کہ مسلمانوں کی تعداد اور تناسب میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ مسلمانوں کی اپنی شریعت پر عمل درآمد کے سلسلے میں یا ان کی شناخت، تشخص اور سماجی، معاشی، تعلیمی و معاشرتی مسائل میں آبادی کے بڑھتے اعداد و شمار کی روشنی میں اور لوک سبھا میں نمائندگی کے نتیجہ میں کمی آتی نظر آرہی ہے؟ غالباً اکثریت کی رائے یہی ہوگی کہ نہیں، مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ان میں لگاتار اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کل مسائل کی شکل اور شدت کچھ اور تھی اور آج مسائل کی شکل تبدیل شدہ ہے اور شدت میں بھی اضافہ ہی ہوا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہندوستانی مسلمانوں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ مسئلہ کا حل کیا ہے؟ کیونکہ یہ اہم سوال ہے لہٰذا اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن اس سے قبل کہ مسائل کا حل تلاش کیا جائے، اس پر غور و فکر کیا جائے، دیکھنا یہ بھی چاہیے کہ اب تک ستر سالہ دور آزادی میں مسلمانوں نے مسائل کے حل کے لیے کیا تدابیر اختیار کی ہیں؟ جن طریقوں کو تدبیر کی شکل دیتے ہوئے مسائل میں کمی کی کوشش کی گئی ہے، کیا انہی میں کچھ رد و بدل کیا جاسکتا ہے؟ یا پھر ایک نئے لائحہ عمل کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنے کی ضرورت ہے؟ جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں۔
جب ہم مسائل کے حل کے طریقوں پر غور و فکر کرتے ہیں، جو اب تک اختیار کیے گئے،تو واضح طور پر دو طریقے سامنے آتے ہیں۔i)مسلمانوں کے ایک بڑے خوشحال طبقہ نے سیاسی جماعتوں سے وابستگی اختیار کی اور اقتدار کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جانبii)جو طریقہ سب سے زیادہ موضوع بحث رہا وہ مسلمانوں کی ابتر تعلیمی صورتحال اور اس میں بہتری کی کوششیں رہی ہیں۔ان دو طریقوں کے نتائج پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے یا تحقیقی نظرتو جو بات واضح طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں سے وابستگی،ا ن میں اثر و رسوخ،اقتدار کا حصول، جیسی کوششوں کے باوجود مسلمان سیاستدانوں کی حیثیت مختلف سیاسی جماعتوں کے کارندوں سے بڑھ کے نہیں رہی۔ اُن کی حیثیت صرف یہی رہی ہے کہ وہ اُن سیاسی جماعتوں کے حق میں کام کریں، جس سے وہ وابستہ ہیں۔ مسلمان، مسلمانوں کے مسائل، شریعت اور پرسنل لاء کی بحالی نیز معاشی،تعلیمی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے غور و فکر نہ کریں اور اگر کریں بھی تو آزادانہ طور پر کریں، انفرادی حیثیت سے کریں۔ان کے اس غور و فکر اور عمل درآمد کی راہوں میں سیاسی جماعت جس سے وہ وابستہ ہیں،اس کا کچھ تعلق نہیں ہے،نہ وہ اس میں کسی طرح کے تعاون کی بات کرتی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے مسائل اس کے سامنے کوئی اہمیت کے حامل مسائل ہیں۔اس کے سیدھے معنی یہ ہوئے کہ گرچہ وہ ملک کا حصہ ہیں لیکن سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اور ملک کا بااقتدار طبقہ،جو پارلیمان چلا رہا ہے،ان کے لیے بطور خاص،کوئی منصوبہ نہیں بنائے گا۔وہیں افسوس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں سے وابستہ خوشحال مسلمانوں کو بھی درحقیقت ان مسائل سے کبھی لگاؤ نہیں رہا۔وہ ان مسائل کو اگر کبھی اٹھاتے بھی ہیں تو خصوصاً اس وقت جبکہ انہیں مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہونے یا نہ ملنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے وہ پارٹی اور پارٹی کی پالیسی کے وفادار ہیں اور جب کبھی انہوں نے مسائل کے حل میں عملدرآمد کی بات کی یا آواز ہی اٹھانے کی کوشش کی تو انہیں باغی سمجھا گیا، نظر انداز کیا گیا یہاں تک کہ دھتکارا گیا۔
لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ بیس ریاستوں کی اکّیانوے سیٹوں پر مکمل ہو گئی ہے۔ اترپردیش، بہار، مغربی بنگال، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور اتراکھنڈ سمیت ۲۰ ریاستوں میں صبح سے ہی پولنگ بوتھوں پر لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں اور کل ۵۹ فیصد ووٹنگ کا عمل مکمل ہوا۔ اکّیانوے سیٹوں کے چودہ کروڑ سے زائد ووٹروں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے۔ ان میں جموں و کشمیر کی دو لوک سبھا سیٹوں پر بھی پہلے مرحلے میں ووٹنگ ہوئی اور ریاست میں کل ۵۴ء۴۹ فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ بارہمولہ میں ۳۲ء۲۹ فیصد اور جموں میں ۶۷ء۳۹ فیصد کے قریب ووٹنگ ہوئی، جو گزشتہ انتخابات ۲۰۱۴ء میں ۵۷ فیصد کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ اسی دوران چیف جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس سنجے کے کول نے بدھ کے دن دیے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ رازداری کے نام پر میڈیا کی رپورٹ نہیں روکی جاسکتی۔ دراصل ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے کہا کہ ’’نہ تو ہندوستانی پارلیمان کا بنایا کوئی قانون اور نہ ہی انگریزوں کا بنایا آفیشیل اسکریٹ ایکٹ‘‘ میڈیا کو کوئی دستاویز یا معلومات شائع کرنے سے روک سکتا ہے اور نہ ہی عدالت ان دستاویزات کو خفیہ مان سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مرکزی حکومت قومی سلامتی کا حوالہ دے کر آرٹی آئی یا حق اطلاعات کے تحت طلب کی گئی معلومات دینے سے انکار نہیں کرسکتی ہے۔ حالانکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ صرف معلومات مانگنے سے معلومات مل جائیں گی۔ اطلاع مانگنے والے کو اپنے دلائل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس طرح کی معلومات کو چھپانا، معلومات دینے سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ وہیں دوسری طرف سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو زبردست جھٹکا دیتے ہوئے ’خاص اور خفیہ‘ دستاویزات پر مرکز کے استحقاق کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسی دستاویزات عدالت میں درست ہیں۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بینچ نے مرکز کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت میرٹ کی بنیاد پر کی جائے گی اور اس کے لیے نئی تاریخ مقرر کی جائے گی۔ برخلاف اس کے مرکزی حکومت کا ابتدائی اعتراض تھا کہ کیا عدالت نظرثانی درخواست دائر کرنے والوں کی جانب سے جمع کرائی گئی خصوصی اور خفیہ دستاویزات پر سماعت کر سکتی ہے؟ سابق مرکزی وزرا، ارون شوری اور یشونت سنہا اور جانے مانے وکیل پرشانت بھوشن نے رافیل لڑاکا طیارے سودا معاملہ میں عدالت کے گزشتہ سال ۱۴ دسمبر کو دیے فیصلے کا جائزہ لینے کے لیے عرضیاں دائر کی تھیں، جن میں انہوں نے کئی ایسی دستاویزات لگائی تھیں، جو مرکزی حکومت کی نظر سے خاص قسم کی اور خفیہ تھیں۔
لوک سبھا الیکشن کی گہما گہمی کے درمیان دارالعلوم دیوبند کے حوالہ سے یہ وضاحتی خبر بھی سامنے آئی کہ دارالعلوم دیوبند ایک غیر سیاسی اور خالص تعلیمی ادارہ ہے جس کی جانب سے ماضی و حال میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا اور نہ کیا جائے گا، لیکن اطلاعات مل رہی ہیں کہ کسی شرپسند کے ذریعہ سوشل میڈیا پر دارالعلوم دیوبند کی جانب سے کوئی جعلی سیاسی اپیل پھیلائی جا رہی ہے، جس میں کسی ایک جماعت کی حمایت اور مخالفت کی اپیل ہے، یہ سراسر غلط ہے۔ دارالعلوم دیوبند اور اس کے تمام ذمہ داران کی جانب سے اس وقت تک کسی کی حمایت یا مخالفت میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ وہیں دوسری جانب شاہی امام مولانا سید احمد بخاری کے اس استدلال کے ساتھ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے مسلمانان ہند کو مایوس کیا ہے، لہٰذا ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت میں اپیل نہ کرنے کا فیصلہ و اعلان کیا ہے۔ مولانا نے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کس کی حمایت کی جائے اور کس کی نہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملت کی سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور سماجی پسماندگی، وقف املاک پر ناجائز قبضے، اقلیتی بہبود کی وزارت کی کارکردگی، مختلف ادوار میں محض کاغذی فلاحی اسکیمیں سامنے لانے کے علاوہ وعدوں، بیانات اور اعلانات کی ایک طویل فہرست ہے، جسے سامنے رکھتے ہوئے ملک کے عوام کو اور خصوصاً مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر اور دُور رس نتائج کو سامنے رکھ کر ایک نئی حکومت بنانے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کے دو الگ الگ نمائندوں کے بیانات کے بعد اس خبر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس میں اترپردیش کے سلطان پور سے مرکزی وزیر اور بی جے پی امیدوار مینکا گاندھی نے کہا کہ ہم کھلے ہاتھ اور کھلے دل کے ساتھ آئے ہیں، آپ کو کل میری ضرورت پڑے گی۔ یہ الیکشن تو میں پار کرچکی ہوں۔ انہوں نے مسلمانوں سے ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہ اگر وہ انہیں ووٹ نہیں دیں گے تو ان کے لیے بھی، مسلمانوں کے کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس بیان کو عام انداز میں ہر شخص نے مینکا گاندھی کی جانب سے مسلمانوں کو دھمکی سے تعبیر کیا ہے اور یہی اس کی حقیقت بھی ہے۔ گفتگو کے پس منظر میں جہاں ایک جانب مسلمانوں کو دنیا و آخرت کی سرخ روئی دلانے والے قائدین کنفیوژن کا شکار ہیں کہ ۲۰۱۹ء میں مسلمان جو ملک کا تقریباً ۱۵ فیصد ہیں اور آبادی کے اعتبار سے تقریباً ۲۰ کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں، کسے ووٹ دیں؟ تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو اور نفرت کا بازار جو دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے وہ کم ہو۔ دوسری طرف کھلے عام یا دبے لفظوں میں مسلمانوں کو نظر انداز کرنے، انہیں کنارے لگانے اور ان کے وہ مسائل جو قانون و آئین کے دائرہ میں آتے ہیں، جنہیں حل کرنا ہر رکن پارلیمان کی ذمہ داری ہے، اسے وہ حل کرنا نہیں چاہتے بلکہ الٹا انہیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اگر وہ ایک خاص پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے تو وہ بھی ان کے کام نہیں کرے گا۔
یہ صورتحال صاف طور پر واضح کرتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت کس درجہ کمزور ہوتی جارہی ہے خصوصاً ان سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے جو ملک میں حکومت چلانے اور بنانے کا دعویٰ کرتی ہیں اور جو کہتی ہیں کہ ہم کسی خاص گروہ کے لیے نہیں بلکہ تمام اہل ہندوستان کی خدمت کے جذبے سے سیاست میں سامنے آئے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ متذکرہ مسائل صرف کسی خاص نظریے والی پارٹی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ یہ صورتحال تمام سیاسی پارٹیوں میں موجود ہے۔ کیونکہ ایک جانب وہ ہیں جو کھلے طور پر اپنے عزائم اور ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں تو وہیں دوسرے وہ بھی ہیں جو گرچہ عزائم و ارادے بھونڈے انداز میں ظاہر نہیں کرتے اس کے باوجود اُن کی سرگرمیوں سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ بھی مسلمانوں کو اور ان کے ووٹ کو صرف ایک مدت یعنی الیکشن کے دنوں میں تو اہمیت دیتے ہیں لیکن جب وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں سرے سے نظرانداز کر دیتے ہیں، ان کی بات تک کرنا اپنی مجبوری سمجھتے ہیں، کیونکہ ہندوستان میں بے شمار ریاستیں ہیں۔ جن میں ضمنی انتخابات، اسمبلی انتخابات، پنچایت اور وارڈ کے انتخابات سال کے تقریباً ہر دو یا تین ماہ ہوتے ہی رہتے ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال کے پیش نظر وہ اپنی زبان، پالیسی، پروگرام، منصوبہ، اسکیمیں اور مسائل کا حل مسلمانوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہیں بنانا چاہتے کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اس سے اکثریت کے ووٹ بٹ جائیں گے اور وہ ناکام ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہی نہیں بلکہ گزشتہ ستر سال سے ایک طرف ہارڈ ہند توا کا نعرہ لگانے والے موجود ہیں تو وہیں سافٹ ہند توا کے علمبرداروں نے اپنے طرز عمل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہیں۔ انہیں صرف غرض ہے تو ووٹ سے۔ اس سے زائد مسلمان کسی دھوکے کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی اکثریت سے وابستہ افراد کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہوئے انہیں نظرانداز کریں۔ اس صورتحال میں آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ مسلم سیاستدانوں کی حیثیت کیا کچھ ہوگی؟ ان کا پالیسی بنانے اور اسے روبہ عمل لانے میں کتنا عمل دخل ہوسکتا ہے؟ اور جو مسائل خصوصاً مسلمانوں کے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، ان کے حل میں انہیں کس حد تک پارٹی اختیار دیتی ہوگی؟
ملک میں جاری لوک سبھا الیکشن ۱۱؍اپریل سے ۱۹؍مئی ۲۰۱۹ء تک سات مراحل میں مکمل ہوگا۔ جس میں ۱۸ سال یا اس سے زائد کے تقریباً ۹۰۰ ملین ووٹر اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے ملک کی ۵۴۳ سیٹوں پر ممبر آف پارلیمنٹ کا انتخاب کریں گے۔ پہلے مرحلے کی پولنگ گزشتہ ۱۱؍ اپریل کو مکمل ہو گئی ہے۔ وہیں دوسرے مرحلے کی پولنگ بھی سخت سیکورٹی کے درمیان ۱۳ ریاستوں کی ۹۵ سیٹوں پر ۱۵۹۶؍ امیدوار اور ۵۰ء۱۵ کروڑ ووٹرز کے ذریعہ مکمل ہو چکی ہے۔ ریاست تمل ناڈو میں پارلیمانی انتخابات کے ساتھ اسمبلی کی ۲۲ خالی سیٹوں میں سے ۱۸ پر لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ہی دوسرے مرحلے کی پولنگ میں ووٹ کاسٹ ہوا ہے۔ کل ۶۲ فیصد پولنگ دوسرے مرحلے میں مکمل ہوئی۔ سب سے زیادہ پولنگ آسام، منی پور اور مغربی بنگال میں ۷۶ فیصد سے کچھ زائد ہوئی تو سب سے کم ۰۷ء۴۴ فیصد پولنگ جموں و کشمیر میں ہوئی جو پہلے مرحلے کی پولنگ ۵۴ء۴۹ فیصد سے بھی کم ہے۔ اس درمیان دو بڑے اور اہم واقعات سامنے آئے جس میں ایک واقعہ اے ایس محمد محسن کا بطور آفیسر وزیراعظم نریندر کمار مودی کے قافلہ کی تلاشی اور معطلی کا ہے تو وہیں دوسرا واقعہ سادھوی پرگیہ ٹھاکر کا نومینیشن اور بھوپال سے کانگریس کے سینئر لیڈر دگوجے سنگھ کے خلاف میدان میں اتارنے کا ہے۔ ان دو واقعات کے درمیان ایک اور واقعہ قابل اہم پیش آیا جسے عموماً الیکٹرانک میڈیانے کور نہیں کیا وہ ہے سی بی ایس ای کے ذریعہ دسویں کلاس کے طلبہ کو سوشل سائنس میں پڑھائے جانے والے باب ’’جمہوریت اور تنوع‘‘ پر مبنی چیپٹر کو سیشن ۲۰۔۲۰۱۹ء کے امتحان میں شامل نہیں کیا گیا، یعنی اب اس موضوع پر طلبہ و طالبات اور ملک کے مستقبل کو پڑھانے، سمجھانے اور سماجی شعور پیدا کرنے کی ضرورت سی بی ایس ای نے محسوس نہیں کی۔ خصوصاً ان حالات میں جبکہ ملک اندرون خانہ تقسیم ہو رہا ہے اور نظریاتی سطح پر ایک بھیانک صورتحال سے نبر د آزما ہے۔
نریندر مودی کے ذریعہ جہاں ایک جانب پرگیہ ٹھاکر کی امیدواری کانگریس کو مہنگی پڑنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ وہیں ہزاروں سال پرانی ہندو تہذیب کو دہشت گرد کہنے والوں کو پی ایم کا ’علامتی‘ جواب بھی مانا جا رہا ہے۔ پی ایم نے پرگیہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ راہول اور سونیا بھی تو ضمانت پر باہر ہیں، جب سادھوی کو جیل میں ٹارچر کیا جا رہا تھا تب کسی نے آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ وہیں کانگریس کے زیر اقتدار ۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کو دہشت گردی سے تعبیر کیا، نیز میڈیا کے رویہ پر بھی سوال اٹھائے۔ ’ٹائمس ناؤ‘ سے گفتگو کے دوران پی ایم مودی نے کہا کہ سمجھوتہ بلاسٹ کیس کا فیصلہ آگیا ہے، کیا نکلا؟ انہوں نے اس موقع پر آنجہانی وزیراعظم راجیو گاندھی کو بھی نشانے پر لیا اور کہا کہ جب ۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی کا قتل ہوا تو ان کے صاحبزادے نے کہا تھا کہ جب بڑا پیڑ گرتا ہے تو زمین ہلتی ہے۔ اس کے بعد ملک میں ہزاروں سرداروں کا قتل عام کیا گیا۔ کیا یہ متعین دہشت گردی نہیں تھی؟ دوسری جانب دہشت گردی کی ملزم سادھوی پرگیہ ٹھاکر نے بھوپال پارلیمانی حلقے سے پارٹی امیدوار بننے کے ساتھ ہی جذباتی اور زہر سے بھرا ہندوتوا کارڈ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں بی جے پی بھی بیک فٹ پر آگئی ہے۔ خبر کے مطابق سادھوی پرگیہ ٹھاکر نے مہارشٹر اے ٹی ایس (انسداد دہشت گردی دستہ) کے سابق سربراہ اور سینئر پولیس افسر رہے جانباز اشوک چکر اعزاز یافتہ ہیمنت کرکرے پر انتہائی شرمناک اور ناقابل قبول بیان دے کر پورے ملک میں طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ بیان میں پرگیہ نے کرکرے کو دیش دروہی بتاتے ہوئے کہا کہ میرے شراپ (بددعا)سے سوا مہینہ کے اندر ہی اس کا سروناش (خاتمہ) ہوگیا، دہشت گردوں کی گولیوں سے مارا گیا۔ اس بیان کے بعد پورے ملک میں طوفان کھڑا کردیا ہے۔ آئی پی ایس ایسوسی ایشن نے اس بیان کی مذمت کی ہے اور الیکشن کمیشن نے بھی اس بیان پر نوٹس لیا ہے۔ ان تمام بیان بازیوں اور ایک دوسرے پر بدترین الزامات کے باوجود دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر سرخیوں میں اپنے تبصروں کو لے کر رہنے والے بی جے پی کے راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ اور سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے جمعرات کو اس لوک سبھا انتخابات کو لے کر اپنی ہی پارٹی کے لیے ناقابل یقین حد تک مایوس کن پیشگوئی کی۔ سوامی نے کہا کہ اُن کی پارٹی اس الیکشن میں ۱۸۰ سیٹوں کو پار کرنے کے قابل نہیں ہو سکتی۔ سوامی نے ٹوئٹر پر لکھا، اجودھیا میں ملاقات کے دوران مجھے رام مندر کے بارے میں پتا چلنے کا احساس ہوا کہ وہ بہت مضبوط ہے، اگر وہ ووٹ ملے تو ہم ۱۸۰ سیٹوں کو پار نہیں کرپائیں گے۔ اس پر غور کرنا چاہیے اور مایوسی کو دور کرنا چاہیے۔ اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی اندر سے بہت حد تک ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات کو لے کر مایوس ہے۔ دوسری جانب سروے رپورٹس سے بھی واضح ہوا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ، ۱۲ مارچ تا ۱۲؍اپریل تک مودی لہر میں ۱۲؍ پوائنٹ کی کمی آئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کمیونل کارڈ،جو اس پر ہمیشہ سے الزام لگتا آیا ہے، کھیلنے پر مجبور ہے۔ اس صورتحال میں اگر کوئی سب سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہے تو وہ مسلمان ہیں۔ کیونکہ جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ ملکی سطح پر گزشتہ سالوں میں اور موجودہ حالات میں لوک سبھا امیدوار بنانے کا عمل جاری ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہارڈ ہندوتوا مزید ہارڈ ہوتا جارہا ہے۔ نتیجہ میں سافٹ ہندوتوا مزید ہارڈ ہونا پڑ سکتا ہے۔ سافٹ ہندوتوا کی علمبردار سیاسی پارٹیاں اور ہارڈ ہندوتوا سے منسلک پارٹیاں، دونوں ہی سیاسی محاذ پر کامیاب ہوتے رہیں گے۔لیکن اس درمیان ملک کے کمزور طبقات،پسماندہ طبقات اور اقلیتیں مزید مسائل سے دوچار ہوسکتی ہیں۔تشویش میں مبتلا اورمسائل میں گرفتار و اضافہ ہونے کے باوجود اُن کے سامنے حل کے اعتبار سے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔اگر ہے تو وہی کہ ہارڈ ہندوتو کے مقابلے سافٹ کو قبول کر لیجیے! اگر آپ یعنی مسلمان ایسا نہیں کرتے، تو کل کیا ہوجائے اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے اور جو کچھ ہوگا آپ ہی کی وجہ سے ہوگا لہٰذا اس موقع پر ہمیں نہیں پکاریے گا۔
گفتگو کے اس پورے پس منظر میں اور سیاسی بساط پر مسلمانوں کی حیثیت کے عنوان کی روشنی میں یہ بات اچھی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ہندوستانی مسلمان گزشتہ ستر سال میں سیاسی بساط پر اُس چکر ویو کا شکار ہو چکے ہیں جس سے نہ انہیں نکلتے بنتا ہے اور نہ ہی اس میں رہتے ہوئے نجات کی راہیں تلاش کی جا سکی ہیں۔ ان حالات میں گزشتہ دہائی سے لے کر اب تک چند ایسی سیاسی پارٹیوں کا وجود عمل میں آیا ہے اور ایسے آزاد امیدوار بھی سامنے آئے ہیں جنہیں واقعی ملک، اہل ملک، کمزور طبقات، پسماندہ طبقات، اقلیتیوں کے مسائل، امن و امان اور تعمیر و ترقی سے دلچسپی ہے۔ وہیں اس سلسلے میں ان کا موقف صاف ستھرا اور واضح ہے۔ لہٰذا ایک باشعور شہری ہونے کے ناتے ہمیں اِن سیاسی جماعتوں سے وابستہ کم ازکم اُن نمائندوں کو اور آزاد نمائندوں کو جو مسائل کا حل پیش کر سکتے ہیں، مسائل کی شدت میں کمی لانے کی سعی و جہد کر سکتے ہیں، کے حق میں اپنے ووٹ کو استعمال کرنا چاہیے۔ اِس ڈر اور خوف سے بالاتر ہو کر کہ ایسے نمائندوں کو ووٹ دینے کے نتیجے میں ہمارا ووٹ تقسیم ہوجائے گا یا وہ ناکام ہوجائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ ووٹ تقسیم ہونے اور فرقہ واریت کو کنٹرول کرنے کے نام پر منصوبہ بند اور منظم طریقہ سے اُن ممبر آف پارلیمنٹ کو آنے سے روکا گیا ہے جو مخلص تھے اور ہیں۔ اور یہ کام بھی انہیں لوگوں نے انجام دیا ہے جو گرچہ سافٹ ہندوتوا کے علمبردار رہے ہیں لیکن وہ کھل کر اس کا اظہار نہیں کرتے۔ لہٰذا آج وقت آگیا ہے کہ اس فضا سے باہر نکلا جائے اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کیا جائے!
Leave a Reply