
شام میں فرقہ وارانہ جنگ
شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا منطقی انجام ابھی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ سنی اکثریت والے ملک میں بالآخر سنی عنصر جیت جائے گا اور آخر میں شام کے گرد ایک علوی اکثریت والی ایک سیٹلائٹ ریاست معرض وجود میں آ جائے گی۔ شام کے بحران نے ملک کی سرحدوں کے اندر اور اطراف فرقہ واریت کو ہوا دی ہے۔ شام کی سنی اکثریت کی حمایت اور مدد کرنے پر شام کی حکومت نے ترکی کے خلاف کرد برتن کو ہلا دیا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ ملیشیا نے اب تک دفاعی طرز عمل اختیار کیا ہے مگر وہ اندرونی اور بیرونی طور پر اپنی بات منوانے کے لیے بہت کچھ کرسکتی ہے۔ لبنان میں فرقہ واریت کا عفریت بیدار ہوسکتا ہے اور اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں کے علاقے میں حزب اللہ اور شام کی طرف سے جارحانہ رویے کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ایران اور دیگر ممالک
ایران کے خلاف مغربی دنیا کے اقدامات اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پابندیوں کا بنیادی مقصد اس کی طاقت کم کرنا ہے۔ شام کی بشارالاسد انتظامیہ کی حمایت اور مدد کرکے ایران نے اپنی پوزیشن ویسے ہی خراب کرلی ہے۔ ایرانی حکومت مغربی دنیا سے مذاکرات کرتی رہے گی، معاملات بظاہر قابو میں آتے رہیں گے اور اسرائیل کی طرف سے کسی بھی کارروائی کا خطرہ ٹلتا رہے گا۔ ایسے میں ایران محدود پیمانے پر یورینیم کی افزودگی کے ساتھ چلتا رہے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایران افزودگی جاری نہ رکھ سکے مگر خیر، مغربی طاقتوں سے کوئی ایسا معاہدہ ہوسکتا ہے جس کے تحت ایران کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں اور بدلے میں عراق، افغانستان، شام کے معاملات میں اُس سے تعاون طلب کیا جائے۔ ویسے براک اوباما اب تک اس پوزیشن میں نہیں کہ ایران سے کسی وسیع البنیاد امن معاہدے کے حوالے سے اسرائیل اور امریکی یہودی لابی کے تحفظات کو نظر انداز کرسکیں۔ ایران پر پابندیاں عائد ہیں۔ ان پابندیوں کے منطقی نتیجے کے طور پر وہ جلد کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہوگا۔
افغانستان۔ پاکستان
پاکستان اور امریکا کے اسٹریٹجک اہداف اِس مرحلے پر ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ بھی۔ ویسے اگر پاکستان، امریکا اور افغانستان کو ایک دوسرے سے وابستہ کرکے دیکھیں تو خاصی انتشار آمیز صورتِ حال دکھائی دیتی ہے۔ صرف افغان طالبان واضح ذہن کے ساتھ کام کر رہے ہیں یعنی یہ کہ غیر ملکی افواج کو ہر قیمت پر ملک سے نکلنا چاہیے، نئی انتظامیہ میں حامد کرزئی کا کوئی بندہ نہ ہو اور جن علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ہے ان میں حکومت کا اختیار دیا جائے۔ طالبان مذاکرات بھی اپنی شرائط پر کر رہے ہیں۔
افغانستان میں حقیقی امن کے حوالے سے کوئی وسیع البنیاد معاہدہ اب تک نہیں ہوسکا ہے اور نہ ہی اس کے آثار ہیں۔ ایسے میں لگتا یہ ہے کہ تشدد جاری رہے گا۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کا عمل خاصا تشدد آمیز ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ یہ عمل اندازوں سے زیادہ تیز ہو۔
امریکا اور پاکستان کے تعلقات قدرے بہتر دکھائی دے رہے ہیں مگر اسلام آباد اور کابل کے درمیان ہم آہنگی کافقدان نظر آتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ فریق ثانی اس کے دشمن کی مدد کر رہا ہے۔ افغانستان میں جوں جوں انخلا کا عمل اختتام کے نزدیک پہنچے گا، تشدد میں تیزی آتی جائے گی جو رفتہ رفتہ خانہ جنگی کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔ اس بار فرق یہ ہے کہ خانہ جنگی پاکستان کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
عرب کا موسم سرما
عرب دنیا میں بیداری کی لہر تھمتی دکھائی دیتی ہے۔ شام کے حالات خراب ہیں۔ مصر میں اسلام پسندوں کی حکومت بن گئی مگر اب تک مشکلات سے دوچار ہے۔ تیونس میں بھی اسلام پسندوں نے اقتدار پایا مگر اب ان پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ مصر اور تیونس میں نئی حکومتوں پر بنیادی الزام یہ ہے کہ وہ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ عرب بہار یعنی شعور کا موسمِ بہار، شدید نوعیت کا موسم گرما گزارنے کے بعد اب موسم سرما کی سرحد پر پہنچ چکا ہے۔
مصر اور تیونس میں عوامی سطح پر شدید احتجاج ہوسکتا ہے۔ عرب دنیا میں خرابیاں ختم نہیں ہوئیں۔ سلامتی کی صورت حال تشویشناک ہے۔ عرب دنیا کے کناروں پر یمن اور صومالیہ کے علاوہ مالی اور نائجیریا میں بھی حالات بہت خراب ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بڑے پیمانے پر ابھرنے والی خرابیوں کو دور کرنے کے حوالے سے اب تک کوئی بڑا منصوبہ ترتیب نہیں دیا گیا۔
مسلم دنیا میں اب تک فلسطین کے مسئلے کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی ترتیب نہیں دی گئی۔ یہ مسئلہ مسلم دنیا اور بالخصوص عرب ممالک کی نا اہلی کا مظہر ہے۔ دو ریاستوں کا نظریہ رفتہ رفتہ دم توڑتا جارہا ہے۔
تقسیم شدہ امریکا
اسرائیل رفتہ رفتہ یہودی نو آبادیاں بڑھاتا جائے گا۔ بنیامین نیتن یاہو کے دوبارہ منتخب ہونے کا امکان قوی ہے۔ ایسے میں حماس کی مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے اور امن عمل کے حامی فتح گروپ اور اس کے سربراہ محمود عباس کی مقبولیت میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔
فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے امریکا بھی کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکی سیاست میں نظریاتی تفریق غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں لبرل اور ری پبلکن عناصر نے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا کھل کر اظہار کیا۔ ڈیموکریٹ یا لبرل عناصر نے ری پبلکنز کو جس طور رگڑا دینے کی کوشش کی، اس کے نتیجے میں صدر براک اوباما کے خلاف نفرت بڑھی اور ان کے سوشل ایجنڈا کو مسترد کرنے کی سوچ پروان چڑھی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ امریکا میں نسل اور طبقات کی بنیاد پر شدید اختلافات موجود ہیں۔ واشنگٹن میں کسی بھی ایشو پر حقیقی غیر جانبدار موقف اختیار کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ یہ اختلافات معاشی اور معاشرتی پالیسیوں پر عملدرآمد کی راہ میں بھی حائل ہوں گے۔ معاشی خرابیوں کو دور کرنے کا کوئی بھی پروگرام پوری روح کے ساتھ نافذ نہیں کیا جاسکے گا۔ اسٹریٹجی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ چین، روس اور ایران کے معاملے میں اوباما انتظامیہ اپنی بات مکمل طور پر منوانے کی پوزیشن میں نہیں رہے گی۔
روس کا پلٹنا
روس اور امریکا کے تعلقات پھر کشیدگی کی طرف مائل ہیں۔ بعض معاملات پر کشیدگی غیرمعمولی حد تک پہنچ چکی ہے۔ روس نے امریکی جوڑوں کی جانب سے روسی بچوں کو گود لینے پر پابندی عائد کردی ہے۔ امریکی کانگریس میں میگنسکی بل (Magnitsky Bill) خاصا متنازع حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ کشیدگی شام کے معاملے کی کوکھ سے بھی پیدا ہوئی ہے اور یورپ میں اینٹی بیلیسٹک میزائلوں کی تنصیب کے باعث بھی۔ ہوسکتا ہے کہ اب دونوں ممالک ہتھیاروں میں تخفیف کے نئے معاہدے پر متفق نہ ہوں۔
اُبھرتا ہوا چین
چین کی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں ممالک (چین اور امریکا) تجارت اور ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے پر غیر معمولی انحصار کرنے لگے ہیں۔ اگر دونوں نے احتیاط کا دامن نہ تھاما تو وہ وقت دور نہیں جب یہ مختلف معاملات میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوں گے اور تصادم کی کیفیت پیدا ہوگی۔ چین کو اس بات پر تشویش ہے کہ امریکا اس کے پانیوں میں گڑبڑ پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جن پڑوسیوں سے چین کے تعلقات خاصے کشیدہ ہیں، انہیں ساتھ ملاکر اوباما انتظامیہ چین پر دباؤ بڑھانے کی تیاری کر رہی ہے۔ چین نے اس کا جواب متنازع جزائر پر جاپان کے خلاف سخت رویہ اپناکر دیا ہے۔
چین، جاپان اور شمالی و جنوبی کوریا میں نئی قیادت کے ابھرنے پر اس خطے میں امریکی مفادات غیر معمولی اہمیت اختیار کر جائیں گے۔
یورپ کا بحران
یورپ نے معاشی اعتبار سے استحکام حاصل کرنے کے سلسلے میں دو عشروں کے دوران جو کوششیں کی ہیں، اُن کے نتیجے میں اب کئی مضبوط معیشتیں بہتر اشتراکِ عمل کے ذریعے کام کر رہی ہیں اور شمالی یورپ کے ساتھ ساتھ بحیرۂ روم کے خطے میں بھی بہتری کے آثار ہیں۔
یورپ کے پاس اب دو راستے ہیں یا تو وہ معاشی و سیاسی اعتبار سے ایک ہونے کے لیے جرمن قیادت میں کام کرنے کے لیے تیار ہو جائے یا پھر کشیدگی اور اندرونی اختلافات کو اپنائے۔ دونوں صورتوں میں یورپی معیشتیں سکڑتی جائیں گی۔ چند خطے مثلاً کیٹیلونیا اور اسکاٹ لینڈ علیحدہ ریاست کی حیثیت اختیار کرنے کی سمت جاسکتے ہیں۔
عالمگیر سطح پر یورپ کا اثر و رسوخ گھٹتا جارہا ہے مگر اس کے باوجود اس کی معیشتیں متوازن رہیں گی۔ معیار زندگی غیر معمولی حد تک بلند ہے جس کے نتیجے میں بہترین معیشتوں کے پنپنے کی گنجائش بہرحال رہے گی۔
افریقا میں غربت
افریقا میں افلاس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک ارب سے زائد افراد انتہائی افلاس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں مطلوبہ مقدار میں معیاری خوراک میسر ہے نہ زندگی کی دوسری بنیادی سہولتیں۔ صحرائے صحارا کے زیریں علاقے میں بحران پنپ رہے ہیں جو عالمی سطح پر غیر معمولی اثرات کے حامل ہوسکتے ہیں۔
(مصنف اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔)
(“The Strategic Agenda”. “Dawn” Dec 23rd,2012)
Leave a Reply