
ترکی میں انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے غیرمعمولی کارکردگی کا اظہار کیا جانے والا ہے۔ اس وقت بھی انفرااسٹرکچر بہت عمدہ ہے مگر اس کا معیار مزید بلند کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ اگلا مرحلہ آبنائے باسفورس میں سرنگ کی تعمیر ہے۔
ترکی کے ۳۱ ویں سلطان عبدالمجید اول نے ایک خواب دیکھا تھا۔ ۱۸۳۹ء سے ۱۸۶۱ء تک حکمرانی کرنے والے سلطان کا خواب یہ تھا کہ آبنائے باسفورس کے اندر ایک ایسی سرنگ تعمیر کی جائے جو ایشیا کو یورپ سے ملائے۔ ایک فرانسیسی ماہرِ تعمیرات اس سرنگ کا بنیادی خاکہ لے کر سامنے آیا مگر تب ایک طرف تو زری وسائل کی کمی تھی اور دوسری طرف مطلوبہ ٹیکنالوجی کا بھی فقدان تھا۔
سلطان عبدالمجید اول کا خواب اب شرمندۂ تعبیر ہوگیا ہے۔ ۲۹؍اکتوبر کو دو براعظموں کو ملانے والی دنیا کی پہلی زیر آب سرنگ کا افتتاح ہوا۔ یہ سرنگ مجموعی طور پر ۶ء۱۳؍کلو میٹر لمبی ہے اور اس کا زیرِ آب حصہ ایک اعشاریہ چار کلو میٹر ہے۔
سرنگ کا افتتاح جدید ترک ریاست کے قیام کے ۹۰ سال مکمل ہونے پر کیا گیا۔ استنبول کے علاقے اسکودار کے میئر مصطفی کارا کہتے ہیں کہ ۳؍ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا جانے والا ۷۶ کلومیٹر طویل مرمرے ریلوے سسٹم بیجنگ اور لندن کو جوڑ دے گا۔
اس منصوبے کا سنگِ بنیاد وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے ۲۰۰۴ء میں رکھا تھا، جب ان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی پہلی بار اقتدار میں آئی تھی۔ ۲۰۲۵ء تک اس زیرِ زمین راستے کو روزانہ کم و بیش دس لاکھ افراد استعمال کر رہے ہوں گے۔ استنبول کی آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے۔ اس شہر میں بنیادی مسئلہ ٹریفک ہے۔
جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے اب تک سیکڑوں اسپتال اور سڑکیں بنوائی ہیں اور ان ترقیاتی منصوبوں سے اناطولیہ کے لوگ خاص طور پر خوش ہیں کیونکہ انہیں اشرافیہ نے اب تک نظر انداز کیا تھا۔ اے کے پارٹی کے ترقیاتی منصوبوں سے ترکی کے ہر طبقے اور علاقے کے لوگوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع ملا ہے۔ رجب طیب اردوان نے استنبول کی ایشیائی جانب ترکی کی سب سے بڑی مسجد تعمیر کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان کے چند منصوبوں نے عوام کو احتجاج پر مجبور بھی کیا ہے۔ گزشتہ برس انہوں نے استنبول میں ایک قدیم عمارت کے پہلو میں جدید ترین شاپنگ سینٹر تعمیر کرنے کے لیے سیکڑوں پرانے درخت کٹوائے تھے جس پر عوام اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور تقسیم اسکوائر پر شدید احتجاج کیا تھا۔ حال ہی میں انہوں نے انقرہ میں درخت کٹوائے اور اس بار بھی عوام سڑکوں پر نکل آئے۔
ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے رجب طیب اردوان نے حال ہی میں آبنائے باسفورس پر بحیرۂ اسود سے جڑنے والا تیسرا پل بنانے کا اعلان کیا ہے اور اس کے لیے بھی ایک وسیع رقبے پر درخت کاٹ دیے جائیں گے۔ پرندوں سے متعلق امور کے ماہر اُمِت یاردم کہتے ہیں کہ اس پل کی تعمیر سے پرندوں کے لیے خاص مشکلات پیدا ہوں گی۔ گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس کی روشنی سے وہ راستہ بھولیں گے اور بڑی تعداد میں حادثات کا شکار ہوجائیں گے۔ ان پرندوں کے سفر میں رکاوٹ سے ٹریفک کے حادثات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف علوی فرقے کے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس پل کو سابق سلطان سلیم سے موسوم کیا جائے گا، جس پر ان کے اجداد کے قتلِ عام کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ترک حکومت استنبول کے شمال مغرب میں ۶ رن وے والا ایئر پورٹ بھی تعمیر کرنا چاہتی ہے، جو دنیا کے بڑے ایئر پورٹس میں شمار ہوگا۔
رجب طیب اردوان نے جس منصوبے کو ایک بار خود متنازع قرار دیا تھا، اسے اب پھر شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ منصوبہ ۵۰ کلومیٹر کی نہر کھود کر بحیرۂ مرمرہ کو بحیرۂ اسود سے ملانے کا ہے۔ اس صورت میں ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ماحول کو خوشگوار رکھنے میں بھی مدد مل سکے گی۔ سمندری حادثات میں بھی کمی واقع ہوگی مگر ماحول کے تحفظ کے علم برداروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے بحیرۂ مرمرہ اور بحیرۂ اسود میں آبی حیات کو شدید نقصان پہنچے گا۔
اے کے پارٹی کے عہدیداروں نے نجی گفتگو میں بتایا ہے کہ ملک کی معیشت اتنے بڑے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ نہر کھودنا فی الحال ممکن نہیں۔ انہی عہدیداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عالمی قوتیں اردوان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں، جس میں ایئر پورٹ کے منصوبے کے بارے میں افواہیں پھیلانا بھی شامل ہے۔ یہ ایئر پورٹ ضرور تعمیر کیا جائے گا۔
رجب طیب اردوان نے بعض معاملات میں خود بھی تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ استنبول میں ایک قدیم مسجد کے پہلو میں شاپنگ سینٹر قائم کرنے کے معاملے میں ہوا۔ یہ مسجد سلطان عبدالمجید کی والدہ سے موسوم ہے جو سابق عیسائی لونڈی تھیں اور ان کا اصل نام ’’سوزی‘‘ تھا۔
(“Turkey’s Infrastructure: The Sultan’s Dream”.. “The Economist”. Oct. 26, 2013)
Leave a Reply