
عالمی سیاسی منظر نہ صرف بدل رہا ہے بلکہ تقریباً ایک عشرے سے ڈرامائی طور پر بدل چکا ہے۔ یک قطبی دنیا کا جاہ و جلال والا تصور جس میں ایک خود ساختہ ’’واحد سپر پاور‘‘ ایک نئی امریکی صدی کے منصوبے (PNAC) کے تحت اپنا دائمی ہمہ رخ غلبہ برقرار رکھتی ہے، اب قابل عمل نہیں رہا۔ امریکی توسیع پسندی کا انتھک ڈھنڈورچی تھامس فرائڈمین بھی یہ اعتراف کر چکا ہے کہ امریکا کمزور ہو کر ایک پھسپھسی سپر طاقت (The Frugal Super Power) بن چکا ہے (نیویارک ٹائمز ۴؍ ستمبر ۲۰۱۰ء) فرائڈمین یہ اعتراف کرنے میں متامل ہے کہ امریکا اب کسی طور سپرپاور نہیں رہا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسّی جل گئی مگر بَل نہیں گیا۔ آیئے ہم اس صورتحال کا ایک اور سابقہ سپر طاقت سے موازنہ کریں۔ برطانیہ اپنے زوال سے سکڑ کر بالفعل تیسری دنیا کا ایک ملک بن چکا ہے، اس کے باوجود وہ سرکاری طور پر خود کو ’’برطانیہ عظمیٰ‘‘ کہتا ہے۔ پرانی عادتیں دراصل مشکل سے جاتی ہیں۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے فرائڈمین ہر پہلو سے اس کی عظمت کے قصیدے پڑھتا رہا ہے، لہٰذا اس کے لیے اس عادت سے باآسانی جان چھڑانا مشکل ہے، پھر بھی وہ اس سنگین حقیقت کا انکار نہیں کر پاتا جس سے امریکا دوچار ہے۔
فرائڈمین نے ٹائمز میں لکھا کہ ’’امریکی امن پسندوں کو پسند کی جنگوں کے بارے میں مزید پریشان نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ وہ امریکی پالیسی تشکیل نہیں دیتا مگر واشنگٹن کے امور میں دخیل ایک ماہر کی حیثیت سے پینٹاگان کے جنگ بازوں کی سوچ کا محور ہے اور اس حقیقت کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ خوب سمجھتا ہے کہ زمینی حقائق کیا ہیں۔ پسند کی جنگوں کی بات بڑھاتے ہوئے فرائڈمین نے لکھا: ’’ہم یہ حرکت دوبارہ نہیں کر رہے۔ آج ہم گریناڈا پر حملہ کرنے میں پوشیدہ خطرات مول نہیں لے سکتے‘‘۔ اس کا اشارہ اکتوبر ۱۹۸۳ء میں جزائر الہند کے ننھے سے جزیرے پر امریکی حملے کی طرف تھا جب ہزاروں امریکی میرین فوجی اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن کے مذموم الفاظ میں جزیرے کے ساحلوں پر غسل آفتابی کرتے ایک لاکھ دس ہزار اہل گرینیڈا کو ’’کمیونسٹ آمریت سے بچانے کے لیے وہاں جااترے تھے‘‘۔ امریکا جلدی میں بھی کسی اور ملک پر حملہ نہیں کرے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شرارت کرنے سے باز آگیا ہے۔ ’’بڑی طاقتوں کا عروج و زوال (The Rise and Fall of Great Powers-1987) میں پال کینیڈی سامراجی دھاووں کا ذکر کرتے ہوئے پیداواریت پرمبنی اقتصادی قوت اور فوجی طاقت کے مابین ایک مضبوط تعلق بیان کرتا ہے۔ بڑی طاقتوں کے پس منظر میں یہ بات قرین صواب لگتی ہے لیکن اقتصادی بہبود ازخود فوجی طاقت میں نہیں ڈھل جاتی۔ سعودی عرب اور کویت اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اپنی بے پناہ دولت کے باوجود ان میں سے کوئی ملک اپنے نسبتاً چھوٹے ہمسایوں سے بھی اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں۔ کینیڈی سابق صدر نکسن کا حوالہ دیتا ہے جس نے ۱۹۷۱ء میں پانچ مراکزِ قوت کا تعین کیا تھا: مغربی یورپ، جاپان، چین، سوویت یونین اور امریکا۔ نکسن نے کہا تھا: ’’یہ پانچ طاقتیں ہیں جو اقتصادی مستقبل کا تعین کریں گی اور چونکہ اقتصادی طاقت دوسری اقسامِ طاقت کی کلید ہوگی، بلحاظ دیگر اس صدی کی آخری تہائی میں دنیا کا مستقبل انہی کے ہاتھوں میں ہوگا‘‘۔
کسی ملک کو فوجی طاقت میں بدلنے اور پھر آگے لانے کے لیے اقتصادی طاقت یقینا ایک اہم عامل ہے۔ مفلس شاذ ہی دنیا کے لیے خطرہ بنتے ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ اپنی خوراک کے لیے تگ و دو کرتے ہیں مگر ان کی پریشانیاں زیادہ آگے نہیں جاتیں۔ یہ امیر ہی ہوتے ہیں جو لالچ میں اندھے ہو کر دوسروں کی قیمت پر امیر تر بنناچاہتے ہیں۔ بڑی طاقتوں کے مابین رقابت انہیں یہ سجھاتی ہے کہ کون اپنے حریفوں پر سبقت لے جانے کے لیے زیادہ توپیں، بحری جہاز اور طیارے جمع کر سکتا ہے۔
ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے برطانیہ کا کردار بیسویں صدی کے وسط میں ختم ہو گیا تھا۔ اس کی جگہ دو نئی طاقتوں نے لے لی: سوویت یونین اور امریکا نے۔ ان کی رقابت کو ’’سرد جنگ‘‘ کا نام دیا گیا کیونکہ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ چھیڑنے کی تگ و دو نہیں کی، یہ کام ان کی کٹھ پتلیوں کے لیے مخصوص تھا جنہیں الفاظ کی میناکاری سے اتحاد کہا جاتا تھا۔ عشرہ ۱۹۸۰ء کے اواخر میں سوویت روس دو باہم منسلک اقدامات کی بناء پر دیوالیہ ہو گیا تھا: ایک امریکا کے ساتھ مہنگے اسلحے کی دوڑ اور دوسری افغانستان پر عاقبت نااندیشانہ حملہ۔ افغانستان پر حملے کی دس برس بعد روسی رسوائی کے ساتھ پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے لیکن اب وہاں سوویت یونین نہیں رہا تھا جہاں واپس جاتے۔
اس وقت سے دنیا کئی تبدیلیوں سے گزری ہے۔ روسی تجربے سے سبق سیکھنے سے عاری امریکیوں نے یہ فرض کر لیا کہ ان کے برتر اسلحے نے افغانیوں کو اس قابل بنایا تھا کہ وہ روسی سرخ فوج کو شکست دے سکیں۔ سنجیدہ غور و فکر کے بجائے سامراجی سوچ ان پر غالب آگئی تھی۔ انہوں نے وہی غلطیاں دہرائیں جو ان کے سابق حریف سوویت یونین سے سرزد ہوگئی تھیں۔ جیسا کہ آنجہانی چارلس ڈیگال نے ایک بار کہا تھا: امریکی انتہائی احمقانہ حرکتیں کر سکتے ہیں جو قابل تصور ہوں اور وہ بھی جو ناقابل تصور ہوں۔ ایک عشرے (۱۹۹۱۔۲۰۰۱ء) تک بظاہر امریکا کا کوئی ہم پلّہ نہیں تھا۔ بحث کے طور پر اسے امریکی عشرہ کہا جاسکتا ہے۔ پھر انہوں نے افغانستان میں آدھمکنے کی مہا غلطی کر ڈالی اور اس کے بعد عراق میں آکودے تاکہ نیو کانز کی بیک وقت کثیر جنگیں چھیڑنے کی موت بدوش خواہش پوری ہو سکے۔ اور ہر طرف بس انہی کا غلبہ ہو۔ اب کم و بیش ایک دہائی بعد امریکا ابھی تک ہندوکش کے پہاڑوں میں پھنسا ہوا ہے اور اس کا غرور اپنی فاش غلطی کو تسلیم اور اپنے نقصانات کو روکنے کے لیے افغانستان سے انخلا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
نکسن کے تجزیے کو ایک بار پھر سامنے رکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی یورپ نے اقتصادی طور پر بڑی پیش رفتیں کی ہیں اور اس نے بڑی مہارت سے اپنے فوجی اخراجات امریکا کے ذمے ڈال دیے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں یورپ کی اقتصادی خوشحالی کو باقی سرمایہ دار مغرب کی طرح بڑی ضربیں لگی ہیں۔ پرتگال، آئرلینڈ، یونان اور اسپین جنہیں بجاطور پر مختصراً PIGS لکھا جاتا ہے، اقتصادی طور پر پگھل جانے کے خطرے سے دوچار ہیں اور بعض یورپی ممالک زیادہ تر جرمنی جو مغربی یورپ کے مساوی ممالک میں سرفہرست ہے، اپنی دکان بچانے کے لیے بل کی ادائیگی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یورپ کی واحد کرنسی یورو امریکی ڈالر کا مقابلہ کر رہی ہے جبکہ ڈالر کو عالمی سطح پر قبول کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ اسے مالیاتی زہر سمجھا جانے لگا ہے کیونکہ امریکا اب پیداواری طاقت نہیں رہا۔
سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی وارسا پیکٹ، یعنی روس کا فوجی اتحاد بھی تتر بتر ہوگیا۔ یوں اب مغربی یورپ کے رخ ایستادہ روسی یا مشرقی یورپی ٹینک حملے کے لیے تیار نظر نہیں آتے، لہٰذا معاہدۂ وارسا کی ٹکر کا مغربی دنیا کا فوجی اتحاد ناٹو بھی بیکار ہو کے رہ گیا ہے۔ امریکا کے زیر قیادت ناٹو کے رکن ممالک اپنے لیے نیا کردار ڈھونڈنے کی سعی کر رہے ہیں، چنانچہ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ افغانستان اور عراق میں ناٹو دستے بھیج کر اور ہمسایہ ممالک کو دھمکا کرناٹو کے وجود کا جواز تراشا جائے۔ دریں اثناء چین جاپان کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اور امریکی معیشت کے لیے تارِ جاں بن چکا ہے۔
کئی عوامل کے مجموعی اثر نے امریکا کو ۲۰۰۸ء کی عظیم کساد بازاری میں دھکیلا تھا۔ بعض ماہرین معاشیات جن میں امریکی ماہرین بھی شامل ہیں ان کا اصرار ہے کہ امریکا مالی انحطاط کی گرفت میں ہے۔ کئی دہائیوں تک امریکی کارپوریٹ ادارے ان ممالک کی افرادی قوت سے کام کراتے رہے جہاں معاوضے کم ہیں، یعنی میکسیکو، بھارت، انڈونیشیا، تھائی لینڈ حتیٰ کہ چین۔ امریکی پرچون کے دیووال مارٹ میں آپ کو بمشکل کوئی امریکی ساختہ چیز ملے گی۔ بیرون ملک سے مصنوعات تیار کرانے کے سونامی نے امریکا کا پیداواری بیس تباہ کر دیا۔ امریکی کارخانے بند ہونے سے دسیوں لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے۔ امریکی معیشت کے جوڑ ہل گئے تھے، امریکا اس کا بروقت علاج کر سکتا تھا لیکن دو تباہ کن جنگوں نے ایسا نہ ہونے دیا جن میں نیوکانز نے ملک کو پھنسا دیا تھا۔ ان جنگوں کی مجموعی براہ راست لاگت ۲ ٹریلین ڈالر سے اوپر چلی گئی ہے اور دو امریکی معاشی ماہرین جوزف سٹگلٹز اور لنڈا بلماس کے بقول متعلقہ اخراجات یعنی مستقل معذور فوجیوں کو ادائیگیوں اور عسکری اموات پر دیے جانے والے افادات سے کل جنگی اخراجات باآسانی ۴ ٹریلین ڈالر کی حد پار کر جائیں گے۔ اس میں ۳۸ ٹریلین ڈالر کا اندرونی قرضہ بھی جمع کر لیں تو واشنگٹن کے ملک کو دیوالیہ قرار دلوانے میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی۔
امریکا کی سالانہ آمدنی تو صرف طبی سہولتوں، دفاع اور اس کے بڑھتے ہوئے قرضے پر سود کو کفایت کرتی ہے جس میں ہر سال ۴۴۳ ارب ڈالر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ۸ء۹ فیصد بے روزگاری کے ساتھ (جو پچھلے ماہ ۶ء۹ فیصد تھی اور بعض اہم ایج گروپوں جیسے امریکی افریقی آبادی کے ۱۵ تا ۲۴ سال کے نوجوانوں میں یہ شرح ۳۰ فیصد سے اونچی ہے) ہائوسنگ کا بلبلہ پھٹنے، بے گھروں کی فہرست میں روز افزوں اضافے اور ۴۴ ملین افراد کے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے کے باعث امریکا تیزی سے تیسری دنیا کے ممالک کی صف میں شامل ہونے کی طرف گامزن ہے۔ دراصل امریکا کے بعض حصے پہلے ہی تیسری دنیا کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کو تیز متحرک شاہراہوں اور خصوصی گیٹ لگی آبادیوں کے ارد گرد خستہ حال افریقی آبادیاں دیکھنے کے لیے جنوبی افریقا جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ امریکا کے عین دل میں تقریباً تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں۔ ڈیٹرائٹ اس سلسلے میں انتہائی مثال پیش کرتا ہے لیکن امریکا میں تیسری دنیا کے سے حالات اس قدر وسیع ہیں کہ واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہائوس اور کیپٹل ہل کے چند میل باہر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
ماضی میںامریکا زور لگا کر کساد بازاری سے نکل آتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم، ویت نام اور حالیہ عہد میں ۱۹۹۱ء کی عراق جنگ کے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔ لیکن جنگ امریکا کے لیے اب نفع بخش کاروبار نہیں رہی۔ ۸؍ نومبر ۲۰۰۲ء کو ایک سرکردہ نیوکان اور امریکی ڈیفنس پالیسی گروپ کے چیئرمین رچرڈ پرل نے مارچ ۲۰۰۳ء کو جلد ہی عراق کے خلاف چھیڑی جانے والی جنگ کی بہت خوش آئند تصویر پیش کی تھی۔ پرل نے پیش گوئی کی تھی کہ اس جنگ پر ۶۰ بلین ڈالر سے زیادہ لاگت نہیں آئے گی اور بہرحال بیشتر اخراجات عراق کی تیل کی آمدنی سے نکل آئیں گے جس کے متعلق پرل نے تسلیم کیا تھا کہ وہ امریکا کی تحویل میں ہوگا۔ لیکن عملاً آٹھ سال اور لاکھوں عراقیوں کی ہلاکتوں کے بعد امریکا دیوالیہ ہوچکا ہے۔
پھر خرابی کہاں دَر آئی؟ پروفیسر اسٹیفن والٹ ایک مفکر اور ماہر تعلیم ہے اور وہ نیو کانز ٹولے میں شامل نہیں، اسے یہ کہنا پڑا: ’’تاہم مسئلے کا بڑا جز یہ ہے کہ امریکا نے چند ایسے کام چن لیے ہیں جو بہت مشکل ہیں اور جن میں ناکامی متوقع ہے، جیسے عراق اور افغانستان میں قومی تعمیر کا کام۔ غیر ملکی معاشروں پر قبضہ جما کر ان پر حکومت کرنے کی کوشش کرنا جو اندرونی اختلافات کے بری طرح شکار ہیں اور جہاں غیر ملکی مداخلت کاروں سے نفرت خوب رچی بسی ہے، یہ کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔ درحقیقت وہاں امریکی تاریخی تجربے کی بنیاد پر، نہ کہ ان کے تجربے کی بناء پر، ایک سیاسی نظام تخلیق کرنے کی کوشش کرتے ہوئے واشنگٹن نے اگر قطعاً گمراہ کن نہیں تو نہایت طمع آمیز مقاصد میں سے ایک اختیار کرلیا ہے‘‘۔ (The Virtues of Competence.2010)
لیکن والٹ بھی دھند میں سے دیکھنے میں ناکام رہا ہے۔ وہ کہتا چلا جاتا ہے: ’’حل یہ نہیں کہ کنج تنہائی میں پناہ لی جائے اور اقدامی مواقع دوسروں کے لیے چھوڑ دیے جائیں۔ اس کے بجائے حل یہ ہے کہ اپنے آپ کو یاد دلایا جائے کہ امریکی طاقت کس مقصد کے لیے ہے اور ان کاموں کے بکھیڑے میں نہ پڑیں جن کے لیے یہ طاقت موزوں نہیں۔ امریکا بڑے پیمانے کی جارحیت کو روکنے کے لیے بہت اچھا ہے اور یوں کلیدی خطوں میں استحکام کو یقینی بنانے میں کارآمدہے۔ (اس سے یقینا یہ بات سامنے آتی ہے کہ کیا ہم ارداتاً یہی طاقت بعض خطوں کو غیر مستحکم بنانے کے لیے استعمال نہیں کررہے) بعض اوقات ہم امن معاہدے کرانے میں اچھے ثابت ہوتے ہیں جیسے شمالی آئرلینڈ اور بلقان میں… جب ہم اپنی طاقت منصفانہ اور عادلانہ طور پر استعمال کریں‘‘۔
لیکن بات قابل فہم ہے کہ ایسی طاقت فلسطین میں استعمال نہیں کی جائے گی کیونکہ صہیونی، امریکا یا کسی اور طرف سے کوئی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ صدر بارک اوباما پر ابھی ابھی یہ آشکار ہوا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ۱۰؍ دسمبر کو اعلان کیا کہ امریکا فلسطین میں اب کسی امن معاہدے میں ملوث نہیں ہوگا، حالانکہ اوباما نے ۴؍جون ۲۰۰۹ء کو بڑے جرأت مندانہ مگر منافقانہ طریقے سے اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطین میں ایک منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے کام کرے گا۔ پھر یہی راگ اس نے ۲۳ ؍ستمبر ۲۰۱۰ء کو اقوام متحدہ کے پلیٹ بارم سے الاپا تھا۔ صہیونیوں نے کتنی تیزی سے ان کی پشت پر دو ہتڑ مار کر انہیں حقیقت سے آشنا کر دیا اور یہ کسی بھی امریکی سیاستدان کے لیے ایک سنجیدہ سبق ہے جو شرق اوسط میں قیام امن کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے میں کوشاں ہو۔
فلسطین میں امریکی مسلط کردہ امن دراصل فلسطینی مفادات کے لیے ضرررساں ہوگا۔ امن صرف اس وقت حاصل ہو گا جب فلسطینیوں سے انصاف ہوگا۔ اسے بروئے کار لانے کے لیے کہیں زیادہ سخت جدوجہد درکار ہوگی۔ کمزور شدہ امریکی پوزیشن کے پیش نظر ایسی جدوجہد کی کامیابی کے بہتر امکانات ہیں۔
امریکا کے زیر قیادت یک قطبی دنیا مردہ ہوچکی ہے۔ طاقت کے کئی مراکز مقابلے میں ابھر آئے ہیں، کیا ان میں سے کوئی امریکا کی جگہ لے گا، یہ وقت بتائے گا۔ اس ابھرتے ورلڈ آرڈر میں ایک اہم عامل وہ کردار ہوگا جسے اسلامی ایران، ترکی، پاکستان اور حزب اللہ اور حماس جیسی تحریکوں کے کلیدی مسلم کھلاڑی ادا کریںگے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’کریسنٹ انٹرنیشنل‘‘۔ جنوری ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply