
ایران کا کردار:
اسد کا روس سے بھی زیادہ با اعتماد ساتھی ایران رہا ہے، اور اسی نے اس پوری جنگ میں سب زیادہ افرادی قوت فراہم کی ہے اور اسی مدد کی وجہ سے شام مستقل اس جنگ کو لڑنے کے قابل ہوا۔ ۲۰۱۳ء میں جب بشارالاسد کی گرفت کمزور پڑ رہی تھی تو ’’حمص‘‘ کی فتح کے لیے ایران نے لبنانی تنظیم ’’حزب اللہ‘‘ کو میدان میں اتار دیا، جس سے اس لڑائی کا پانسہ ہی پلٹ گیا اور بشارالاسد نے دوبارہ کنٹرول حاصل کرلیا۔ ۱۵۔۲۰۱۴ء میں پاسدارانِ انقلاب کے خفیہ ونگ ’’القدس فورس‘‘نے عراقی شیعہ عسکریت پسندتنظیموں کے ارکان کو لڑنے کے لیے شام بھیجا۔’’القدس‘‘ نے افغانی اور پاکستانی شیعہ گروہوں کو بھی شام بھیجنے کے لیے منظم کیا۔ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۸ء کے دوران جو فتوحات شامی حکومت نے حاصل کیں اس میں ان گروہوں نے بڑا کردار ادا کیا۔ بیرونی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ایران نے تقریباً ۸۰ ہزار افراد اس جنگ کے لیے مہیا کیے۔ اور القدس کے زیرنگرانی فراہم کی گئی یہ افرادی قوت شام کی سرحدی فوج میں مکمل طور پر ضم ہو گئی اور اس سرحدی فوج کے کنٹرول اور کمانڈ میں اہم کردار ادا کیا۔
ایران کا بنیادی مقصد بشارالاسد حکومت کو گرنے سے بچانا تھا، جس کے بدلے میں ایرانی حمایتی لبنانی تنظیم ’’حزب اللہ‘‘کو تزویراتی فوائد حاصل ہوتے اور اسرائیل کے خلاف ’’فرنٹ لائن‘‘ مضبوط ہو جاتی (اس طرح ایران اسرائیل کے براہ راست حملوں سے بھی بچا رہتا) اور اسرائیل سے نچلے درجے کے تصادم کی وجہ سے ایران کی خطے میں مرکزی حیثیت بھی قائم رہتی۔ ایرانی حکومت اس بات پر مستقل زور دیتی رہی ہے کہ اس کی زیر نگرانی ملیشیا کا شام میں رہنا ضروری ہے، اس کے ساتھ ہی ایران نے شام میں امریکی فوج کے مستقل قیام اور امریکا کی جانب سے عرب عسکریت پسندوں کی امداد کی بھی شدید مخالفت کی۔ نقصانات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بھی ایران کو زیادہ نقصانات کا سامنا نہیں کرنا پڑا، بلکہ انسانی وسائل تو عراق، لبنان، افغانستان اور پاکستان کے استعمال ہوئے،جہاں سے عسکریت پسند ایران کی زیر نگرانی ا س جنگ کا ایندھن بنے۔ اگرچہ ایران کے مشکل معاشی حالات، جس کی بڑی وجہ تیل کی درآمد میں کمی ہے، نے اسے شام میں اپنی سرگرمیاں محدود کرنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن وہ شام میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔
روس:
۲۰۱۲ء میں جب روس نے اپنے آخری عرب اتحادی شام کی مدد کا آغاز کیا، تو ا س کا مقصد یہ تھا کہ بشار حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے بچنے کی کو شش کی جائے۔ ۲۰۱۶ء میں روس نے شامی فوج کی بھرپور فضائی اور زمینی مدد کر کے جنگ کاپانسہ پلٹنے میں اہم کر دار ادا کیا۔ پوٹن نے شام میں دخل اندازی کر کے مغربی ممالک کو بھی بہت سے پیغامات دیے۔ روس نے آمرانہ طرزِ حکومت کے خاتمے کے لیے غیر ملکی طاقتوں کی جانب سے حزب اختلاف کے استعمال کو یکسر مسترد کر دیا۔ اس طرح روس نے شام میں سرخ لائن لگا کر مغرب کو یہ واضح کر دیا کہ ایسے تمام ممالک جو کبھی نہ کبھی روس میں شامل ہو جائیں گے۔ وہاں وہ کسی قسم کی مغربی مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔ پوٹن کو اس حوالے سے کسی قسم کا ابہام نہیں تھا کہ اس مدد کے نتیجے میں بشار حکومت قائم رہے گی۔ دوسری اہم بات یہ کہ روس اس بات پر مستقل زور دیتا رہا ہے کہ شام سے غیر ملکی فوج کا انخلا ہونا چاہیے (سوائے روسی فوج کے)۔
پوٹن شامی جنگ میں مداخلت پر داخلی دباؤ کے حوالے سے کافی حساس تھے، اسی لیے انھوں نے روسی فوجی امداد کو فضائی آپریشن اور چند مقامات پر زمینی فوج بھیجنے تک محدود رکھا، اس کے برعکس مالی لحاظ سے بھرپور مدد جاری رکھی۔ اس طرح یہ ساری کوششیں روس کے لیے زیادہ مہنگی ثابت نہیں ہوئیں۔ دوسری طرف ماسکو نے اس جنگ میں شامل تمام غیر ملکی فریقین سے بھی رابطوں کو برقرار رکھا، ان فریقین میں اسرائیل، ترکی، ایران شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ خانہ جنگی کو رکوانے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں روس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ماسکو نے ترکی اور ایران کو ملا کر ’’آستانہ گروپ‘‘ کے نام سے ایک فورم تشکیل دیا، تاکہ زمینی لڑائی کو کم کیا جاسکے (جس سے بالواسطہ بشار حکومت کو ہی فائدہ ہوا)۔ روس چاہتا ہے کہ آستانہ گروپ اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر اس خانہ جنگی کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ روس کو یہ ایڈوانٹیج حاصل تھا کہ شامی حکومت کا مقابلہ ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر حزب اختلاف سے تھا اور ان سے لڑنے کے لیے صرف شامی فوج اکیلی نہ تھی بلکہ امریکی اور ترک فوج بھی زمین پر موجود تھی۔
شمالی شام کا خطہ ترک قبضے میں:
جنگ کے آغاز میں تو ترکی کو اس بات کا یقین تھا کہ شامی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور حزب اختلا ف میں موجود اس کے اتحادی خاص طور پر ’’اخوان‘‘سے تعلق رکھنے والے گروہ اس جنگ میں حاوی ہو جائیں گے۔ تاہم ۲۰۱۵ء میں روسی مداخلت اور امریکا کی جانب سے داعش کے خلاف لڑائی کے لیے کردوں کے استعمال کی وجہ سے بشار کی حکومت کو کافی حد تک استحکا م حاصل ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ترکی کو اپنے مقاصد تبدیل کرنا پڑے،اب ترکی کو صرف اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں شمالی شام میں کردوں کی ریاست قائم نہ ہو جائے۔ شامی کردوں کی تنظیم YPG ترک کردوں کی تنظیم ’’کردستان ورکرز پارٹی‘‘ سے مسلسل رابطوں میں تھی، اس کے باوجود امریکا نے YPG کی مستقل حمایت جاری رکھی۔ امریکا کے اس اقدام نے ترکی کو روس کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ ترکی نے شمالی شام کے سرحدی علاقوں اور بحیرہ روم کی طرف YPG کی پیش قدمی روکنے کے لیے زمینی مداخلت کی تو روس نے کسی قسم کی مزاحمت نہ کی۔ یعنی روس نے ترکی کی اس حکمت عملی کو تسلیم کر لیا۔
ادلب اور آفرین میں تعینات کیے جانے والے سیکڑوں ترک فوجیوں کے دو مشن تھے۔پہلا یہ کہ شام میں موجود اپنے اتحادیوں کی مدد سے شامی کردوں کے شمالی شام میں بڑھتے ہوئے کنٹرول اور ان کی پیش قدمی کو روکا جا ئے۔ انقرہ پہلے ہی ۳۵ لاکھ مہاجرین کا بوجھ سنبھالے ہوئے ہے، اس لیے اس نے اپنی فوج کو یہ مشن سونپا کہ وہ ادلب میں شامی فوج کی پیش قدمی کو روکے تاکہ وہاں سے مزید لوگ ہجرت کر کے ترکی کی طرف نہ آئیں۔
لہٰذا ترکی ماسکو کو با ر بار یہ تسلی کرواتا رہا ہے کہ ادلب میں عسکری کاروائیوں میں بتدریج کمی آرہی ہے،تاکہ ماسکو اور دمشق یہاں کسی بھی مشترکہ کارروائی سے گریز کریں۔ اگرچہ شامی حکومت مسلسل یہاں بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری کرتی رہی ہے لیکن کوئی بڑا حملہ ابھی تک نہیں کیا۔ ماسکو بھی مستقل اس بات کی کوششیں کرتا رہا ہے کہ انقرہ سے اس کے تعلقات بہتر ہوتے چلے جائیں۔ ترکی اس وقت بہت نازک پوزیشن پر کھڑا تھا، نہ ہی وہ پہلے سے موجود ۸ ملین مہاجرین کی تعداد میں اضافہ چاہتا تھا اور نہ ہی وہ امریکا سے خراب تعلقات کے ہوتے ہوئے روس سے تعلقات بگاڑ سکتا تھا۔
شام کی غیر عسکری حزب اختلاف:
غیر مسلح حزب اختلاف کا قیام ۲۰۱۱ء میں حکومت کی طرف سے مظاہرین پر تشدد کی وجہ سے عمل میں آیا، پولیس اور فوج کے جوان اور افسران حکومت کے اس رویے کی وجہ سے اپنی ملازمیتں چھوڑ کر ان مظاہرین میں شامل ہو گئے۔ شامی حزب اختلاف کے درمیان ہمیشہ سے سیکولر اور مذہبی کی تقسیم رہی ہے۔ اسی لیے یہ لوگ کبھی بھی مستقبل کے مسئلے پر اتفاق نہیں کر پاتے۔ اسی طرح اسلامی عسکری گروہوں میں تقسیم بھی موجود ہے، ان میں چند لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت سے بات کر لینی چاہیے، جب کہ کچھ جہادی گروہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ حکومت کے خلاف جہاد جاری رہنا چاہیے، جب تک کہ اسلامی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آجاتا۔
حزب اختلاف کے ایسے تمام گروہ جو غیر جہادی تو ہیں لیکن مسلح ہیں، وہ ترک فوج کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں۔ ان کی فعالیت شمال مغربی صوبے ادلب اور آفرین کے علاقوں میں ہے۔ ان گروہوں کا ایک کمزور سا اتحاد ’’نیشنل لبریشن فرنٹ‘‘کی صورت میں موجود ہے۔ ترک آرمی کی پراکسی ہونے کی وجہ سے یہ سب گروہ مکمل طور پر ترک آرمی پر ہی انحصار کرتے تھے، اور ترک آرمی بھی ان کو شامی حکومت سے لڑوانے کے بجائے شامی کردوں سے ان کا مقابلہ کرواتی تھی۔ یہ غیر جہادی گروہ اکثر جہادی گروہوں سے بھی لڑ جاتے تھے، لیکن ان کو ایسی تمام لڑائیوں میں شکست کا ہی سامنا کر نا پڑا۔ زمینی لڑائی میں ان کی کمزوریوں ہی کی وجہ سے ترکی کو ادلب میں بڑی کارروائی میں مشکل کا سامنا رہا۔
شامی جہادی حزب اختلاف:
شام میں لڑنے والی سب سے اہم جہادی تنظیم ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ (HTS) ہے، جو کہ اب بھی شام کے کچھ علاقے پر قابض ہے۔ ادلب اور آس پاس کے علاقوں میں HTS ہی سب سے طاقتور تنظیم رہی ہے۔ HTS بنیادی طور پر ’’نصرہ فرنٹ‘‘ سے بننے والی ایک تنظیم ہے، جو کہ عراقی تنظیم کی ایک شاخ تھی۔ HTS سیاسی طور پر اپنی mother تنظیم سے بہت آگے تھی۔ اس تنظیم نے جہاں ضرورت محسوس کی دیگر جہادی تنظیموں سے اتحاد بنائے اور جب چاہا اس اتحاد کو توڑ دیا۔ ادلب کے بڑے حصے میں یہ تنظیم سرکاری اداروں، اسکول اور اسپتالوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ HTS یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن امریکا اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔ ۲۰۱۳ء سے ادلب کے ترک سرحد سے ملنے والے سرحدی علاقوں پر HTS کا مکمل کنٹرول ہے اور یہ ان کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ بھی، کیونکہ وہ ہر آنے جانے والے ٹرک سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ان کے کارکنان بہت بہادر اور تجربہ کار ہیں اور ان کی قیادت بھی سیاسی بصیرت کی حامل ہے۔ شامی حکومت ادلب کا کنٹرول حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے لیکن ایسا روس کی فضائی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔ ادلب کے مستقبل کا انحصار روس ترکی مذاکرات پر ہے اور یہ مذاکرات صرف ادلب کے متعلق نہیں ہیں۔ ادلب اس وقت تک لڑائی کا مرکز رہے گا جب تک شام، ترکی اور روس کے درمیان کوئی واضح ڈیل نہیں ہو جاتی۔
مشرقی شام، امریکی قبضے میں:
گزشتہ عرصے میں امریکا نے شامی حکومت کے خاتمے کے ہدف کو تبدیل کر کے شام سے داعش کے خاتمے کو اپنا ہدف بنالیا اور ۲۰۱۹ء تک امریکی اہداف شمالی شام میں اپنے اتحادیوں کی حفاظت، ایرانی اثرورسوخ میں کمی اور اسد حکومت کو معاشی طور پر کمزور کرنے میں تبدیل ہو چکے تھے۔ صدر ٹرمپ کو اس بات کی جلدی تھی کہ امریکا کی فتح کا اعلان کیا جائے اور شام میں اپنی ’’کمٹمنٹ‘‘ کم کی جائے، اسی لیے انھوں نے پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ پر دباؤ ڈال کر امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کر دیا۔ صرف چند سو فوجی دریائے فرات کے مشرق میں قائم کیے گئے نوفلائی زون میں باقی رکھنے کا اعلان کیا۔ تاکہ داعش کی دوبارہ سر اٹھانے کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ لیکن ان کا درحقیقت فوج کی موجودگی کا مقصد YPG,PYD جیسی تنظیموں اور ان سے جڑے مقامی حکومتی اداروں کا تحفظ تھا۔ ابھی تک امریکا شام کی شمال مشرقی سرحد اور ترکی کے سرحدی علاقوں میں YPG اور ترکی کے درمیان مذاکرات کروا کر سکیورٹی زون بنوانے میں ناکام رہا ہے۔ امریکیوں نے شام کے ایک صحرا پر بھی اپنا کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں شام، اردن اور عراقی سرحدیں ملتی ہیں، اس علاقے پر قبضے کا مقصد ایران کی عراق سے آنے والی سڑک تک رسائی کو روکنا ہے۔
امریکی حکمت عملی کی اپنی کمزوریاں ہیں۔ جیسا کہ شام میں داعش کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے، اس لیے اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق امریکا کے پاس شام میں مزید قیام کی کوئی ٹھوس وجہ موجود نہیں۔ ایسے میں یہاں مزید قیام امریکا کے لیے مسائل کا باعث بنے گا۔ مشرقی شام معاشی طور پر مستحکم نہیں اور ٹرمپ انتظامیہ کسی بھی طویل مدتی معاشی امداد کے معاہدے کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے امریکا نے خلیجی ممالک سے مالی امداد کروائی۔ لیکن جیسے جیسے بشار کی فوجیں مختلف علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کرتی جا رہی ہیں اور حالات نارمل ہوتے جا رہے، ویسے ویسے بیرونی امدا د کا حصول بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ امریکا کے لیے یہ بھی ممکن نہیں رہے گا کہ وہ داعش کے خلاف جنگ سے سیاسی فوائد حاصل کریں اور کرد علاقے کی خود مختاری کے لیے بشار پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے گا۔ بلکہ امریکا وہاں ہونے والے سیاسی اصلاحات سے متعلق مذاکرات سے بھی باہر ہو گیا ہے، ان مذاکرات میں روس، ترکی، ایران اور اقوام متحدہ شامل ہیں۔ واشنگٹن کا کردار بس اتنا رہ گیا ہے کہ وہ اپنی اتحادی تنظیموں PYD اور YPG کو اس بات سے روکے رکھے کہ وہ بشار حکومت سے امریکی رضامندی کے بنا کوئی مذاکرات نہ کریں۔ اس کے برعکس دمشق YPG اور PGD کے کچھ مطالبات اس شرط پر ماننے کے لیے تیار ہے کہ وہ بھی امریکی فوج کے انخلا کی حمایت کریں۔ اگر ایسا ہوا تو امریکا کے لیے دریائے فرات کے مشرق میں فوج کی موجودگی برقرار رکھنا ممکن نہ رہے گا۔ اسی طرح جتنا طویل عرصہ وہ شام کے مشرقی حصے میں رہیں گے اتنے ہی مسائل بڑھتے چلے جائیں گے،کیوں کہ وہاں موجود عسکری تنظیموں اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کو امریکی سیکورٹی کے حوالے سے معلومات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا جس کے باعث ا ن کے لیے امریکی فوج کو نشانہ بنانا آسان ہو جائے گا۔
منج جو کہ خاصا پرامن شہر تصور کیا جاتا ہے، وہاں جنوری ۲۰۱۹ء میں ہونے والے خود کش حملے میں چار امریکی ہلاک ہوئے اور یہ حملہ آنے والے مشکل حالات کی طرف واضح اشارہ دے رہا ہے۔
PYD اور YPG:
شامی کردوں کی سیاسی جماعت PYD شام کے مشرقی حصے پر ۲۰۱۳ء سے اپنا کنٹرول قائم رکھے ہوئے، اس قبضے کو قائم رکھنے میں اہم کردار اسی تنظیم کے منظم عسکری ونگ YPG کا ہے۔ امریکا نے جب داعش کے خلاف لڑنے کے لیے شام میں مداخلت کی اور YPG کی حمایت کی تو واشنگٹن نے YPG پر دباؤ ڈال کر ان کے ساتھ عرب قبائلیوں کو بھی اس لڑائی میں شامل کیا، اور Syrian Democratic Forces کے نام سے اتحاد تشکیل دیا۔ اگرچہ اس اتحاد میں اہم کردار YPG ہی ادا کر رہی تھی۔ یہ تنظیم جمہوریت کی زیادہ حامی نہیں ہے بلکہ مشرقی شام کے وہ علاقے جو ان کے کنٹرول میں ہیں وہاں یہ سیاسی مخا لفین کو اپنے دباؤ میں رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور وہاں کے حکومتی اداروں کو بھی اپنے دباؤ میں رکھتے ہیں۔
YPG اور PYD کے ترک تنظیم PKK کے ساتھ تنظیمی روابط ہیں اور اس تنظیم کو ترکی اور امریکا دونوں نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ اہم بات یہ ہے SDF کے رہنما ’’جنرل مظلوم‘‘ جو کہ YPG کے عسکری کمانڈر بھی ہیں، مسلسل PKK سے رابطے میں ہیں۔ ترکی مستقل امریکا پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ PYD اور YPG سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ اس کے ساتھ ہی جنوری ۲۰۱۸ء میں ترکی نے شامی کرد علاقے آفرین پر حملہ کر کے اس بات کا بھی اظہار کر دیا کہ وہ PYD اور YPG کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں برتے گا۔ ۲۰۱۸ء کے اختتام اور ۲۰۱۹ء کے آغاز میں جہاں امریکا شام سے نکلنے کے حوالے سے ابہام کا شکار تھا وہیں PYD اور YPG کو بھی اس بات کا خطرہ تھا کہ امریکا کے جانے کے بعد اس کی حمایت بھی بند ہو جائے گی،جس کے بعد ترکی سے نمٹنا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم نے شامی حکومت اور روس سے بھی تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہاں سے کچھ مدد مل سکے، لیکن بشار حکومت انھیں علاقائی خودمختاری جیسی کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The Syrian civil war a new stage, but is it the final one?” (“inei.edu.” April 2019)
Leave a Reply