تعارف:
شام میں خانہ جنگی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اور صدر بشارالاسد کی حکومت بڑی حد تک اس جنگ میں کامیاب ہو چکی ہے۔مستقبل قریب میں تو حکومت کی باگ ڈور بشار کے ہاتھ میں ہی ہو گی۔ دریں اثنا ٹرمپ انتظامیہ مارچ ۲۰۱۹ء میں امریکی فوج اور ’’کرد اتحادیوں‘‘ کے ساتھ مل کر جنوب مشرقی شام کے آخری حصے کو داعش کے قبضے سے آزاد کروانے کی خوشخبر ی سنا رہی تھی۔ تاہم مشرقی شام میں داعش کا خاتمہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ شام کا تنازع حل ہو گیا ہے۔
ملک میں مختلف حصوں پر قبضے کی جنگ تین ’’مراحل‘‘پر مشتمل تھی۔ پہلے مرحلے میں اسد حکومت نے ایران اور روس کی مدد سے ملک کے جنوبی حصے میں،جہاں کی آبادی بھی زیادہ ہے،اپنا کنٹرول مستحکم کر لیا ہے۔بشار حکومت ملک کے بقیہ دو حصوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے،جو کہ فی الحال حزب اختلاف کی مسلح ملیشیا کے کنٹرول میں ہیں جنہیں غیر ملکی حمایت حاصل ہے۔
ملک کے شمال مغربی علاقے میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ’’فائر بندی ‘‘ کے معاہدے کی نگرانی ترک فوج کر رہی ہے۔اور لگتا یہ ہے کہ شامی حکومت یہاں (ادلب میں) بھی قبضے کے حصول کے لیے روسی فوج کی مدد سے آپریشن کا آغاز کر دے گی، جس کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر لوگوں کی بڑی تعداد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑے گا۔
مشرقی شام میں ’’کرد‘‘ اور ’’عرب‘‘ گروپ امریکی فوج کی مدد سے زیر قبضہ علاقے کا انتظام چلا رہے ہیں اور اس علاقے کو امریکا نے ’’نو فلائی زون‘‘ قرار دیا ہے، جس سے اس گروہ کو مزید مدد ملتی ہے، یاد رہے کہ اس علاقے کو کردوں نے داعش سے آزاد کروایا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ۲۰۱۸ء کے آخر میں شام سے انخلا کے اعلان نے کردوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ بشار حکومت سے مذاکرات کریں تاکہ امریکی فوج کے نکلنے کے بعد مشرقی شام کے اس علاقے میں شامی فوج کی تعیناتی ممکن بنائی جا سکے۔امریکی فوج کے انخلا کے بعد شامی حکومت یہاں بھی مقامی گروہوں کے ساتھ مل کر اپنا کنٹرول قائم کر لے گی۔ شامی حکومت اور اس کے اتحادی کسی بھی صورت میں ملک کی تقسیم کو قبول نہیں کریں گے۔یہ اپنی کوششیں جاری رکھیں گے کہ امریکی اور ترک فوج کے کنٹرول میں موجود علاقوں میں بھی مرکزی حکومت کی رٹ قائم کی جائے۔
شامی تنازعے کا مستقل حل ان زونز کے مستقبل کے حوالے سے مذاکرات میں پوشید ہ ہے۔اور ان مذکرات میں شامی حکومت اپنی ’’رٹ‘‘قائم کرنے کے بدلے میں روس، ترکی اور حزب اختلاف کے گروہوں کی شرائط کو قبول کرے گی۔ اس عمل کو مکمل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، تاہم لڑائی اور تشدد کی لہر برقرار رہے گی، البتہ اس میں پہلے کی سی تیزی نہیں رہے گی۔
دمشق حکومت اس بات کی اہلیت رکھتی ہے کہ وہ تمام علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لے لیکن اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ تبا ہ شدہ معیشت کو دوبارہ پٹری پر لاسکے۔ آنے والے سالوںمیں مغربی پابندیوں، فنڈ کی کمی اور تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو جیسے چیلنجوں سے نمٹنا شامی حکومت کے لیے مشکل کا باعث ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ انتہاپسندوں کے حملے بھی وقتاً فوقتاً جاری رہیں گے۔ جس کے نتیجے میں پچاس لاکھ شامی مہاجرین کو شام واپس آنے پر بھی نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور شامی حکومت مستقبل میں بھی کمزور ریاست کے طورپر ہی دنیا کے نقشے پر موجود رہے گی۔
تنازع کا آغاز،۲۰۱۱تا۲۰۱۴ء
تیونس اور مصر میں کامیاب عوامی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے مارچ میں شام کے عوام نے بھی حکومت کے ظلم و زیادتی اور بدعنوانی کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ چند ایک واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر مظاہرے پُرامن طریقے سے جاری تھے۔شامی حکومت نے مظاہرین کو گرفتار کرنا شروع کیا اور مظاہرین پر تشدد کا آغاز کر دیا، جس سے مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ حکومت کے جارحانہ رد عمل نے تنازع کو ہوا دی اور ریاست کے اس طرزِعمل نے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔مصر اور تیونس میں عرب بہار کے نتائج شام میں خانہ جنگی کی بڑی وجہ بنے۔ اس کے علاوہ ۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۰ء تک شام میں آنے والے قحط پر شامی حکومت کے اقدامات کے خلاف غم و غصہ بھی ایک بڑی وجہ بنا۔ ۲۰۱۱ء کے موسم گرما میں دمشق کے مضافاتی علاقوں میں مظاہرے شروع ہوئے۔ بڑے شہروں کے گرد رہنے والے غریب لوگوں کی جانب سے مظاہروں میں شرکت یقینی تھی۔
۲۰۱۱ء کے موسم سرما تک مظاہرین اور باغی بہت سے شہر اور دیہی علاقوں پر قبضہ کر چکے تھے۔ جس کا جواب شامی حکومت بھی ٹینکوں اور جہازوں کے ذریعے دے رہی تھی۔ اور آنے والے مہینوں میں اس لڑائی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی تنازع کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی چلی گئی، وہ لڑائی جو حکومت کے احتساب کے لیے لڑی جارہی تھی، وہ اب تبدیل ہو کر طاقت کے حصول کی جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ اس لڑائی میں فرقہ واریت کا عنصر بڑھتا چلا گیا کیوں کہ حزب اختلاف کی جانب سے لڑنے والوں میں سنی انتہاپسندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ۲۰۱۲ء میں حاصل ہونے والی ابتدائی کامیابیوں کے بعد حزب اختلاف کو اسلحہ اور دیگر وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے ان کی کامیابیوں کا سفر بھی رک گیا اور مذاکرات کی راہ ہموار ہونے لگی۔ ۲۰۱۳ء تا ۲۰۱۵ء شامی حکومت اور مسلح حزب اختلاف میں زیر قبضہ علاقوں کا تبادلہ نہ ہونے کے برابر رہا۔
مغربی حکومتوں کوشام میں ہونے والی خوں ریزی نے حیران کر دیا۔ پھر انھیں یہ خوف لاحق ہوا کہ اس خانہ جنگی سے حزب اختلاف کی تنظیموں میں انتہاپسندی بڑھنے کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے ایک ’’متحدہ قومی حکومت‘‘ کا منصوبہ پیش کیا اور اسی سلسلے میں ترکی اور چند خلیجی ممالک کی مدد سے حزب اختلاف کی تنظیموں کو محدود امداد کی فراہمی بھی شروع کر دی تاکہ بشار کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی ایران نے بھی ہزاروں غیرملکی شیعہ عسکریت پسندوں کو بشار حکومت کی مدد کے لیے شام کے محاذ پر اتار دیا۔ ۲۰۱۵ء میں روس نے کمزور ہوتی بشار حکومت کی مدد کے لیے فضائی آپریشن کاآغاز کر دیا۔
۲۰۱۱ء تک مغرب کا موقف تھا کہ شام کے مسئلے کا غیر فوجی حل تلاش کیا جائے، لیکن یہ حکمت عملی ناکام ہو گئی۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا اگر دونوں فریقین ایک جیسی طاقت رکھتے ہوں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بشار کی مخالفت تو کی لیکن ایران اور روس کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے طاقت کا توازن بشار کے حق میں ہوتا چلا گیا۔ فوجی مداخلت کی دھمکی کے بغیربشار حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی امریکی حکمت عملی بری طرح سے ناکام ہوئی۔اس کے مقابلے میں شامی فوج نے ایرانی ملیشیا کی زمینی مدد اور روسی فضائیہ کی مدد سے نہ صرف جنوبی شام کے علاقوں کو دوبارہ اپنے قبضے میں لینا شروع کر دیا بلکہ حزب اختلاف کے کمزور ہوتے گروہوں کو کافی پیچھے دھکیل دیا۔ واشنگٹن اس صورت حال سے لاتعلق ہو گیا تھا، پھر ۲۰۱۴ء میں امریکا کی توجہ کا مرکز ’’داعش‘‘ بن گئی، جو مشرقی شام اور جنوبی عراق کے بڑے علاقے پر قبضہ کر چکی تھی۔
۲۰۱۵ء تا ۲۰۱۸ء جنگ کے محرکات:
جنوبی شام میں شامی حکومت:
تنازع کے آغاز سے ہی شامی حکومت نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اسے نسبتاً منظم کمانڈ اور بہتر انفراسٹرکچر کی مدد حاصل رہی ہے اور آج کے دن تک اس نے ریاست کی حیثیت سے کام کیا ہے، اگرچہ جنگ کی وجہ سے حکومت کافی کمزور ہو چکی ہے۔ صدر بشارالاسد کو اپنی فوج اور چار بے رحم خفیہ ایجنسیوں کی مستقل مدد حاصل رہی ہے۔ بشار نے مسلسل اس بات پر زور دیا ہے کہ تمام بڑے اداروں کا کنٹرول اپنے پاس رکھے اور حزب اختلاف کے ساتھ کسی بھی قسم کے اختیارات کی تقسیم کو یکسر مسترد کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے حزب اختلاف کے کنٹرول میں چلے جانے والے علاقوں کے دوبارہ حصول کے لیے مستقل جدوجہد جاری رکھی۔ شامی حکومت کا انحصار اپنے اتحادی روس اور ایران پر ہے اور اس نے اس بات کا بھی اشارہ دیا ہے کہ دونوں ممالک کی فوجیں طویل مدت کے لیے شام میں رہیں گی۔ دمشق اکثر امداد کے معاملے میں ڈالے جانے والے روسی دباؤ کو مسترد کر کے اپنی حیثیت کا اعلان کرتا ہے۔اسی طرح وہ اکثر ایران کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ ابھی بھی اپنی الگ حیثیت رکھتا ہے۔ شامی حکومت میدان جنگ میں تو اتنی مضبوط ہے کہ اسے میدانِ جنگ میں شکست نہیں دی جاسکتی ہے۔ لیکن مستقل جنگ لڑنے کی وجہ سے نہ صرف افرادی قوت کی کمی کا شکار ہو گئی ہے بلکہ مالی حالات بھی بہت خراب ہیں۔ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے حکومت نے مقامی قبائلی سرداروں اور جنگجوؤں سے بھی مدد حاصل کی، جنھوں نے حکومت کی مدد کے بدلے میں اپنے علاقوں میں کھلے عام اسمگلنگ اور لوٹ مار شروع کر دی۔
شامی حکومت نے جنوبی اور مشرقی شام میں کسی حد تک اپنی جنگی حکمت عملی اور روسی اور ایرانی مدد سے اپنی سبقت برقرار رکھی۔ دمشق نے ماسکو کی مدد سے مقامی عسکریت پسندوں سے کامیاب مذاکرات کیے، جن میں درحقیقت یہ طے پایا کہ عسکریت پسند ہتھیار ڈالیں گے۔ زیادہ آبادی والے شہروں پر حکومت نے اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا، ان شہروں میں دمشق، الیپو، حمص، لتاکیا اور حما وغیرہ شامل ہیں۔ شامی حکومت نے اس دوران اپنے غیر ملکی اتحادی اور کاروباری افراد کے ذریعے دیگر عرب ریاستوں سے بھی تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اس کے علاوہ شامی حکومت نے پچاس لاکھ مہاجرین کو واپس لانے کے لیے جارحانہ کوششیں کرنے کے بجائے اپنے وفادار کاروباری افراد کو زمینیں الاٹ کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی تاکہ وہ اپنے کاروبار میں اضافہ کرسکیں۔ شام کے تنازع کے حل میں حکومت اور حزب اختلاف کی باہمی شرائط اور معاہدہ ہی کارفرما نہ ہو گا بلکہ اپنے اپنے مفادات رکھنے والی علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مداخلت اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی بھی اپنا کردار ادا کرے گی۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The Syrian civil war: A new stage, but is it the final one?” (“mei.edu”. April 2019)
Leave a Reply