
تنازع اپنے آخری مراحل میں:
ملک کے مغربی حصے،جہاں دارالحکومت سمیت دیگر اہم شہر ہیں، وہاں بشارالاسد حکومت کی زبردست حمایت موجود ہے۔ امریکا اور ترکی کے قبضے میں جو علاقے ہیں وہ نہ صرف الگ تھلگ ہیں بلکہ وہ خطروں سے بھی خالی نہیں۔ اسی لیے بشار کو ان علاقوں کے حصول کے لیے امریکا اور ترکی کے زیر اثر گروہوں سے مذاکرات میں کوئی جلدی نہیں۔ موجودہ حالات میں فریقین کے درمیان ہونے والا کوئی بھی معاہدہ بشار حکومت کی شرائط پر ہی ممکن ہو گا۔ ادلب، آفرین اور مشرقی شام میں موجود حزب اختلاف کے گروہوں کے لیے ترکی اور امریکا کی جانب سے طویل مدتی حمایت ہی ان کا بشار حکومت کے سامنے کھڑا رہنا ممکن بنا سکتی ہے۔ جبکہ صورت حال اس سے مختلف ہے، واشنگٹن اور انقرہ کے درمیان مقامی گروہوں کی حمایت کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں، جس کی وجہ سے درکار نتائج کا حصول مشکل نظر آتا ہے اور یہ اختلافات تہران، ماسکو اور دمشق کے لیے مفید ثابت ہو رہے ہیں۔
غیر ملکی فوج کی تعیناتی کا اختتام:
جس طرح شامی حکومت کسی حتمی معاہدے کو قبول کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی، بالکل اسی طرح شامی حکومت اور اس کے اتحادی شمال اور مشرقی شام میں کسی صورت بھی طویل مدت کے لیے غیر ملکی فوج کی موجودگی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ جب تک شامی حکومت کی دمشق پر گرفت مضبوط ہے اور اس کی حمایت کے لیے اس کے اتحادی بھی موجود ہیں تب تک ترکی اور امریکا کو خطے سے نکالنے کی ہرممکن کوشش کرتی رہے گی۔ اگرچہ روس ترکی اور امریکا کے خلاف اپنی فضائیہ کا استعمال نہیں کرے گا لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہے گا کہ ان دونوں ممالک کی فوجیں طویل مدت تک یہاں قیام کریں۔ بلکہ وہ کوشش کرے گا کہ مغربی شام میں اس کی حمایت سے بشار حکومت کا کنٹرول مضبوط ہو، جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ترک اور امریکی کنٹرول والے علاقے میں بھی شامی فوجیں دوبارہ سے تعینات ہو سکیں۔
آئندہ ہونے والے مذاکرات کے ایک دور کا مقصد ترکی کو اس بات پر راضی کرنا بھی ہوگا کہ وہ ’’آفرین‘‘ اور ’’ادلب‘‘ میں تعینات فوج کے چھوٹے یونٹس کو وہاں سے رضاکارانہ طور پر واپس بلا کر علاقے کو شامی فوج کے حوالے کر دے۔ روسی اور شامی حکومت HTS کے خاتمے پر زور دے گی۔ جب کہ غیر جہادی تنظیم ’’نیشنل لبریشن فرنٹ‘‘ اور ترک حمایت یافتہ سول انتظامیہ کے بارے میں مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے بشار حکومت اس حوالے سے وعدہ کرے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ شامی حکومت پہلے بھی اس طرح کے وعدے کر چکی ہے لیکن جیسے ہی وہ اپنی گرفت مضبوط کرتی ہے تو وہ ایسے تمام وعدوں کو بھلا کر اپنی رٹ قائم کر لیتی ہے، اور اپنے مخالفین کا نام و نشان تک مٹا دیتی ہے۔ ترکی، روس اور شامی حکومت کو کسی ایسے معاہدے پر متفق ہونا ہو گا جس کے تحت ترکی کے زیر اثر علاقے میں موجود لاکھوں شامیوں اور ترکی میں ہجرت کر جانے والے لاکھوں مہاجرین شامیوں کا کوئی بندوبست کیا جا سکے۔
مشرقی شام، شامی حکومت کے لیے ایک بالکل ہی مختلف چیلنج ہے۔ دریائے فرات کے ایک طرف شامی فوج اور اس کے اتحادی روس اور ایران موجود ہیں، جب کہ دریا کے اس پار امریکی فوج، داعش مخالف کرد تنظیم YPG اور دیگر اتحادی موجود ہیں۔ دمشق اور اس کے اتحادیوں نے ۲۰۱۸ء میں کئی مرتبہ اپنی فوج وہاں بھیجنے کی کوشش کی اور ۲۰۱۹ء میں بھی وہ یہ کوشش جاری رکھے گا کہ YPG کے زیر قبضہ علاقوں کو واپس لے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ شامی فوج امریکی فوج سے براہ راست ٹکرانے سے گریز کرتی ہے اور وہ یہ کام کر بھی نہیں سکتی۔ امریکی فوج سے شام کی جان چھڑانے کے لیے روس کوشش کرے گا کہ مذاکرات کا ایک دور ہو جس میں شامی حکومت اور YPG شامل ہوں اور ان مذاکرات کے نتیجے میں شامی حکومت کو ان علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل ہو جائے۔ شامی حکومت اس بات سے واقف ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان علاقوں میں خودمختاری اور آزادی زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ پائے گی، اس لیے بشار حکومت چاہتی ہے کہ فی الحال کسی بھی طرح مذاکرات کر کے ایک مرتبہ علاقوں سے ہماری فوج واپس چلی جائے پھر آہستہ آہستہ ہم سول انتظامیہ وغیرہ کا کنٹرول بھی حاصل کر لیں گے اور اس سارے عمل میں عرب قومیت کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا۔ ۲۱۰۸ء میں PYD اور شامی حکومت کے درمیان مذاکرات ناکامی کا شکار رہے لیکن دونوں فریق اس بات پر متفق تھے کہ مذاکرات جاری رہنے چاہییں۔
مشرقی شام سے امریکا کے رخصت ہونے کے امکانات بڑھنے کی وجہ سے شامی حکومت اور PYDکے درمیان مذاکرات کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے۔ہو سکتا ہے کہ امریکا اپنی فوج کے انخلا کے لیے ایرانی فوج کے نکلنے کی شرط رکھے۔ لیکن یہ شرط بشار حکومت اتنی آسانی سے قبول نہیں کرے۔ بشار حکومت اپنے اتحادی ایران اور روس کی مدد سے ترکی اور امریکی فوج کو تنگ کرنے کے لیے غیر روایتی طریقے استعما ل کرے گی تاکہ وہ اپنی شرائط سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہو جائے۔شامی خفیہ ایجنسیاں پہلے ہی مشرقی شام میں مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اور انھیں استعمال کر کے بم دھماکے،ٹارگٹ کلنگ،چھوٹے پیمانے پر ہونے والی کارروائیاں اور اسی طرح کے دوسرے طریقے استعمال کر کے امریکا اور اس کے مقامی اتحادیوں کو کمزور کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ وہ اپنے قیام کا دورانیہ طویل نہ کر سکیں۔ لیکن ان مقامی لوگوں میں اسلامی عسکریت پسند بھی شامل ہو سکتے ہیں،جیسا کہ شامی فوج نے۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۹ء کے درمیان عراق میں بھی عسکریت پسندوں کو امریکا کے خلاف استعمال کیا تھا۔یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ کیا ٹرمپ جانی نقصان کو برداشت کرتے ہوئے اپنی موجودگی وہاں برقرا رکھیں گے یا نہیں؟مشرقی شام کے مستقبل کا انحصار اسی بات پر ہے۔ابھی تک تو معاشی پابندیوں کے علاوہ امریکا میں شام اور ایران پر دباؤ بڑھانے کی اور کوئی حکمت عملی زیر غور نہیں۔دوسری طرف ایران اور شام کی ترجیحات میں عوام کی فلاح و بہبود شامل ہی نہیں تو کیاان کو ایسی معاشی پابندیوں سے کوئی اثر پڑے گا؟یہ ایک اہم سوال ہے۔
اسرائیل:
شام میں جاری تنازع کے خاتمے کے لیے اسرائیل بھی اپنا کردار ادا کرے گا۔کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ شام میں امن ہو، تاکہ یہاں ایران کے رہنے کا جواز ختم ہو۔ ۲۰۱۷ء تک تو اسرائیل نے شامی تنازع پر بہت محتاط رویہ اختیار کیا۔ اگرچہ اسرائیل نے اپنی سرحد کے قریب لڑنے والے حزب اختلاف کے چند گروہوں کی محدود حمایت جاری رکھی لیکن خود براہ راست مداخلت سے گریز کیا۔ ۲۰۱۶ء، ۲۰۱۷ء میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا اور پاسدارانِ انقلاب کی شام میں موجودگی نے اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ ۲۰۱۸ء میں اسرائیل نے ایرانی اور شامی اہداف پر محدود فضائی حملے کیے۔ اس کے ساتھ اسرائیل کو روس کے ساتھ مڈ بھیڑ کا بھی خطرہ تھا،کیوں کہ روس بھی جنوبی شام میں فعال تھا۔اس لیے اسرائیل نے اس ٹکراؤ سے بچنے کے لیے ایک مکینرم تیار کیا اور ماسکو سے سفارتی تعلقا ت میں تیزی پیدا کی۔نیتن یاہو نے متعدد بار ماسکو کا دورہ کیا اور مطالبہ کیا کہ شام کو ۱۹۷۴ء کے سیزفائر معاہدے کا پابند کیا جائے اور گولان کے علاقے کو غیر فوجی علاقہ قراردیا جائے۔اس کے علاوہ اسرائیل چاہتا ہے کہ روس ایران کو پابند کرے کہ وہ اپنی عسکری ملیشیا اور اپنی فوج کو شام سے نکالے۔یروشلم کو اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں ایران وہاں کوئی میزائل بیس نہ بنا لے جہاں سے وہ اسرائیل پر حملے کر سکے۔جیسا کہ حزب اللہ نے ۲۰۰۶ ء کی جنگ میں کیے تھے۔اسرائیل نے امریکا پر بھی زور دیا ہے کہ وہ ایرانی فوج کے انخلا کے مطالبے پر نہ صرف قائم رہے بلکہ اس وقت تک یہاں موجود بھی رہے جب تک کہ ایرانی فوج نکل نہیں جاتی۔ مارچ ۲۰۱۹ء میں صدر ٹرمپ نے شامی علاقے ’’التنف‘‘ میں موجود امریکی فوجیوں کے قیام کی وجہ یہ قرار دی ہے کہ وہاں اسرائیلی سلامتی کے پیش نظر کسی قسم کی ایرانی فوجی بیس نہ بننے دی جائے۔لیکن امریکا کا یہ اقدام کسی بھی طرح ایران کو جنوبی شام میں اپنے فوجیوں کو اتارنے اور ان کو وسائل فراہم کرنے سے روکنے میں ناکام رہا ہے۔اور ایران یہ کام پچھلے تیس برس سے کر رہا ہے۔
ایران معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ شام میں کسی بڑی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔جب کہ اسرائیل شاید امریکی حمایت سے اپنے فضائی حملے جاری رکھے۔اس لیے مستقبل میں بھی اسرائیل ایران لڑائی کا قوی امکان موجود رہے گا۔
شدت پسندوں کی مستقل موجودگی:
اگر چہ ۲۰۱۹ء تک داعش تما م قابض علاقوں سے اپنا کنٹرول کھو چکی ہے،لیکن یہ تنظیم جنوبی اور مشرقی شام میں اپنے حملوں سے اپنی موجودگی برقرار رکھے گی۔۲۰۱۸ء میں شامی فوج کو دریائے فرات کے دونوں اطراف کے علاقوں اور مختلف صوبوں میں مستقل حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح SDFکے لشکروں کو بھی مختلف مقامات پر حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ حملے بہت بڑے نہیں تھے لیکن بہرحال ملک عدم استحکام کا باعث ضرور بنتا ہے اور مستقبل میں ہونے والی امن بحالی کی کوششوں پر اپنا اثر ڈالے گا۔
اختتامیہ:
اگرچہ شام کا تنازع اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، لیکن تنازع کے اختتام پر شام ایک معاشی طور پر بدحال ملک کے طور پر ابھرے گا، جس کے مشرقی اور جنوبی حصو ں پر غیر ملکی طاقتیں قابض ہوں گی۔ ملک کے اہم اور مرکزی علاقوں پر حکومت کا ناقابل شکست قبضہ ہے۔ امریکی فوج بالٓاخر مشرقی شام سے دستبردار ہو جائے گی کیوں کہ یہ علاقہ امریکا کے لیے تزویراتی اہمیت کاحامل نہیں ہے۔
امریکی عوام کو شام کے حالات کے حوالے سے کوئی زیادہ معلومات نہیں ہیں، اس لیے امریکا وہاں جو بھی کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اسے جو بھی نقصان ہو رہا ہے اس سے لاعلمی حالیہ امریکی حکمت عملی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ امریکا کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ اتنے کم وسائل کے ساتھ وہ ایرانی فوج کو شام سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔بالکل اسی طرح امریکا کے خلیجی اتحادی نہ ہی اپنے سفارتی تعلقات شام سے بحال کرنے میں سنجیدہ ہیں اور نہ ہی وہ مالی امداد کے ذریعے شامی حکومت کو ایران سے تعلقات توڑنے میں راضی کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔اس کے علاوہ امریکا اور اس کے خلیجی اور یورپی اتحادی شام کے معاشی،معاشرتی اور سیاسی مسائل حل کرنے کے قابل نہیں ہیں، اس لیے ان حا لا ت میں وہاں عسکریت پسندوں کی ’’بھرتی‘‘ جاری رہے گی۔ اسی طرح شامی حکومت غیر ملکی امداد کا شفاف طریقہ کار اپنانے سے بھی گریز کرے گی،کیوں کہ وہ غیر ملکی امداد کو بھی پسند نا پسند کی بنیاد پر ہی منظور کرے گی۔غیر ملکی ریاستیں شام کی بہتری کے لیے سب سے اچھا کام جو کرسکتی ہیں وہ یہ کہ پانچ لاکھ شامی مہاجرین جو کہ بہت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں ان کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ یہ لوگ عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کریں۔ غیر ملکی امدادی کیمپوں میں موجود مہاجرین خاص طور پر لبنان اور اردن کے کیمپوں میں موجود مہاجرین کی حالت کو بدل سکتی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ شامی عسکریت پسند ملک سے باہر امریکا اور اس کے اتحادیوں پر حملے نہ کر سکیں۔اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ترکی،عراق اور لبنان کے ساتھ سیکورٹی کے حوالے سے تفصیلی اور گہری شراکت داری قائم کی جائے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The Syrian civil war a new stage, but is it the final one?” (“mei.edu.” April 2019)
Leave a Reply