میں ’’امریکی تعاون سے قائم ہونے والے شامی جنگجوؤں کے الائنس‘‘ کے بارے میں پڑھ پڑھ کر تنگ آچکا ہوں۔ چونکہ یہ الائنس زیادہ تر کُرد دستوں پر مشتمل ہے، اس لیے جب امریکی سینٹرل کمانڈ، جنرل جوزف ووٹل نے کرد علاقوں کا دورہ کیا تو انہوں نے بنیادی طور پر شام کے شمالی حصوں کی بات کی۔ جب جنرل ووٹل نے ترک سرحد کے قریب اس چھوٹے سے علاقے میں قدم رکھا تو اُن کے ساتھ کچھ کرد نسل کے ترک گروہ بھی تھے۔ چنانچہ ایک امریکی جنرل کی طرف سے شمالی شام کا دورہ اتنی اہمیت کا حامل نہ تھا جتنا دکھائی دیتا تھا۔ تاہم یہ بات تعجب خیز ضرور ہے کہ ایک امریکی کمانڈر نے سرحد عبور کرتے ہوئے خانہ جنگی کے شریک ایک گروہ کی حوصلہ افزائی کی۔ کیا اسے ایک دلچسپ پیش رفت کہا جائے؟ لیکن پھر امریکی فوج عراق میں یہی کچھ کر رہی ہے جہاں شیعہ دستے فلوجہ کے مضافات میں لڑ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بغداد کی کمزور حکومت کو بھی امریکی فضائیہ کی کمک حاصل ہے۔ اس وقت تک عراق میں ہونے والی خانہ جنگی کی بہت پہلوؤں سے وضاحت سامنے آچکی ہے، لیکن شام میں امریکا نے پہلے تو ’’جمہوری‘‘ قوتوں کی حمایت کی تاکہ بشارالاسد کا دھڑن تختہ کیا جاسکے، لیکن پھر انہی دستوں کی داعش کے خلاف جنگ میں بھی حمایت کی۔ یہاں بشار الاسد کی سرکاری افواج بھی داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔
الائنس میں یہ تبدیلی کس طرح واقع ہوئی؟ کیا کرد دستے جنگ کرتے ہوئے رقاعہ میں داخل ہوسکتے تھے، جب داعش جیسی طاقت شامی فورسز اور حزب اللہ کا سامنا نہ کرسکی اور دُم دبا کر عراق کی سرحد کی طرف بھاگ نکلی؟کیا شام کے شمالی علاقوں میں کسی نے نقشہ دیکھا ہے؟ کیا کرد واقعی یہ سوچ رہے ہیں کہ ترکی اپنی سرحد کے نزدیک کرد ریاست قائم ہونے کی اجازت دے گا؟ جنرل ووگل کے مطابق ’’ہمیں جو بھی حاصل ہو، ہم نے پیش قدمی کرنی ہے‘‘۔ میں بھی امریکی جنرل سے متفق ہوں، لیکن کیا اُن کا مطلب یہ ہے کہ اب بشار الاسداقتدار پر موجود رہ سکتے ہیں؟ کیا معمول کی پالیسی تبدیل ہو رہی ہے؟ یقیناً ہم آجکل بہت سے امریکیوں کو ایسا کہتے نہیں سنتے، لیکن شاید ہم نے نوٹ نہیں کیا۔ اس کے علاوہ روسی فوج ابھی تک شام میں ہی ہے، اگرچہ اس کے دستوں کی تعداد میں کمی کی جاچکی ہے۔ اس کے باوجود ہم نے تدمر پر قبضے کے بعد بڑی تعداد میں روسی دستوں کو وہاں دیکھا۔ اسد کی فورسز دائر الزور (Deir El-Zour) واپس لینا چاہتی ہیں۔ وہاں شامی فورسز گھیرے میں ہیں لیکن بے جگری سے لڑ رہی ہیں۔ یہ تمام صورت حال اہم عرب ملکوں کے لیے پریشان کن ہوگی لیکن شاید اب وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ تیل کے بحران نے اُن کی سکت مزید کم کردی ہے۔
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے شک گزر رہا ہے کہ ’’اسد کو جانا ہوگا‘‘ مہم تبدیل ہوچکی ہے۔ بلاشبہ اس کی وجہ داعش ہے، جس سے امریکی شامی حکومت سے زیادہ نفرت کرتے ہیں۔ یقیناً داعش ابھی تک ایک عسکری حقیقت ہے اور لبنان کی سرحد کے نزدیک اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے، لیکن اب اسے چیلنج کیا جارہا ہے۔ اب ایسا نہیں کہ اس کے سیاہ پرچم دیکھ کر ہی مخالف دستے بھاگ کھڑے ہوں۔ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ دو سال قبل اغوا کیے گئے لبنان کے ۹ فوجیوں کو ابھی تک بارڈر کے نزدیک کسی محفوظ ٹھکانے پر رکھا ہوا ہے۔ ایک فوجی محمد حمیعہ جسے النصرہ فرنٹ نے ہلاک کر دیا تھا، کے والد اس ہفتے قاتل کے بھتیجے، شیخ مصطفی حریری کے گھر گئے اور اُس کے بیس سالہ لڑکے کے جسم میں ۳۵ گولیاں اتاریں اور لاش کو گھسیٹ کر اپنے بیٹے کی قبر کے پاس پھینک دیا۔ یہ یقیناً لبنان میں ایک بہت بُرا ہفتہ تھا۔
حکومت نے یومِ آزادی منانے کے لیے حسبِ معمول فوجی دستوں کی پریڈ کا اہتمام کیا۔ یہ وہ دن تھا جب ۲۲ سالہ قبضہ کے بعد آخرکار گوریلا دستوں نے اسرائیلی فوج کو فرار ہونے پر مجبور کیا تھا۔ آج بھی بہت سے جنگجو جو اُس فورس کا حصہ تھے جنہوں نے اسرائیلی فورسز کو اپنے وطن سے نکالا تھا، اسد حکومت کو بچانے کے لیے داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس طرح شام میں ہونے والی جنگ میں لبنان کا عکس بھی دکھائی دیتا ہے اور حصہ لینے والے وہ جنگجو ہیں جنہوں نے اسرائیل کی جنگی مشن کو فرار ہونے پر مجبور کیا تھا۔ تاہم یہاں مسالک کا ایشو موجود ہے، شیعہ سنی تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی نے لبنان کو تقسیم کر دیا ہے۔ اس وقت تک حزب اللہ کے بہت سے جوان شام میں اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ دوسری طرف النصرہ اور دیگر اسلامی گروہ سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
فی الحال عالمی طاقتوں کے پاس شام اور لبنان کے مستقبل کے لیے کوئی مثبت منصوبہ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کسی طور خانہ جنگی بند ہو بھی جائے تو بھی کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں، کوئی انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور روزگار کی فراہمی کی تجویز زیرغور نہیں۔ اور تو اور بشارالاسد کے مستقبل کے لیے بھی کوئی منصوبہ نہیں۔ شامی فوج نئے شام میں ایک کردار ادا کرنے جارہی ہے۔ روسیوں کو اس بات کا احساس ہے، شاید اس لیے انہوں نے ڈرامائی انداز میں مداخلت کی۔ دوسری طرف شامی فوج کو پہنچنے والا جانی نقصان بہت زیادہ ہے۔ ۲۰۱۱ء میں جنگ شروع ہونے کے وقت میں جن فوجیوں سے ملا، اُن میں سے نصف کے قریب ہلاک ہوچکے ہیں۔ چنانچہ روسیوں کے لیے شامی حکومت کی مدد کے لیے فضائیہ کو بھیجنا ناگزیر ہوچکا تھا، اور اسی چیز نے میدانِ جنگ میں فیصلہ کردیا۔ اگر داعش کو شکست ہوتی ہے، اگر فلوجہ اور رقاعہ کا کنٹرول سرکاری فورسز کے پاس آجاتا ہے تو پھر ان شامیوں کا کوئی پلان ہونا چاہیے جنہوں نے دہرے محاذوں پر طویل عرصہ تک جنگ کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شامی باشندے کمیٹیاں بنانے کے ماہر ہیں لیکن یہ کام اُن کے بس سے باہر ہے۔ اُن کے تعاون کے لیے عالمی برادری کو آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر داعش انسانیت کو بھسم کر دینے والی دہشت ناک آگ تھی تو یہ شامی ہیں جنہوں نے یہ آگ اپنے خون سے بجھائی ہے۔ کیا دنیا ان کی قربانیوں کا ادراک کرے گی؟ کیا بشار الاسد کے لیے مزید نرم گوشہ دیکھنے میں آئے گا؟
ترکی بھی داعش کے خلاف کارروائی کررہا ہے، اس کے باوجود یہ ابھی تک مشرق وسطیٰ کے لیے ایک خطرہ ہے۔ الجھن یہ ہے کہ قطر النصرہ فرنٹ کی حمایت کررہا ہے تو سعودی بھائی کسی نہ کسی طور پر داعش کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ اس دوران حزب اللہ شامی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ جہاں تک امریکیوں کا تعلق ہے تو وہ بمباری کی ذمہ داری روسیوں پر چھوڑ کر ڈونلڈ ٹرمپ کی چٹخارے دار تقریریں سننے میں مصروف ہیں۔ پیوٹن اپنے موقف میں دوٹوک ہیں کہ دمشق کی حکومت داعش سے بہتر ہے۔
“The US is dropping calls for Assad to go because the Syrian regime is a better bet than Isis”. (“independent.co.uk”.May 26, 2016)
Leave a Reply