
اب ہمیں افغانستان کے بارے میں تمام تحفظات اور پریشانیوں کو کنارے کر دینا چاہیے۔ اب ان باتوں سے کوئی بیوقوف نہیں بن سکتا۔امریکا، برطانیہ، نیٹو اور ان کے حامیوں کے پاس افغانستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے، انسانی حقوق فراہم کرنے، جنسی مساوات اور بد عنوانی سے پاک جمہوری حکومت قائم کرنے کے لیے ۲۰ سال تھے، مگر وہ ناکام ہوگئے۔
۲۰۰۲ء میں فنڈ کی ترسیل دوبارہ شروع ہونے اور اس کے بعد کروڑوں ڈالر مزید فراہم کر نے کے باوجود عورتوں کے حقوق کے بل کے علاوہ بمشکل کچھ ہی بہتر ہو سکا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کا دار الخلافہ دنیا کی بدعنوان ترین حکومت کا گھر ہے جوکہ اس وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہا کہ وہاں کے لالچی سیاستدان افغانستان کی تعمیر و ترقی سے زیادہ اپنی جیبیں بھرنے کے فکرمند ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی حیران کن بات نہیں کہ طالبان دوبارہ ملک بھر میں پھیل رہے ہیں اور اتنی تیزی سے کنٹرول حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں کہ اس نے بہت سے فوجی مدبروں کو حیرت میں ڈال دیاہے۔ کچھ صوبوں میں طالبان کا واپسی پر خیر مقدم کیا گیا اور انہیں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا اور اب یہ آدھے سے زیادہ افغانستان کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔
۲۰ سال تک طالبان کو شیطان صفت مشہور کرنے کے بعد بھی افغانستان میں ان کی پزیرائی نے یقینا مغربی حکومتوں اور ان کے زیرِ اثر میڈیا کو شرمندگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہمیں ۹/۱۱ کے بعد روز بتایا جاتا تھا کہ طالبان کی حکومت بے حد ظالم اور بے رحم ہے مگر درحقیقت ۹/۱۱ کے حادثہ میں طالبان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ یہ صرف اس وقت کے امریکی صدر جارج بش اور اس کے محبوب چیلے، برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر کا بیانیہ تھا۔
وہ کہتے تھے کہ افغانستان میں بچیوں کے اسکولوں کو بند کر دیا گیا ہے اور بچوں کو پتنگیں اڑانے تک پر پابندی لگ گئی ہے۔ یہ باتیں محض کہانی کو ڈراؤنا بنانے کے لیے تھیں ورنہ اس میں ذرہ برابر صداقت نہیں۔ درحقیقت اگر صحافی حضرات معاملے کی چھان بین کرتے تو وہ با آسانی جان لیتے کہ اسکول ویران اور کھنڈر صرف اس لیے ہوگئے تھے کہ ان کے پاس پیسے نہیں تھے، ملک کے بیشتر حصوں میں قحط پڑ گیا تھا اور یہ سب ملک میں جاری تباہ کن خانہ جنگی کا نتیجہ تھا۔
پتنگیں اڑانے پر بڑے شہروں اور قصبوں میں بلاشبہ پابندی تھی کیونکہ اس کی پتلی اور تیز دھار ڈوروں سے نہ صرف یہ کہ بجلی کے تار کٹ رہے تھے جس سے علاقوں کو بجلی کی فراہمی معطل ہو جاتی بلکہ لوگوں کی اموات بھی واقع ہو رہی تھیں۔ سوچیں کہ آپ لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ میں پتنگ اڑا رہے ہیں پھرآپ کو سمجھ آجائے گا کہ افغانستان میں پتنگ اڑانے پر پابندی کیوں تھی۔
جب میں فروری ۲۰۰۲ء میں افغانستان واپس گئی، یعنی طالبان کی قید میں رہنے کے ایک سال بعد، اس وقت میڈیا میں اس بات کا بہت چرچا تھا کہ طالبان کی شکست کے بعد کابل یونیورسٹی دوبارہ کھل رہی ہے اور اب لڑکیاں دوبارہ اسکول جاسکیں گی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اب جنگ ختم ہو چکی ہے اور مستقبل روشن ہے۔ یقینا ایسا ہی لگتا تھا مگر جب ایک پریس کانفرنس میں میں نے سوال کیا کہ اگر طالبان کے دور میں لڑکیوں کو تعلیم سے روکا جاتا تھا تو اب لڑکوں کے مقابلے میں کتنی زیادہ لڑکیوں نے داخلہ امتحان پاس کیا ہے تو وہاں برف کی خاموشی چھا گئی۔
وہاں جواب دینے کے بجائے میری بیخ کنی کی گئی، مجھے کنارے لگایا گیا اور خاموش کرا دیا گیا۔کہا گیا کہ میں Stockholm Syndrome (ایک نفسیاتی بیماری) کا شکار ہوں کیونکہ میں پچھلے ستمبر ۱۰ دن طالبان کی قید میں خوفناک آزمائش سے گزری ہوں۔ اپنے قید کرنے والوں کی فرمانبرداری یا کسی قسم کا کوئی لگاؤ تو دور میں تو ان کے لیے ایک دردِ سر تھی۔ درحقیقت مجھے نہیں معلوم کہ رہائی پاکر بخیر و عافیت میرے برطانیہ بھیجے جانے پر کون زیادہ خوش تھا، میں یا طالبان۔
میری رہائی کے اعلان کے وقت ایک پریس کانفرنس میں مُلّا عبدالسلام ضعیف نے کہا کہ یہ ایک بہت بری اور بدزبان خاتون ہے۔مجھے طالبان نہیں پسند تھے اور یقیناً انہیں بھی میں بالکل ناپسند تھی۔ لیکن بحیثیت صحافی، میں نے سچائی کی اشاعت کو ہمیشہ اپنی ذمہ داری سمجھا ہے اور سچائی یہ ہے کہ میرے قید کرنے والے میرے ساتھ جس محبت و احترام سے پیش آئے اس کی مجھے توقع نہ تھی۔ مزید یہ کہ میں دیکھ سکتی تھی کہ وہ اپنے ملک سے محبت کرتے تھے اور امریکا اور اس کے حواریوں سے اپنے ملک کو واپس حاصل کرنے کی جنگ میں ہمت ہارنے کو تیار نہ تھے۔
آپ اس بات کو پسند کریں یا نہیں مگر طالبان نہ کبھی اپنے مقاصد سے ڈگمگائے اور نہ ہی کبھی انہوں نے اپنا کوئی خفیہ ایجنڈا رکھا۔ہم مغربی لوگ شاید طالبان کے نقطہ نظر اور ان کے عقائد و نظریات کو پسند نہ کریں اور طالبان کے طریقۂ حکومت کو اپنے ممالک میں نافذ کرنے کے خیال سے بھی کترائیں اور اس کی بیشمار دلیلیں ہو سکتی ہیں مگر کیا ضرورت ہے کہ ہم طالبان اور ان کے حامیوں سے یہ توقع کریں کہ وہ ہمارے کلچر، عقائد اور ہماری عادات کو اپنائیں جنہیں وہ ناقابلِ برداشت سمجھتے ہیں؟
جیسا کہ میں نے لکھا کہ امریکا جسے اس مہینہ کے شروع میں ہی اپنی فوجیں واپس بلا لینی تھیں، وہ طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہا ہے۔ بہت ہوا، اب وقت آگیا ہے کہ مغرب بڑا قدم اٹھائے اور افغانستان میں مداخلت بند کرے سوائے غیر مشروط امداد کے جو ۲۰ سال سے جاری تباہی کی بھرپائی کے بدلے کی جائے۔ اگر افغانی لوگ امریکا کی جانب سے مسلط کی گئی حکومت سے نجات چاہتے ہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے، ہمارا نہیں۔
ہاں، لوگ اب بھی اس جنگ میں مارے جا رہے ہیں جیسا کہ پچھلے ۲۰ برسوں سے مارے جا رہے تھے۔ لیکن معصوموں کی اموات صرف اب مغربی میڈیا کی نظر میں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں جب میں نے طالبان کی قید سے رہائی کے بعد افغانستان چھوڑا تو جنگ پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ کابل سے پاکستانی سرحد تک کے سفر کے دوران جو میں نے دیکھا وہ ناقابل تردید ثبوت تھا کہ اسپتالوں سمیت عام شہری علاقوں پر بھی امریکا اور اس کے حواریوں کی جانب سے بمباری ہو رہی تھی۔ اس وقت کسی کو عام شہریوں کی اموات کی تعداد سے غرض نہیں تھی۔
میں اکثر اپنے کالموں میں مغربی میڈیا اور اپنے کچھ ساتھی صحافیوں کی منافقت اور دہرے معیار کا حوالہ دیتی ہوں، افغانستان میں مغربی مداخلت سے زیادہ اور کسی معاملے میں یہ منافقت و دہرا معیار واضح نہیں۔
آپ پسند کریں یا نہ کریں مگر طالبان واپس طاقت میں آرہے ہیں۔ میری اس تحریک میں موجود اپنے جاننے والوں سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق مذاکرات ہی ان کی ترجیح ہے مگر ان کی قیادت اور اشرف غنی کی حکومت کے درمیان اعتماد کا رشتہ بہت ہی کمزور ہے۔ سچ یہ ہے کہ اشرف غنی مہینوں پہلے ہی طالبان کے ساتھ پر امن نتیجے پر پہنچ سکتا تھا مگر اس نے ہمیشہ یہ خیال کیا کہ امریکا اس کی پشت پناہی کے لیے موجود رہے گا لہٰذا اسے مذاکرات کی کوئی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
اشرف غنی واضح طور پر توجہ نہیں دے رہا۔ گزشتہ عرصے میں امریکا کی جانب سے لگائے گئے آمروں کی فہرست بہت لمبی ہے، اور اتنی ہی لمبی فہرست ان کی ہے جنہیں یورپ اور واشنگٹن میں بیٹھے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے ان کے دوستو ں نے دھوکا دیا۔ صدر صدام حسین (۱۹۷۹ سے ۲۰۰۳ء، عراق)، کرنل معمر قذافی (۱۹۶۹ء سے ۲۰۱۱ء، لیبیا) اور زین العابدین بن علی (۱۹۸۷ء سے ۲۰۱۱ء، تنیسیا) وہ تین ہیں جو ذہنوں میں آتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہ تینوں مغرب کی پشت پناہی میں تھے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو میری بات کی ضرور تصدیق کرتے۔
اشرف غنی عقل مند ہوگا اگر وہ اگلے کچھ دنوں میں ہی طالبان سے معاہدہ کرلے، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔ وہ اپنی افغان سکیورٹی فورسز پر بھروسا نہیں کر سکتا کہ وہ اس کے لیے بنا تنخواہ کے لڑیں جو بدعنوانی کی نظر ہو جاتی ہے۔ امریکا نے کروڑوں ڈالر افغانی فوج کو زوال سے بچانے کے لیے مختص کیے مگر وہ پیسے کبھی سپاہیوں تک نہ پہنچ سکے۔ اسی لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ افغان سکیورٹی فورس پچھلے کچھ ہفتوں میں اپنی رفتار کھو بیٹھی اور کئی فوجی اپنی جانیں بچانے کی خاطر بھاگ نکلے تو کئی طالبان میں شامل ہوگئے۔ اپنے ملک کی خاطر لڑنا الگ بات ہے مگر اپنی جان کو ان لوگوں کو حاکم بنائے رکھنے کی خاطر خطرے میں ڈالنا جو آپ کے خون پسینے کی کمائی کو اپنی جیبوں میں بھر رہے ہیں الگ بات ہے۔
افغانستان اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ جب مغربی مداخلت ناکام ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کے با وجود، محض بیٹھے رہنے اور حمایت کرنے کے بجائے اب وقت ہے کہ دیگر ممالک افغانی لوگوں کی خاطر آگے بڑھیں۔ قطر نے نہایت اہم اور مثبت کردار ادا کیا۔گزشتہ سال فروری میں طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں قیامِ امن کا معاہدہ قطر کے دارالخلافہ دوحہ میں ہوا۔ ایک اور باہمی طور پر بھروسا مند مسلمان طاقتور ملک ترکی ہے، جس نے پہلے ہی لیبیا اور شام میں خانہ جنگی رکوانے میں کردار ادا کیا ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد ترکی کابل ہوائی اڈے کی سیکورٹی سنبھال رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ افغانستان کے استحکام کے لیے بہت اہم ہے۔خاص طور پر طالبان کے لیے مسلم ممالک کی جانب سے افغانستان میں جنگ بندی کے لیے سیاسی حل میں مدد کرنا نہایت خوش آئند ہوگا۔ آئندہ مہینوں میں ممکنہ طور پر افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کانفرنس ترکی میں ہوگی۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک نمونہ ہوگا دیگر متاثرہ مسلم ممالک کے لیے بشمول لیبیا، شام اور یمن۔ بلکہ مغربی سہارا، مراکش اور الجیریا کے لیے بھی۔ کم از کم مغرب کواب اس سے باہر رہنا چاہیے کہ اس کی تاریخ نہایت خوفناک رہی ہے اور اسے تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ افغانستان کو بلاوجہ graveyard of empires نہیں کہا جاتا۔
“The Taliban is steering the ‘graveyard of empires’ towards a new era”. (“middleeastmonitor.com”. July 27, 2021)
Leave a Reply