
چرخ ہر طرح سے افغانستان کا ایک دیہی ضلع دکھائی دیتا ہے۔تھوڑی بہت ترقی اور کچھ صنعتوں کے علاوہ یہاں کے ۴۸ ہزار رہائشی زراعت کے پیشے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں غربت عام ہے،جس کسی کو بھی باہر ملازمت کا موقع ملتا ہے، وہ شہر سے باہر کمانے کے لیے چلا جاتا ہے تاکہ کما کر کچھ بھیج سکے۔لیکن اگر ہم چرخ ضلع کا غور سے جائزہ لیں تو یہ باقی اضلاع سے مختلف معلوم ہوتا ہے۔دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں شامل اس ملک کے ایک ضلع میں ایمان دار اور مخلص انتظامیہ سب کو حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کے یہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔خاندانی جھگڑے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کبھی ہوں بھی تو ضلع کا گورنر یا جج فوراً صلح و صفائی کروادیتے ہیں۔ میڈیکل آفیسر مستقل اسپتال اور دواخانوں کے دورے کرتے ہیں تاکہ ڈاکٹروں کی حاضری اور ادویات کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔ پورے ضلع کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری نہ صرف مکمل ہوتی ہے،بلکہ طلبہ بھی حاضر ہوتے ہیں اور یہ سب ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں کاریاستی نظام تباہی کا شکار ہے۔
کاغذات میں تو ضلع ’’چرخ‘‘ کی مثالی کارکردگی امریکی حمایت یافتہ اشرف غنی حکومت کے کارنامے کے طور پر دکھائی جاتی ہوگی اور کہا جاتا ہوگا کہ اس ضلع کی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ غنی حکومت کی رٹ ’’کابل‘‘سے باہر بھی قائم ہے۔لیکن حقیقت میں ضلع کی اس بہترین کارکردگی کی ذمہ دار افغان حکومت ہرگز نہیں ہے، کیوں کہ یہاں ’’طالبان‘‘ کی حکومت ہے۔ شہر کے مئیر اور واحد جج سمیت تقریباً ساری مقامی انتظامیہ طالبان کی لگائی ہوئی ہے، لیکن ان کی تنخواہیں کابل حکومت ہی دیتی ہے۔
امریکی فوجیوں کی تعداد دگنی کرنے، گزشتہ برس فضائی حملوں کی تعداد بڑھانے کے باوجود افغانستان کا ایک بڑا دیہی علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور وہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کو جارحانہ انداز سے ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طالبان کے ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک کے ظالمانہ دورِ حکومت کا اگر موجودہ دور سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ بہتر طریقے سے نظام حکومت کو چلا رہے ہیں۔ا س دور میں تو خواتین کے اسکول جانے پر پابندی عائد تھی اور اسی طرح کی دیگر پابندیاں بھی عائد تھیں۔۲۰۰۱ء سے لے کر اب تک، طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان نے ہزاروں افغانیوں کا قتل کیا۔ حتیٰ کہ ۲۰۰۹ء تک طالبان اساتذہ اور غیر سرکاری تنظیموں کے ملازمین کو قتل کرتے تھے اور اسکول بھی جلا دیا کرتے تھے۔ لیکن آج کل طالبان اپنے آپ کو ایسی قانونی تحریک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو نہ صرف لوگوں کو سہولیات فراہم کرسکتی ہے بلکہ ملک کانظام حکومت بھی بہتر طریقے سے چلانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ واشنگٹن کی نئی حکمت عملی کے مطابق بڑے شہروں کی حفاظت کے لیے جس طرح افغان اور امریکی فوجیوں کو مختلف علاقوں سے نکالا جا رہا ہے، تو طالبان اس خلا کو پُر کر رہے ہیں۔وہ اب صرف ایک باغی گروہ نہیں بلکہ حکومت سنبھالنے کی منتظر ایک جماعت ہے۔
طالبان کی اس تبدیل شدہ حکمتِ عملی کو سمجھنے کے لیے سال ۲۰۱۴ء پر نظر ڈالنا ہوگی۔ اس سال عالمی فوج کے ہزاروں فوجیوں کی واپسی نے اس گروہ کے لیے جہاں بہت سے مواقع پیدا کیے وہیں بہت سے خطرات بھی سامنے آئے۔ ویسے تو طالبان نے اسی طرح کے حالات کا سامنا ۱۹۹۶ء میں بھی کیا تھا، جب خانہ جنگی کے بعد کوئی مرکزی حکومت نہ تھی اور انھوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ لیکن اس دفعہ طالبان قیادت نے طے کیا کہ اسکولوں اور ملازمین پر حملے کرنے کے بجائے ہم ان سے تعاون کر کے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ایسے اقدام کرنے سے وہ لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کا ’’کریڈٹ‘‘ لے سکتے ہیں اور مقامی لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں۔
طالبان کو اس بات کا احساس ہونا کہ ظالمانہ اقدام سے عوامی حمایت متاثر ہوتی ہے، انھیں پیچیدہ نظامِ حکومت چلانے کی طرف لے گیا، جس میں اسکولوں، اسپتالوں اور محصولات جمع کرنے کا نظام بھی شامل ہے۔ مقامی طالبان غیر سرکاری طور پر مقامی افغان فوجیوں سے جنگ بندی کے معاہدے کرنے لگے تاکہ کشیدگی میں کمی واقع ہو سکے۔ داخلی چوکیوں پر دن میں افغان فوج اور رات میں طالبان نے پہرہ دینا شروع کر دیا۔ طالبان کی شدت پسندی اور پُر امن نظامِ حکومت کے درمیان توازن قائم کرنے کی اس نئی حکمت عملی کی وجہ سے ملک کے وہ علاقے جو شدید انتشار کا شکار تھے نسبتاً پُرامن ہو گئے۔ افغانستان کے شمالی صوبے قندوزکے سابق طالبان کمانڈر کا کہنا ہے کہ ’’پہلے یہ لوگ ظالم تھے، لیکن اب طالبان اپنا مختلف چہرہ پیش کر رہے ہیں۔ ان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ہر وہ کام کر سکتے ہیں جو حکومت کرتی ہے، بلکہ حکومت سے بھی بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں‘‘۔
طالبان حکام اور اراکین اس تبدیلی کا کریڈٹ ’’ملا محمد اختر منصور‘‘کو دیتے ہیں۔ملا اختر منصورنے تحریک پر آنے والے مشکل وقت میں بہت ذہانت سے فیصلے کیے۔ خصوصاً اس وقت جب ۲۰۰۹ء میں واشنگٹن نے جنگ میں اپنی پوزیشن خراب دیکھ کر ۳۳ ہزار مزید فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا، پھر ۲۰۱۳ء میں جب ملا عمر کا انتقال ہوا، ان کے نائب ہوتے ہوئے انھوں نے یہ بات دو سال تک چھپا کر رکھی، اور اس کے بعد۲۰۱۵ء میں جب ملا عمر کی وفات کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اورملا اختر منصور کو امارت سونپی گئی تو طالبان قیادت کے بہت سے راہنماؤں نے استعفے دے دیے۔ ان سب مشکل حالات کو ملا اختر منصور نے بڑی خوبصورتی سے سنبھالا۔
ہلمند صوبے کے طالبان حکام کا کہنا ہے کہ ’’ملا اختر منصور نے نظامِ حکومت، امن اور باقی سب معاملات پر ہماری سوچ کو یکسر تبدیل کر دیا‘‘۔ منصور نے طالبان کو عسکری گروہ سے متبادل ریاستی ڈھانچے میں تبدیل کر دیا۔انھوں نے طالبان کے مالی اور عسکری شعبے کو مربوط کیا تاکہ ادارہ جاتی نظام بنایا جا سکے۔ملا اختر منصور نے عام لوگوں کی اموات پر طالبان کا ایک کمیشن تشکیل دیا۔انھوں نے تاجک اور ازبک ارکان کو شوریٰ میں نمائندگی دے کر تحریک پر پختونوں کی جماعت ہونے کا تاثر ختم کیا۔
ملا اختر منصور نے تحریک کو جنگ کے بعد کی صورتحال کے لیے تیار کیا۔مکمل فتح کے بجائے انھوں نے طالبان کو مخلوط حکومت کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا۔منصور ۲۰۱۳ء میں قطر میں طالبان کے دفتر کے قیام کے سب سے بڑے حامی تھے اور وہ باقاعدہ طریقے سے طالبان کو مذاکرات کے لیے راضی کر رہے تھے۔
مئی ۲۰۱۶ء میں امریکا نے ڈرون حملے میں ملا اختر منصور کو قتل کر دیا، لیکن طالبان آج بھی ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کا بنیادی فائدہ طالبان کو یہ ہوا ہے کہ بغیر قتل عام اور بڑی لڑائیوں کے ان کے اثر ورسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماضی میں جب طالبان بڑے شہر اور ضلعی مراکز پر حملے کر کے قبضہ کیا کرتے تھے، جیسا کہ ۲۰۱۵ء میں شمالی شہر قندوز پر کیا گیا، تو عالمی فوج کی مدد سے انھیں بھرپور طاقت سے پیچھے ہٹا دیا جا تا تھا۔ اگرچہ شہری مراکز پر اس طرح کے بڑے حملے اب بھی جا ری ہیں لیکن اب طالبان اپنے وسائل اور توانائی شہروں پر قبضے کرنے کے بجائے کابل حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔
طالبان اب اپنی توجہ اس نکتے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ بہت نپے تلے طریقے سے پیش قدمی کی جائے۔ سخت نظم و ضبط اور انصاف کی فوری فراہمی کی وجہ سے ایک کے بعد ایک دیہات ان کے زیر اثر آتے چلے جا رہے ہیں۔جیسے ہی کسی علاقے میں ان کا اثرورسوخ بڑھتا ہے تو وہ اس علاقے میں اپنے قواعد وضوابط لاگو کر دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ملازمین کی بھرتیاں کی جاتی ہیں، جن میں بجلی کے بل جمع کرنے والوں سے لے کر ’’ہیلتھ انسپکٹر‘‘تک کی سطح کے ملازمین شامل ہوتے ہیں،یہ ملازمین پھر طالبان کی بنائی گئی پالیسیوں پر عملدرآمد کرواتے ہیں۔طالبان ہر علاقے میں مختلف انداز میں موجود ہیں۔قندوز اور لشکر گاہ جیسے علاقے جو حکومتی کنٹرول میں ہیں، وہاں بھی طالبان کے نمائندے ٹیکس جمع کرتے ہیں، اورتنازعات حل کرواتے ہیں۔
طالبان داعش کی طرح مقبوضہ علاقے میں متبادل انفرااسٹرکچر کھڑا کرنے کے بجائے وہاں موجود حکومتی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ طالبان ترجمان ’’ذبیح اللہ مجاہد‘‘نے اکتوبر ۲۰۱۷ء میں ’’واٹس ایپ‘‘پر انٹرویو دیتے ہوئے ایک ہی وقت میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے اور جنگ لڑنے کی پالیسی پر سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’حکومت کے ساتھ کام لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کرتے ہیں اور یہ جنگ کا حصہ نہیں ہے‘‘۔
طالبان اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر ریاست کے وسائل قابو کر کے ان کا رخ اپنے مقاصد کی طرف موڑا جاسکتا ہے، تو پھر ریاستی اداروں پر حملے کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔اور ان کی اس جدوجہد کو حکومتی بدعنوانی اور ناہلی سے تنگ آئے لوگوں نے اور بھی آسان بنا دیا ہے۔گزشتہ برس کابل سے شائع ہونے والی ایک آڈٹ رپوٹ میں بتایا گیا کہ تقریبا ۸۰ فیصد اساتذہ کو اپنی تقرری کے لیے حکومتی اہلکاروں کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ضلع ’’چرخ‘‘ میں واقع اسکول کے سابق استاد ’’جمال‘‘ کا کہنا تھا کہ ’’حکومت پچھلے دس برسوں میں کچھ نہیں کر سکی، اس کے برعکس طالبان نے کچھ ہی عرصے میں ہمارے مسائل حل کر دیے‘‘ (حفاظتی نقطہ نظر کی وجہ سے نام تبدیل کر دیا گیا ہے)۔
۲۰۰۷ء میں جب اس کے گاؤں ’’لوگر‘‘ میں بغاوت شروع ہوئی تو اس وقت وہ نوجوان تھا، وہ لڑائی سے بچنے کے لیے وہاں سے بھاگ گیا۔ اس نے وہاں سے نکل کر نوکری ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، پھر جب اس کے گھر والوں نے اس کو تحفظ کا یقین دلایا اور بتایا کہ یہاں اب صورتحال بہت بہتر ہے، کیوں کہ طالبان نے یہاں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، تو اس نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے سابق اسکول پرنسپل نے طالبان کو اس کی سفارش کی۔ جب طالبان نے اپنے ذرائع سے اس بات کا یقین کر لیا کہ یہ حکومت کے لیے جاسوسی نہیں کرتا تو طالبان نے اس کا نام علاقے کے جرگے کو بھیجا، جو حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت کا کام انجام دیتا ہے۔جرگے نے وزارتِ تعلیم کے حکام کے سامنے اس کی سفارش کی، جنھوں نے اس کی باقاعدہ یہاں تعیناتی کی منظوری دی۔
اگرچہ جمال ایک سرکاری اسکول میں ملازمت کرتا ہے اور اس کی تنخواہ بھی ریاست دیتی ہے لیکن پھر بھی اس کے کام کی نگرانی طالبان کرتے ہیں۔ طالبان ان دیہاتوں میں اسکول وغیرہ کی نگرانی کے لیے دیہات کے معززین یا امام مسجد کو نامزد کر دیتے ہیں، جو اسکول میں اساتذہ کی حاضری چیک کرتے اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ غیر حاضر رہنے والے اساتذہ کی تنخواہ کاٹی جائے۔ اکثر و بیشتر وہ اسکول کی کتابوں میں سے متنازعہ مواد بھی ہٹوا دیتے ہیں، جیسا کہ خواتین پولیس اہلکاروں کی تصاویر اور ایسا مواد ہٹاکر اس کی جگہ مذہبی مواد کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح کی نگرانی کا نظام اسپتالوں میں بھی ہے، جہاں دواؤں کی فراہمی اور ڈاکٹروں کی نگرانی یقینی بنائی جاتی ہے۔صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری افسر کا کہنا تھا کہ مجھے طالبان کی طرف سے فون آیا اور کہا گیا کہ ’’تمھیں اس ضلع میں ایک سرجن اور ایکس رے مشین کا اضافہ کر نا ہو گا‘‘جب میں نے ان پوچھا کہ تمھیں کیسا لگتا ہے، جب اس طریقے سے احکامات دیے جاتے ہیں؟ تواس کا کہناتھا کہ ’’درحقیقت ہمیں ان کے حکم کی تعمیل کرنی پڑتی ہے، اگرچہ ہمیں ان کااس طرح رویہ پسند نہیں، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس نظام میں بد عنوانی نہ ہونے کے برابر ہے‘‘۔
کابل حکام طالبان کے ساتھ قائم اس تعلق کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وزارتِ عوامی صحت کے ترجمان واحد مجروح کا کہنا تھا کہ ’’ضروری نہیں کہ طالبان کے زیراثر علاقوں میں رہنے والے تمام لوگ طالبان ہی ہوں، ہماری وزارت اس بات کا عہد کیے ہوئے ہے کہ ہم بلاامتیاز تمام شہریوں کی خدمت کریں گے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’سرکاری سطح پر ایسی کوئی پالیسی نہیں کہ طالبان کے ساتھ کس طرح سے معاملات کرنے ہیں۔ جہاں ہمارے ملازمین اپنی جان کو خطرہ محسوس کرتے ہیں تو اس علاقے کے عمائدین سے مل کر معاملات طے کر لیتے ہیں‘‘۔
کوئی یہ بات یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ ملک کا کتنا حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ ابھی تک جو بھی تخمینے لگائے گئے وہ سب متنازعہ ہیں۔ نیٹو سے ملحقہ ایک ادارے کی رپوٹ کے مطابق ملک کے ۱۴ فیصد حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے جب کہ حکومت کا کنٹرول ۵۶ فیصد حصے پر ہے، اس کے برعکس بی بی سی کی ایک رپوٹ کے مطابق ملک کے ۷۰ فیصد حصے میں طالبا ن فعال ہیں۔
طالبان کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاحات مثلاً ’’فعال‘‘ اور ’’زیر کنٹرول‘‘ کی کوئی حتمی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ طالبان کی حکمت عملی نے ایسی کسی بھی اصطلاح کی تعریف کو مشکل بنادیا ہے۔اگر طالبان کے زیر اثر علاقوں کا نقشہ بنایا جائے تو ملک کے بڑے ضلعے اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اگر آپ کابل سے کسی بھی سمت میں ایک گھنٹے کی ڈرائیو کریں تو آپ طالبان کے زیر اثر علاقے میں داخل ہو چکے ہوں گے۔ اگرچہ آپ کو طالبان کا کوئی جھنڈا نظر نہیں آئے گا لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ وہاں حکم کس کا چلتا ہے،ٹیکس کون جمع کرتا ہے اور یہ کون طے کرتا ہے کہ حکومت کی کتنی عملداری یہاں برقراررہے گی۔
جب عالمی امن فوج میں اضافہ کیا گیا تو عالمی فوج نے “Ink spot strategy” پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے طے کیا مختلف اضلاع پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کے لیے لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا ہوگا اور اس کام کے لیے لوگوں کی مدد کرنا ہوگی اور ان کی مشکلات کم کرنی ہوں گی۔ اس طرح حکومت کی عملداری بڑھے گی اور ملحقہ علاقے بھی حکومت کے زیرنگرانی آتے چلے جائیں گے۔ان کو یہ امید تھی کہ اگر حکومت اس حکمت عملی میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ نہ صرف بہت سے علاقوں کو حکومت کے زیر اثر لانے میں کامیاب ہوجائیں گے بلکہ طالبان کو شکست دینے کے لیے ان کو درکار عوامی مدد بھی حاصل ہو جائے گی۔لیکن عالمی فوج کے نکلنے کی وجہ سے اس کے برعکس نتیجہ نکلا۔ “Ink spot strategy” ناکام ہو گئی۔ امریکا نے انسدادِ دہشت گردی کی مہم کو ترک کر دیا، جب کہ طالبان بہتر نظامِ حکومت کی مدد سے عوام کے دلوں کو فتح کرنے لگے۔
حالیہ عرصے میں جن طالبان سے میں ملا ہوں ان کا کہنا ہے کہ ’’مکمل فتح حاصل کرنا ہمارا ہدف نہیں ہے،اس کے بجائے ہم امن معاہدہ چاہتے ہیں اور ہمارا طرزِ حکومت ہمارے اس موقف کی سچائی کا ثبوت ہے۔ ہماری اس حکمت عملی کی کامیابی کا بہترین ثبوت افغانستان کا جنوب مغربی صوبہ ہلمند ہے‘‘۔ افغان حکومت نے اب اندازہ لگایا ہے کہ ہلمند کے تقریباً ۸۵ فیصد حصے کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے اور مقامی لوگ ’’موسیٰ قلعہ‘‘ کو طالبان کا دارالحکومت سمجھتے ہیں۔ باقی جگہوں کی طرح یہاں بھی طالبان کی حکومت کا انحصار افغان حکومت کے ساتھ تعاون پر ہی ہے۔
صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ کے سابق گورنر ’’حیات اللہ حیات‘‘ کے ساتھ دورہ کرتے ہوئے، انھوں نے خطوط کے انبار دکھاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ طالبان کی طرف سے موصول ہونے والے خطوط ہیں جن میں انھوں نے حکومت سے اپنے زیر اثر علاقوں کے لیے کلینک اور دیگر امدادی منصوبوں کی اپیل کی ہے‘‘۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسے ایک ایسے گروہ کی بات مانتے ہیں جن سے آپ جنگ کر رہے ہیں؟ لیکن انھوں نے طالبان کی حکومت کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ لوگ ظلم و جبر کی بنیادپر علاقے کو کنٹرول تو کر سکتے ہیں، لیکن نظامِ حکومت نہیں چلا سکتے۔ان کے پاس نہ ہی کوئی ویژن ہے اور نہ ہی کوئی صلاحیت ہے۔اور افغانیوں کو پتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کو حکومت ہی مہیا کرتی ہے‘‘۔
ہلمند میں طالبان اور حکومت کے مابین تعاون کا طریقہ بہت ہی منفرد ہے۔فروری میں طالبان کے تعلیمی کمیشن کے نمائندوں نے وزارتِ تعلیم کے ساتھ ایک دس نکاتی یادداشت پر دستخط کیے۔ جس میں تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے اپنی اپنی ذمے داریوں کا تعین کیا گیا تھا۔ دستخط کے موقع پر ہونے والی اس تقریب کی ایک تصویر ’’ٹویٹر‘‘ پر بھی نظر آئی، جس میں کالی پگڑیاں پہنے اور چہرے چھپائے طالبان حکومتی نمائندوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔
اس معاہدے کے مطابق اسکولوں کی زمین حکومت کی ملکیت ہوگی اور اس زمین اور ملازمین کے حفاظت کی ذمہ داری طالبان کی ہوگی۔ فریقین نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ گزشتہ برس طالبان سے لڑائی کے دوران جو اسکول بند ہوئے تھے ان کو دوبارہ سے کھولا جائے گا۔مرکزی حکومت کی طرف سے شعبہ تعلیم کے لیے نامزد کردہ صوبائی ڈائریکٹر ’’داؤد شاہ شرافی‘‘کا کہناتھا کہ اس معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے لے کر اب تک گزشتہ برس بند ہونے والے ۳۳ اسکول دوبارہ کھولے جا چکے ہیں۔
افغان محکمہ دفاع کی طرف سے سخت تنقید کے باوجود داؤد شاہ اس معاہدے کا بھرپور دفاع کرتے ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان اس معاہدے کو حکومت کی کمزوری کا ’’پروپیگنڈا‘‘ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، لیکن ہمارے بچوں کے لیے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ اسکول جائیں،نہ یہ کہ ان کے لیے کوئی اسکول ہی نہ ہو اور طالبان کے ساتھ ملتے چلے جائیں‘‘۔
لیکن طالبان ایک مختلف نوعیت کا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ طالبان کے مالی شعبے کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ ’’لوگ ۹۰ کی دہائی میں ہمیں تنقید کا نشانہ بناتے تھے کہ ہم کوئی کام نہیں کروا سکتے، لیکن اس وقت حکومت میں ہونے کے باوجود ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم حکومت میں آئیں توہم عالمی امداد کے ساتھ کیا کچھ کر سکتے ہیں‘‘۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک طالبان کی واپسی ایک خوفناک اقدام ہے۔طالبان نے اپنی حکمت عملی میں تو تبدیلیاں کی ہیں، لیکن بہت سے پرانے قواعد و ضوابط دوبارہ لاگو کیے جا رہے ہیں۔اگر چہ طالبان کا کہنا ہے کہ ہم لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت نہیں کرتے اور نہ ہی خواتین کے کام کرنے کے مخالف ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے جو علاقے طالبان کے کنٹرول میں ہیں، وہاں لڑکیاں ایک خاص عمر کے بعد اسکول نہیں جا سکتیں اور نہ ہی کوئی خاتون مردوں کی اجازت کے بغیر گھر سے نکل سکتی ہے۔ مردوں کے لیے داڑھی لازمی ہے،شلوار قمیض کے علاوہ کوئی لباس نہیں پہن سکتے اور مسجد میں جانا بھی لازمی ہے۔ اسمارٹ فون اور ٹیلی ویژن پر بھی پابندی ہے، اور ان احکامات کی خلاف ورزیوں پر کڑی سزا دی جاتی ہے۔ حکومت کے لیے جاسوسی کرنے والوں کی سزا موت ہے۔لوگ مستقل ایک خوف کا شکار رہتے ہیں۔ وہ افغانی جو حکومت کے زیر اثر علاقے میں ہجرت کر جانے کی اہلیت رکھتے ہیں، وہ ان علاقوں سے منتقل ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ وہاں بھی محفوظ نہیں ہیں کیوں کہ طالبان ان علاقوں پر حملے کرتے ہیں۔
طالبا ن کو کتنی عوامی حمایت حاصل ہے؟ اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ افغانستان کے دیہی علاقوں میں لوگ طالبان کی حمایت کرتے ہیں، طالبان کو رہنے کے لیے جگہ اور غذا کے حوالے سے ان کی مدد درکار ہوتی ہے۔ زیادہ تر افغانی اس جنگ سے تنگ آچکے ہیں، وہ نہ تو حکومت کے حامی ہیں اور نہ ہی طالبان کے، لیکن وہ سکون کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے یہ حکمت عملی اپنا لی ہے کہ جو بھی طاقتور ہو اس کی حمایت کی جائے۔ لوگر میں ایک استاد کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے سب کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں، جب مجاہدین آئے تو ہم نے ان کو تسلیم کر لیا، حامد کرزئی کی حکومت آئی تو اسے بھی مان لیا اور اب طالبان آئے تو ان کے سامنے بھی سر تسلیم خم کر لیا۔ اور اب ہمارے زندہ رہنے کے لیے یہی ایک واحد راستہ ہے۔‘‘
۲۰۱۷ء میں امریکا کے صدر ٹرمپ نے نئی حکمت عملی کا اعلان کیا اور وعدہ کیا کہ ہم جنگ لڑ کر جیتیں گے، اس حکمت عملی میں طاقت کا مظاہرہ تو بہت زیادہ تھا لیکن سفارت کاری کم۔ اور یہ حکمت عملی ایسی صورت حال میں ناقص ہوتی ہے، جب آپ کو کسی ایسی شورش کا سامنا ہو جس کی عوام میں کافی پذیرائی ہو۔ ۲۰۱۷ء میں عام شہریوں کی اموات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔امریکا نے ۲۰۱۲ء میں بھی اتنی بمباری نہیں کی تھی جتنی اس سال کی۔ فضائی حملوں کے لیے کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔افغانی بھی حیران و پریشان تھے کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے اور اس بمباری کے مقاصد کیا ہیں۔
افغان حکومت میں اصلاحات لانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور یہی عمل طالبان کی عوامی حمایت میں کمی لا سکتا تھا۔ لیکن امریکی حکمت عملی میں اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ امریکی انسپکٹر جنرل برائے افغانستان کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک حالیہ رپوٹ میں اعتراف کیا گیا کہ ’’حکومتی اصلاحات کے حوالے سے امریکا اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام رہا‘‘۔ قومی حکومت داخلی لڑائی اور بدعنوانی کی وجہ سے ناکام ہو چکی ہے۔ حالیہ عرصے میں واحد مثبت چیز جو سامنے آئی ہے، وہ عید کے موقع پر طالبان کی جانب سے تین روزہ جنگ بندی تھی۔
جولائی میں اس طرح کی خبریں سامنے آئیں کہ صدر ٹرمپ نے لڑائی کے ذریعے جنگ جیتنے کی حکمت عملی کو پس پشت ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔امریکا اب افغان فوجیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ دیہی علاقوں میں طالبان کا مقابلہ کرنے کے بجائے، شہری علاقوں کی حفاظت یقینی بنائے۔افغان فوج کی تربیت کا پروگرام ناکام ہو چکا ہے۔ انسپکٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک برس میں فوج کا سائز پانچ فیصد کم ہوا ہے۔ اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ امریکا طالبان سے براہ راست سیاسی مذاکرات کے لیے بھی تیار ہو گیا ہے، جو کہ طالبان کا بہت پرانا مطالبہ تھا۔ جولائی کے آخر میں طالبان نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ ان کی ملاقات وائٹ ہاؤس کے سینئر ترین سفارت کار برائے جنوبی اور وسطی ایشیا Alice Wells سے بھی ہوئی ہے۔ امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس کی تردید یا تصدیق کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
امریکا کے لیے طویل ترین ثابت ہونے والی اس جنگ کا واحد حل براہ راست مذاکرات ہی ہیں،لیکن یہ خود ایک صبر آزما اور تھکا دینے والا عمل ہو گا۔اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لیے عید کے موقع پر کی جانے والی جنگ بندی جیسے اقدامات اہم ہیں، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مذاکرات کے طریقہ کار سے لے کرزمینی سطح پر سیاسی استحکام کے لیے مقامی طور پر اٹھائے جانے والے عملی اقدامات نہایت دشوار عمل ہے۔ افغانستان کی جمہوری حکومت اور بنیادی انسانی حقوق کے مستقبل پر اب بھی سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔جہاں سفارت کار طالبان سے اختیارات کی تقسیم پر مذاکرات کرنے میں مصروف ہیں، وہیں طالبان کا اثرورسوخ ملک کے طول و عرض میں پھیل رہا ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The Taliban’s fight for hearts and minds”. (“Foreign Policy”. Sept.12, 2018)
قابل مطالعہ