افغان صدر کی اسلام آباد سے ۱۰؍دسمبر کو کابل واپسی پر ان کا استقبال طالبان نے قندھار ائیر بیس پر حملے سے کیا، جس میں ۵۰ سے زائد افراد ہلاک ہوئے اس کے ساتھ ہی افغان انٹیلی جنس کے سربراہ رحمت اللہ نبیل نے بھی صدر کی کابل واپسی پر اپنا استعفیٰ پیش کردیا، ان کا کہنا تھا کہ بعض پالیسی معاملات پر اختلافات کی وجہ سے وہ استعفیٰ دے رہے ہیں۔ استعفیٰ سے ایک روز قبل ہی انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر ان اختلافات کا اظہار کردیا تھا۔ صدر اشرف غنی نے اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا پراسس (Heart of Asia Process) کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔ یہ افغانستان کی مدد کے لیے بنایا جانے والا ایک علاقائی پلیٹ فارم ہے۔ اجلاس کی صدارت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ طور پر کی۔ نواز شریف نے پہلے کرائی گئی یقین دہانی کو دہراتے ہوئے کہا کہ طالبان کی مدد کرنا تو دور کی بات ’’ہم افغانستان کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں‘‘۔ لیکن دوسری طرف افغان انٹیلی جنس کے سربراہ نے فیس بک پر پوسٹ کی کہ طالبان پاکستان کی مدد سے کارروائیاں کر رہے ہیں اور سیکڑوں ہم وطنوں کا خون بہا رہے ہیں۔
اکتوبر ۲۰۱۴ء میں ’’ہارٹ آف ایشیا پراسس‘‘ کا اجلاس بیجنگ میں ہوا تھا، اس اجلاس میں افغان صدر نے آئندہ اجلاس کی صدارت اسلام آباد کو دینے پر اپنی رضامندی ظاہر کی تھی، انہیں اُمید تھی کہ اس کے نتیجے میں پاکستان طالبان کو اپنی کارروائیاں کم کرنے پر راضی کرے گا اور ان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنا دبائو بڑھائے گا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ سال ۲۰۱۵ء میں طالبان کی جارحیت میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا اور مذاکرات کی تمام کوششیں بھی ناکام ثابت ہوئیں، جس کی وجہ سے لوگوں کا افغان حکومت پر اعتماد کم ہوگیا۔ گزشتہ سال اگست کے مہینے میں کابل میں ہونے والے بم دھماکے، پھر ستمبر میں طالبان کے قندوز پر عارضی قبضے نے کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا۔ اشرف غنی کی پاکستان سے مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے سابق صدر حامد کرزئی ان پر پہلے ہی غداری کا الزام لگا چکے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان سے نفرت اس قدر شدید ہو گئی ہے کہ کابل میں پاکستانی سفارتکاروں کا اپنے سفارت خانے سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ اگرچہ اس کانفرنس کا واحد مقصد خطے میں استحکام اور مضبوط، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا قیام‘‘ تھا لیکن افغان صدر پر پاکستان مخالف دبائو اتنا زیادہ تھا کہ وہ آخری لمحوں تک اجلاس میں شرکت کا فیصلہ نہیں کر پارہے تھے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ بات چیت، امریکی حکام سے تبادلۂ خیال اور پاکستان کے پختون قوم پرستوں کی اپیل نے افغان صدر کو پاکستان جانے کے لیے سیاسی قوت فراہم کی۔
چار دن بعد جب افغان صدر ترکمانستان سے واپس آئے، جہاں وہ تاپی گیس منصوبے (ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت) کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے، تو ان کا استقبال حیرت انگیز طور پر مختلف تھا۔ انہوں نے صدارتی محل میں نوجوانوں کے ایک وفد سے ملاقات کی۔ صوبائی حکومتوں نے اس منصوبے کے افتتاح پر عوامی سطح پر جشن منایا۔ جب یہ منصوبہ مکمل ہو گا (اگر ہوتا ہے) تو ترکمانستان سے سالانہ ۳۳ بلین کیوبک میٹر قدرتی گیس بذریعہ افغانستان، پاکستان، بھارت کو فراہم کی جائے گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ ۲۰۱۹ء میں جب یہ منصوبہ مکمل ہو گا تو افغانستان کو سالانہ چار سو ملین ڈالر راہداری فیس کی مد میں ملیں گے، اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان کی توانائی کی ضروریات بھی پوری ہوں گی۔ اس منصوبے سے پہلے ۲۰۱۷ء میں کاسا ۱۰۰۰؍پن بجلی کا منصوبہ بھی مکمل ہو جائے گا، جس کے ذریعے تاجکستان اور کرغیزستان سے براستہ افغانستان، پاکستان کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ افغان صدر نے اس منصوبے پر عوام کی خوشی کا اظہار خود فیس بک پر دیکھا۔ ٹویٹر پر بھی ٹاپی منصوبے کی کافی تعریف کی گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام ان منصوبوں سے کتنے خوش ہیں۔
قدرتی گیس پائپ لائن کا منصوبہ اور طالبان سے مذاکرات، بظاہر تو ان دونوں میں کوئی مماثلت نظر نہیں آتی، لیکن پاکستان کے وزیراعظم اور افغان صدر اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے جنوبی اور وسط ایشیائی ممالک کے مسلسل دورے کررہے ہیں۔ ۲۳ دسمبر کو افغان صدر آزربائیجان اور ترکی کے دورے کے لیے روانہ ہوئے، راستے میں وہ مجوزہ Lapis Lazuli Corridor پر بھی رکے، یہ راہداری منصوبہ افغانستان کو ترکمانستان، آزربائیجان، جارجیا اور ترکی کے راستے بحیرۂ روم سے ملائے گا۔ اس راہدری منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد افغانستان کا سمندر تک رسائی کے لیے پاکستان، ایران اور روس پر انحصار کم ہو جائے گا۔ ۲۵ دسمبر کو افغان صدر نے واپس کابل پہنچ کر بھارت کے وزیراعظم مودی کا استقبال کیا، جو ماسکو کے دورے سے واپسی پر بھارت کی مدد سے افغان پارلیمان کی نو تعمیر شدہ عمارت کا افتتاح کرنے کابل آئے تھے۔ کابل سے واپسی پر مودی نے پاکستان کا غیر اعلانیہ اور مختصر دورہ کیا اور وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ ۲۷ دسمبر کو پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کابل پہنچے، جہاں انہوں نے افغان صدر سے ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا کہ امن پسند طالبان گروہوں سے مذاکرات جاری رکھے جائیں گے، اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے طالبان گروہوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ افغان صدر کے دفتر سے افشا ہونے والی معلومات کے مطابق صدر نے تین باتوں پر زور دیا ہے، پہلی، طالبان مذاکرات میں ایک پارٹی کی حیثیت سے شریک ہوں گے، نہ کہ امارات اور حکومت کے۔ دوسری، بات چیت کے عمل میں جمہوری اداروں کا خیال رکھا جائے گا۔ اور تیسری یہ کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود طالبان کے خلاف مارچ ۲۰۱۶ء سے قبل سخت کارروائی کرے گا، تاکہ وہ آنے والے موسمِ گرما میں افغانستان میں بڑی کارروائیاں نہ کرسکیں۔
گزشتہ بیس سالوں میں مستحکم افغانستان کے لیے کی جانے والی کوششوں میں امن اور باہمی رابطوں کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ سرد جنگ کی پہلی ششماہی کے دوران افغانستان امداد سے چلنے والے ملک کی حیثیت سے سامنے آیا اور اس کے بعد ۳۷ سال سے جنگ میں گھرا ہوا ہے اور اس جنگ نے افغانستان کا امداد پر انحصار مزید بڑھا دیا ہے۔ سال ۲۰۱۵ء میں افغانستان کی ملکی مجموعی پیداوار ۶ء۱؍ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے، یہ حکومتی اخراجات کا ایک تہائی سے بھی کم ہے۔ زیادہ تر ترقیاتی منصوبے اور دفاعی اخراجات براہِ راست غیر ملکی امداد سے ہی پورے کیے جاتے ہیں۔ ورلڈ بینک نے ۲۰۱۵ء میں حکومتی اخراجات کا تخمینہ ۱ء۵؍ارب ڈالر لگایا ہے، جس میں سے ۸ء۳؍ارب ڈالر کے دفاعی اخراجات ہوں گے، یعنی کہ کل رقم کا ۷۳ فیصد۔ اس میں سے افغان حکومت کا حصہ ۴۱۱ ملین ڈالر یعنی دفاعی اخراجات کے لیے مختص رقم کا صرف گیارہ فیصد۔ وزارت دفاع کے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال ۲۰۱۵۔۲۰۱۶ء میں دفاعی اخراجات کے لیے ۴ء۵؍ارب ڈالر چاہیے ہوں گے، جوکہ مجموعی ملکی پیداوار کا ۲۳ فیصد ہے۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کے علاوہ صرف پانچ ملک ہیں جو مجموعی ملکی پیداوار کا ۵ فیصد سے زائد دفاعی اخراجات میں لگاتے ہیں۔ ان ممالک میں تیل پیدا کرنے والے ملک عمان کا پہلا نمبر ہے، جو ملکی مجموعی پیداوار کا ۱۵؍فیصد سے زائد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔
افغانستان کو خود کفیل بنانے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ عالمی طاقتوں کی مدد سے سیاسی تصفیے کے لیے طالبان اور پاکستان سے مذاکرات کیے جائیں تاکہ ریاست کو لاحق خطرات کم ہوسکیں۔ اگرریاست کو لاحق خطرات کم ہو جاتے ہیں تو یہ ممکن ہو گا کہ افغان فوج کا حجم اتنا کر دیا جائے کہ ملکی معیشت اس کے اخراجات برداشت کرسکے۔ اسی مقصد کے لیے اشرف غنی نے اسلام آباد میں پاکستانی، چینی اور امریکی حکام سے مستقبل کے مذاکراتی عمل پر ملاقاتیں کیں۔ اسلام آباد کے دورے کے نتیجے میں دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آئندہ مذاکراتی عمل کی نگرانی چار ممالک کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کرے گی، ان ممالک میں افغانستان، پاکستان، چین اور امریکا شامل ہیں۔
مذاکراتی عمل اور اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود بھی مستقبل قریب میں اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ افغانستان کی معیشت ۲۰۰۱ء سے پہلے جیسی پوزیشن پر آسکے۔ کیونکہ امداد کا زیادہ تر حصہ اقتصادی حالت بہتر بنانے کے بجائے دفاعی اخراجات پورے کرنے میں خرچ ہورہا ہے۔ جنگ سے متعلقہ اخراجات کی وجہ سے معیشت میں ایک مصنوعی پن ہے لیکن دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ اخراجات یکدم کم کیے جائیں گے تو معیشت بالکل تباہ ہو جائے گی اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلے ہی ملک سے متوسط طبقے کے نوجوان بڑی تعداد میں انسانی اسمگلروں کے ذریعے یورپ اور شمالی امریکا کے مختلف ممالک کا رُخ کر رہے ہیں۔ انسانی اسمگلروں نے خود ساختہ (Lapis Lazuli Corridor) راہداری سے ہزاروں نوجوانوں کو سمندر پار پہنچایا ہے۔ عالمی منڈیوں تک رسائی کے لیے خشکی سے گِھرے ملک افغانستان کے پاس ٹرانزٹ ٹریڈ ہی ایک راستہ ہے، جس کے لیے اسے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینے کے لیے بڑے پیانے پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور اپنے پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔
افغانستان کی گہرے پانی کی بندرگاہ تک نقل و حمل صرف کراچی، پاکستان کے راستے ہوتی ہے۔ ۲۰۱۰ء کا پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے آنجہانی رچرڈ ہالبروک کی کوششوں سے ہی طے پایا تھا۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے افغانستان کا زمینی رابطہ براستہ جی ٹی روڈ بھارت کی بندرگاہوں سے ہوا کرتا تھا، جو کابل سے کراچی کی نسبت ۱۰۰؍کلو میٹر قریب ہیں۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر ہونے والے فسادات اور کشمیر کے تنازع کی وجہ سے یہ سرحدی راستے تب سے ہی بند ہیں۔ لگتا ہے کرسمس کے دن مودی کا دورہ اسی نقطہ کی وضاحت کے لیے تشکیل دیا گیا، جس میں انہوں نے ناشتہ کابل، دوپہر کا کھانا لاہور اور رات کا کھانا دہلی میں کھایا۔ رچرڈ ہالبروک کہا کرتے تھے کہ پاک بھارت تجارت کا موجودہ حجم برقرار رکھنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑی ہے۔ ۲۰۱۴ء تک باہمی تجارت میں پاکستان کا حصہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار کا ایک فیصد اور بھارت کا اعشاریہ ایک فیصد تھا۔ پاکستان کی سویلین قیادت کو اس بات کا اندازہ ہے کے سرحدیں کھلنے سے پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، لیکن فوجی قیادت اور انتہا پسند قوم پرست سمجھتے ہیں کہ سرحدیں کھلنے کا مطلب تعلقات میں بہتری اور کشمیر سے دستبرداری ہے۔
ان ممالک کے باہمی تعاون کو بڑھانے کے لیے ۲۰۱۱ء میں اس وقت کی سیکرٹری اسٹیٹ ہیلری کلنٹن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نئے سِلک روڈ (شاہراہِ ریشم) کی تجویز پیش کی تھی۔ واشنگٹن نے تاپی گیس پائپ لائن اور کاسا ۱۰۰۰؍منصوبے کو بھی نیو سلک روڈ میں شامل کیا لیکن ان منصوبوں کی مالی معاونت اور سلامتی کی ضمانت دینے سے انکار کردیا۔ تاہم ۲۰۱۵ء میں روس پر یوکرائن کے مسئلے کی وجہ سے لگنے والی عالمی پابندیاں اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے روس کی سرکاری کمپنی گیزپروم نے ترکمانستان سے گیس کی خریداری دس بلین کیوبک میٹر سے کم کر کے چار بلین کیوبک میٹر کر دی اور واجب الاد رقم ادا کرنے میں بھی ناکام ہو گئی۔ اس سے پہلے ۲۰۰۹ء میں بھی گیزپروم نے ترکمانستان سے اپنی درامدآت میں کمی کی تھی، اس طرح ترکمانستان کی گیس کی برآمد متاثر ہوئی ہے، ان حالات نے ترکمانستان کو تاپی منصوبے کی مالی معاونت پر مجبور کر دیا ہے۔
اس خطے میں چین بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ترکمانستان کی گیس کا اس وقت سب سے بڑا خریدار چین ہے، اس کے ساتھ چین نے اس سال ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی بنیاد بھی رکھی ہے، جس میں چین ۸ء۲۹ فیصد شیئر کے ساتھ پہلے نمبر پر جبکہ بھارت ۳ء۸ فیصد شیئر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ تین سال میں اپنے جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں کی عالمی منڈیوں تک آسان رسائی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، نقل و حمل اور توانائی کے شعبوں میں دو سو ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ نیو سلک روڈ چین کو وسطی ایشیا سے بحیرہ روم اور پھر یورپ سے ملائے گا۔ جبکہ جنوب مشرقی اور جنوبی علاقوں کو میری ٹائم سلک روڈ کے ذریعے انڈونیشیا سے افریقا تک بحیرۂ ہند کے بڑے ساحلی شہروں سے ملایا جائے گا۔ اپریل ۲۰۱۵ء میں چینی صدر نے چین پاک اقتصادی راہداری کا افتتاح کیا جس کی لاگت ۴۶؍ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے، یہ منصوبہ اوپر بیان کیے گئے دونوں راستوں کو آپس میں ملا کر اسے یکجا کر دے گا۔ چین نے اس سارے منصوبے کو ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کا نام دیا ہے۔
ون بیلٹ ون روڈ کے شائع ہونے والے نقشوں کے مطابق یہ بھارت اور افغانستان کے پاس سے تو گزرے گا لیکن یہ دونوں ممالک اس منصوبے کا حصہ نہیں ہیں۔ تاہم ’’ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسس‘‘ کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم شاہرائہ ریشم اقتصادی راہداری کے منصوبے میں افغانستان سمیت کسی بھی ملک کی شمولیت اور فعالیت کا خیر مقدم کرتے ہیں (نجی گفتگو میں چینی حکام کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر بھارت بھی شامل ہو سکتا ہے) اور ہم چاہتے ہیں کہ خطے میں ہونے والی ترقی کے اس دور میں افغانستان بھی جلد باقی ممالک کے ساتھ کھڑا ہو۔ تاپی منصوبے کے افتتاح کے موقع پر شائع ہونے والی تصویر، جس میں افغانستان اور ترکمانستان کے صدور، پاکستان کے وزیراعظم اور بھارت کے نائب صدر ایک ساتھ کھڑے ہیں، اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے وقت میں افغانستان کے معاملے میں بھارت اور پاکستان کا تعاون شاید اب شجرِ ممنوعہ نہ رہے۔
تنازعات کے حل کی صورت میں بے شمار اقتصادی فوائد اٹھانے کا یہ تاریخی موقع ہے۔ افغان صدر سیاسی تنازعات حل کرنے اور علاقائی تعاون بڑھانے کے لیے کافی کوششیں کر رہے ہیں، لیکن اس راستے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ملا عمر کی موت کی خبر کو دو سال تک صیغۂ راز میں رکھنے اور طالبان کی کارروائیاں روکنے میں ناکامی نے کابل کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ پاکستان اب بھی طالبان کی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت ایک دفعہ طے کر لے کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ طالبان سے مذاکرات یا جنگ!
پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ طالبان کے کچھ گروہ باغی ہو کر نئی قیادت کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں، کچھ گروہ نام نہاد اسلامک اسٹیٹ کے نام سے حملے کر رہے ہیں۔ طالبان افغانستان کے مختلف علاقوں پر قبضے بھی کر رہے ہیں اور ان کی آپس میں اور غیر ملکی جنگجوئوں سے لڑائیاں بھی جاری ہیں۔ بہت جلد امریکا، چین، پاکستان اور افغانستان، طالبان سے دوبارہ مذاکراتی عمل کے لیے طریقہ کار وضع کریں گے۔
نہ صرف امن، بلکہ باہمی تعاون بھی سیاسی اور علاقائی تنازعات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ افغان صدر نے ۲۰۱۴ء میں اسلام آباد کے دورے کے دوران بھارت سے زمینی تجارت کی درخواست کی تھی، جسے پاکستان نے رد کر دیا تھا۔ جواب میں افغانستان نے بھی پاکستان کو وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی میں کسی بھی قسم کی مدد دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بھارت نے بھی چین پاک اقتصادی راہداری پر اپنے اعتراضات کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کے یہ سڑک پاکستان کے صوبے گلگت بلتستان سے گزرے گی جو کہ ایک متنازع علاقہ ہے۔ (بھارت کا دعویٰ ہے کہ گلگت بلتستان ۱۹۴۷ء سے پہلے کشمیر کے مہاراجہ کی ملکیت تھا)۔
بھارت ایک اور راستے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ یعنی خلیج عمان میں واقع ایرانی بندرگاہ چاہ بہار تک تجارتی راہداری پر تیزی سے کام جاری ہے۔ یہ راستہ بھارت سے شروع ہو کر ایرانی صوبے سیستان سے ہوتا ہوا افغانستان تک جائے گا۔ ایٹمی معاہدے کے نتیجے میں ایران سے اقوام متحدہ اور امریکا کی پابندیاں اٹھنے کے بعد اس منصوبے پر مزید سرمایہ کاری متوقع ہے اور اس منصوبے میں امریکا کی شمولیت کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ چین پاک اقتصادی راہداری، بھارت ایران تجارتی راہداری، Lapis Lazuli Corridor، تاپی گیس منصوبہ، یہ سب خطے کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ لیکن یہ صرف طالبان سے امن مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ہی ممکن ہوسکے گا۔ یہ سب اتنی آسانی سے تو ممکن نہیں ہو گا، لیکن یہ منصوبے باہمی تعاون میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ چین جس طرح ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کے چین کو یقین ہے کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے باہمی تعاون سے طالبان کی جارحیت روکنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اسی طرح تاپی گیس منصوبہ بھی بھارت، پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعاون میں اضافے کا باعث بنے گا۔ ان سب منصوبوں کے ساتھ ایک اضافہ اور کر دیا جائے تو خطے کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان کے ایک سیاسی رہنما نے کچھ دن پہلے دہلی کے دورے کے موقع پر غیر سرکاری گفتگو میں کہا کہ اگر چین پاک اقتصادی راہداری کے منصوبے میں بھارت کو بھی شامل کر لیا جائے تو خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔
افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ضروری نہیں کہ مسئلۂ کشمیر حل کیا جائے، یا افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن تنازعہ کا کوئی حل نکالا جائے۔ عملی طور پر ان دونوں مسئلوں کا حل ناممکن ہے۔ تاہم پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے قابلِ اعتماد اور قریب ترین دوست چین سے سبق سیکھے کہ وہ کس طرح تنازعات کے باوجود تعلقات کو آگے بڑھاتا ہے۔ اکتوبر میں نیویارک یونیورسٹی سینٹر نے ون بیلٹ ون روڈ پر ایک رپورٹ اقوام متحدہ میں چینی مشن کو بھیجی، جس نے یہ اعتراض لگا کر مسترد کر دی کہ ہم ایسی کسی رپورٹ کو قبول نہیں کرتے جس میں تائیوان کو چین سے مختلف رنگ میں دکھایا گیا ہو۔ اس کے ایک ہفتے بعد ہی چینی صدر شی جن پنگ اور تائیوان کے صدر ماینگ جو سنگاپور میں ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آئے۔ چین اس وقت تائیوان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں کی باہمی تجارت ۱۳۰؍ارب ڈالر سالانہ ہے، جو کہ تائیوان کی مجموعی ملکی پیداوار کے ایک چوتھائی سے بھی زیادہ ہے۔ دونوں ممالک آپس کے تنازعات میں ایک دوسرے کا موقف تسلیم نہیں کرتے، اس کے باوجود ایسی تمام پالیسیوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں جو دونوں کے لیے فائدہ مند ہو۔
تاپی گیس منصوبہ، ون بیلٹ ون روڈ اور ایسے ہی دوسرے منصوبوں نے پاکستان، افغانستان اور بھارت کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر اور ڈیورنڈ لائن جیسے تناعات کو ایک طرف رکھ کر طالبان کی جارحیت روکنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ افغانیوں کی اکثریت بھی اب جنگوں سے تنگ آچکی ہے اور وہ صرف امن کے خواہشمند ہیں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The TAPI pipeline and paths to peace in Afghanistan”.
(“newyorker.com”. December 30, 2015)
Leave a Reply