
بیسویں صدی میں انسانیت نے تہذیب و تمدن کی جو معراج حاصل کی ہے اور سائنسی تحقیقات کے ذریعے جس طرح ساری کائنات کو مسخر کر لیا ہے۔ ایٹم کو پھاڑ ڈالا اور راکٹ ایجاد کر لیے ہیں۔ کیا یہ سب جاہلیت ہے!
بلاشبہ آج انسان نے وہ بلندی اور عظمت حاصل کر لی ہے جو اس سے پہلے انسان کو کبھی حاصل نہ ہوئی تھی اور آج انسان جس طرح کائنات کو مسخر کر کے اس پر غلبہ اور بالادستی حاصل کر چکا ہے اس کے بارے میں اس کرۂ ارضی پر بسنے والا کوئی شخص دس بیس سال پہلے تک بھی تصور تک نہ کر سکتا تھا۔
بتایئے ہم پھر کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ انسان آج کی اس بیسویں صدی میں جاہلیت کی زندگی گزار رہا ہے۔ حالانکہ آج کے انسان کو مکمل آزادی حاصل ہے اور وہ مساوات، جمہوریت اور سماجی انصاف کے اصولوں کی روشنی میں زندگی گزار رہا ہے اس لیے ظاہر ہے کہ اس تابناک دور کو جاہلیت کا نام دے دینا موزوں نہیں ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ جاہلیت اسلام سے پہلے کے عرب کے تاریخی دور کا نام ہے۔ اس خیال کے حامل سادہ لوح نیک لوگ بھی ہیں اور عام لوگ بھی۔ نیک اور سادہ لوح لوگ اس بات پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ بعثتِ نبویؐ سے پہلے کے عرب کی جو حالت اسلام نے بیان کی ہے وہ بالکل درست اور صحیح ہے اور وہ فی الواقع جاہلیت تھی جبکہ عام لوگ ہر جانب سے غیر اسلامی افکار میں گھرے ہوئے ہیں اور عصبیتوں کا شکار ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
یہ عصبیتوں کا شکار لوگ جاہلیت عربیہ کا بچائو اور اس کی مدافعت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن نے عرب معاشرہ میں جس جاہلیت کی نشاندہی کی ہے وہ سرے سے جاہلیت ہی نہ تھی بلکہ اس وقت کا عرب معاشرہ ایسے کمالات، حقیقی اقدار، علوم اور تہذیب و تمدّن کا حامل تھا جسے اس نے رومیوں اور ایرانیوں سے میل جول کے دوران حاصل کیا تھا اور یورپ کے مستشرقین بھی اپنی تصانیف میں اسی رائے کی تائید کرتے ہیں۔
بہرحال یہ آزاد خیال انارکسسٹ اپنے خاص نقطۂ نظر کے تحت سرے سے یہ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ آج اس بیسویں صدی میں جاہلیت کا دور دورہ ہے۔ بالخصوص جبکہ ان کی تحقیق کا معیار وہ ہو جو ہمارے سامنے آیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ جاہلیت کے حقیقی معنی اور قرآن کے متعین کردہ منشاء و مراد سے بے خبر ہیں۔
سادہ لوح لوگ سمجھتے ہیں کہ جاہلیت، شرک، بت پرستی، انتقام اور ان بُری عادتوں کا نام ہے جو اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں موجود تھیں۔ گویا یہ مظاہر جاہلیت کو بعینہٖ جاہلیت سمجھ بیٹھے۔ اسی لیے وہ اس کی ایک خاص شکل ایک مخصوص زمانے اور جزیرہ نمائے عرب کے اس علاقے میں متعین کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جاہلیت ختم ہو گئی۔ اب کبھی بھی اور کہیں بھی جاہلیت رونما نہیں ہو سکتی۔
جبکہ دیگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جاہلیت علم و تمدن، مادّی ترقیات، فکری، اجتماعی، سیاسی اور انسانی اقدار کے بالمقابل ہے۔ چنانچہ وہ اپنی ساری قوتیں یہ ثابت کرنے میں لگا دیتے ہیں کہ عرب جاہلیت زدہ نہیں تھے (انہی میلانات سے مجبور ہو کر جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے) کیونکہ ان کے خیال میں عرب علم و فن سے اچھے خاصے واقف اور کافی حد تک تہذیب آشنا تھے وہ سخی اور بہادر تھے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے تھے اور شرافت کے حصول میں جان تک کی بازی لگا دیتے تھے اسی قسم کی ان میں اور بہت سی خوبیاں تھیں اس لیے قرآن کا عربوں کے اس دور کو جاہلیت کا نام دینا کسی تاریخی حقیقت پر مبنی ہے۔ چہ جائیکہ بیسویں صدی میں جاہلیت کے دَور دَورہ کی باتیں کی جائیں۔ جبکہ اس صدی میں انسان مادی ترقیات کی ان بلندیوں تک پہنچ چکا ہے جن ترقیات کا اس دَور سے قبل تصور بھی مشکل تھا۔
ہماری نظر میں یہ دونوں ہی طبقے جاہلیت کے حقیقی معنی اور قرآن کی اصل منشاء سے قطعی سے ناواقف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جاہلیت معاشرے کی کسی مخصوص شکل اور تاریخ کے کسی خاص دور کا نام نہیں ہے بلکہ جاہلیت، معاشرے کی ایک کیفیت کا نام ہے البتہ اس کے مظاہر معاشرے کی حالت اور زمانے کی رفتار کے مطابق بدلتے رہتے ہیں مگر سب صورتوں میں قدرِ مشترک یہی ہوتی ہے کہ سب ہی جاہلیت کے نوع بہ نوع پیکر ہیں۔ اگرچہ ہر پیکر اپنی ظاہری شکل میں دوسرے سے مختلف ہے۔ اس لحاظ سے خواہ تذکرۂ اسلام سے پہلے کی جاہلیت کا ہو یا دورِ جدید کی جاہلیت کا یہ جاہلیت علم و فن، مادی ترقی اور انسان کی فکری اور سماجی اقدار کی ضد اور اس کے منافی نہیں ہے۔
بلکہ قرآن کریم کے منشا و مراد کے مطابق جاہلیت اس نفسیاتی کشمکش کا نام ہے جس میں پھنس کر لوگ اللہ کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے اور وہ انتظامی ڈھانچہ ہے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کو نہیں مانتا۔
’’اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کس کا ہو سکتا ہے‘‘ (سورہ المائدہ)
قرآن کے بیان کردہ مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے۔ جاہلیت۔۔۔علم و فن، تہذیب و تمدن یا معاشی برتری کے متصادم اور مقابل نہیں ہے بلکہ جاہلیت دراصل اللہ کی ہدایت اور اللہ کے حکم کے بالمقابل ہے جہاں اللہ کی ہدایت کو ٹھکرایا اور اس کے حکم سے روگردانی کی۔ وہیں جاہلیت آموجود ہوئی۔
قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ عربوں کا زمانہ اس لیے دور جاہلیت تھا کہ وہ فلکیات، طبیعیات، کیمیا اور طب سے واقف نہیں تھے۔ یا انہیں سیاسی انتظام نہیں آتا تھا یا وہ مادی پیداوار کرنے سے قاصر تھے یا ان میں سرے سے کوئی خوبی ہی نہ تھی یا ان کے پاس مطلقاً کسی قسم کی اقدار ہی نہ تھیں۔
اگر قرآن کا یہی کچھ مطلب ہوتا تو وہ اسی قسم کا کوئی متبادل نظام انہیں دے دیتا۔ انہیں علمی جہالت کے بدلے میں علمی، فلکی، طبیعیاتی، کیمیائی اور طبی معلومات فراہم کر دیتا۔ سیاسی جہالت کے بدلے انہیں نئے سیاسی افکار عطا کر دیتا۔ اگر ان کے معاشرے میں مادی پیداوار کی کمی تھی تو وہ ان کو ایسے طریقے بتا دیتا جن سے پیداوار میں اضافہ ہو سکتا اور پہلے کی نسبت بہتر پیداوار ہوتی اور اگر ان کے معاشرے میں اچھی عادتوں اور بہتر اقدار کی کمی تھی تو وہ ان کو کچھ ایسی خوبیاں اور کچھ ایسی اقدار بخش دیتا جو کسی ٹھوس اخلاقی نظام میں پیوستہ ہونے کے بجائے معاشرے میں یونہی بے ربط سی بکھری ہوئی ہوتیں۔
لیکن قرآن نے نہ تو عرب معاشرے میں اس طرح کی کسی کمی کی نشاندہی کی اور نہ اس کمی کو دُور کرنے کے لیے کوئی متبادل نظام دیا۔(ہر چند کہ اسلامی انقلاب کے بعد یہ سب تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ لیکن یہ وہ تبدیلی نہ تھی جس کے لیے اللہ نے لوگوں سے مطالبہ کیا ہو کہ وہ جاہلیت کو چھوڑ کر اس نئی تبدیلی کو اپنا لیں)۔
قرآن نے تو انہیں جاہلیت سے اس بناء پر متصف قرار دیا کہ وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے اپنی خواہشات کے بندے بن گئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس جاہلیت کے بدلے اسلام عطا کیا اور :
انسانیت کو پرکھنے کے لیے اسلام کو کسوٹی بنا دیا اور بتا دیا کہ جو کچھ اسلام کے خلاف ہے وہ جاہلیت ہے خواہ جاہلیتِ عرب ہو یا تاریخ کی کوئی اور جاہلیت۔۔۔
قرآن نے جا بجا گزشتہ اقوام اور ان کی تہذیب و تمدّن کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ اقوام عربوں سے کہیں زیادہ متمدن تھیں۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ یہ اقوام جاہلیت کی زندگی گزار رہی تھیں کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کی تعمیر اللہ کی ہدایت کے مطابق نہیں کی تھی۔
’’کیا انہوں نے زمین میں سیاحت کر کے گزشتہ اقوام کے انجام کو نہیں دیکھا۔ وہ تو ان سے زیادہ طاقتور تھے اور انہوں نے زمینیں خوب جوتیں اور جس قدر انہوں نے زمین کو آباد کیا ہے اس سے کہیں زیادہ اُنہوں نے آباد کیا تھا اور ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے۔ پھر اللہ تو ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے۔ آخر کار جن لوگوں نے برائیاں کی تھیں ان کا انجام بہت بُرا ہوا، اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے‘‘۔ (القرآن)
غور فرمایئے! قرآن جاہلی عربوں کی توجہ گزشتہ جاہلی اقوام کی طرف مبذول کرا رہا ہے۔ تاکہ وہ ان کے انجام پر غور کریں اور اس سے ڈریں اور اللہ کی آیات کو نہ جھٹلائیں بلکہ ان پر ایما ن لائیں اور ہدایت حاصل کریں۔ اگرچہ یہاں پر قرآن نے جاہلیت کا لفظ صاف طور پر استعمال نہیں کیا ہے لیکن پھر بھی معنی وہ ہی ہیں۔ قرآن جاہلی عربوں سے کہتا ہے کہ یہ اقوام بھی جاہلیت میں تمہاری ہم پلّہ تھیں۔ باوجودیکہ وہ زیادہ طاقت ور تھیں۔ انہوں نے تم سے زیادہ زمین کو آباد کیا تھا۔ ان کے پاس تہذیب و تمدّن بھی تھا۔ لہٰذا تمہارے لیے خیر اسی میں ہے کہ تم اس جاہلیت سے باہر آ جائو۔ جس جاہلیت میں تم اور وہ بگڑی ہوئی قدیم قومیں برابر کی شریک ہیں اب تم اللہ کی ہدایت قبول کر لو اور مسلمان ہو جائو۔
غرض قرآن کی نظر میں جاہلیت اس نفسیاتی کشمکش کا نام ہے جس میں مبتلا رہ کر لوگ اللہ کی ہدایت قبول نہیں کرتے اور وہ انتظامی ڈھانچہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کو نہیں مانتا۔ اللہ کی ہدایت کو قبول نہ کرنا اور اس کے نازل کردہ احکام ٹھکرا دینا۔ انسانی معاشرے کا ایسا بگاڑ ہے جس کے نتائج اتنے بھیانک ہوتے ہیں کہ ساری انسانی زندگی ایک اذیت ناک کرب اور بے چینی کا شکار ہوجاتی ہے اور بیمار انسانیت کی بدبختی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
مذکورہ بالا قرآنی مفہوم کے پیشِ نظر یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ جاہلیت نہ تو اسلام سے پہلے کے عرب معاشرے کا نام ہے اور نہ ہی جاہلیت تاریخ کے کسی مخصوص دَور کو کہا جاتا ہے بلکہ یہ ایک ایسی حالت کا نام ہے جو اللہ کی ہدایت سے بے نیازی برتنے، اپنی خواہشاتِ نفس کے اتباع کرنے اور اللہ کے نازل کردہ احکام سے رُوگردانی کرنے کے نتیجے میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت رونما ہو سکتی ہے خواہ انسانیت مادّی ترقی تہذیب و تمدن کے عروج اور فکری اور سیاسی ارتقاء کے لحاظ سے کتنی ہی بلند معراج تک پہنچ چکی ہو۔ گویا دوسرے الفاظ میں جاہلیت ہوائے نفس کی اتباع ہی کا دوسرا نام ہے۔
لہٰذا جو لوگ ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں اور اللہ کی نازل کردہ ہدایت سے روگرداں ہیں، وہ جاہلیت میں مبتلا قرار پاتے ہیں کیونکہ وہ ہدایت الٰہی سے اعراض کیے ہوئے ہیں، خواہ وہ اپنے مبلغ علم کے لحاظ سے، اپنے تمدن کے لحاظ سے، اپنی مادی ترقی کے لحاظ سے،اپنی سیاسی اور اقتصادی تنظیم کے لحاظ سے کتنے ہی بلند مرتبہ نظرآتے ہوں اور وہ اپنی اس جاہلیت کے سبب ان نتائج سے ضرور دوچار ہو کر رہیں گے جو جاہلیت کے لازمی نتائج ہیں یعنی اضطراب و کرب اور حرمان و خُسران۔
غرض وہ صرف عرب ہی نہ تھے جو اسلام سے پیشتر جاہلیت میں زندگی گزار رہے تھے بلکہ ان کی طرح ہر وہ قوم جاہلیت کا شکار قرار پائے گی جس نے ہدایت الٰہی سے انحراف کیا اور ہوائے نفس کی پیروی کی۔
جو سادہ لوح لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جاہلیت صرف وہ ہی ہے جو اسلام سے پہلے عربوں کی زندگی کا ایک دَور تھا ہم چاہتے ہیں کہ ان کو جاہلیت کی حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کرا دیں تاکہ ان کو یہ بھی اندازہ ہو جائے کہ وہ اس بیسویں صدی میں کس قسم کی زندگی گزار رہے ہیں؟
آزاد خیال طبقے سے ہم کہیں گے کہ وہ کسی قسم کے تعصب کا شکار ہو کر اسلام سے پہلے کے عربوں کی مدافعت نہ کریں۔ اس مدافعت کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہا ہے وہ یہ کبھی نہیں ثابت کر سکتے کہ جاہلی عرب علمی ترقیات، سیاسی اور اجتماعی نظام اور فکری اقدار میں موجود بیسویں صدی سے زیادہ ترقی یافتہ تھے جبکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ بیسویں صدی کی جاہلیت چودہ صدی پیشتر عربوں کی جاہلیت سے زیادہ بھیانک ہے بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ بیسویں صدی کی جاہلیت ہر اس جاہلیت سے زیادہ بھیانک ہے جس کا کوئی تاریخی وجود رہا ہو!!
عربی جاہلیت تو ایک سیدھی سادھی جاہلیت تھی۔ سیدھے سادے محسوس مگر کھوکھلے بتوں کی پوجا کر لی اور بس! کچھ عجیب سے تصورّات تھے۔ بیشک یہ تصورّات راہ راست سے ہٹے ہوئے تھے لیکن راہِ راست سے انحراف میں بھی یک گو نہ سادگی تھی گہرائی نہ تھی۔ دیگر قبائل پر قریش کی گرفت سخت تھی۔ قریش اپنی مصلحتوں اور اپنی سرداری کے بچائو کے لیے مکر و فریب سے کام لیتے اور اپنی ان مصلحتوں اور سیادت کی خاطر حق و انصاف کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ اگرچہ یہ ساری خرابیاں ہر جاہلیت میں موجود ہوتی ہیں لیکن عربوں میں یہ خرابیاں ظاہری تھیں اور کھلم کھلا تھیں ان میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں تھی۔ وجہ یہ تھی کہ جاہلیت کا فساد ان کے صرف خارجی مظاہر پر اثر انداز ہوا تھا اور ابھی تک اس فساد نے ان کی فطرت کو مسخ نہیں کیا تھا جونہی حق و صداقت نے اس ظاہری گلے ہوئے چھلکے کو اتار پھینکا۔ فوراً ان کی سادہ فطرت حق کے سامنے سرنگوں ہو گئی اور ساری تاریکیاں چھٹ گئیں۔
اس کے برخلاف جاہلیت جدیدہ زیادہ دلدل والی، زیادہ خبیث اور زیادہ سخت گیر ہے کیونکہ یہ علمی جاہلیت ہے! یہ بحث و نظریات کی جاہلیت ہے! یہ جمے ہوئے گہرے انتظام کی جاہلیت ہے! یہ آنکھوں کو خیرہ کرنے والی مادّی ترقیات کی جاہلیت ہے۔ یہ جاہلیت ہے اس دھوکہ اور فریب کی جس کو انسان کی ہلاکت کے لیے باقاعدہ علمی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے اور یہ ایسی جاہلیت ہے جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
اس کتاب کا مقصد تصنیف بیسویں صدی کی اسی ظاہری شان و شوکت کا پردہ چاک کرنا ہے۔ اور دکھلانا ہے کہ اس پردۂ زنگاری کے پیچھے گندگی اور غلاظت کے کس قدر متعفن کیڑے کلبلا رہے ہیں۔
ہم اس کتاب میں جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے چھوڑے ہوئے آثار کی نشاندہی کریں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ جاہلیت انسانی تصورات پر کس کس طرح اثر انداز ہوتی ہے اور ماضی میں جاہلیت نے انسانی زندگی پر کیا اثرات چھوڑے ہیں اور مستقبل میں یہ کن نتائج کا پیش خیمہ بننے والی ہے؟ ہم نے اس کتاب میں موجودہ دَور کے سارے مشاہدات بیان کر کے جاہلیت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس مطالعہ کا مقصد یہ ہے کہ صحیح تصورات اور صحیح راستے کی نشاندہی کی جائے اور اس جاہلیت کا پردہ چاک کیا جائے جس نے ترقی اور تہذیب کے نام پر لوگوں کو فتنے میں مبتلا کر رکھا ہے تاکہ لوگوں کو وہ مہیب غار نظر آ جائے جس میں وہ گرنے والے ہیں۔ حالانکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ صحیح راستے پر چل رہے ہیں!!
ہمارا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم انسانیت کو ایک خوشگوار مستقبل کی بشارت دے دیں جس مستقبل پر ہمارا ایمان ہے۔ جس وقت لوگ تاریکییوں سے نکل کر روشنی میں آ جائیں گے!
مجھے معلوم ہے کہ یہ کام نہ ایک کتاب کر سکتی ہے اور نہ ایک ہزار کتابیں! البتہ مجھے دو باتوں کا یقین ضرور ہے۔ پہلی بات یہ کہ کلمات رائیگاں نہیں جائیں گے۔ اگرچہ کچھ دنوں کانوں کو ناگوار معلوم ہوتے رہیں گے۔ دوسری بات جس پر مجھے یقین ہے یہ ہے کہ درحقیقت تاریکی سے نکل کر روشنی کی طرف آنے کا زمانہ آ چکا۔ تاریکیوں میں روشنی کی ایک کرن پھوٹتے ہوئے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور اسی کرن کی روشنی میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں۔
(بحوالہ: مقدمہ، محمد قطب کی کتاب ’’جدید جاہلیّت‘‘)
Leave a Reply