
گزشتہ ہفتہ حماس کے ایک اہم قائد کی ہلاکت کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تھی جنہیں بدنام زمانہ اسرائیلی تنظیم موساد نے ہلاک کیا تھا۔ شہید حماس لیڈر محمود المبحوح امارات ایرویز کے طیارہ نمبرEK912 سے دمشق سے دبئی جارہے تھے کہ دبئی پہنچنے کے بعد یورپین پاسپورٹ کے حامل گیارہ افراد نے انہیں شہید کر دیا۔ یہ واقعہ ۱۹ ؍جنوری ۲۰۱۰ء کو پیش آیا۔ حماس قائدین کو نشانہ بنانا اور ایک ایک کر کے ختم کرنا موساد کے اوّلین مقاصد میں سے ہے۔ موساد ایک ایسی یہودی تنظیم ہے جو دنیا بھر میں اور بالخصوص عالم اسلام میں اپنی تخریبی کارروائیوں کے لیے شہرت رکھتی ہے۔ اس کا قیام ہی قتل و غارت گری اور امنِ عالم کو درہم برہم کرنے کے لیے عمل میں آیا۔ ۵۰ سالہ محمود المبحوح جن کا مکمل نام محمود عبدالرئوف المبحوح ہے اور جن کی کنیت ابوالعبد ہے۔ شمالی غزہ پٹی کے جبالیا کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ حماس کے ممتاز قائدین میں سے تھے اور حماس کے عسکری ونگ شہید القسام بریگیڈیئر کے بانیوں میں شامل تھے۔ اسرائیلی فوجی آفی سبورتس اور ایلان سعدون کی گرفتاری اور ہلاکت کے یہی ذمہ دار تھے۔ ان دونوں صہیونی قیدیوں کو اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلہ کے مقصد سے قید رکھا گیا تھا۔ محمود المبحوح نے دشمن کے خلاف کئی ایک کامیاب حملوں میں حصہ لیا تھا۔ فلسطین کے پہلے انتفاضہ کے موقع پر صہیونی دشمن نے سب سے پہلے ان ہی کے گھر کو منہدم کیا تھا۔ محمود المبحوح ۱۹۴۷ء میں غزہ کے ایک دیندار گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ جبالیا کیمپ میں ان کی تربیت ہوئی۔ اسرائیل کے خلاف جہاد و شہادت کے ماحول میں آنکھیں کھولیں اور ایسی جگہ پرورش پائی جہاں فلسطین کا پہلا انتفاضہ شروع ہوا۔ شروع سے اسرائیل سے سخت نفرت کرتے تھے اور فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کو ناجائز سمجھتے تھے۔ بچپن ہی سے ان کی تمنا تھی کہ وہ بڑے ہو کر صہیونی دشمن سے ٹکر لیں گے اور فلسطین پر مظالم ڈھانے والوں سے انتقام لیں گے۔ اسرائیل کے خلاف جہاد کے ارادے سے وہ ابتدا ہی سے جسمانی ورزش کا اہتمام کرتے تھے۔ ان کے والد کے ۱۴ ؍لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں جن میں ان کا نمبر پانچواں تھا۔ شہید المبحوح قیام لیل کے پابند تھے‘ دعوت الی اﷲ ان کا مشغلہ تھا۔ اولاد کی دینی تربیت کا حد درجہ اہتمام کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم جبالیا کیمپ کے ایوبیہ اسکول میں حاصل کی پھر ڈپلوما ان میکانک کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اپنے پیشہ میں انتہائی مخلص تھے۔ بچپن ہی سے انہیں مزاحمت اور جہاد فی سبیل اﷲ سے عشق کی حد تک لگائو تھا چنانچہ کم عمری ہی سے وہ اسلحہ کی ٹریننگ لیا کرتے تھے۔ ۱۹۸۶ء میں انہیں ایک سال کے لیے غزہ کی جیل میں قید رکھا گیا۔ قید سے رہائی کے بعد ان کی جہادی سرگرمیاں موقوف نہیں ہوئیں بلکہ ان میں اضافہ ہوا۔ جوں جوں عمر بڑھتی گئی‘ شیخ احمد یاسین سے ان کے روابط مستحکم ہوتے گئے۔ یہ حماس لیڈر محمد الشراتحہ کی تیار کردہ فوج کے اہم رکن تھے۔ ۱۹۸۸ء میں القسام بریگیڈیئر کے مجاہدین نے محمود المبحوح کی قیادت میں صہیونی جاسوس آفی سبورتس کو صہیونی علاقوں میں گھس کر گرفتار کیا پھر اس کے ہتھیار قبضہ میں لے کر اسے جہنم رسید کر دیا۔ ۳ مئی ۱۹۸۹ء میں القسام کے مجاہدین نے ایک اور اسرائیلی فوجی ایلان سعدون کو تمام تر فوجی اسلحہ کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ ۱۱ ؍مئی ۱۹۸۹ء کو جب صہیونیوں کو پتا چلا کہ ان کارروائیوں کے پیچھے محمود المبحوح کا ہاتھ ہے تو صہیونیوں نے ان کے گھر کو ڈھا دیا۔ اس وقت سے المبحوح اسرائیل کے نشانہ پر تھے بالآخر ۲۹ جنوری کو موقع پا کر موساد کے کارکنوں نے دبئی میں انہیں شہید کر دیا۔
موساد کی حالیہ کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے صہیونی مبصر یو آف سیمور نے کہا اسرائیلی ذرائع اس کارروائی کو تسلیم نہیں کرتے گویا صہیونی تجزیہ نگار نے المبحوح کے قتل میں موساد کے ملوث ہونے کی تردید کی۔ یہ اسرائیل کا وتیرہ رہا ہے کہ وہ جب بھی کسی اہم قائد کے قتل میں ملوث ہوا خود کو بری قرار دیا۔ فتحی شقاقی کے قتل کے موقع پر ایسا ہی ہوا‘ عسقلان بلدیہ کے صدر نبی فاکنین نے المبحوح کی ہلاکت پر خوشی کا اظہار کیا۔ اسی طرح جن دو اسرائیلی فوجیوں کو المبحوح کی قیادت میں گرفتا راور قتل کیا گیا تھا‘ ان کے اہل خانہ نے بھی المبحوح کو قتل کرنے والے موساد کے غنڈوں کی خوب تعریف کی۔ اسرائیلی ویب سائٹ ’’والا‘‘ پر وضاحت کی گئی کہ شہید المبحوح صہیونی فوج کے نمبر ایک مطلوب شخص تھے۔ دبئی پولیس ڈائریکٹر جنرل صناحی خلفان نے اعلان کیا کہ المبحوح دبئی میں الگ الگ نام اور پاسپورٹ کے ساتھ داخل ہوئے تھے۔ جبکہ شہید المبحوح کی بہن کا کہنا ہے کہ المبحوح کو بجلی کے جھٹکے کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا۔ پھر کپڑے سے ان کا گلا گھونٹا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ پیرس پوسٹ مارٹم کے نتائج سے واضح ہوا کہ شہید المبحوح کے خون میں زہریلا مادہ شامل تھا۔ دوسری جانب صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ المبحوح کو دس روز قبل ہی شہید کیا جاچکا تھا۔ یعنی اسرائیل کے وزیر توانائی عوزی لاندو کے دبئی سے روانہ ہونے سے دو گھنٹے قبل ہی انہیں شہید کر دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ حماس کے ایک اہم قائد کے اس طرح قتل پر عرب ممالک نے کیا ردعمل ظاہر کیا؟ افسوس کسی عرب ملک نے اسرائیل کو آڑے ہاتھوں نہیں لیا اور اس وحشیانہ کارروائی پر خاموشی کو ترجیح دیتے رہے۔ عرب ممالک کی اس بے حسی نے اسرائیل کو بے لگام بنا دیا ہے۔ اسرائیل ایک ایک کر کے فلسطینی مزاحمت کے قائدین کو موت کے گھاٹ اتارتا جارہا ہے۔ لیکن عرب حکمراں اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی جرأت مندی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ حماس تحریک میں بین الاقوامی تعلقات کے ذمہ دار اسامہ حمدان نے وضاحت کی ہے کہ ان کی تحریک حماس اسرائیل کی اس حرکت پر کوئی طاقتور ردعمل کا اظہار نہیں کرے گی جس کا اسرائیل کو انتظار ہے اور اسرائیل اس ردعمل کو بنیاد بنا کر تشدد کا جواز پیدا کرنا چاہتا ہے۔ فلسطین سے باہر اسرائیلی حکام کو نشانہ بنا کر حماس مسئلہ فلسطین کے مفادات کو متاثر کرنا نہیں چاہتی۔ حماس کے سیاسی شعبہ کے رکن ڈاکٹر محمود الزہار نے کہا کہ اگر صہیونی دشمن بین الاقوامی سطح پر جنگ کا محاذ کھولنا چاہتا ہے تو اسے اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ حماس کے سیاسی امور سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ جنگ کو فلسطین سے باہر لے جانا سیاسی اعتبار سے حماس کے لیے مہنگا ثابت ہو گا۔ اگر حماس نے بیرونِ اسرائیل صہیونی قائدین کو نشانہ بنایا تو وہ عالمی برادری کی تائید سے محروم ہو جائے گی۔ عالمی برادری حماس پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دے گی۔ نیز حماس کا اس قسم کی کارروائیوں میں حصہ لینا اسے القاعدہ کی صف میں لاکھڑا کرے گا۔ موساد کی حالیہ کارروائی سے یہ پیغام ملتا ہے کہ موساد کے ہاتھ کافی لمبے ہیں۔ اسرائیل کی سلامتی کو متاثر کرنے والوں سے اسرائیل ہر صورت میں انتقام لے کر رہتا ہے۔ اسرائیل کافی عرصہ سے محمود المبحوح کا پیچھا کر رہا تھا۔ متعدد بار المبحوح اسرائیل کے قاتلانہ حملوں میں بال بال بچ گئے تھے۔ بیروت میں بھی ان پر حملہ کیا گیا تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل یہ پیغام دینا چاہتا ہو کہ غزہ کے لیے اسلحہ سپلائی کرنے والے اسرائیل کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ موساد سمجھتی ہے کہ المبحوح کا غزہ کے لیے اسلحہ منتقلی میں اہم کردار ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply