
یکم اکتوبر کو فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کے حامیوں اور وزیراعظم اسمٰعیل ہنیہ کے حامیوں کے مابین ہونے والے تصادم میں ۷ افراد ہلاک ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہو گئے۔ لڑائی کا آغاز غزہ پٹی سے شروع ہوا اور پھر یہ فلسطینی انتظامیہ کے صدر مقام رملہ تک پھیل گئی۔ اس تصادم میں حکومت کی کئی عمارات مندہم کر دی گئیں اور بہتیری گاڑیاں نذرِ آتش کر دی گئیں۔ فلسطین کے ساٹھ سالہ قبضے کے دوران اس طرح کی داخلی جنگ کی مثال بہت شاذ ہے۔ اس پورے عرصے میں فلسطینی قوم صیہونی حکومت کو اپنا واحد دشمن خیال کرتی رہی ہے۔ یہ رویہ ان کے اتحاد کا راز تھا۔ فلسطینی قوم کی مزاحمت کی تاریخ میں یہ مرحلہ انتہائی خطرناک ہے‘ اس لیے کہ امریکا‘ اسرائیل اور یورپی یونین فلسطین میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑکانے کی بہت سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں‘ مغرب اور اسرائیل نے یہ حکمتِ عملی اس وقت اختیار کی ہے جب انہیں پارلیمانی انتخابات میں حماس کی فتح سے اور بنیاد پرستوں کی وسیع البنیاد حکومت کے قیام سے یہ خوف پیدا ہو گیا ہے۔ صیہونی حکومت کی سلامتی معرضِ خطر میں پڑ جائے گی۔ لہٰذا امریکا‘ یورپی یونین اور بعض عرب ممالک نے بھی حماس کا سیاسی و اقتصادی بائیکاٹ کر دیا اور یورپی یونین نے تو حماس کی فتح کے بعد ۵ سو ملین ڈالر اپنی امدادی پیکیج سے کم کر دیا جو وہ فلسطینی حکومت کو دیا کرتی تھی۔ یہ امداد اس وعدے کا حصہ تھی جو یورپی یونین نے ۱۹۹۳ء کے اسلو معاہدے کے بعد کیا تھا۔ جب سے مالی امداد میں کمی کی گئی ہے‘ حماس سخت مشکلات میں ہے۔ اس کے پاس حکومتی ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کو روزگار فراہم کرنے سے بھی عاجز ہے۔ امریکی دباؤ میں آ کر عرب لیگ کے رکن ممالک نے بھی مالی امداد روک لی ہے جو ایک بلین ڈالر کے قریب ہوتی تھی۔ اس صورت حال نے فلسطینی قوم کو روز افزوں معاشی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس دباؤ کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت دو اہم فلسطینی پارٹیوں میں اختلاف جنم دینے کی کوشش کرتی رہی ہی یعنی حماس اور فتح میں۔ اسرائیل کی یہ کوشش ہے کہ وہ حماس کو ایک ناکارہ حکومت ثابت کرے تاکہ اس دباؤ میں آکر وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ اس مقصد کے لیے اس نے عالمی قانون کی خلاف ورزی کے ایک اشتعال انگیز اقدام کے ذریعہ ۲۸ فلسطینی وزرا اور ارکانِ پارلیمنٹ کو گرفتار کر لیا ہے تاکہ پارلیمنٹ میں کورم ہی پورا نہ ہو سکے۔ یہ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب فتح پارٹی کے بعض عناصر بدامنی پھیلا رہے تھے اور حماس کے حامیوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہے تھے تاکہ انہیں ایک عاجلانہ اور غیرمعقول ردِعمل پر مجبور کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ حماس کا اپنے بنیادی موقف پر اصرار کہ وہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے قبل اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی‘ سبب بنا ہے کہ فلسطین کی سیکولر شخصیات حماس حکومت پر اپنے دباؤ کو بڑھائیں تاکہ اس حکومت کے خاتمے کا زینہ ہموار ہو۔ یہ وہ عوامل ہیں جو فتح اور حماس کے مابین فوجی تصادم کا سبب بنے ہیں۔ اگر فلسطینی رہنما اپنے اس نازک موقع پر اختلافات کو تعمیری قومی مذاکرات کے ذریعہ حل نہیں کرتے ہیں تو یقینا مقبوضہ علاقے جلد ہی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ اس صورت میں اس خطرناک کھیل کی اصل فاتح صیہونی حکومت ہو گی اور حقیقی شکست سے فلسطینی قوم دوچار ہو گی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’تہران ٹائمز‘‘۔ ۳ ؍اکتوبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply