
کتنی بدقسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جن پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جن کے نزدیک وفا و بے وفائی کے درمیان فرق مٹ جائے۔ جو اس قدر بزدل‘ مصلحت کوش ہو جائیں کہ قوم کی ناموس‘ عزت و حرمت‘ وقار اور حمیت کے لیے جان دینے والوں کی یاد میں ایک آنسو بھی نہ بہا سکیں۔ یہ المیہ بنگلادیش کے لیے تھا اور نہ ہی مطیع الرحمن نظامی کے لیے۔ دونوں سرخ رو۔ حکومت اس لیے سرخ رو کہ اس نے پاکستان سے اپنی نفرت کو ایک علامت کے طور پر ثابت کیا۔ مطیع الرحمن نظامی اس لیے سرخ رو کہ اس نے اس وطن کی محبت میں جان دی، جو کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور جس کے بنانے میں اس کے آباء واجداد کا لہو بھی شامل تھا۔ البتہ المیہ تھا پاکستان کے لیے‘ اس کے اٹھارہ کروڑ عوام کے لیے کہ انہیں ایک ایسی بے حس حکومت میسر آئی، جو اپنے اس جانثار کی موت پر چند آنسو بھی نہ بہا سکی۔ جو ان تمام لوگوں کو اپنا ہیرو کہتے ہوئے شرماتے ہیں۔
مطیع الرحمن نظامی کی روح جب قفس عنصری سے پرواز کر کے عالم بالا کو روانہ ہوئی ہو گی تو وہ یقیناً سوچتی ہو گی کہ اس نے یہ قربانی اس ملک کے لیے دی تھی، اس دنیا میں واحد ملک ہے جو اللہ کے نام پر قائم ہوا۔ دو سو ممالک رنگ‘ نسل‘ زبان اور علاقے کی بنیاد پر تخلیق ہوئے لیکن جس پاکستان میں انہوں نے آنکھ کھولی وہ تو اپنی پیشانی پر اللہ کے نام کی تختی سجائے ہوئے تھا۔ ایسے ملک کے حکمران اور عوام اس قدر بزدل اور کمزور کیوں ہیں۔ اس قدر بے مروت کہ وفا کرنے والوں کا احترام تو دور کی بات نام تک زبان پر لانا گوارا نہیں کرتے۔ کل ایسی قوم سے وطن کی مٹی اگر قربانی مانگے گی تو کون دے گا۔
امریکا پر برطانیہ کی حکومت تھی۔ یوں تو وہاں پر رہنے والے بھی یورپ سے ہجرت کر کے گئے تھے۔ انہوں نے ریڈانڈینز کا قتل عام کیا اور اپنا قبضہ جمایا۔ ۱۷۷۷ء میں جب امریکا دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا، آزادی چاہنے والے اور برطانوی حکومت کے وفادار دونوں جانب گورے‘ دونوں جانب باہر سے آئے ہوئے قابضین۔ لیکن جن لوگوں نے برطانیہ کے لیے قربانی دی ان کو جارج سوئم کی اہلیہ ملکہ شارلٹ کے نام سے گولڈ میڈل دیے گئے۔ جس طرح ہمیں مشرقی پاکستان میں شکست ہوئی، برطانیہ کو امریکا میں شکست ہوئی۔ لیکن آج ڈھائی سو سال گزرنے کے باوجود جنہوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا وہ اس کے ہیرو ہیں۔ ان کی تصاویر ان کے قومی عجائب گھروں میں اس لیے موجود ہیں کہ انہوں نے برطانیہ سے وفا کی اور ایک باغیرت ریاست کی حیثیت سے وہ ان کی تکریم کر رہے ہیں۔ ویتنام کی جنگ پر امریکا کو ہر طرف سے تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ خود اس کے اپنے شہری اس جنگ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ محمد علی کلے باکسنگ کا عالمی چیمپیئن تھا۔ اس نے اس جنگ کے لیے زبردستی بھرتی سے انکار کیا‘ جیل کاٹی‘ وہ ایک استعارہ بن گیا۔ لیکن آج بھی واشنگٹن شہر کے بیچوں بیچ‘ ان کی کانگریس کی عمارت کیپیٹل ہل کے سامنے ایک دیوار موجود ہے، جس پر ان ۵۹ ہزار امریکیوں کے نام کندہ ہیں جنہوں نے اس جنگ میں جان دی۔ بدنام ترین جنگ کے باوجود بھی قوم ریاست سے وفا کرنے والوں کو آج بھی ہیرو کے درجے پر رکھتی ہے۔
ویتنام کے سپاہیوں کو ہیرو جمہوری حکومتوں نے بنائے رکھا‘ کسی پینٹاگون نے زبردستی یہ دیوار نہیں بنائی اور نہ ہی ان کی آرمی کے پبلک ریلیشنز کے شعبے نے فوج کا مورال بلند کرنے کے لیے یہ یاد گار تعمیر کی۔ برصغیر پاک و ہند پہ انگریز حکمران تھا۔ تاج برطانیہ پہلی جنگ عظیم میں اپنے مخالفوں سے لڑائی میں الجھ پڑا۔ بھرتیاں شروع ہوئیں۔ برصغیر سے بھی بھرتی کیے گئے سپاہی یورپ میں جا کر لڑے۔ فرانس کے میدان جنگ میں نیو چیپل ایک مقام ہے جہاں چار ہزار سات سو بیالیس ہندوستانی سپاہی مارے گئے تھے۔
گوجر خان کا خدائے داد خان پہلا ہندوستانی تھا، جسے وکٹوریہ کراس دیا گیا۔ اس کی یاد گار بیلجیئم میں ہے۔ برطانوی دستے آج بھی ان یاد گاروں پر سلامی دیتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں۔ ہندوستانیوں نے برطانیہ کو دیس نکالا دیا‘ آزادی حاصل کی لیکن ایک غیرت مند اور باوفا قوم کی حیثیت سے وہ اپنے ساتھ وفاداری نبھانے والوں کو آج بھی یاد رکھتے ہیں۔
ہم یہ سب اس لیے نہ کر سکے کہ میرے ملک کا متعصب مؤرخ اور بددیانت تجزیہ کار بنگلادیش بننے سے پہلے بھی سچ نہیں بولتا تھا اور آج بھی نہیں بولتا۔ پہلے بھی بتاتا تھا کہ بنگلادیش کو جو مشرقی پاکستان تھا اسے مغربی پاکستان لوٹ رہا ہے۔ لیکن حقیقت سے تو وہ بے چارے بنگالی ۱۹۷۱ء کے بعد آشنا ہوئے۔ ان سے کلمہ طیبہ کے نعرے کے بجائے بنگالی قومیت کا نعرہ بلند کروایا گیا۔ پاکستان سے نفرت اور بھارت کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا۔ لیکن کوئی نہیں لکھتا کہ ان بیچارے بنگالیوں پر کیا بیتی۔ ۱۹۷۱ء کے بعد یہ اپنے ہم زبان مغربی بنگال کی جانب غربت اور افلاس کی وجہ سے ہجرت کرنے لگے۔
۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے مطابق بھارتی صوبوں بنگال اور آسام میں بنگلادیش سے ہجرت کر کے آنے والوں کی تعداد ۳۰ لاکھ ۸۴ ہزار ۸۲۶ تھی۔ ان کے خلاف اپنے ہم زبان بنگالی اٹھ کھڑے ہوئے، ۱۹۸۳ء میں نیلی کے مقام پر پانچ ہزار بنگلادیشی قتل کر دیے گئے۔ قتل کرنے والے ان کے ہم زبان اور ہم نسل بنگالی تھے لیکن فرق یہ تھا کہ بنگلادیشی کلمہ طیبہ پڑھتے تھے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کے مطابق اس وقت دو کروڑ بنگالی بنگلادیش سے بھارت معمولی نوکری کی تلاش میں آ چکے ہیں۔
۱۹۷۱ء سے قبل مظلوم مشرقی پاکستان سے ایک شخص بھی ہجرت کر کے بھارت نہیں گیا تھا۔ جو پاکستان کے معاشی تجزیہ کار آج بنگلادیش کو جنت بنا کر پیش کرتے ہیں ان کے سامنے CEDAW کی تیسری اور چوتھی رپورٹ تو ہو گی۔ اس کے مطابق کلکتہ کی تیس فیصد طوائفیں بنگلادیشی عورتیں ہیں۔ بنگلادیش سے ہر سال پندرہ ہزار عورتیں بیرون ملک بیچی جاتی ہیں۔
ایک تحقیقی ادارے ایل سگلو (ELSIGLO) نے ۱۹۹۸ء میں ایک رپورٹ میں بتایا کہ اب تک ۲۷ ہزار بنگلادیشی عورتیں کلکتہ کے قحبہ خانوں کی زینت بنائی جا چکی ہیں۔
انٹرپریس (Interpress) کے سروے کے مطابق اس سال یعنی ۱۹۹۸ء میں دو لاکھ بنگلادیشی عورتیں دنیا بھر میں بیچی گئیں۔ رائٹر نے ۱۹۹۷ء میں خوفناک حقائق بتائے کہ روزانہ دو سو بنگلادیشی عورتوں کو ان کی مائیں غربت سے تنگ آکر صرف دس ہزار ٹکوں میں فروخت کر دیتی ہیں، جن کی اکثریت کی عمریں ۱۳ سے سولہ سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ BNWLA کے سروے کے مطابق دنیا میں دس لاکھ افراد ایسے ہیں جنہوں نے ایک یا ایک سے زیادہ بنگلادیشی عورتوں کو خریدا ہے۔
کیا ایسا سب کچھ ۱۹۷۱ء سے پہلے تھا۔ آج کا بنگلادیشی یہ جان چکا ہے کہ اسے کس طرح قومیت کے نام پر دھوکا دیا گیا۔ بنگلادیش کی بھارت کے ساتھ سرحد ایک خونی سرحد بن چکی ہے جہاں سے بنگالی خاردار تار عبور کریں تو بھارتی فوجی انھیں گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔ عبدالقادر ملا اور مطیع الرحمن نظامی کے جنازے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ ان دھوکے باز مورخوں اور بددیانت تجزیہ نگاروں کے جھوٹ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ میجر شریف الحق دالیم جو مکتی بانی کا کمانڈر تھا اور حقیقت کھلنے پر شیخ مجیب الرحمن کے قاتلوں میں شامل تھا‘ اس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جنرل جگجیت سنگھ نے اس سے کہا کہ بنگلادیش بنانا اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ یہ بنگالی دھنیو مرچ (ایک بہت کڑوی مرچ) ہیں۔
ان میں فرقہ بندی نہیں۔ یہ اٹھ کھڑے ہوئے تو بھارت بھگتے گا۔ اسی خوف سے ڈرا ہوا بھارت حسینہ واجد سے ۴۵ سال پرانے مقدمے کھلوا کر پھانسیاں دلوا رہا ہے۔ لیکن نہ میرے ملک کا ادیب بولے گا اور نہ میڈیا۔ نواز شریف مطیع الرحمن کا نام زبان پر کیوں لائیں اس زبان پر تو نریندر مودی کی شیرینی لگی ہوئی ہے۔ سب خاموش اور گنگ ہیں۔ المیے کا دن تو پاکستان کے لیے تھا۔ ۱۸ کروڑ عوام کے لیے تھا۔ ان سب کے لیے جو یہ آرزو رکھتے ہیں کہ وہ اس ملک کے پرچم اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج کا ساتھ دیں گے۔ میرا میڈیا تو روز ان کو کہتا ہے کہ بنگلادیش والے حالات بننے والے ہیں تو پھر وہ بگٹی‘ مری یا مینگل کیوں پاکستان یا اس کی فوج کا ساتھ دے گا۔
اس نے دیکھا نہیں ہم سب نے مل کر مطیع الرحمن کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ لیکن وہ جو اس ملک کے ساتھ وفا کا دیا جلاتے ہیں وہ اس لیے نہیں جلاتے کہ انہیں یہاں کی حکومت سے محبت ہے یا فوج سے۔ ان کا معاملہ ہی اور ہے، وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ ملک اللہ کے نام پر بنا ہے اور اس کے لیے جان دینا اللہ کے ہاں مقبول اور محبوب ہونا ہے۔ برطانوی فوج اگر خدائے داد کی قبر پر سلامی دیتی ہے تو اس سے فوج کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مطیع الرحمن کی قبر پر غائبانہ سلامی دینے یا فی الوقت غائبانہ سلامی دینے سے شہید کی عزت میں نہیں بلکہ پاکستان کی فوج کی عزت میں اضافہ ہو گا۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘۔ ۱۲؍مئی ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply