خودکش حملوں کے لیے خواتین کی آمادگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ خواتین کی جانب سے خودکش حملوں کا آغاز سب سے پہلے شام کی سوشلسٹ پارٹی SSNP/PPS نے لبنان میں ۱۹۸۵ء میں کیا۔ اب یہ تنظیم باقی نہیں رہی۔ لیکن اسی وقت کی دوسری تنظیموں نے خودکش حملوں کے لیے خواتین کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ عبداﷲ اوکلان نے ۱۹۸۷ء میں خودکش مشن کا آغاز کیا۔ انہوں نے اس کام کے لیے خواتین کو بھی تربیت دینا شروع کر دی تاکہ وہ مردوں کے ساتھ ساتھ خودکش حملوں میں حصہ لے سکیں۔ پی کے کے واحد تنظیم تھی جس نے اس نظام میں عورتوں کو گھر میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی اور کام سپرد کیا ہو‘ بہرحال اس تنظیم کا وجود بھی اب باقی نہیں رہا۔
ایل ٹی ٹی ای سری لنکا
تامل ایلم کی لبریشن آرمی میں ۱۸۰۰۰ تربیت یافتہ فوجی ہیں‘ جن میں نصف تعداد عورتوں کی ہے۔ یہ گروہ نوجوانوں کو اپنی فوج میں شامل کرتا ہے اور خودکش حملوں کے لیے نوعمر اشخاص کا انتخاب کرتا ہے مثلاً دس سال کی عمر کے نوجوانوں کو۔ تمل ٹائیگرز کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے ۱۹۸۰ء سے اب تک ۷۵ خودکش حملے کیے ہیں۔ ٹائیگر کے بانی ویلو پلّائی پربھا کرن ہیں جو ٹائیگر سے وابستہ ہر شخص کو اس کا مشن سپرد کرتے ہیں۔ یہ تنظیم اپنی ابتدا سے ہی خواتین جنگجوئوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد اپنے اندر رکھتی ہے۔ خواتین کا ایک خصوصی یونٹ ہے جس کا نام پرندگانِ آزادی (Birds of Freedom) ہے۔ پی کے کے کی طرح یہاں بھی خواتین کو جنگجوئی کی تربیت دی جاتی ہے‘ بالخصوص خودکش حملوں کے لیے کیونکہ خواتین دیکھنے میں معصوم نظر آتی ہیں۔ ایل ٹی ٹی ای کے ایک سابق رکن سے جو اس وقت روپوشی کی حالت میں ہے‘ جب فلسفی بہ نارڈ لیوس نے انٹرویو لیا تو یہ انکشاف ہوا کہ خواتین کو یہ بھی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ہینڈ گرینڈ کو اپنی شرمگاہ کے اندر کس طرح چھپائیں۔ سب سے مشہور خودکش حملہ ۲۰ مئی ۱۹۹۱ء کو دھانو نام کی ایک لڑکی نے کیا‘ جس کے نتیجے میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی قتل ہو گئے۔ یہ خودکش حملہ پھول کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔
فتح تنظیم فلسطین
الفتح تنظیم پی ایل او کا عسکری بازو ہے۔ اطلاعات جمع کرنے کی خاطر یہ تنظیم ۷۰ کی دہائی سے ہی خواتین کو استعمال کرتی رہی ہے۔ لیکن خودکش حملوں کے لیے اس نے خواتین کا استعمال ۲۰۰۲ء سے شروع کیا۔ فلسطینی خواتین میں خودکش حملے کا آغاز ایک ۲۸ سالہ لڑکی وفا ادریس نے کیا جو ایک ہسپتال میں نرس تھی۔ اس کے بعد کئی خواتین نے اس کی تقلید کی۔ شروع میں حماس کے رہنما شیخ احمد یٰسین (شہید) نے عورتوں کے ذریعہ خودکش حملوں کی مذمت کی۔ جنوری ۲۰۰۴ء میں ایم رائسی نامی ۲۲ سالہ خاتون جو دو بچوں کی ماں بھی تھی‘ حماس کی جانب سے پہلا زنانہ خودکش حملہ انجام دیا۔ حالیہ رپورٹوں کے مطابق شہداے الاقصیٰ بریگیڈز نے بھی خواتین کو خودکش حملے کی تربیت دینے میں کردار ادا کیا ہے۔ اس گروہ نے ۸۰ کی دہائی کے اواخر میں غاصب اسرائیلی فوج کے خلاف جنگ کا آغاز کیا‘ اسے انتفاضہ کے حامیوں کی سرگرم حمایت حاصل ہے۔
حزب اﷲ لبنان
اس تنظیم نے بھی اسرائیلی فوج کے خلاف ایک خاتون کو خودکش حملے کے لیے استعمال کیا جبکہ اسرائیلی فوجی جنوبی لبنان پر قبضہ جمائے ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ اسرائیل بالآخر ۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان خالی کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اس طرح مزید واقعات سے متعلق کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔
سیاہ بیوائیں۔ چیچنیا
ابھی حال ہی میں غیرمتوقع طور پر خودکش حملوں کا ایک نیا گروہ سامنے آیا ہے‘ جس کا نام Black Widows ہے۔ یہ ان بیوہ خواتین پر مشتمل ہے‘ جن کے شوہر روس کے ساتھ علیحدگی پسندی کی جنگ لڑتے ہوئے کام آگئے۔ اس گروہ میں وہ مائیں بھی شامل ہیں جو روس کے خلاف لڑائی میں اپنے بیٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں ہیں۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں ۵۰ جنگجوئوں نے ماسکو میں ایک سنیما ہال کا محاصرہ کر لیا تھا‘ جن میں ۱۸ خواتین تھیں۔ جب محاصرہ کاروں اور حکام میں معاہدہ طے پاگیا تو معلوم ہوا کہ بعض خواتین (جو سب کی سب مقابلہ میں ماری گئیں) نے اپنے جسموں سے بارودی بیلٹ باندھ رکھا تھا۔ سب سے تازہ واقعہ ۱۹ سالہ حوّا برایود کا ہے۔ یہ ایک مسلم خاتون تھی جو روس کی ایک فوجی عمارت میں بارود سے بھرا ایک ٹرک تیز رفتاری سے ہانکتے ہوئے جاگھسی۔ اس کے بعد مئی‘ جون‘ جولائی اور دسمبر ۲۰۰۳ء میں خواتین کی جانب سے خودکش حملوں کے کئی واقعات پیش آئے۔
عراق
عراق میں جنگ کے ردِعمل میں ۴ اپریل ۲۰۰۳ء کو دو خواتین نے اتحادی افواج کے خلاف کاربم دھماکے کیے۔ ایک پہلے سے ریکارڈ کیے ہوئے ویڈیو ٹیپ میں‘ جسے الجزیرہ نے نشر کیا‘ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ صدام حسین کی حامی ہیں۔ کیا چیز نوجوان مردوں عورتوں کو ترکِ زندگی پر مجبور کرتی ہے؟ یہ وجوہات مقام‘ ثقافت اور نظریہ یا سیاسی وابستگی کے حساب سے الگ الگ اور مختلف ہیں۔ ایل ٹی ٹی ای کے کیس میں اس کی وجہ قوم پرستانہ جذبہ ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پربھاکرن کا اپنی تنظیم میں اثر و رسوخ تقریباً خدا کی طرح جس کے حکم پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا ہے۔ پی کے کے نے عورتوں کو گھریلو کام کاج ایک متبادل اس طرح فراہم کیا کہ وہ بھی اپنے شوہروں کی مانند علیحدگی کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کر سکتی ہیں۔ Black Vidows اپنے شوہروں‘ باپوں‘ بیٹوں اور بھائیوں کی جدائی کا انتقام لینے کی خاطر اس کام پر آمادہ ہو گئیں کیونکہ ان کے یہ پیارے روس کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے۔ بہت ساری خواتین یہ محسوس کرتی ہیں کہ خودکش حملے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھوتی ہیں بلکہ وہ اپنے اور اپنی قوم کے دشمنوں سے ٹھیک ٹھیک انتقام لے لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں تک اسلامی بنیاد پرستوں کا معاملہ ہے‘ تو عورتیں مرتبۂ شہادت کے حصول کی خاطر یہ اقدام کرتی ہیں جو خدا کی نظر میں بہت ہی محبوب مقام ہے اور جسے فطری یا عام موت مر کر حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس دعوے کی دلیل میں ایک نکتہ یہ ہے کہ صدام حسین نے اپنی معزولی سے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ وہ وفا ادریس کی ایک یادگار تعمیر کرائے گا جو کہ فلسطینی کاز کی خاطر پہلی خودکش حملہ آور تھی۔ لہٰذا خودکش حملہ ایک طرح سے توانائیٔ نسواں (Women’s Empowerment) کی ایک شکل بھی ہے۔
(بشکریہ: ماہانہ ’’نیوز لائن‘‘۔ کراچی۔ اگست ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply