
مستقبل کی فلسطینی ریاست کی کوئی باضابطہ سرحد نہیں ہوگی اور یہ چاروں طرف سے اسرائیلی علاقوں سے گھرا ہوا ایک ایسا علاقہ ہوگا، جس کی خود مختاری برائے نام ہوگی۔
اس وقت اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کو غیر معمولی جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل کا جانی نقصان برائے نام بھی نہیں۔ مگر اس سے ہٹ کر ذرا یہ سوچیے کہ یہ پورا معاملہ ہے کیا۔ اسرائیل جو کچھ بھی کر رہا ہے، وہ صرف اس لیے ہے کہ زیادہ سے زیادہ زمین حاصل کی جائے۔ اس وقت غزہ کی پٹی میں پندرہ لاکھ سے زائد فلسطینی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ کیا ان کے والدین اُن علاقوں کے باشندے نہیں تھے جہاں اِس وقت اسرائیل آباد ہے؟ یعنی اُن لوگوں کو ان کے اپنے آبائی علاقوں سے نکال دیا گیا۔
اس وقت اسرائیلی علاقے سیدوت میں یہودی رہتے ہیں مگر ۱۹۴۸ء میں تو ایسا نہیں تھا۔ تب وہاں صرف فلسطینی آباد تھے مگر انہیں بے دخل کردیا گیا۔ اس وقت بیشتر عرب جس قصبے میں رہائش پذیر تھے، اس کا نام حج تھا اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ۱۹۴۶ء میں انہی عربوں (مسلمانوں) نے برطانوی فوج کے خلاف لڑنے والے یہودی انتہا پسندوں (ہگانہ عسکریت پسندوں) کو پناہ دی تھی۔ اسرائیلی فوج نے ۳۱ مئی ۱۹۴۸ء کو جب حج پر حملہ کیا تو تمام فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی بھیج دیا۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بین گوریان نے اس اقدام کو ناانصافی پر مبنی اور بلاجواز قرار دیا تھا۔ اور اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہوئی کہ حج سے نکالے جانے والے فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں دوبارہ آباد ہونے کی کبھی اجازت نہیں دی گئی۔
اس وقت حج کے باشندوں کی چھ ہزار سے زائد اولادیں غزہ کی پٹی میں آباد ہیں۔ ان کے خلاف اسرائیلی فوج کارروائی کر رہی ہے۔ الزام یہ ہے کہ غزہ سے سیدوت پر راکٹ داغے جارہے ہیں۔
اسرائیل آئے دن اپنے دفاع کا حق ہونے کا راگ الاپتا رہتا ہے۔ ٹھیک ہے۔ اب ذرا سوچیے کہ اگر لندن پر حملہ کردیا جائے اور یہاں کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی بھرپور کوشش کی جائے، انہیں ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جائے تو کیا مزاحمت نہیں کی جائے گی؟ کیا لندن کے لوگوں کو مزاحمت کا حق نہیں ہوگا؟ اور اگر وہ مزاحمت کریں تو کیا اُنہیں دہشت گرد قرار دیا جائے گا؟ برطانیہ کو کبھی ایسی کسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ برطانیہ کے دس لاکھ سے زائد باشندے محض چند مربع کلو میٹر پر محیط پناہ گزین کیمپوں میں نہیں پڑے ہیں۔
اسرائیل نے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے ۲۰۰۸ء میں بھی ۱۱۰۰ سے زائد فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اگر ڈبلن پر حملہ ہوا ہوتا تو اسرائیلی سفیر کیا کہتا؟ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں شمالی آئرلینڈ کے قصبے کراسمیگلین پر آئرش ری پبلک نے بھرپور حملے کیے مگر آئرش ری پبلکن آرمی نے جواب میں آئرش ری پبلک کو نشانہ نہیں بنایا، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا۔ کینیڈا میں ۲۰۰۸ء میں اسرائیل کے حامیوں نے ایک احمقانہ نکتہ اٹھاکر اسرائیل کے حق دفاع کو درست قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اوٹاوا، ٹورنٹو یا مانٹریال پر نواحی علاقوں سے حملے ہوں تو کیا جواب ہوگا؟ اس بات پر بھی تو غور کیجیے کہ ان شہروں سے ان کے اصل باشندوں کو دھکیل کر پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔
اب ذرا دریائے اردن کا مغربی کنارہ عبور کیجیے۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے پہلے یہ کہا کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے اس لیے بات نہیں کریں گے کہ وہ حماس کے نمائندے نہیں۔ پھر یہ کہا کہ محمود عباس سے اس لیے بات نہیں کریں گے کہ انہوں نے حماس کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ وہ محمود عباس سے بات کرنے کو تیار ہیں، اگر وہ (محمود عباس) حماس کو غیر موثر یا ختم کرنے کا بیڑا اُٹھائیں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ تب بھی وہ حماس کی نمائندگی نہیں کر رہے ہوں گے۔
اسرائیل کے ۹۰ سالہ بائیں بازو کے پروفیسر یوری ایونیری نے (جو خدا کے فضل سے خاصے توانا اور پُرجوش ہیں) اسرائیلی حکومت کی طرف سے الاپے جانے والے خلافت کے راگ کا معاملہ اٹھایا ہے۔ اسرائیلی حکومت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس) عراق اور شام میں خلافت قائم کرنے کے بعد دریائے اردن کے مشرقی کنارے پر بھی خلافت کے قیام کی کوشش کرے گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اگر آئی ایس آئی ایس کو روکا نہ گیا تو وہ خلافت قائم کرتے ہوئے آگے بڑھے گی اور تل ابیب کے دروازے پر بھی دستک دے رہی ہوگی۔ یوری ایونیری کہتے ہیں کہ یہ خدشہ یکسر بے بنیاد ہے۔ اگر آئی ایس آئی ایس نے کبھی دریائے اردن عبور کرنے کی کوشش کی تو اسرائیلی فضائیہ اسے تباہ کردے گی۔
اگر اسرائیل نے مستقبل میں اپنے دفاع کو موثر بنانے کی غرض سے افواج اردن میں رکھنے کی کوشش کی تو مستقبل کی فلسطینی ریاست چاروں طرف سے اسرائیل سے گھری ہوئی ہوگی جس کی اپنی کوئی سرحد نہ ہوگی۔ یوری ایونیری کہتے ہیں کہ اسرائیل کبھی کسی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی ایس اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں؟ یوری ایونیری کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ایس کسی بھی اعتبار سے حماس جیسی ہے نہ اسرائیل کے لیے خطرہ ہے۔ اس وقت شام میں حزب اللہ اور آئی ایس آئی ایس کے درمیان لڑائی چل رہی ہے۔ یہ شیعہ سنی معاملہ ہے۔ ایسے میں اسرائیل کو آئی ایس آئی ایس سے کیوں کر خطرہ محسوس ہوسکتا ہے؟ دوسری طرف بوکو حرام وہ تنظیم ہے جو نائجیریا کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرتی ہے۔ اس سے اسرائیل کو کوئی بھی خطرہ کیوں کر لاحق ہوسکتا ہے؟ اسرائیلی وزیراعظم کے ترجمان مارک ریگیو نے ’’الجزیرہ‘‘ سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ حماس ویسی ہی عسکریت پسند تنظیم ہے جیسی آئی ایس آئی ایس ہے، حزب اللہ ہے یا بوکو حرام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس اور ان تینوں تنظیموں میں بہت فرق ہے۔ بوکو حرام اسرائیل کے لیے کسی بھی اعتبار سے خطرہ نہیں کیونکہ وہ اس کی حدود سے ہزاروں کلو میٹر دور کام کر رہی ہے۔
آپ بات سمجھے یا نہیں سمجھے۔ سیدوت کے چھ ہزار عربوں کو بھول جایے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے ترجمان نے ان کا ناطہ بغداد کے نوری المالکی، دمشق کے بشارالاسد اور ابوجا کے جوناتھن گڈلک کے خلاف لڑنے والوں سے جوڑ دیا ہے اور اگر دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آئی ایس آئی ایس کے حملے کا خطرہ ہے تو اسرائیلی حکومت اب بھی وہاں اسرائیلی شہریوں کے لیے بستیاں کیوں قائم کر رہی ہے؟
یہ سارا ڈرامہ نہ تو فلسطینیوں کے ہاتھوں تین اسرائیلیوں کے قتل کا ہے، نہ مقبوضہ بیت المقدس میں چار فلسطینیوں کے قتل کا ہے۔ راکٹ اور میزائل سب بھول جائیے۔ یہ معاملہ، ہمیشہ کی طرح، صرف زمین کا ہے۔
“The true Gaza back-story that the Israelis aren’t telling this week”.
(“The Independent” UK. July 9, 2014)
Noah Browning
Leave a Reply