
دنیا کے کسی خطے نے امریکا کی موجودہ انتظامیہ کو اتنا چکرایا اور امریکی وسائل کو اتنا تھکایا نہیں ہوگا، جتنا مشرق وسطیٰ نے چکرایا اور تھکایا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے مسائل اپنی جگہ مگر ٹرمپ انتظامیہ اس خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے تھوڑی سی وضاحت کے ساتھ کام کرسکتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے پیش روؤں کے اغلاط کے اعادے سے اجتناب برتتے ہوئے خطے میں اپنا کردار عمدگی سے ادا کرنے کی کوشش بھی کرسکتی ہے۔
چند عشروں کے دوران مشرق وسطیٰ میں امریکا نے سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے ہیں اور ہزاروں امریکی فوجی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ سب ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ عراق جنگ چھیڑنے کا سب سے بڑا سبب جمہوری نظام پر اندھا اعتماد تھا۔ ایسا کرتے ہوئے عراق کے پیچیدہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی حقائق کو نظر انداز کردیا گیا۔ امریکی پالیسی ساز بالخصوص اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہے کہ عراق جدید دنیا سے دور ایک ایسا قبائلی معاشرہ ہے، جو اجتماعیت کے تصور پر آج بھی یقین نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس پالیسی کی ناکامی کی امریکیوں، مسلمانوں اور وہاں رہنے والے مسیحیوں کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔
صدر اوباما نے اگلے قدموں پر آنے کی بجائے ’’پیچھے رہتے ہوئے قیادت‘‘ کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کا نتیجہ لیبیا اور یمن کی تباہی کے سوا کیا نکلنا تھا؟ لیبیا انتہاپسند گروہوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اب وہاں داعش بھی پاؤں جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ شام کے حوالے سے امریکی پالیسی بے ربط اور غیر منظم رہی ہے۔ وہاں ہونے والی گروہی اور مسلکی جنگ نے خطے کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرتے ہوئے عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرناک تلوار میں تبدیل کردیا ہے۔ شام کی خانہ جنگی نے دہشت گردوں کی نئی نسل کو پروان چڑھنے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کردیا ہے۔ گزشتہ عشرے کے دوران افغان جہاد نے بھی یہی کام کیا تھا۔ شام کی خانہ جنگی کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے خطے کے متحارب ممالک اپنے اپنے مسلک سے وابستہ دستوں کے ذریعے ڈھکی چھپی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اب صورت حال اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ امریکا محض چھڑ ی گھماتے ہوئے شام کی خانہ جنگی بندکرانے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہی وہ یمن، عراق یا لیبیا میں استحکام لاسکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ تبدیلی لائے گی تاکہ خطے میں امریکی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ مل سکے۔ اس سلسلے میں پہلی کوشش کے طور پر مشرق وسطٰی کے تیل پر انحصار کم کرنے کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایران اور خلیج کی عرب ریاستیں بڑی طاقتیں نہیں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کے گرے ہوئے نرخوں نے انہیں ہلاکر رکھ دیا ہے۔ مگر خیر ایک بات تو طے ہے کہ ابھی کئی عشروں تک وہ توانائی کے ذرائع کے مرکز کی حیثیت سے محروم نہ ہوں گی۔ اگر مشرق وسطیٰ میں تیل نہ ہو تو اس کا دیگر خطوں اور واشنگٹن ڈی سی میں اثر ختم ہوجائے گا۔ یہ تیل کی دولت ہی تھی جس نے اس خطے میں انتہا پسند گروپوں کو جنم دیا اور پھر یہ گروپ عالمی امن کے لیے خطرہ بنے۔
سفارت کاری کی بھی ایک حیثیت ہے لیکن بعض اوقات سفارت کاری اپنے مفادات اور اقدا ر کا کھل کر اعلان کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ اکتوبر میں گیٹیس برگ میں ان مفادات کا کھل کر اعلان کیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا پہلے ۱۰۰ دن کے ایجنڈے کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ وہ داخلی اور خارجی سطح پر کن مفادات کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی سازی کریں گے۔ اُن کا منصوبہ معاشی پھیلاؤ کو یقینی بنانا، امریکا کے توانائی کے وسائل کو استعمال کرنا، جیسا کہ ساحلی چٹانوں سے تیل، گیس اور کوئلے کی پیداوار کا حصول، اور کچھ اہم پائپ لائنز تعمیر کرنا ہے۔
بہت ہی کم امریکیوں کو اندازہ ہوگا کہ امریکا اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات اور اس خطے کے تیل پر بڑھتے ہوئے انحصار نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو غیر معمولی نقصان سے دوچار کیا۔ امریکا اور یورپ نے مشرق وسطٰی کے تیل پر انحصار بڑھایا تو وہاں انتہا پسند گروپوں کو فروغ حاصل ہوا۔ امریکی پالیسیوں ہی نے ایران کے جوہری پروگرام، حزب اللہ، القاعدہ، داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کو جنم دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ توانائی کو سلامتی یقینی بنانے کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی نے دنیا کو تباہی کی طرف دھکیلا۔
’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے ایرک لپٹن نے اُس فنڈنگ کے دستاویزی ثبوت تیار کیے ہیں، جو واشنگٹن کے تھنک ٹینکس کو ۲۰۱۴ء میں خلیجی ریاستوں کی طرف سے ملے۔ ہوسکتاہے کہ عام امریکی خارجہ پالیسی کے ان مضمرات کو نہ سمجھتا ہو، لیکن ایسا لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو ان کا بخوبی ادراک ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ خلیجی ممالک کے ان لابنگ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتی نظر آتی ہے۔ توانائی کے محفوظ ذرائع اور مقامی طور پر ان سے ہونے والی آمدنی ماہرین کو خلیجی ممالک اور ان کے اتحادیوں کی بجائے امریکی توانائی کے مفادات کے بارے میں خارجہ پالیسی ترتیب دینے میں مدد دے گی۔
امریکا اگر توانائی کے معاملے میں اپنے وسائل پر انحصار کرے تو دنیا کو زیادہ محفوظ بنانے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ توانائی کے معاملے میں وہ اجنبی اقدار والے ممالک سے تعلقات استوار کرنے پر مجبور ہو تو خرابیاں زیادہ پیدا ہوں گی۔ چند برسوں کے دوران امریکیوں کو مشرق وسطٰی کی بہت سی پیچیدگیوں کا علم ہوا ہے۔ مشرق وسطٰی کے ممالک میں آباد عیسائی بھی اب محفوظ علاقے تلاش کر رہے ہیں۔ سنی مسلمانوں کی طرح ان لوگوں کو بھی وحشی انتہا پسندوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ امریکی کانگریس اور وزیر خارجہ جان کیری نے سال نو کے آغاز پر کہا کہ عراق اور شام کے لوگوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ انہیں بچایا بھی جاسکتا ہے، جو کہ امریکی پالیسیوں کا بنیادی نکتہ ہے اور اسی کے لیے امریکی فوجیوں کا خون بہہ بھی رہا ہے۔ اور یہی امریکا اور عراق کے مفاد میں ہے۔ ٹرمپ کا ایجنڈا صرف امریکا کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو یکجا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ایک نیا عمرانی معاہدہ ہوگا۔ امریکا کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کو واضح کرے اور پالیسی سازی کے عمل میں متعدد ریاستوں کے غیر ضروری دباؤ کو ختم کرے۔ جو ممالک امریکا سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں انہیں واضح پیغام دیا جائے کہ امریکا نے ان سے آنکھیں پھیر نہیں رکھیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Case for Trump’s Middle East Strategy”. (“nationalinterest.org”. January 2, 2017)
Leave a Reply