
تیونس کے انقلاب کا آغاز کیسے ہوا، یہ سب کے علم میں ہے۔۱۷ دسمبر ۲۰۱۰ء کو تیونس کے قصبے سیدی بوزید سے تعلق رکھنے والے پھل فروش’’محمدبو عزیزی‘‘ نے مقامی حکومتی دفتر کے سامنے خود کو آگ لگا لی۔پولیس اور مقامی انتظامیہ کی مستقل بدسلوکی کی وجہ سے اس شخص نے خود سوزی کی تو حکومت مخالف مظاہرے تیزی سے پورے ملک میں پھیل گئے۔کچھ ہی ہفتوں میں صدر زین العابدین ملک سے فرار ہو گئے، جو کہ گزشتہ۲۳ برسوں سے اقتدار میں تھے۔ان کے فرار نے تیونس کو ایک نئے آغاز کا موقع فراہم کر دیا۔بہت جلد بغاوتوں کی لہر نے پڑوسی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، یہ لہر شام سے خلیج فارس تک پہنچی۔
جو بات کم لوگوں کے علم میں ہے وہ یہ کہ تیونس میں اس انقلاب کے بعد کیا ہوا۔اگرچہ ’’عرب بہار‘‘کا آغاز تیونس سے ہوا تھا،لیکن یہاں آنے والی تبدیلیاں زیادہ عرصے تک لوگوں کی نظروں میں نہ رہ سکیں۔کیونکہ عرب بہار کی زَد میں آنے والے وہ ممالک زیادہ نمایاں ہو گئے، جن کی آبادی زیادہ تھی یاجن کے امریکا سے قریبی تعلقات تھے اور جہاں کے حکمران ظلم و جبر میں بھی آگے تھے۔تاہم تقریباً ایک دہائی کے عرصے میں تیونس واحد ملک ہے، جو عرب بہار کے مثبت ثمرات سمیٹ رہا ہے۔عرب دنیا کے وہ تمام ممالک جو عرب بہار کے حوالے سے تیونس کے نقش قدم پر چلے تھے، تقریباً سب ہی خانہ جنگی کا شکار ہو گئے،جیسا کہ لیبیا،شام اور یمن۔باقی بحرین،شام اور مصر دوبارہ آمریت کی طرف لوٹ گئے۔ اس کے برعکس تیونس نے ایک متوازن آئین تیار کیا، اس کے ساتھ ساتھ صدارتی، پارلیمانی اور مقامی سطح پر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات بھی کروائے گئے۔ جولائی ۲۰۱۹ء میں صدر باجی قائد السبسی کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے بعد نگراں حکومت کا قیام بغیر کسی رکاوٹ کے عمل میں لایا گیا۔کچھ مسائل ابھی تک موجود ہیں جو کہ ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، جیسا کہ معاشی بدانتظامی اور سرکاری اداروں پر عوامی اعتماد کی کمی۔لیکن ان مسا ئل کے باوجود تیونس پورے خطے میں امید کی ایک کرن ثابت ہوا ہے۔ ان کامیابیوں کے حصول کے دوران تیونس نے اس افسانوی نقطۂ نظر کو بھی مسترد کرنے میں مدد دی کہ عرب معاشرہ اور اسلام جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ لیکن تیونس نے نہ صرف عرب دنیا کو بلکہ بقیہ ممالک کو بھی پیغام دیا ہے کہ آمریت سے جمہوریت تک کے سفر کے لیے ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہوتی ہے، جو ملکی مفاد کو سیاسی مفادات پر ترجیح دیتے ہوں۔ عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ جمہوریت کی جانب قدم اٹھانے والے ممالک کی نہ صرف سفارتی حمایت کرے بلکہ انھیں مالی امداد بھی دے تاکہ وہ اس راستے میں حائل رکاوٹوں کو آسانی سے برداشت کرسکیں۔
انقلاب کے آفٹر شاکس:
انقلاب کے بعد تیونس ناگفتہ بہ حالت میں تھا۔بن علی کی حکومت بدعنوانی میں اپنا نام رکھتی تھی۔بن علی نے حکومتی وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر اپنی بیوی’’لیلی تربلیسی‘‘کے اکاؤنٹ بھر دیے۔حکومت نے اپنی توجہ چند ساحلی علاقوں پر مر کوز رکھی،ملک کے جنوبی اور داخلی حصوں کو یکسر نظر اندازکیے رکھا اور پھر ان ہی علاقوں سے بغاوت ہوئی۔بن علی کے لیے سیاسی مسابقت نہ ہونے کے برابر تھی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں پر یا تو پابندیاں تھیں یا پھر انھیں مخصوص دائرے میں کام کرنے کی اجازت تھی اور جو بھی حکومت کے خلاف کوئی بات کرتا، اسے تشدد کا نشانہ بنا کر پابند سلاسل کر دیا جاتا تھا۔
جس طرح کے حالات میں بن علی ملک سے فرار ہوئے، ان کے جانے کے بعد ملک کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔عوامی زندگی میں مذہب کے کردار پر بحث زور وشور سے جاری تھی۔ایک ایسے ملک میں جہاں کی ۹۹ فیصد آبادی سُنّی ہے،وہاں بن علی اس بات پر بہت غرور کیا کرتے تھے کہ ان کا ملک سیکولر ہے اور خواتین کو ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں۔ ۸۰ ء کی دہائی میں ایک معروف اسلامی تحریک نے سر اٹھایا تو بن علی نے فوراً ہی اس تنظیم پر پابندی لگا کر اس کے راہنماؤں اور ہزاروں کارکنان کو جیلوں میں بند کر دیا اور بہت سے راہنماؤں کو جلا وطن کر دیا۔لیکن جب ۲۰۱۱ء میں تیونس کے عوام نے پہلی قانون ساز اسمبلی کی تشکیل کے لیے ووٹ ڈالے تووہی تحریک یعنی ’’النہضہ‘‘سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت تھی۔النہضہ کے حکومت میں آنے کی وجہ سے تبدیلی کے رخ پرایک نئی بحث چھڑ گئی۔ اس بحث کا سب سے اہم موضوع سماجی اور سیاسی زندگی میں خواتین کا کردار تھا۔النہضہ کے نزدیک خواتین مردوں کے لیے ’’باعث سکون‘‘ ہیں، جب کہ سیکولر لابی خواتین کے لیے آئین میں اس طرح کی اصلاحات کے استعمال کو صنفی امتیاز سمجھتی تھیں۔ ناقدین بالآخر غالب آگئے۔ لیکن آئین سازی کے اس عمل نے تیونس کے معاشرے میں موجود تقسیم کو عیاں کر دیا۔
۲۰۱۱ء کے انتخابات میں النہضہ کی کامیابی نے اُسے دو نسبتاً چھوٹی سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی اجازت دے دی۔جس سے عرب بہار کے بعد ملک میں ہونے والی افراتفری میں بظاہرخاصی کمی آگئی۔لیکن حقیقت میں صورت حال عدم استحکام کا ہی شکار تھی۔سیکولر جماعتیں النہضہ کے برسراقتدار آنے سے اتنا ہی خوف کا شکار تھیں جتنا کہ ان کو آمریت کے لوٹ آنے کا خوف تھا۔ ۲۰۱۳ء میں النہضہ حکومت سے لاحق خوف کی فضا نے ملک کو بحران کی جانب دھکیل دیا۔ اسی سال فروری کے مہینے میں اسلامی انتہا پسندوں نے حزب اختلاف کے معروف رہنما Chokri Belaidکو قتل کردیا۔ اس قتل سے احتجاج کی لہر چل پڑی اور لوگوں نے حکومت کو انتہا پسندوں کی پشت پناہی کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ تیونس کی جنرل لیبر یونین نے ۱۹۸۷ء کے بعد پہلی مرتبہ ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ جس سے پورا ملک کئی دن متا ثر رہا۔ چند ماہ بعد بائیں بازو کے ایک اور رہنما محمد براھیمی کو قتل کیا گیا تو ملک مظاہروں کی لپیٹ میں آگیا،اور مظاہرین دستور ساز اسمبلی کے تحلیل ہونے کا مطالبہ کرنے لگے۔
۲۰۱۳ء کے یہ ہنگامے باآسانی ملک کو تبدیلی کے اس راستے سے ہٹا سکتے تھے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ملک کی چار بڑی غیر سرکاری تنظیمیں،جن میں بار ایسوسی ایشن،سول سوسائٹی کی تنظیم اور انسانی حقوق کی سب سے بڑی تنظیم اور لیبر یونین آپس میں مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے۔اگرچہ یہ قومی مذاکراتی کمیٹی میں شامل لوگ ایک دوسرے سے بالکل مختلف نقطہ نظر کے حامل تھے لیکن اس کے باوجود وہ مستقبل کے لائحہ عمل پر متفق ہو گئے۔ انھوں نے نئے انتخابی قوانین، نئے وزیراعظم اور کابینہ کا مطالبہ رکھا اور آئین کو تسلیم کرنے پر رضامند ہوگئے۔ اس کے بعد اسی کمیٹی نے بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات کا آغاز کروایا۔ مذاکرات کے ذریعے النہضہ حکومت چھوڑنے پر رضامند ہو گئی اور نئی ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ حکومت نے ملک سنبھال لیا۔ اس مذاکراتی کمیٹی نے آئین سازی میں اختلافات کو بھی ختم کروایا، جس کے نتیجے میں جنوری ۲۰۱۴ء میں تقریباً متفقہ طور پر نئے آئین کے متن کو منظور کر لیا گیا۔
ایسا آخری مرتبہ نہیں ہوا کہ اتحادیوں نے مل کر انقلاب کے بعد کی غیر یقینی صورتحال کو ٹھیک کرنے کی کامیاب کو شش کی ہو۔ ۲۰۱۴ء کے آخر میں ملک میں پہلی مرتبہ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ اگرچہ انتخابات تو شفاف ہوئے لیکن ووٹ ڈالنے کا تناسب امیدوں کے برخلاف کافی کم رہا۔ انتخابات کے نتائج سے یہ لگ رہا تھا کہ ملک ایک نئے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ صدارتی امیدواروں میں سے جس امیدوار نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے وہ السبیسی تھے، جو کہ عرب بہار سے پہلے کی حکومت کا حصہ رہے تھے اور بنیادی طور پر بائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے اور یہ النہضہ کے مخالف پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے تھے۔ان کی جماعت ’’نداتونس‘‘بنیادی طور پر بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد تھا جو کہ اسلامی تحریک النہضہ کی مخالف تمام جماعتوں کو اکٹھے کر کے تشکیل دیا گیا تھا۔
السبیسی کوسیکولر اور اسلام پسند دونوں ہی نے قبول کیا، اسی لیے السبیسی نے انتخابات کے بعد حیرت انگیز طور پر النہضہ کے ساتھ اتحادی حکومت بنا ڈالی۔ تھوڑے عرصے بعد یہ بات منظر عام پر آئی کہ السبیسی نے النہضہ کے رہنما راشد الغنوشی سے ملاقات بھی کی تھی اور یہ اہم پیش رفت تھی۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ السبیسی اس حکومت کے وزیر خارجہ رہے ہیں جس نے راشد الغنوشی کو نہ صرف جیل میں ڈالا تھا بلکہ ان کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ اس ملاقات کا عوام پر بہت اچھا تاثر پڑا۔ ان کو یہ پیغام ملا کہ تلخ سیاسی دشمنیوں کا دور اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔اب جمہوری تیونس ہر قسم کے راہنماؤں کوقبول کر سکتا ہے چاہے وہ سیکولر ہوں، لبرل ہوں یا اسلامسٹ۔
تاہم پُرتشدد انتہاپسندی ملک کی ترقی کی راہ میں اب بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ۲۰۱۵ء کے اوائل میں دہشت گردوں نے نیشنل میوزیم پر حملہ کیا، پھر ساحلی مقام سوسہ پر حملہ کیا گیا، جس میں ۶۰ افراد ہلاک ہوئے جن میں بیشتر یورپی سیاح تھے۔ان حملوں سے ملک کی سیاحت کی صنعت کو شدید جھٹکا لگا، یہ صنعت ملک کی مجموعی پیدوار کا ۸ فیصد ہے۔ان حملوں سے تیونس میں انتہاپسندی کے مسئلے کی شدت کا بھی اندازہ ہوا۔ تبدیلی کے ان ابتدائی برسوں میں افراتفری کی وجہ سے حکومت کے لیے مشکل تھا کہ ملک پسماندہ علاقوں سے عسکریت پسندوں کی بھرتی روک سکے۔ ملک میں جمہوریت تو پنپ رہی تھی لیکن اس کے مثبت ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے تھے، یعنی کہ نہ ہی معیشت بہتر ہورہی تھی اور نہ ہی بے روزگاری میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ اس لیے نوجوانوں کے پاس کھونے کو کچھ نہ تھا اور یہی وجہ تھی ان کی عسکریت پسند تنظیموں میں بھرتی ہونے کی راہ ہموار ہو رہی تھی۔ ۲۰۱۵ء تک تیونس عرب میں واحد جمہوری ملک تھا اور اس کے ساتھ ساتھ داعش کے لیے عراق اور شام جانے والے نوجوانوں میں سب سے بڑی تعداد بھی تیونس کی ہی تھی۔بد قسمتی یہ کہ تیونس اور لیبیا کے درمیان ’’پورس‘‘بارڈر ہے اور لیبیا میں اس وقت خانہ جنگی کی وجہ سے داعش پھل پھول رہی تھی۔تیونس کے شہری باآسانی لیبیا کی سرحد پار کرتے تھے اور وہاں عسکری تربیت حاصل کر کے واپس اپنے ملک میں آکر دہشت گردی کے واقعات میں حصہ لیتے تھے۔ اب بھی بہت سے دہشت گرد تیونس اور الجیریا کی سرحد پر واقع پہاڑی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور وہاں سے وہ تیونس کی فوج پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ تاہم یورپی ممالک کی مدد سے اب تیونس نے انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کیا، لیکن خطے کے واحد جمہوری ملک ہونے کے ناطے اس پر سب کی نظریں ہیں۔گزشتہ برس گرمیوں میں القاعدہ اور داعش دونوں نے اپنے جنگجوؤں سے تیونس پر نظر رکھنے کو کہا تھا۔
اگرچہ غیر ملکی امداد کی وجہ سے ملک کے بہت سے شعبوں میں بہتری آئی،جن میں انسدادِ دہشت گردی بھی شامل ہے۔ لیکن امداد دینے والے ممالک اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ تبدیلی کی لہر اندرون ملک سے ہی آسکتی ہے۔
۲۰۱۱ء سے پہلے امریکا اور تیونس میں کوئی قابل ذکر تعلقات نہ تھے۔ جب باراک اوباما نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے مسلمان ممالک کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات کی خواہش ظاہر کی اور ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ وہ عرب ممالک پر جمہوریت مسلط کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔لیکن جب جمہوری تحریکوں نے آمریت کے نظام کا خاتمہ کیا تو ان تحریکوں کے آغاز پر تو باراک اوباما نے ان کی حمایت ہی کی۔امریکا نے مظاہرین کی نہ صرف بیانات کی حد تک حمایت کی بلکہ ان کو مالی معاونت بھی دی۔اس وقت امریکا کی سیکرٹری ہیلری کلنٹن نے تیونس میں بن علی کی حکومت کے خاتمے کے دو ماہ کے اندر ہی تیونس کا دورہ کیا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ اس کے ساتھ ہی امریکا کی تیونس کو دی جانے والی امداد میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ امداد ۲۰۰۹ء میں ایک کروڑ ۵۰ لاکھ ڈالر تھی، جو کہ ۲۰۱۱ء میں بڑھ کر دو کروڑ ۶۰ لاکھ ڈالر کر دی گئی۔ اس کے علاوہ دوسرے امدادی پروگرامات کے ذریعے بھی تیونس کی امداد ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر تک پہنچ گئی (ٹرمپ نے اس امداد کو کم کرنے کی کافی کوشش کی لیکن کانگریس کی حمایت کی وجہ سے یہ امداد اب بھی جاری ہے)۔ عرب بہار کے بعد سے یورپی ممالک نے بھی اپنی امداد میں اضافہ کیا ہے،۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۷ء تک ۲؍اعشاریہ ۶۵ ارب ڈالر دیے جا چکے ہیں۔
اس مدد کے باوجود تیونس کو اب بھی کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح ۳۰ فیصد کے قریب قریب ہے اور مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔عرب بہار کے بعد سے خودکشی کی شرح تقریباً دگنی ہو چکی ہے اور ایک لاکھ کے قریب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوان ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔حالیہ دنوں میں سمندر کے راستے اٹلی کی طرف ہجرت کرنے والوں میں تیونس نے ایرٹیریا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اس رجحان کو کم کرنے اور ملک کے معاشی حالات میں بہتری لانے کے لیے حکومت کو کچھ غیر مقبول فیصلے کرنے ہوں گے، جیسا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی۔ اس طرح کے اقدامات کے لیے طاقتور مزدور یونین سے مقابلہ کرنا ہو گا، خاص طورپر UGTTجیسی مزدور تنظیم سے جو ماضی میں بھی ملکی سطح کی کامیاب ہڑتالیں کر چکی ہے۔ لیکن اگر اس طرح کے اقدامات نہیں کیے جاتے تو عالمی امدادی ملک بھی نہ صرف منہ موڑ لیں گے بلکہ نوجوانوں کے ملک چھوڑنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور عسکریت پسندوں کی بھرتی بھی بڑھتی چلی جائے گی۔
روایتی سرکاری اداروں کی اصلاح بھی ایک بڑا کام ہے، جو کہ حکومت کو کرنا ہے۔ عدالتی نظام میں ابھی تک کوئی اصلاح نہیں کی گئی ہے۔ پرانے قوانین نئے آئین سے ٹکراتے ہیں، بہت سے جج بھی ’’بن علی‘‘ دور کے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک میں اس وقت کوئی بھی آئینی عدالت موجود نہیں ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ارکان پارلیمان کا اس عہدے کے لیے کسی جج کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی پہلی حکومت ۲۰۱۴ء سے اکتوبر ۲۰۱۹ء تک قائم رہی، لیکن قانون سازی کے عمل میں ارکان کی غیر حاضری کی وجہ سے اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس وقت سب سے اہم کام عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے حالیہ سروے کے مطابق ۲۰۱۹ء کے آغاز تک ۳۴ فیصد لوگ صدر پر اعتماد کرتے تھے اور ۳۲ فیصد تیونسی عوام نے پارلیمان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ جہاں تک بات اپنے غصے کے اظہار کی ہے تو اکثریت خاص کر نوجوان بیلٹ باکس کے بجائے سڑکوں پر آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ہر سال تقریباً ۹۰۰۰ مظاہرے ہو رہے ہیں، جن میں اکثر ان ہی پسماندہ علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں سے ’’عرب بہار‘‘ کا آغاز ہوا تھا۔ اس مسئلے کا حل آسان نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے۔ مئی ۲۰۱۸ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات اس صحیح سمت میں پہلا قدم تھا۔ان بلدیاتی انتخابات میں ۴۷ فیصد نشستیں جیت کر عالمی سطح پر صنفی امتیاز کے خاتمے کا ثبوت دیا گیا اور دوسری اہم بات یہ کہ ان انتخابات کے ذریعے نوجوانوں کو بھی نمائندگی ملی، جیتنے والے ۳۷ فیصد امیدواروں کی عمریں ۳۵ سال سے کم تھیں۔
ڈوبتی ہوئی کشتی کی تعمیر
تیونسی عوام نے بہت جلد اس بات کا اندازہ لگا لیا ہے کہ ان کا ملک ایسا نمونہ پیش نہیں کر سکتا، جو کسی دوسرے ملک میں آزمایا جا سکے۔ لیکن ان کے تجربات سے یہ ضرور سیکھا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کی حمایت کیسے کی جائے۔ دوسرے ممالک کے لیے پہلا سبق تو یہ ہے کہ انہیں اپنے معاملات سے دور رکھا جائے۔ تیونس کی خوش قسمتی ہے کہ انھوں نے غیرملکیوں کے جمہوری ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے بجائے نچلی سطح سے خود ہی تبدیلی کے عمل کا آغاز کیااور پھر بعد کے مراحل میں دیگر ممالک نے اس تبدیلی کی حمایت کی۔ اس کے مثبت نتائج یہ سامنے آئے کہ آمر ملک میں ہونے والے مظاہروں پر کسی غیر ملکی سازش کا الزام نہ لگا سکے۔ امریکا اور یورپ کو چاہیے کہ جہاں بھی تبدیلی کی لہرا ٹھے وہاں اس وقت تک مداخلت نہ کی جائے، جب تک کہ وہ مکمل طور پر قدم نہ جما لے۔جب تبدیلی کا عمل مکمل ہو جائے تو عالمی ممالک کو ایسے ملک کی مالی تزویراتی حمایت کرنی چاہیے تاکہ وہاں آنے والی تبدیلی کے مثبت نتائج سامنے آئیں۔
ایسے ممالک جہاں جمہوریت نئی ہو،ان کے لیے تیونس کی اتفاق رائے کی سیاست کے نمونے سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔تیونس میں بھی جمہوری تبدیلی کا یہ سفر ۲۰۱۳ء میں ہی رک جاتا اگر راشد الغنوشی اور السبیسی دونوں رہنما سیاسی مفادات کو ملکی مفادات پر قربان نہ کرتے۔ عموماً ابھرتے ہوئے رہنما ذاتی مفادات کے فروغ کے لیے آمرانہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور طاقت اور اختیارات کو اپنے پاس رکھنے پر ہی ترجیح دیتے ہیں۔جمہوری تبدیلی کے سفر کے آغاز میں رہنماؤں کو چاہیے کہ سیاست میں ایک دوسرے کو جگہ دیں اور ذاتی مفادات کے بجائے ملکی اور عوامی مفادات کو مقدم رکھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب جمہوریت مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے تو سیاسی مقابلہ بازی کے لیے کافی وقت اور مواقع مل جاتے ہیں۔
اسی طرح جمہوریت کی طرف پلٹنے والے ممالک کو تیونس کی قانون ساز اسمبلی کی مثال کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ آمریت کے خاتمے کے بعد جب نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو تین سال تک تو حکومت بغیر کسی آئین کے ہی کام کرتی رہی اور آج جب آئین سازی کے عمل کو مکمل ہوئے چھ برس گزر چکے، ابھی تک اس قانون کے بیشتر حصے پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ بہت سی باڈیز کا قیام ابھی تک عمل میں نہیں لایا جاسکا جیسا کہ آئینی عدالت۔ تیونس جمہوریت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے، لیکن اس عمل کے دوران عوام مایوسی اور الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ تبدیلی کے عمل سے گزرنے والے ممالک کو چاہیے کہ اس سارے عمل کے دوران آنے والے مراحل سے کس طرح سے نمٹنا ہے، اس کا لائحہ عمل پہلے سے ہی طے کر لیں اور اداروں کے قیام کے حقیقی اہداف کا تعین کریں اور ان اہداف کو ہرصورت حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ جمہوریت نہ صرف مضبوط ہو سکے بلکہ نتائج بھی دے سکے۔
تاہم تیونس کے اس عمل میں سب کچھ ایسا نہیں ہے، جس کی نقل کی جا سکے۔ جبکہ معاشی اور سیاسی اصلاحات کی ترتیب اور رفتار ایسی نہیں ہے کہ اس کی مثال پیش کی جا سکے۔ تیونس کے رہنماؤں نے پہلے سیاسی تجدید، نئے آئین کے مسودے کی تیاری، انتخابات کے انعقاداور سیاسی اداروں کی تشکیل نو کے عمل کو ترجیح دی۔ لیکن اس دوران تباہ ہوتی معیشت اور معاشرے کے اندر پڑنے والے شگاف پر وہ توجہ مرکوز نہ رکھ سکے۔بہت سے تیونسی یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۰۱۰ء میں انھوں نے جس وقار کا مطالبہ کیا تھا، یہ جمہوری حکومت انھیں وہ وقار اور عزت دینے میں ناکام رہی۔ جس کی وجہ سے عوام جمہوری اداروں پر اپنا اعتماد قائم کرنے میں ناکام ہوئے۔ تاہم معیشت کو ٹھیک کرنے کا کام اگر پہلے انجام پاجاتا تو وہ بھی نقصان دہ ہو سکتا تھا۔کیوں کہ ایسی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ معیشت کی بحالی کے بعد یہ رہنما جمہوریت کی بحالی کے وعدوں پر قائم رہتے۔ جمہوریت کے سفر میں معاشی چیلنجوں کا سامنا ناگزیر تھا، تاہم ایسے وقت میں عوام کو جمہوریت کی حمایت میں کھڑا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دیگر ممالک براہ راست سرمایہ کاری اور مالی امداد کے ذریعے متاثرہ ملک کی پشت پناہی جاری رکھیں۔
تیونس مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کی حامی تحریکوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔لیکن جمہوریت کی جانب یہ کامیاب سفر خطے کے آمروں کے لیے خطرے کی ایک گھنٹی بھی ہے،کیوں کہ انھیں بھی اس طرح یا اس سے بھی برے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔بن علی کی سعودی عرب میں جبری ریٹائرمنٹ ان آمروں کے لیے قابل رشک تو نہیں ہے،لیکن عوامی دباؤ کے سامنے نہ جھکنے والوں کو ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور یہ نتائج اس سے قدرے بہتر ہیں جو دیگر آمروں کو دیکھنے پڑے، جیسا کہ معمر قذافی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے، ایک آمر کا ملک شام خانہ جنگی کا شکار ہو گیا،معیشت تباہ ہو گئی اور کچھ ایسا ہی یمن کے علی عبداللہ صالح کے ساتھ بھی ہوا۔ اب اگر کسی حکمران کو بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے سامنے ان حکمرانوں کا انجام ضرور آتا ہو گا۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The Tunisia Model”.(“Foreign Affairs”. November/December 2019)
Leave a Reply