
اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ یہ الفاظ ہم امریکا میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن دونوں ہی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والوں کے منہ سے ہر اس موقع پر سنتے آئے ہیں جب اسرائیل نے اپنی بھرپور طاقت کے نشے میں چُور ہوکر راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ کو انتہائی بہیمیت کے ساتھ نشانہ بنایا ہے۔
آیئے، ذرا کھل کر بات کریں۔ کوئی بھی یہ دلیل نہیں دے رہا کہ اسرائیل یا کسی بھی اور ملک کو اپنے لوگوں کے دفاع کا حق حاصل نہیں۔ پھر یہ الفاظ سال بہ سال، جنگ بہ جنگ کیوں دہرائے جاتے رہے ہیں؟ اور یہ سوال کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا کہ فلسطینیوں کے حقوق کیا ہیں؟ اور ہم اسرائیل اور فلسطین میں تشدد کا نوٹس صرف اس وقت کیوں لیتے ہیں جب فلسطینیوں کے داغے ہوئے راکٹ اسرائیل میں گر رہے ہوتے ہیں؟ اس بحرانی کیفیت میں امریکا کو دیرپا جنگ بندی یقینی بنانے کے حوالے سے بہت کچھ کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اگر اسرائیل کی طرف داغے جانے والے حماس کے راکٹ ناقابل قبول ہیں تو پھر آج کا یہ سنگین تنازع ان راکٹس سے پیدا نہیں ہوا۔
بیت المقدس کے علاقے شیخ جرّاح میں فلسطینی خاندان ایک مدت سے نکالے جانے کے خطرے سے دوچار حالت میں جیتے آئے ہیں۔ ایک ایسا قانونی نظام وضع کرکے نافذ کردیا گیا ہے جس میں انہیں جبراً بے گھر کرنا ممکن ہے۔ چند ہفتوں کے دوران انتہا پسند یہودی آباد گاروں نے ان فلسطینیوں کو بے گھر کرنے سے متعلق اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں یا علاقوں سے بے دخل کرنے کا یہ عمل سیاسی اور معاشی دباؤ کے ایک بڑے نظام کا محض ایک حصہ ہے۔ ہم ایک مدت سے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی آبادگاروں کے قبضے اور غزہ کی اقتصادی ناکہ بندی دیکھتے آئے ہیں، جس نے فلسطینیوں کے لیے حالات کو ناقابلِ برداشت بنایا ہے۔ غزہ کی آبادی کم و بیش بیس لاکھ ہے اور وہاں ۷۰ فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ ان میں مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح امید بھی باقی نہیں رہی۔
ساتھ ہی ساتھ ہم نے بنیامین نیتن یاہو کی حکومت کو اسرائیل میں آباد فلسطینیوں کے لیے بہتر مستقبل کے امکانات کو کم سے کم کرنے اور انہیں زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کرتے دیکھا ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت نے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ کرکے وہاں یہودیوں کو آباد کرنے کی پالیسی پر عمل جاری رکھا ہے، جس کے نتیجے میں دو ریاستوں والا حل اب کم و بیش ناممکن ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں جن کے تحت اسرائیل کے یہودی اور غیر یہودی شہریوں کے درمیان بہت واضح خطِ امتیاز کِھنچ گیا ہے۔
ان تمام حقائق سے حماس کے حملوں کو جواز نہیں ملتا۔ حماس نے (مقبوضہ) بیت المقدس میں پائی جانے والی بے چینی اور بدعنوان، ناکام فلسطینی اتھارٹی کی ناکامیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے انتخابات کرانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ہے جبکہ ان کا وقت ہوچکا ہے۔ یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں سرزمینوں میں اسرائیلی حکومت واحد خود مختار اتھارٹی ہے مگر اس نے امن اور انصاف کے لیے فعال ہونے کے بجائے غیر مساوی اور غیر جمہوری تصرف یقینی بنانے پر زیادہ توجہ دی ہے۔
اسرائیل میں ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے انتہائی دائیں بازو کی حکومت ہے، جس نے بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں عدم رواداری اور مطلق العنانیت پر مبنی نسل پرست قوم پرستی کو فروغ دینے کے لیے کام کیا ہے۔ اقتدار کو طول دینے اور کرپشن پر محاسبے سے بچنے کے لیے نیتن یاہو نے اتمار بین گُوِر اور اس کی انتہا پسند جیوئش پاور پارٹی کو جائز حیثیت دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ انہیں حکومت کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ جن نسل پرستوں نے (مقبوضہ) بیت المقدس کی سڑکوں پر ٹولوں کی شکل میں فلسطینیوں پر حملے کیے وہ آج اسرائیل کی پارلیمان میں بیٹھے ہیں۔
یہ خطرناک رجحانات اسرائیل کے حوالے سے کسی بھی طور منفرد یا حیرت انگیز نہیں۔ یورپ، ایشیا، جنوبی امریکا اور یہاں ریاست ہائے متحدہ امریکا میں، ہم نے مطلق العنان قومی تحریکوں کو تیزی سے ابھرتے اور مقبولیت پاتے دیکھا ہے۔ یہ تحریکیں بہت سوں کے لیے خوشحالی، انصاف اور امن یقینی بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے نسلی اور لسانی بنیاد پر پائی جانے والی نفرت کو بروئے کار لاکر چند ایک کے لیے اقتدار اور کرپشن کی راہ ہموار کرتی ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ ہم سیاسی کارکنوں کی ایک ایسی نسل بھی ابھرتی دیکھ رہے ہیں جو انسانی ضرورتوں اور سیاسی مساوات کی بنیاد پر معاشروں کی تعمیر چاہتی ہیں۔ ہم نے گزشتہ موسمِ گرما میں امریکا کی سڑکوں پر جارج فلائڈ کے قتل کے بعد ایسے بہت سے کارکنوں کو احتجاج کرتے ہوئے دیکھا۔ اب یہ کارکن ہمیں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
امریکا میں نیا صدر آچکا ہے۔ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ دنیا کے حوالے سے انصاف اور جمہوریت پر مبنی طرزِ فکر و عمل اپنائی جائے۔ معاملہ غریب ممالک کو ویکسین کی فراہمی کا ہو یا ماحول میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے لڑنے کا یا پھر سیاسی معاملات کی درستی کا، امریکا کو ہر محاذ پر کلیدی اور قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔ امریکا کو تنازعات کے خاتمے کی راہ ہموار کرتے ہوئے اشتراکِ عمل اور معاونت کی راہ ہموار کرنی ہے۔
ہم اسرائیل کو ہر سال چار ارب ڈالر کی امداد دیتے ہیں۔ ایسے میں نیتن یاہو کی دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت اور اس کے غیر جمہوری اور نسل پرستانہ اقدامات کے حوالے سے ہمیں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ ہمیں اب اپنا راستہ تبدیل کرکے برابری کے اصول پر مبنی طرزِ فکر و عمل اپنانی چاہیے، جو شہریوں کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی قانون کو بالا دست اور مضبوط کرتی ہو اور ساتھ ہی ساتھ امریکی قانون کو بھی بالا دستی عطا کرتی ہو جس کے تحت امریکی فوجی امداد کسی بھی حالت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب معاشروں کو نہیں ملنی چاہیے۔
نئی اپروچ یہ ہونی چاہیے کہ جس طور اسرائیل کو سلامتی کے ساتھ اور سکون کی حالت میں رہنے کا حق حاصل ہے بالکل اُسی طور فلسطینیوں کو بھی محفوظ اور خوش حال زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتا ہوں کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو بہتر مستقبل کی تیاری میں مدد دینے کے حوالے سے امریکا بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر امریکا عالمی سطح پر بنیادی حقوق کے حوالے سے توانا آواز بننا چاہتا ہے تو ہمیں انسانی حقوق پر بین الاقوامی معیارات کی بالا دستی ہر حال میں یقینی بنانی چاہیے، چاہے ایسا کرنا سیاسی اعتبار سے کتنا ہی مشکل ہو۔ ہمیں محسوس کرنا ہوگا کہ فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی زندگیوں کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی اسرائیلیوں کے حقوق اور زندگی کی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Bernie sanders: The U.S. must stop being an apologist for the Netanyahu government!”(“The New York Times”. May 14, 2021)
Leave a Reply