
حال ہی میں مکمل ہونے والے ۱۷؍روزہ ٹوکیو اولمپکس میں امریکا نے تمغوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے چین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سے معاملات میں امریکا اب بھی چین سے بھرپور مسابقت کی صلاحیت و سکت کا حامل ہے۔
ٹوکیو اولمپکس کے آخری دو دنوں میں امریکا نے چین کو طلائی تمغوں کی دوڑ میں بھی پیچھے چھوڑا۔ اس پر امریکا سمیت پورے مغربی معاشرے میں میڈیا کی توجہ تیزی سے امریکا کی طرف منعطف ہوگئی۔ ٹیم یو ایس اے نے موسمِ گرما کے اولمپکس میں تھوڑے سے فرق سے اپنی برتری برقرار رکھی۔
سوال یہ ہے کہ کھیل کے میدان میں حاصل ہونے والی کامیابی کو ہم بین الاقوامی امور کے معاملات میں کیوں گھسیٹیں اور بحث کیوں کریں۔ اس وقت بہت سے معاملات میں امریکا اور چین کے درمیان شدید نوعیت کی مسابقت چل رہی ہے۔ یہ سب کچھ مسابقت سے بڑھ کر اب مخاصمت کے دائرے میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ مسابقت یا مخاصمت بین الاقوامی امور کی شکل تبدیل کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ حال ہی میں مکمل ہونے والے ٹوکیو اولمپکس کو اس حوالے سے مختلف تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
امریکا نے طلائی تمغوں کے معاملے میں چین کو پیچھے تو چھوڑ دیا مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یہ برتری برائے نام ہے۔ یہ برائے نام برتری سیاست، سفارت کاری اور معیشت کے میدان میں بھی امریکا کی معمولی سی برتری کی غمّاز ہے۔ چین کے مقابل امریکا کی پوزیشن دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں اعلیٰ ترین سطح پر معمولی برتری خطرے کی گھنٹی ہے۔ امریکا نے معیشت کے میدان میں چین پر معمولی سی برتری برقرار رکھی ہوئی ہے تاہم یہ تجزیہ کا روایتی انداز ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں تک انفرادی سطح پر قوتِ خرید کا معاملہ ہے، چین نے امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ عسکری قوت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ روایتی اسلحے کی بنیاد پر عسکری قوت کی بات کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان کچھ زیادہ فرق نہیں۔ اگر آج دونوں ممالک میں جنگ چھڑ جائے تو روایتی عسکری قوت کے معاملے میں امریکا کسی بھی طور چین سے برتر ثابت نہیں ہوسکے گا۔ خلائی تحقیق، سائنسی تحقیق اور پیٹنٹ جنریشن کے معاملے میں بھی امریکا اور چین کے درمیان فرق گھٹتا جارہا ہے۔ چین نے رواں صدی کے دوران ان تمام شعبوں میں حیران کن رفتار سے ترقی کی ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان تیزی سے گھٹتا ہوا فرق دونوں ممالک کے درمیان حکومتی نظام کے مابین پائے جانے والے فرق کی بنیاد پر بھی ہے۔ ان میں سے ہر نظامِ حکومت کی اپنی طاقت اور کمزوری ہے۔ یہ سوچنا بھی درست نہ ہوگا کہ چین نے چالیس برس کی مدت میں جو کچھ بھی کیا ہے وہ بالکل درست رہا ہے۔ اس وقت چین کو آبادی میں ڈھلتی ہوئی عمر والے افراد کی تعداد میں غیر معمولی رفتار سے ہونے والے اضافے کا سامنا ہے۔ یہ بحران بھی آبادی سے متعلق غلط پالیسی کا نتیجہ ہے۔ ہاں، یہ بات ماننا پڑے گی کہ چینی قیادت نے قومی طاقت میں فقید المثال نظم و ضبط کے ساتھ اضافہ کیا ہے۔ دوسری طرف امریکا نے اپنی دولت افغانستان اور عراق میں جنگوں پر ضائع کی ہے۔ آبادی کی بہبود کے معاملے میں امریکی قیادت بہتر انتظامات یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو اپ ڈیٹ کرنے کے حوالے سے بھی ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
مگر خیر، معاملات کو سمجھنے اور سمجھانے کا یہی ایک طریقہ نہیں۔ اور بھی بہت کچھ ہے جس کی بنیاد پر دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان فرق اور مماثلت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں امریکا کو اب بھی چین پر برتری حاصل ہے۔ اس سے امریکا کی مجموعی طاقت کا تھوڑا بہت اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ محض کھیلوں کی بنیاد پر کسی ملک کی مجموعی طاقت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا سے آبادی میں چار گنا ہونے پر بھی چین کھیلوں کی دنیا میں اُس سے بازی لے جانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
چین میں ایتھلیٹ تیار کرنے پر غیر معمولی توجہ دی جاتی ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر فنڈنگ کی جاتی ہے۔ قومی سطح کے پروگرام کے تحت باصلاحیت بچوں کو خصوصی توجہ کے ساتھ ایتھلیٹ بنانے پر خاصی محنت کی جاتی ہے۔ چینی قیادت اس بات پر خاص توجہ دیتی ہے کہ اولمپکس میں زیادہ سے زیادہ تمغے حاصل کیے جائیں۔ اولمپکس کی سطح پر بڑی کامیابیاں پوری قوم کا حوصلہ بلند کرتی ہیں۔ امریکا میں عالمی معیار کے ایتھلیٹ تیار کرنے کے لیے قومی سطح کا کوئی پروگرام نہیں چلایا جاتا۔ یہ سب کچھ بہت حد تک ایڈہاک بنیاد پر ہوتا ہے اور بہت بڑے پیمانے پر یا مرتکز نوعیت کی فنڈنگ بھی نہیں کی جاتی۔ اس کے باوجود اولمپکس اور دیگر عالمی مقابلوں میں امریکا کے ایتھلیٹس اور ٹیمیں بہت بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔
یہ سب کچھ کسی بھی شخص کو دونوں ممالک کی طرزِ حکومت کا جائزہ لینے کی تحریک دیتا ہے۔ امریکا میں شخصی آزادی غیر معمولی نوعیت کی ہے اور حکومتی نظام قدرے غیر مرتکز ہے یعنی مرکز کے ہاتھ میں سب کچھ نہیں۔ دوسری طرف چین میں معاملہ یہ ہے کہ ریاست نے سبھی کچھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ امریکا میں جو حکومتی نظام کام کر رہا ہے وہ بہت سی ذمہ داریوں یا واجبات کا بھی حامل ہے۔ کورونا وائرس ہی کی مثال لیجیے۔ اس وبا سے نجات پانے کی حکمتِ عملی کے حوالے سے امریکا کی ریاستوں کے درمیان شدید نوعیت کے تنازعات نے سر اٹھایا ہے۔ جن ریاستوں میں ری پبلکن گورنر ہیں وہاں کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر زیادہ شدت کے ساتھ اپنائی گئی ہیں یا نافذ کی گئی ہیں۔ ان ریاستوں میں کورونا ویکسین لگوانے کا معاملہ بھی جوش و خروش کا حامل رہا ہے۔ کورونا ایس او پیز پر عمل بھی شخصی پسند و ناپسند کے نام پر کیا گیا ہے۔
معاشرتی اثرات خواہ کچھ بھی رہے ہوں، حقیقت یہ ہے کہ چین میں مرکز چونکہ مضبوط ہے اس لیے وہاں کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے کا معاملہ زیادہ موثر اور کامیاب رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے ابتدائی دنوں میں مکمل لاک ڈاؤن، کورونا وائرس کی وبا کا منبع قرار پانے والے شہر ووہان اور دیگر شہروں میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر گھروں میں رہنے کا پابند کرنے، عوامی سطح پر لازمی ٹیسٹنگ متعارف کرانے سے وبا پر قابو پانے میں خاصی مدد ملی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں معاملات بگڑ گئے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کا ڈیلٹا ویریئنٹ تیزی سے پھیل رہا ہے اور ویکسینز بھی معیاری نہیں۔ ایسے میں لاک ڈاؤن کے سوا کوئی بھی حکمتِ عملی کارگر ثابت ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
چین نے بہت تیزی سے متعدد ممالک سے تجارتی شراکت کا دائرہ وسیع کرنے میں فقید المثال نوعیت کی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس حوالے سے بہت کچھ کہا جارہا ہے۔ اگر یورپی یونین کو ایک ملک تصور کیا جائے تو اُس کے ارکان کے حاصل کردہ تمغوں کی تعداد امریکا اور چین کے حاصل کردہ تمغوں کی مجموعی تعداد سے زائد ہوسکتی ہے۔
ایک حقیقت اور بھی نمایاں ہے، یہ کہ امریکا سے یورپی یونین کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ اولمپکس میں ۲۵ کامیاب ترین ممالک پر نظر دوڑایے تو اندازہ ہوگا کہ سیاسی، معاشی اور عسکری سطح پر امریکا کے حلیف یا دوست گردانے جانے والے ممالک نے زیادہ کامیابی حاصل کی، اُن کے ایتھلیٹس نے زیادہ تمغے جیتے۔ اولمپکس کے تمغوں کی دوڑ میں آگے رہنے والے ممالک میں چین کا حلیف صرف روس رہا ہے۔ روس کی معاشی قوت کا مدار دو باتوں پر ہے: خام تیل اور گیس کی فروخت اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ہتھیار اور دیگر فوجی ساز و سامان۔ تیسرا معاملہ کمپیوٹر ہیک کرنے کی مہارت کا ہے۔ ان تین معاملات سے ہٹ کر روس عالمی سطح پر امریکا اور یورپ سے مسابقت کی پوزیشن میں نہیں۔
یہ تمام نکات امریکا اور چین کے درمیان قوت کے موازنے کے حوالے سے اہم ہیں تاہم یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ معاشی مواد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہاں، جمہوری آدرشوں، شخصی آزادی اور دیگر متعلقہ معاملات پر ضرور بات ہوسکتی ہے۔ امریکا نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دور میں جو چار برس گزارے ہیں اُن سے یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کو اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے کچھ ٹھوس چاہیے۔ کھیل کے میدان میں حاصل ہونے والی کامیابیاں بھی اہم ہیں مگر دوسرے بہت سے معاملات اِن سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ کچھ ایسا چاہیے جو برتری تادیر برقرار رکھنے کا ضامن ہو۔ جب تک امریکا اپنے ہاں بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کی تیاری کا عمل جاری رکھے گا، غیر معمولی معاشی قوت کا حامل ہونے پر بھی چین مسابقت کے حوالے سے مشکلات محسوس کرتا رہے گا۔
اولمپکس کے تمغوں کی دوڑ کا جائزہ لیجیے تو یہ دیکھ کر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ چین کے بعد آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک بھارت کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی اور معاملہ کھیلوں تک محدود نہیں رہا۔ بھارت دوسرے بہت سے معاملات میں بھی پست کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ باصلاحیت اور محنتی افرادی قوت کا حامل ہونے پر بھی بھارت اب تک عالمی معیشت میں وہ مقام پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے جس کی توقع کی جاتی رہی ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت جمہوری عمل داری کے حوالے سے بھی زیادہ متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The U.S. still makes for a tough competitor against China”.(“worldpoliticsreview.com”. Aug. 11, 2021)
Leave a Reply