
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کا پہلا تاثر یہ ہے کہ اسرائیل ایک عرب ملک کے ساتھ تعلقات قائم کرکے ایک علامتی رکاوٹ کو توڑنے میں کامیاب ہوگیا، عرب امارات کے ساتھ اسرائیل کی کو ئی سرحد موجود نہیں۔حال ہی میں بحرین بھی اس معاہدے کا حصہ بن گیا ہے۔بظاہر متحدہ عرب امارات نے اس معاہدے سے وہ حاصل کرلیا جو دوسرا کوئی ملک حاصل نہیں کرسکا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ وقتی طور پررک گیا اورانتہائی جدید ترین امریکی اسلحے تک رسائی حاصل ہوگئی، جس میں ایف۔۳۵ لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔ ابوظہبی نے امریکاکے ساتھ بھی اپنے تعلقات مضبوط بنالیے، قطع نظر اس کے کہ اگلے امریکی انتخابات کون جیتتا ہے۔ لیکن اس معاہدے میں کہیں زیادہ کچھ موجود ہے جتنا نظر آتا ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات صدر براک اوباما کے ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں خاص کرایٹمی معاہدے کے سخت خلاف تھے۔ ان دونوں کے خیال میں تہران میں موجود حکومت کے وعدوں پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا ہے، مزید یہ کہ ایران دونوں ممالک کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔دوسرے الفاظ میں ایران سے ایٹمی معاہدے نے اسرائیل اور عرب امارات کو صرف ناراضی میں ہی اکٹھا نہیں کیا بلکہ انٹیلی جنس اور فوجی تعاون کرنے کے مواقع بھی پیدا کردیے۔ امریکا نے صدر اوباما کے دور سے ہی مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں اپنی فوجی ذمہ داریوں کو کم کرنا شروع کردیا تھا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس چیز کو مزید ڈرامائی انداز میں بڑھاوا دیا۔ٹرمپ نے شعوری اور لاشعوری بیان بازی کے ساتھ ستمبر ۲۰۱۹ء میں سعودی عرب پر حملوں پر ایرانیوں کو سزا دینے سے انکار کردیا، جس نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کا واشنگٹن پرطویل مدتی اعتماد ختم کردیا۔ایران کا اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے معاہدے پر ابتدا سے ہی تنقید کرتے ہوئے اس کو فلسطین کاز سے غداری قراردینا حیرت انگیز نہیں تھا۔
ایک اورممکنہ ملک جس نے دونوں ممالک کو تعاون کرنے پر مجبور کیا وہ ترکی ہے۔ انقرہ سے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی پریشان ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان کی خطے کی قیادت سنبھالنے کی خواہش کوئی راز نہیں۔ وہ ایک دن پوری اسلامی دنیا کی قیادت کرنا چاہتے ہیں۔
ایردوان کے بیانات اور اقدامات ترکی کے ارادوں کو پوری طرح ظاہر کررہے ہیں۔ ایردوان نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے پر انتہائی تنقید کی اور کہا کہ وہ ابوظہبی کے ساتھ سفارتی تعلقات پر نظر ثانی کرنے کے لیے غور کریں گے۔ حالانکہ ۱۹۴۹ء سے ترکی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات رکھتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور ترکی کے درمیان تصادم کی بنیادی وجہ انقرہ کی مصر اور قطر میں اخوان المسلمون کی حمایت کرنا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے اخوان کی حمایت پر قطر کی ناکابندی کی تھی۔ جس کے بعد ترکی سیاسی اور فوجی مدد کرکے دوحہ کا سب سے اہم اتحادی بن کر ابھرا ہے۔ترکی اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تنازع لیبیا تک پھیلا ہوا ہے، جہاں دونوں ممالک عسکری اور سفارتی سطح پرخانہ جنگی میں ملوث گروہوں کی حمایت کررہے ہیں۔ ابوظہبی کو ترکی کی سرگرمیوں کا مکمل ادراک ہے اور وہ جانتا ہے کہ انقرہ، لیبیا، صومالیہ اور سوڈان میں بھی فوجی اڈے بنانا چاہتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ترکی صرف عربوں کے تنازعات میں دخل اندازی ہی نہیں کررہا بلکہ ان کو گھیرے میں بھی لے رہا ہے۔ترکی بھی متحدہ عرب امارات کی سرگرمیوں سے خوش نہیں۔ اسی لیے عرب امارات سے متعلق سوال پر ترک وزیر خارجہ کاکہناتھا کہ ’’اگر آپ پوچھیں گے کہ کون خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرکے افراتفری پھیلا رہا ہے تو میں کسی جھجک کے بغیر کہوں گا متحدہ عرب امارات‘‘۔ اسرائیلیوں اور ترکوں کے درمیان بھی تنازع بڑھتا جارہا ہے۔ مضبوط تجارتی تعلقات کے باوجود ترکی کی جانب سے حماس کی کھلی حمایت مشرقی بحیرہ روم میں اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کی اہم وجہ ہے۔
مشرق بحیرہ روم میں ترکی، یونان اور قبرص کے معاشی مفادات اور خودمختاری کوبھی چیلنج کررہا ہے۔ترکی یورپ کو گیس کی فراہمی کے حوالے سے مصر، قبرص، یونان اور اسرائیل کی شراکت داری کی بھی مخالفت کرتارہا ہے۔ متحدہ عرب امارات بھی یورپ کو گیس فراہمی کے منصوبوں میں شریک ہے۔ اگر اسرائیل ماضی میں ہی انقرہ کے ارادوں کے حوالے سے محتاط ہوجاتا تو ترک وزارتِ اطلاعات کی حالیہ چار منٹ کی ویڈیو بنانے میں مددگار نہیں بنتا۔ اس ویڈیو میں ترک فوج کی عظمت بیان کی گئی ہے، جو عثمانیوں کی فتوحات سے شروع ہوکراسلام کے تیسرے اہم مقام مسجد اقصیٰ کو آزاد کروانے کے وعدے کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ مسجداقصیٰ اسرائیلی دارالحکومت یروشلم میں واقع ہے۔ترکی کی سرگرمیوں کو واشنگٹن کی خاموشی کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جس کوفرانسیسی صدر میکرون نے ترکی کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو روکنے کے اپنے فیصلے کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے۔ اگرچہ ترکی اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے کی بنیادی وجہ نہیں ہے لیکن دونوں کے درمیان تعاون بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“The UAE-Israel agreement isn’t only about Iran. There’s also Turkey”.(“syndicationbureau.com”. September 21, 2020)
Leave a Reply