
برطانیہ نے سکون کا سانس لیا ہے۔ حالیہ ریفرنڈم سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ تین صدیوں تک ساتھ رہنے کے بعد اب برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ الگ نہیں ہوں گے۔ مگر یہ دونوں اقوام طلاق کی منزل تک نہ پہنچنے کے فیصلے کے باوجود الگ الگ کمروں میں رہ رہی ہیں اور اِن میں بات چیت بھی تقریباً بند ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے لوگوں نے برطانیہ سے الگ ہونے کے خلاف ووٹ دیا ہے مگر یہ برطانیہ کی کامیابی نہیں بلکہ اُس کی اور وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی سیاسی مشکلات کا آغاز ہے۔
محض مشکلات کا آغاز
برطانوی وزیراعظم کو اسکاٹ لینڈ کے قوم پرست لیڈر الیکس سیلمنڈ کو حالیہ ریفرنڈم سے کچھ قبل چند ایک رعایتوں سے نوازنا پڑا تھا۔ اس میں بارنیٹ فارمولا کے تحت ایک قانون کی منظوری بھی شامل تھی، جس کے تحت اسکاٹ لینڈ کو برطانیۂ عظمیٰ کی مجموعی آمدن میں انگلینڈ اور ویلز سے زیادہ حصہ دیا جائے گا۔
کنزریٹو پارٹی کے ارکانِ پارلیمان پہلے ہی احتجاج کر رہے ہیں کہ اسکاٹ لینڈ کو اُس کے حصے سے زیادہ ریونیو دینے کے لیے اُن کے حلقہ ہائے انتخاب کے لوگوں سے زائد ٹیکس کیوں لیا جائے۔ وہ اس بات پر بھی معترض ہیں کہ اسکاٹ لینڈ کو خوش رکھنے کے لیے وہاں تعلیم اور صحت کے حوالے سے زیادہ رعایتیں متعارف کرائی جارہی ہیں۔
برطانیہ کی مرکزی حکومت کا اسکاٹ لینڈ پر چیک اور دباؤ بھی اب کم ہو جائے گا۔ اسکاٹ لینڈ کی حکومت کو اجازت ہوگی کہ وہ اپنے سرکاری شعبے کو نارڈک ریاستوں کی طرح سوشلسٹ ماڈل پر جدت سے ہمکنار کرے، یعنی نجی اداروں کو معیشت میں زیادہ سے زیادہ کردار دیا جائے گا۔
وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ برطانیہ میں واقع حلقہ ہائے انتخاب سے منتخب ہونے والے ارکانِ پارلیمان دارالعوام میں عمومی سطح پر قانون سازی میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ اِسے اُنہوں نے آئینی انقلاب سے تعبیر کیا ہے۔
جب دارالعوام میں صحت یا تعلیم پر بحث ہو رہی ہوتی ہے، تب اسکاٹ لینڈ سے منتخب ہونے والے ۵۹؍ارکان ایوان سے نکل جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُس وقت بھی ہوتا ہے، جب اِس نکتے پر بحث ہو رہی ہوتی ہے کہ کن کن معاملات میں پالیسی اسکاٹ لینڈ کی حکومت کو طے کرنی ہے۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ چار اقوام پر مشتمل ریاست اب اپنے آخری ایام دیکھ رہی ہے۔
پارلیمانی بالادستی کا جو نظریہ ایڈمنڈ برک اور والٹر بیگاٹ نے وضع کیا تھا، اُسے ڈیوڈ کیمرون خاموشی سے سپردِ خاک کر رہے ہیں۔ اب یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ برطانیہ کو تحریری اور قابلِ نفاذ آئین تیار کرنے کی طرف جانا پڑے گا تاکہ یہ طے ہوسکے کہ کس کے پاس کون سے اختیارات ہیں، اور اُن اختیارات کو کس طور بروئے کار لانا ہے۔
اسکاٹ لینڈ منقسم ہے!
اسکاٹ لینڈ کے حالیہ ریفرنڈم کے نتائج سے برطانیہ کی مشکلات اِس لیے بڑھیں گی کہ اب اسکاٹ لینڈ میں رائے عامہ واضح طور پر دو تقریباً برابر کے حصوں میں بٹی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ویسٹر منسٹر میں براجمان برطانیہ کے اعلیٰ ترین اذہان کو یہ خیال کیوں نہ سُوجھا کہ اسکاٹ لینڈ میں رائے عامہ دولخت بھی ہوسکتی ہے۔ ڈیوڈ کیمرون کو شدید بدحواسی کے عالم میں اپنے دشمن یعنی پیشرو گورڈن براؤن سے مشاورت کرنی پڑی۔
لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ اگر اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے اس کے ارکانِ پارلیمنٹ تعلیم، صحت اور سماجی بہبود جیسے معاملات پر کوئی رائے نہیں دے سکتے تو لازم ہے کہ پارلیمانی اصلاحات متعارف کرائی جائیں تاکہ ہم آہنگی کا تصور پیدا اور راسخ ہو۔
اسکاٹ لینڈ کے مغربی حصے بالخصوص گلاسگو سے تعلق رکھنے والے، صنعتی انقلاب کے بعد کے کیتھولک محنت کش طبقے نے برطانیہ سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیا ہے جبکہ ایڈنبرگ کے متمول شہریوں نے برطانیہ سے جُڑے رہنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ضرور ہوا ہے مگر ووٹ تو خریدا گیا ہے۔ ۱۷۰۷ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ برطانوی حکومت نے اسکاٹ لینڈ کے لیے مزید فنڈ، مراعات اور سہولتوں کا اعلان کر کے ووٹروں کے ذہن پر زبردست اثر ڈالا۔ اُنہیں برطانیہ کی طرف جُھکنے پر راغب کرنے کے لیے جن فنڈز اور مراعات کا اعلان کیا گیا، اُسے بہت سادہ زبان میں محض رشوت ہی کہا جاسکتا ہے۔
۱۷۰۷ء اور آج کے زمانے میں بہت فرق ہے۔ تب نوزائیدہ برطانوی سلطنت دو صدیوں پر محیط ایسے سفر پر روانہ ہونے کو تھی جس میں خوش حالی اور فارغ البالی کی کئی منازل تھیں۔ اب ایسا نہیں ہے۔ آج کی برطانوی حکومت کو خود بھی اندازہ نہیں کہ اکیسویں صدی سے مطابقت رکھنے والا بہتر معاشی نظام کس طور اپنانا ہے۔ یہی حال سماجی اور ثقافتی معاملات کا بھی ہے۔ برطانوی معاشرے کو ایک نیا، جامع معاشی و معاشرتی نظام درکار ہے۔ مگر یہ بات دائیں یا بائیں بازو والوں کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ ریاست کو کس سمت لے جائیں۔
سمجھا یہ جارہا تھا کہ اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم سے معاملات کو درست کرنے میں بہت حد تک مدد ملے گی۔ مگر ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ معاملات درست ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ویسٹر منسٹر میں بیٹھے ہوئے ریاست کے اعلیٰ ترین سیاسی اذہان کو کچھ اندازہ نہیں کہ آنے والے چند برسوں میں ملک کو کس سمت اور کس طور لے جانا ہے۔
اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے، اُس کے نتیجے میں برطانیہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں بھی کشیدگی بڑھے گی۔ تین ہفتوں کے اندر یو کے انڈی پینڈنس پارٹی کا ایک رکن پارلیمنٹ کلیکٹن، ایسیکس میں ضمنی انتخاب کے بعد دارالعوام میں داخل ہونے والا ہے۔ ۲۰۱۵ء کے انتخابات تک یہ سوال ذہنوں میں گردش کرتا رہے گا اور ایوان میں بحث و تمحیص کے مرحلے سے گزرتا رہے گا کہ برطانیہ یورپی یونین کا حصہ بنے گا یا نہیں۔ یو کے انڈی پینڈنس پارٹی کے مطالبے کے مطابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اِس معاملے پر اِن آؤٹ ریفرنڈم کرانے کا عہد کیا ہے جبکہ پارٹی کی دو اہم شخصیت ایڈ ملی بینڈ اور نک کلیگ اِسے نظر انداز کرتی ہیں۔
پارلیمانی سیاست اور ریفرنڈم کی سیاست میں بہت فرق ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں منعقدہ ریفرنڈم نے بہت کچھ سکھایا ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے لوگ آزادی کے بہت قریب پہنچ گئے تھے مگر اُنہیں خوفزدہ کیا گیا۔ مراعات دے کر لبھایا گیا۔ اب سیاست اور بزنس لیڈرز یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ برطانیہ کے لیے یورپی یونین سے الگ رہنا ہی مفید ہوگا۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ کانٹی نینٹل یورپ سے ۴۱ سالہ تعلق نے برطانیہ کو کچھ بھی نہیں دیا۔
جب برطانیہ کے اتحاد پر ضرب پڑنے لگی تو ڈیوڈ کیمرون کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اُنہوں نے اسکاٹ لینڈ کو اضافی فنڈ اور مراعات دے کر بہلا پُھسلا لیا۔ مگر یورپی یونین سے وابستگی اختیار کرنے کے معاملے میں ڈیوڈ کیمرون سرد مہری پر مبنی رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی قوم کو باور کراتے رہتے ہیں کہ یورپی یونین سے جُڑنے میں نقصان کے سِوا کچھ نہیں۔
برطانیہ نے اسکاٹ لینڈ کے لیے جن مراعات اور آئینی اصلاحات کا وعدہ کیا ہے، اُن پر عمل کرنے کے معاملے میں کیمرون، ایڈ ملی بینڈ اور نک کلیگ کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یورپی یونین سے اس کا تعلق مزید کشیدہ ہو جائے۔ برطانیہ کو ابھی بہت کچھ دیکھنا اور جھیلنا ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں لوگوں نے آزادی کے خلاف ووٹ دیا ہے، مگر اِس سے برطانیہ کو کچھ خاص ملے گا نہیں۔
“The UK’s problems have just begun”.
(“The Globalist”. Sep. 19, 2014)
Leave a Reply