
تم لوگ ایک ایسی قوم سے جنگ لڑ رہے ہو جس کے ایمان کی نظیر اس کرۂ ارض پر موجود نہیں! جو اپنی تاریخ‘ اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت پر فخر کرتی ہے! اس کے پاس مادی قوت‘ مہارت‘ علم حوصلہ‘ تخیل اور عزم و ہمت بھی موجود ہے! آنے والے دنوں میں مقابلہ ہمارے اور تمہارے بیچ ہوگا۔ ان شاء اللہ!
یہ الفاظ حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل شیخ حسن نصراللہ کے ہیں۔ اس قسم کی باتیں مشرقِ وسطیٰ میں ایک طویل عرصے سے نہیں سنی گئیں۔ یہ وہاں اس عزم کے ظہور کی جانب اشارہ زن ہیں کہ اب کوئی ناانصافی خاموشی سے برداشت نہیں کی جائے گی‘ جو عربوں اور مسلمانوں کی عادت ہے‘ بلکہ اب ہرجابر کے خلاف کھڑے ہوکر اسے شکست سے دوچار کیا جائے گا۔ اس پر امریکا اور اسرائیل کو ہونے والی پریشانی کی تفہیم کافی آسان ہے۔ اب تک یہ دونوں مشرقِ وسطیٰ میں ایسے حکمرانوں سے نمٹتے رہے ہیں جن کی قیادتی کمتری مسلّم تھی اور جن کی زبانوں پر ہمیشہ خوش آمد اور دلوں میں خوف اور بزدلی رہی لیکن آج غزہ اور لبنان میں انہیں جنگجو‘ بے باک اور پرعزم قسم کے عناصر کا سامناہے۔ اس لیے یہ وہی کچھ کررہے ہیں جو انہیں آسانی سے کرنا آتا ہے یعنی شام اور ایران پر الزام تراشی! اوریہ الزامات بھی شدید دروغ گوئیوں پر مبنی ہیں! اس حوالے سے سی این این والے ان کو خصوصی مدد کررہے ہیں جبکہ بی بی سی تو ان کی اس مدد میں سی این این سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ لوگ یہ سمجھنے سے انکار کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ غزہ اور بیروت پر ہونے والے حملے حماس اور حزب اللہ کو تباہ کرنے کی بجائے مزاحمت کی آگ کو مزید ایندھن فراہم کررہے ہیں۔ غزہ میں ہونے والی اس قدر تباہ کاریوں اور قتل و غارت گری کے بعد حماس کی حمایت وہاں معدوم ہوجانی چاہیے تھی لیکن ان تمام کارروائیوں پر اثر بالکل الٹا ہوا ہے۔ فلسطینی حماس کے جھنڈے تلے جمع ہورہے ہیں۔ لبنان کے شہروں پر دن رات جاری رہنے والی مسلسل بمباری کے بعد لبنانی عوام کو حزب اللہ سے متنفر ہوجانا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ حسن نصراللہ وہاں ایک ہیرو ہیں کیونکہ حزب اللہ نے جو بقول رابرٹ فسک۔
’’دنیا کی مضبوط ترین گوریلا فوج ہے‘‘ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی ہمت اور طاقت دکھائی ہے۔
ایک طرف حزب اللہ ہے جو ایک قوی عزم رکھتی ہے اور نہایت پُرہیبت دشواریوں سے مقابلے کے لیے بھی تیار ہیں اور دوسری طرف دیگر مسلم اور عرب اقوام ہیں جن کی ناتوانی قابلِ رحم معلوم ہوتی ہے۔ ان دونوں کا یہ باہمی فرق حیران کن ہے۔
فلسطینیوں اور لبنانیوں کے لیے کچھ کر دکھانے کی خواہش کی بجائے مسلم دنیا کے بادشاہ اور آمر حکمراں حزب اللہ سے ناراضگی ظاہر کررہے ہیں کیونکہ یہ ان کی بے بسی سامنے لے آئی ہے۔اردن کے بادشاہوں اور مصر کے صدور نے تو اسرائیل کے ساتھ ایک عرصہ قبل ہی دوستی گانٹھ لی تھی۔ یہ دونوں اب امریکی مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں اور ان میں اسرائیل سے مقابلے یا پھر امریکی ناراضگی مول لینے کی کوئی ہمت ہی نہیں! مزاحمت کا تصور ان کے لیے کیسے قال قبول ہوسکتا ہے؟
نیویارک سے شائع ہونے والے ایک یہودی روزنامے دی فارورڈ میں اوری نیر نے لکھا ہے کہ ’’واشنگٹن میں اینٹی ڈی فیمیشن لیگ کے نیشنل ڈائریکٹر اور یہودی کمیونٹی کے رہنما ابراہم فاکس مین نے اسرائیل کے خلاف سرحد پار حملہ کرنے اور دو اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کرکے اس موجودہ بحران کا آغاز کرنے پر سعودی عرب کی جانب سے حزب اللہ کی مذمت کیے جانے کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سعودی سفیر ترکی الفصیل سے ملاقات کی جو ایک غیرمعمولی بات ہے۔‘‘
اسی تحریر میں یہ بھی درج ہے کہ ’’یہودی حلقے کہتے ہیں کہ وہ سعودی عرب ‘ مصر اور اردن جیسے عرب ممالک کی جانب سے ظاہر کیے گئے ردعمل پر کافی خوش ہیں۔‘‘
عربوں اور مسلمانوں کی اجتماعی کم ہمتی اور ناتوانی کا جواب حسن نصراللہ کچھ ان الفاظ میں دیتے ہیں’’جہاں تک عرب حکمرانوں کا تعلق ہے تو ان سے میں ان کی تاریخ کے بارے میں سوال نہیں کرنا چاہتا۔ صرف چند باتیں کہنا چاہوں گا۔ہم مہم جو سہی لیکن مہم جو ہم ۱۹۸۲ء کے بعد سے بنے ہیں اور اپنے ملک کے لیے ہم نے فقط فتح‘ آزادی‘ حریت‘ وقار‘ عزت اور فخر جیسی چیزیں جیتی ہیں۔ ۱۹۸۲ء میں ہمیں دیوانہ کہا جاتا تھا لیکن ہم نے اپنی منطق اور حقیقت پسندی ثابت کی ہے۔ سو دیوانہ پھر کون ٹھہرتا ہے؟ میں انہیں صر ف اتناکہتا ہوں کہ یہ لوگ اپنی فہم و دانش پر تکیہ کرلیں اور ہمیںاپنی مہم جوئی میں رہنے دیں!ہمارا حامی و ناصر ہمارا خدا ہے۔ ان لوگوں پر کبھی ایک دن کے لیے بھی بھروسہ نہیں کیا۔ ہمارا اعتبار ہمیشہ اپنے خدا‘ اپنے عوام‘ اپنے دلوں‘ اپنے ہاتھوں اور اپنے بچوں پر رہاہے۔ آج بھی ہم یہی کررہے ہیں اور انشاء اللہ جیت ہماری ہوگی!‘‘
ایسے پریشان کن حالات دنیائے اسلام میں اقتدار پر قابض کٹھ پتلی حکمران کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟
پاکستان کی مثال بھی ذرا ملاحظہ کیجیے۔ اس کی چھ لاکھ افواج ہیں‘ جوہری قوت بھی اسے حاصل ہے اور دور مار میزائل بھی اس کے پاس موجود ہیں۔ پاکستانی عوام کے دل چاہے غزہ اور لبنان میں مشکلات کے شکار اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے ہی کیوں نہ دھڑک رہے ہوں لیکن یہاں کی حکومت نے اس صورتحال پر احتجاج کا کوئی واحد کلمہ بھی منہ سے نہیں نکالا ہے۔ لبنان کی صورتحال پر اس کی جانب سے تبصرے بھی حتی الامکان نرم ترین الفاظ میں کیے گئے۔ ایک ایسی حکومت سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے جس کے وزیر خارجہ نے گزشتہ برس استنبول میں اپنے اسرائیلی ہم منصب کے ساتھ ایک بڑی خوشگوار ملاقات کی تھی اور جس کے صدر نے غزہ سے اسرائیلی ’’انخلاء‘‘ کو نہایت سراہا تھا!
(گزشتہ روز اخبارات میں ایک تصور شائع ہوئی جس میں انسدادِ دہشت گردی سے متعلقہ اہلکاروں کے اعزاز میں دی گئی ایک تقریب میں پاک فوج اور پولیس کے افسران کے بیچ امریکی سفیر کو نشستہ دکھایا گیا تھا۔ امریکی سفیر کے تاثرات بالکل ایسے تھے کہ جیسے کوئی اپنے نہایت سدھائے ہوئے کتے کو ساتھ لیے بیٹھا ہو۔ یہ تقریب اور اس میں امریکی سفیر کی شمولیت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب اسرائیلی بلکہ درحقیقت امریکی بم لبنان پر موت برسارہے ہیں۔ صحیح اور غلط نظاروں کی تفریق شاید ہمیں بہت دیر میں سمجھ آئے گی!)
مسلم دنیا میں حزب اللہ واحد قوت ہے جو اسرائیل پر فتح پاسکتی ہے۔ سن دو ہزار میں بھی اس نے اسرائیل کو جنوبی لبنان سے پسپائی پر مجبور کردیا تھا۔ اب بھی جبکہ اسرائیل لبنان کی فضائوں میں قابض ہے اور آبی نظام میں بھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرچکا ہے‘ حزب اللہ اسرائیلی فوج سے خود کو برتر ثابت کررہی ہے۔ اس نے اسرائیل کے جدید جنگی ہیلی کاپٹر پر حملہ کرکے اسے ناکارہ کیا ہے جو اس کی ایک اور فتح ہے۔
اسرائیلی فوج وہ تمام فوجی سازو سامان رکھتی ہے جو امریکی ذخائر میں موجود ہیں۔ اسی لیے اس کی فوج بھی دنیا کی مؤثر ترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ عرب دنیا کی مجموعی افواج پر بھی اسے برتری حاصل ہے لیکن اس کے باوجود جنوبی لبنان میں حزب اللہ کا مقابلہ اس کے لیے دشوار ہے۔
اسرائیل کس چیز کے حصول کی امید رکھتا ہے؟ بے گناہ شہریوں کی جتنی تعداد یہ چاہے ہلاک کرسکتا ہے اور اب تک کی اندھا دھند بمباری میں یہ چھ سو سے زائد افراد ہلاک کربھی چکا ہے۔ تاہم حزب اللہ کو شکست دینا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا کیونکہ یہ فوج ایک سائے کی طرح ہے۔ یہ حملہ تو کرلیتی ہے لیکن اسے ڈھونڈنا آسان نہیں۔ اگر جنگ دیگر ذرائع سے سیاست کے تسلسل کا نام ہے تو اس معاملے کی سیاست سمجھنا بہت مشکل ہے۔
جس طرح عراق پر امریکی حملے اور قبضے سے ایرانی مفادات کی تکمیل ہوئی تھی (کیونکہ ایران کے دشمن صدام حسین کو منظر سے ہٹا کر عراق میں ایرانی اثر و رسوخ کو بڑھنے کا موقع دیا گیا) اسی طرح لبنان پر کیا گیا حملہ بھی اسرائیل کے فائدہ مند ثابت ہونے کے بجائے لبنان کی شام مخالف حکومت کی حیثیت کی بیخ کنی پر منتج ہورہا ہے اور اس سے حسن نصراللہ کی قامت بھی نہ صرف لبنان بلکہ پوری مسلم دنیا میں بہت بڑھ گئی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک شدید لڑائی کے بعد سیاہ پگڑیا ور چشمہ پہنے حسن نصراللہ کے پوسٹرز ساری غزہ کی پٹی میں جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ مظاہرین حزب اللہ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ مغربی کنارے میں فلسطینی حزب اللہ کے المنارٹی وی پر حسن نصراللہ کی تقاریر سنتے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ جنگ کے حالات بھی اس کے ذریعے معلوم کیے جاتے ہیں۔‘‘
حماس بنیادی طور پر ایک سنی تنظیم ہے جبکہ حزب اللہ میں زیادہ تر شیعہ ہیں لیکن اس تنظیم کے حمایت اس فرقہ وارانہ تفریق سے بالاتر ہوکر ظاہر کی گئی ہے۔ دنیائے اسلام میں (اشرافیہ طبقات نہیں بلکہ) مسلمان عوام کے لیے قابل نفرت و مذمت افراد کی کوئی کمی نہیں لیکن اب ایک نئی چیز کا ظہور ہورہا ہے۔ ایسے بہادر افراد کی ایک کہکشاں سامنے آرہی ہے جن پر مسلمان عوام بجا طور پرفخر کرسکتے ہیں۔عراقی مزاحمت امریکی طاقت کا مضحکہ اڑا چکی ہے‘ لبنان میں حسن نصراللہ اور حزب اللہ جیسی شاندار تنظیم ہے غزہ کی پٹی میں حماس موجود ہے جو یکساں شجاعت رکھتی ہے‘ افغانستان میں بھی بغاوت و مزاحمت جاری ہے اور کوئی پسند کرے یا نہ کرے لیکن شیخ اسامہ بن لادن بھی وہیں سے ہیرو بن کر ابھرے ہیں۔
۱۱/۹ کے بعد امریکا اگر اپنی باجواز برانگیختگی کے باوجود تحمل اور وقار کا مظاہرہ کرتا تو اسے اخلاقیات کی بلندیاں چھونے کا موقع میسر ہوسکتا تھا۔ اگر وہاں اقتدار بصیرت رکھنے والے عناصر کا ہوتا تو ایسا ہو بھی جاتا۔ لیکن امریکا کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس وقت وہاں چھوٹے ذہن کے مالک افراد پر مبنی ایک ایسا جتھہ اقتدار پر قابض تھا جس نے اتنے بڑے سانحے کو نہایت مختصر المیعاد فو ائد کے حصول کے لیے استعمال کیا اور یوں وہ سارا بجا اور باجوازغم و غصہ سطحی ذہنیت کی انتقام پرستی تک محدود ہوکر رہ گیا اور اس حماقت کے گوانتے نامو‘ ابو غریب اور عراق پر حملے کی غلطی جیسے نتائج ہم ملاحظہ کرہی چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی سے لے کر لبنان اور پھر عراق و افغانستان تک مزاحمت اور سرکشی کا جو ایک سلسلہ پھیلا ہوا ہے وہ اسی صورتحال کا براہ راست نتیجہ ہے۔ یوں ایک بہترین موقع ایک کابوس کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ بقول بائرن ’’مجھے ملنے والے خار میرے خود کاشتہ پودے کے ہی ہیں۔‘‘
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۲۱ جولائی ۲۰۰۶)
Leave a Reply