دنیا میں شاید ہی اتنا کسی کے خلاف لکھا‘ پڑھا اور بولا گیا ہو جتنا امریکا کے خلاف۔ امریکا کے خلاف بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ امریکی رہنمائوں کے پتلے جلائے گئے ہیں‘ امریکی پرچم جلائے گئے ہیں اور انہیں پائوں تلے روندا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ خدا کو ماننے والے ہوں‘ سیکولر ہوں یا کمیونسٹ ہوں‘ امریکا مخالفت میں سب ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ علماء‘ سیاسی رہنما‘ مزدور‘ کسان‘ شاعر‘ ادیب اور یہاں تک کہ ریڑھی تانگے والے سبھی امریکا کو برا بھلا کہنے والوں میں شامل ہیں۔ دنیا کی ہر زندہ زبان میں امریکا کے خلاف نعرے سنائی دیتے ہیں‘ کہیں “Down with America” ہے‘ کہیں ’’مردہ باد امریکا‘‘ کہیں ’’الموت الامریکا‘‘ ہے‘ کہیں ’’مرگ بر امریکا‘‘ ہے اور کہیں اس کا ہم معنی کوئی اور جملہ۔ دنیا کا کون سا براعظم ہے‘ دنیا کا کون سا خطہ ہے‘ دنیا کا کون سا ملک ہے اور دنیا کا کونسا علاقہ ہے جہاں امریکا کے خلاف مظاہرے نہیں ہوئے۔ امریکا کے خلاف اور اس کی پالیسیوں کے خلاف افریقا اور ایشیا میں ملین مارچ تو کوئی چونکا دینے والی خبر نہیں رہی تھی لیکن اس کے اتحادی یورپ کے اہم شہروں میں اس کے خلاف ملین نہیں ملینز مارچ کی خبر واقعاً انگشتِ بدنداں کر دینے والی تھی۔ چار‘ پانچ ملین انسان کسی یورپی ملک میں جمع ہو جائیں تو یہ بلاشبہ حیران کر دینے والی حقیقت ہے اور یہ امریکی پالیسیوں کی خلاف احتجاج کر رہے ہوں تو دنیا کا ایک اَن پڑھ گنوار بھی اس خبر پر چونک اٹھے گا اور اس کی وجہ دریافت کرے گا کہ اتنی اور اس پیمانے پر ملامت اور اس وسعت کے ساتھ نفرت کسی اور قوم یا ملک کے حصے میں نہیں آئی۔
بات یہیں پر نہیں ختم ہو جاتی‘ بے چارے امریکی دنیا کے بیشتر حصوں میں غیرمحفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ جس ملک نے حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ اپنے شہریوں کو دوسرے ملکوں میں جانے سے روکا ہے یا انہیں الرٹ کیا ہے یا انہیں کوئی ملک چھوڑنے کی ہدایت کی ہے‘ وہ امریکا ہے۔ امریکی جہاں جاتے ہیں‘ خوف و وحشت کے سائے ان کے ساتھ ساتھ جاتے ہیں۔ امریکی سفارتکاروں کے بیرونِ ملک دورے سب سے مہنگے ہوتے ہیں۔ بہت سے دوروں سے پہلے سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کے لیے خود امریکی اداروں کے نمائندے متعلقہ ممالک میں ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ دنیا کے بعض ممالک میں امریکی حکام خفیہ دورے کرتے ہیں اور ان کے پروگرام اچانک سامنے آتے ہیں۔ ایسا سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ اس امر کے باوصف ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی اور طاقتور فوجی مشینری امریکا کے پاس ہے‘ دنیا میں جس ملک کے سب سے زیادہ فوجی اپنے ملک سے باہر مامور ہیں‘ وہ امریکا ہے۔ امریکی فوجی طاقت کے قریب قریب بھی کسی اور ملک کی طاقت نہیں اور نہ ہی امریکی انٹیلی جنس جتنی موثر‘ وسیع اور مہنگی انٹیلی جنس کسی کے پاس ہے۔ امریکا کا حریف کہلانے کا زعم اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس سارے معاملے کے بارے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا امریکی عوام خود اپنے اور اپنے ملک کے بارے میں اس عالمی رائے عامہ اور اس گلوبل صورت حال سے بے خبر ہیں؟ کیا انہیں نوعِ انسانی کی اپنے بارے میں شدید نفرت کا علم ہے؟ کیا انہیں پتا ہے کہ ’’کہتی ہے ان کو خلقِ خدا غائبانہ کیا؟‘‘
سادہ دل امریکیوں کو امریکا سے باہر نکل کر جب اس نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں حیرت ہوتی ہے۔ وہ نفرت کرنے والوں کو گمراہ‘ وحشی‘ رجعت پسند‘ انتہا پسند اور دہشت گرد سمجھتے ہیں‘ اس لیے کہ ان کے میڈیا نے انہیں یہی بتا رکھا ہے۔
جن اہلِ نظر کی امریکا کے اندرونی اور داخلی حالات پر نظر ہے اور جنہوں نے امریکی عوام کے اندر گھل مل کر وقت گزارا ہے‘ وہ ایک بات پر متفق ہیں اور وہ یہ کہ امریکی عوام کو دنیا کے حالات اور اونچ نیچ کی خبر نہیں ہوتی۔ بظاہر سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم دنیا کی سیاست سے بالعموم بے خبر ہے۔ ان کے حکمران یا حکمران قوتیں دنیا میں کیا کر رہی ہیں اور ان کی پالیسیاں اور اقدامات کس کس قسم کا ردِعمل پیدا کررہے ہیں‘ امریکی عوام عام طور پر اس سے آگاہ نہیں۔ امریکی ریاستوں کا داخلی میڈیا‘ ان کے مقامی ٹی وی چینلز‘ اخبارات اور جرائد نے ان کی فکر کو بہت محدود کر رکھا ہے۔ وہ انہیں مقامی خبروں اور واقعات میں مگن رکھتے ہیں۔ دنیا سے امریکی عوام کی بے خبری کی ایک اہم مثال یہ ہے کہ صدر بش سے ان کے پہلے صدارتی انتخابات کے دوران میں کسی نے ان سے بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم کا نام پوچھ لیا تو انہیں معلوم نہیں تھا۔ وہ خود ایک امریکی ریاست کے گورنر رہ چکے ہیں اور ان کے والد سینئر بش امریکا کے صدر رہ چکے ہیں۔ ایسے اہم سیاسی خاندان کے ایسے چشم و چراغ کی بیرونی معلومات کا یہ عالم ہے تو باقی عوام کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ: ’’قس علی ہذا القیاس‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ امریکا کے اوپر حکم فرما طاقتور سرمایہ داری نظام کا کیا دھرا ہے۔ دنیا میں بے پناہ دولت کے مالک اور سرمائے کے اندھے پجاری اپنی قوم کو اندھا اور بے خبر رکھے ہوئے ہیں۔ ان سرمایہ داروں کے سرمائے کا سب سے بڑا ذریعہ امریکا کی مقامی اسلحے کی انڈسٹری ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے قدرتی وسائل پر وہ بلاشرکت غیرے قبضہ چاہتے ہیں۔ بہت سے ملکوں کے وسائل کا بڑا حصہ ان کے بلاواسطہ یا بالواسطہ قبضے میں ہے۔ وہ اپنے مقابلے میں کسی اور قوت کو ابھرنے بھی نہیں دینا چاہتے۔ امریکی عوام کی روز مرہ کی ضروریات پوری کر کے وہ انہیں مست‘ مشغول اور غافل رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ وہ اپنے ہر مخالف کو جنونی‘ جاہل‘ رجعت پسند اور دہشت گرد قرار دے کر اس کا ناطقہ بند کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ حسبِ ضرورت اور حسبِ ذائقہ مذہب کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کر لیتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ باقی ساری دنیا میں خیر ہی ہے اور باقی دنیا اور امریکا مخالف سب لوگ اور قوتیں پاک دامن ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکا کی مقتدر قوتوں کا حقیقی مطمح نظر دنیا میں عدل و انصاف‘ انسانی حقوق اور جمہوریت نہیں۔ جہاں جمہوریت ان کے مفادات کے لیے مفید ہو‘ وہ حقیقی جمہوریت ہے وگرنہ نہیں۔ جہاں آمریت ان کی آلہ کار ہو‘ وہاں آمریت ہی کو روشن خیالی اور جمہوریت پسندی کا سرٹیفکیٹ عطا ہو جاتا ہے۔ دنیا میں کسی جگہ عوامی جدوجہد ان کی نظر میں آزادی اور حقوق انسانی کی جدوجہد ہے اور کہیں دہشت گردی ہے۔ اس صورتحال کا خمیازہ امریکی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور آئندہ ان کی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ قوموں کی نفسیات میں بس جانے والی نفرت ان کی نسلوں کو بھی منتقل ہو جائے گی۔ یہ ایک المناک اور وحشتناک صورتحال ہے۔
امریکا اور دنیا بھر کے دانشوروں کی یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ امریکی عوام کے خلاف موجود اس نفرت کے سدِباب کی فکر کریں۔
٭ امریکی عوام کو حالات کے پس منظر‘ دنیا کے واقعات کی تہوں میں موجود حقائق اور امریکی سرمایہ داری اور اس کے ہاتھوں میں موجود کٹھ پتلیوں کی کارستانیوں سے انہیں آگاہ کریں۔ وہ بھی ہماری اور آپ کی طرح کے انسان ہیں۔ انسانی روح اور فطرت ایک سی ہوتی ہے۔ بیدار ضمیر انسانوں کی روح اور فطرت ایک سی ہوتی ہے۔ بیدار ضمیر انسان ظلم و استحصال کو کبھی پسند نہیں کر سکتا۔ امریکی عوام کو دنیا کے دیگر عوام کے کاروان میں شریک کرنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ جانوروں پر بھی ظلم روا نہیں ہونا چاہتے وہ انسانوں پر ظلم کو کیسے پسند کر سکتے ہیں؟ ہاں البتہ انہیں حقائق سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’پیام‘‘۔ اسلام آباد۔ شمارہ۔ جنوری ۲۰۰۶)
Leave a Reply