انتخابی مہم کے دوران جو کچھ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، اس کے مقابلے میں ان کے اقدامات یقینی طور پر حیرت انگیز اور انقلابی ثابت ہونا تھے۔ کانگریس اور پروفیشنل بیورو کریسی کی طرف سے انہیں غیر معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا ہی تھا کیونکہ یہ دونوں غیر معمولی حد تک انٹرنیشنلسٹ ہیں۔ ٹرمپ کی کوشش یہ ہے کہ امریکا کے قومی مفادات کی حد سے آگے نہ دیکھا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پہلے گھر کی خبر لی جائے۔ اس کے بعد ہی باہر کی طرف دیکھا جائے۔ مثلاً شمالی امریکا فری ٹریڈ معاہدے کو ختم کرنے کی کسی بھی کوشش کا شدید ردعمل ہونا تھا۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ بین الاقوامی امور پر ٹرمپ کے خیالات کو کسی حد تک احترام کی نظر سے ضرور دیکھا جاتا تھا، تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس معاملے میں ان کی بصیرت برائے نام تھی۔ صدر منتخب ہونے والوں کو فوری طور پر معلوم نہیں ہو پاتا، مگر جب وہ کچھ مدت میں سیکھتے ہیں تب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ پالیسیاں تبدیل کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں احساس ہوتا جاتا ہے کہ پالیسیاں تبدیل کرنے کے لیے اپنے آپ کو بدلنا، بہت کچھ معلوم کرنا اور بہت کچھ سیکھنا لازم ہے۔ ٹرمپ کو بھی اب اندازہ ہوتا جارہا ہے کہ محض کوئی بیان داغ دینے اور حقیقت کی دنیا میں کھڑے ہوکر کسی فیصلے تک پہنچنے میں بہت فرق ہے۔
ٹرمپ نے کوشش کی ہے کہ اعتدال پسندوں کو آگے لایا جائے۔ جیمز میٹس اور دوسرے بہت سے اعلیٰ عہدیداروں کی تعیناتی اس امر کی طرف اشارہ تھی کہ وہ امریکا کے بانیوں کی سوچ کے مطابق چلنے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں، یعنی دنیا بھر میں مہم جوئی سے پہلے اپنے گھر کو درست کیا جائے۔
ٹرمپ نے اب تک جو بڑبولا پن دکھایا ہے، وہ ان کے اقدامات سے زیادہ بُرا ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے جنگی قیدیوں پر غیر معمولی اور انسانیت سوز تشدد کی اجازت دی ہے نہ ہی مشتبہ دہشت گردوں کے گھرانوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے چین پر ۴۵ فیصد ٹیرف بھی نہیں تھوپا۔ روس سے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے پر بھی اب تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، یعنی ایسے اقدامات خال خال ہیں جن سے کچھ مثبت برآمد ہوسکتا ہو۔ ٹرمپ نے افغانستان میں جاری جنگ کو لاحاصل اور بے مصرف قرار دیا تھا مگر اب تک تمام امریکی فوجیوں کو وہاں سے نکالنے کا حکم دینے میں بھی وہ ناکام رہے ہیں۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی عسکری موجودگی کو تھوڑا بڑھاکر جنگ کو کسی نہ کسی طور جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ امریکا اور میکسیکو کے درمیان دیوار تعمیر کرنے سے متعلق ان کی بڑھک بھی اب تک محض بڑھک ہی رہی ہے۔ یعنی یہ کہ بہت سے معاملات میں ٹرمپ نے بڑی بڑی باتیں ضرور کی ہیں مگر ان باتوں کو عملی روپ دینے میں وہ مجموعی طور پر ناکام ہی رہے ہیں۔
یورپی یونین، داعش اور دیگر بہت سے معاملات میں ٹرمپ کی پالیسیاں وہی ہیں جو اب تک رہی ہیں۔ وہ کوئی ایسی بڑی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں رہے جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ امریکی قیادت اپنا راستہ بدل رہی ہے۔ ٹرمپ نے شام کے صدر بشارالاسد کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شراکت دار بنانے کی بات کی تھی، مگر عام شہریوں پر حملوں کے بعد انہوں نے گزشتہ برس بشارالاسد کی فورسز پر میزائل حملوں کا حکم دے کر ثابت کردیا کہ پالیسی میں تبدیلی کوئی آسان کام نہیں۔ ٹرمپ نے گزشتہ برس کے اوائل میں بشارالاسد کو اپنانے کی بات کی تو وہ یہ سمجھے کہ امریکا نے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔
روس سے تعلقات بہتر بنانا ٹرمپ کی خواہش رہی ہے۔ انہوں نے پابندیاں ہٹاکر روس سے معاملات بہتر بنانے کی بات کی تو کانگریس کی طرف سے انہیں غیر معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ ایوان نمائندگان نے قیدیوں پر تشدد ڈھانے اور سی آئی اے کی بلیک سائٹس کو بحال کرنے کی طرف قدم بڑھایا مگر بین الاقوامی دباؤ کے باعث پیچھے ہٹنا پڑا۔
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے جو بڑی بڑی باتیں کی تھیں وہ اب سنائی نہیں دیتیں۔ وہ اپنی مرضی سے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں مین اسٹریم کی طرف جانا پڑا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے لیے مین اسٹریم سے ہٹ کر کچھ بھی کرنا کس قدر دشوار ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے امریکی پالیسیوں میں جن تبدیلیوں کا عندیہ دیا تھا وہ سب ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اور اس کا اندازہ ٹرمپ کو بھی ہوچکا ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں اب بھی بڑھک مارنے سے باز نہیں آتے مگر زمینی حقائق کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
مگر خیر، ایسا نہیں ہے کہ ٹرمپ نے اپنی مرضی اور بیانات کے مطابق کچھ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ وہ بہت سے معاملات میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کو وہی خارجہ پالیسی اپنانی ہے جو انہیں بناکر دی گئی ہے۔ پھر بھی انہوں نے اپنی ٹیم تشکیل دیتے وقت اس بات کا خیال رکھا کہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور کرسکیں۔ اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس حوالے سے تھوڑے کامیاب رہے ہیں۔ پالیسیوں اور اقدامات کے درمیان تنازع دکھائی دے رہا ہے، جو اس بات کا مظہر ہے کہ ٹرمپ کے لیے سب کچھ نہ تو آسان ہے نہ مشکل۔
امریکی پالیسی ساز اس امر پر بہت زور دیتے رہے ہیں کہ امریکا الگ تھلگ نہ رہے یعنی بین الاقوامی امور میں غیر معمولی حد تک اپنا کردار ادا کرے، عالمی اداروں کا کلیدی حصہ ہو، اس کا کردار نمایاں ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکا اپنی ٹیکنالوجی سے محض فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی فائدہ اٹھانے دے۔ دوسری طرف ٹرمپ کا نظریہ یہ رہا ہے کہ امریکا کو اپنے مفادات پر سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکا اپنی ٹیکنالوجی سے اپنے فائدے کا سوچے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکا نے بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ بن کر دوسروں کا فائدہ اور اپنا نقصان کیا ہے۔ پالیسی سازوں کی سوچ یہ رہی ہے کہ امریکا دوسروں کو زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے گا تو خود اسے بھی خاصا فائدہ پہنچے گا۔ دوسری طرف ٹرمپ کا خیال ہے کہ بین الاقوامی تعلقات وغیرہ سے کچھ نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ امریکا کی صرف اپنے مفادات پر متوجہ رہے اور دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچنا چھوڑ دے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کی حیثیت سے اپنے افتتاحی خطاب میں بھی یہ نکتہ زور دے کر بیان کیا تھا کہ امریکا کو اپنے مفادات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ساری دنیا میں کوئی کردار ادا کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ اپنی سلامتی کا معیار بلند کرنے اور اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ دینے پر توجہ دی جائے۔ ستمبر میں جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی ٹرمپ نے یہی بات کہی۔ دنیا کو اندازہ ہوگیا کہ وہ امریکی مفادات کو ہر شے پر مقدم رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں امریکا کی مداخلت جاری رہے، کیونکہ اسی سے امریکا کی سپر پاور کی حیثیت برقرار ہے۔ اگر امریکا الگ تھلگ ہو رہے گا تو دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی طاقتوں کو اپنا کردار بڑھانے کا موقع ملے گا جو بالآخر امریکا کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔
ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکا اندرونی سطح پر دیکھنے کا عادی ہوجائے۔ قوم پرستی اور وطن پرستی کو باقی تمام امور پر بالا دستی حاصل ہو۔ ان کا بنیادی تصور یہ ہے کہ امریکا نے دنیا بھر میں کمٹمنٹس بڑھاکر اپنے لیے اچھا خاصا دردِسر پیدا کیا ہے۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ باقی دنیا کو چھوڑ کر صرف اپنے گھر کو دیکھا جائے۔ وہ امریکا کی بین الاقومی کمٹمنٹس گھٹانا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں امریکا کے لیے ہر معاملے میں دخل دینا، دلچسپی لینا لازم ہے نہ سودمند۔
امریکی پالیسی ساز اس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ امریکا جیسی قوت کے لیے کسی بھی بڑے معاملے سے الگ تھلگ رہنا کسی بھی طور ممکن نہیں۔ آج کی دنیا میں حکومتیں، کاروباری ادارے اور غیر روایتی ایکٹرز ایک ایسے ماحول میں کام کرتے ہیں جس میں بہت کچھ مل جل کر ہی کیا جاتا ہے۔ اگر امریکا کو آگے جانا ہے یا اپنی موجودہ حیثیت برقرار رکھنی ہے تو مل جل کر کام کرنا پڑے گا۔
امریکی تجزیہ کار بھی اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ آج کی دنیا میں سب کچھ کھل کر ہی کرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی معاملے میں لیے دیے رہیے تو بات بنتی نہیں۔ عالمی سطح پر ایک کھیل کا میدان ہے جس میں سبھی کو حصہ لینا پڑتا ہے۔ جو اس میدان میں کھل کر سامنے آنے سے گریز کرتا ہے اس کے لیے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اس میدان میں ہار بھی ہے اور جیت بھی۔ حالات بدلتے ہیں تو محنت کے نتائج بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔
ٹرمپ نے کینیڈا، جاپان، چین، جنوبی کوریا اور دیگر معاشی قوتوں کے مقابل خالص کاروباری سوچ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب وہ ہر معاملے کو کاروباری سطح پر دیکھنا، پرکھنا اور برتنا چاہتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ بہت اچھا دکھائی دیتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پورا کھیل بعد میں نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ٹرمپ کی کوشش رہی ہے کہ اس تنظیم کے دائرے سے الگ رہتے ہوئے کچھ کیا جائے۔ وہ اس بات کے حق میں ہیں کہ امریکا کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے اسٹیل کی درآمدات پر بلند ٹیرف نافذ کیا جائے۔ انہیں اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ ایسا کرنے سے امریکا کے لیے عالمی معیشت میں چند ایک مشکلات بھی پیدا ہوں گی۔ جب امریکا کسی ملک سے درآمدات پر اضافی ڈیوٹی یا ٹیکس نافذ کرے گا تو دوسرے ممالک بھی ایسا ہی کریں گے۔ یوں امریکی برآمدات زیادہ پرکشش نہیں رہیں گی۔ امریکی قیادت کو یہ بات سمجھنا ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ کہنے کو تو بہت اچھا ہے۔ امریکا میں بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ باقی دنیا میں گم رہنے کے بجائے اپنے ملک میں گم رہا جائے، اس پر زیادہ توجہ دی جائے مگر یہ صرف کہنے کی حد تک ممکن دکھائی دیتا ہے۔ آج کی دنیا میں کسی سپر پاور کے لیے الگ تھلگ رہنا اپنی سپر پاور کی حیثیت کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔
جو کچھ ٹرمپ کر رہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں وہ نیا نہیں۔ ان کے متعدد پیش رَو ایسا کرچکے ہیں۔ امریکا کو جب بھی تجارت کے میدان میں خسارے کا سامنا ہوتا ہے تب وہ ایسے اقدامات کرتا ہے، جن سے درآمدات مہنگی ہوجائیں۔ کئی ممالک سے درآمدات پر امریکا نے ڈیوٹی عائد کرکے اپنی صنعتوں کو زیادہ فروغ اور ترقی دینے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر یہ سب کچھ اس طور نہیں کیا گیا کہ امریکا کی اپنی پوزیشن ہی داؤ پر لگ جائے۔ ایسے تمام اقدامات نہایت باریکی سے کیے جاتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ عالمی سطح پر کسی کو زیادہ بُرا بھی نہ لگے اور معاملات اس حد تک نہ بگڑیں کہ انہیں درست کرنا انتہائی دشوار ہو جائے۔
ٹرانس پیسفک ٹریڈ، پیرس معاہدۂ ماحولیات اور دیگر بہت سے معاملات میں امریکی پالیسی سازوں نے قومی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے پر توجہ دی ہے۔ کوشش یہ رہی ہے کہ معیشت کو زیادہ دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے، مگر اس معاملے میں یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ امریکی اقدامات سے کوئی بھی ملک زیادہ بد دل نہ ہو۔ امریکی پالیسی ساز سابق صدور کی رہنمائی کرتے رہے ہیں کہ وہ کس کس طرح امریکی معیشت کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرسکتے تھے۔ بل کلنٹن اور اوباما کے ادوار میں امریکا کو بہتر انداز سے معیشت مستحکم کرنے کے مواقع ملے۔ بل کلنٹن نے خاص طور پر ایسے بہت سے اقدامات کیے جن کے نتیجے میں امریکی معیشت کو مستحکم ہونے کا موقع ملا۔
ٹرمپ نے اب تک جو کچھ کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امریکا کو بین الاقوامی معاملات میں بہت زیادہ آگے بڑھتا ہوا اور بہت سے معاملات میں خواہ مخواہ الجھتا ہوا دیکھنے کے خواہش مند نہیں۔ ان کی سوچ ایک خاص حد تک درست ہے مگر پالیسی ساز اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ امریکا اگر آج سپر پاور ہے تو بین الاقوامی امور میں سب سے زیادہ نمایاں کردار ادا کرنے ہی کے نتیجے میں۔ پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ امریکا عالمی امور میں اپنا قائدانہ کردار جاری رکھے اور اس معاملے میں ٹرمپ زیادہ تجربے کرنے سے گریز کریں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
(۔۔۔جاری ہے!)
“The unexceptional superpower: American grand strategy in the age of Trump”.(“iiss.org”. November 20, 2017)
Leave a Reply