فلاح سوچنے والا اتحادی
ایک تصور یہ ہے کہ چند ہم خیال اقوام ہیں جن کے ساتھ مل کر امریکا کو مفادات کے تحفظ کے لیے کوششیں کرتے رہنا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس تصور کے بھی خلاف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیلمرسٹن نے کہا تھا کہ بین الاقوامی امور میں دائمی دوست ہوتے ہیں نہ دائمی دشمن۔ صرف دائمی مفادات ہوتے ہیں مگر پھر بھی چند ایک اقوام کے ساتھ ہر حال میں دوستی رکھنا پڑتی ہے کیونکہ خیالات، پالیسیوں اور مفادات کی یکسانیت ایسا کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ امریکا جن ممالک سے دوستی کا حامل ہے ان کی اکثریت یورپ اور ایشیا بحرالکاہل میں ہے۔ یہ اقوام جمہوریت اور لبرل ازم کے حوالے سے امریکا سے خیالات و تصورات میں ہم آہنگ ہیں اور یہی دوستی اور اتحاد کی بنیاد بھی ہے۔
ٹرمپ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے نیٹو میں امریکی اتحادیوں کو بھی چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض مقامات پر انہوں نے خاصا توہین آمیز رویہ اختیار کیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ امریکا سے بہت کچھ لیا جارہا ہے مگر اسے جواب میں کچھ نہیں دیا جارہا۔ پیرس میں ماحول سے متعلق کانفرنس کا یہی معاملہ تھا۔ امریکی پالیسی سازوں کے لیے یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ ٹرمپ ایک زمانے کے پکے اتحادیوں کو بھی ناراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایک طرف تو انہوں نے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف جھکاؤ دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور دوسری طرف یورپی اتحادیوں کو ناراض کرنے والی حکمتِ عملی اپنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ یورپ کی جو اقوام اب تک امریکا کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں، ان کے لیے بھی ٹرمپ نے کچھ زیادہ لگاؤ اور جھکاؤ کا مظاہرہ نہیں کیا۔
شمالی کوریا کے معاملے میں امریکا نے جنوبی کوریا کے حوالے سے بھی ایسا رویہ نہیں اپنایا جسے قابل ستائش قرار دیا جاسکے۔ شمالی کوریا کی طرف سے ایٹمی حملے کی دھمکی کے جواب میں امریکا نے جو کچھ کیا ہے، وہ جنوبی کوریا کو بھی ناراض کرنے کا سبب بنا ہے۔ جنوبی کوریا کی قیادت کو یقین تھا کہ ٹرمپ کچھ ایسا کریں گے جس سے خطے میں استحکام پیدا ہو مگر اب تک ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں یہ تصور کیل کی طرح ٹُھکا ہوا ہے کہ دنیا بھر میں بہت کچھ اگر سہا ہے تو امریکا نے اور سارے فوائد اگر بٹورے ہیں تو اتحادیوں نے۔ ان کے خیال میں امریکا جو کچھ کر رہا ہے اس کے لیے اسے اتحادیوں کی ضرورت نہیں۔ یعنی وہ تنہا بھی بہت کچھ کرکے بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ کے ذہن میں یہ آئیڈیا بھی راسخ ہے کہ امریکا کو اتحاد اور دوستی کے بجائے لین دین کا رویہ اپنانا چاہیے، یعنی اگر کوئی ملک امریکا کے ساتھ چلنا چاہتا ہے تو لین دین کی بنیاد پر چل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوستی اور اتحاد کچھ لو اور کچھ دو کے خالص کاروباری اصول کی بنیاد پر ہوگا۔ عالمی صورتِ حال کو سمجھنے کے حوالے سے ٹرمپ کی سوچ میں پائی جانے والی یہ بنیادی خامیاں معاملات کو الجھا رہی ہیں۔ امریکا کی طرف دوستی اور اتحاد کا ہاتھ بڑھانے والی بہت سی اقوام اب تذبذب میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ سمجھ چکی ہیں کہ ٹرمپ کی سوچ میں تبدیلی نہ آئی تو معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گی اور انہیں یعنی ان اقوام کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
ماضی میں جو ممالک امریکا کے اتحادی کی حیثیت سے کام کرنے کے عادی رہے ہیں، وہ بھی اب اپنی پالیسیوں کو تبدیل کر رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ بدلتی ہوئی دنیا میں پرانے تصورات نہیں چلتے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ جب تک ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں ہیں تب تک معاملات کو درست رکھنا انتہائی دشوار ثابت ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ دیرینہ اتحادی بھی امریکا سے دوری اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ ٹرمپ کی سوچ یہ ہے کہ امریکا کو مستقل اتحادیوں کی ضرورت نہیں یعنی یہ کہ جیسی صورتِ حال ہو، ویسا ہی طرزِ عمل اختیار کیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے معاملات بہتر طور پر نمٹائے جاسکتے ہیں۔ پالیسی ساز اِسے کوتاہ نظری ہی قرار دیں گے مگر ٹرمپ کی نظر میں یہ بہترین سوچ ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بازار میں جیسی صورتِ حال ہو ویسی ہی سوچ اپنانی چاہیے۔ یعنی جس چیز کے دام اچھے مل رہے ہوں اُسے بر وقت فروخت کیا جائے اور جس چیز کی کوئی وقعت نہ ہو اُسے خریدنے سے یکسر گریز کیا جائے۔
طاقت اور مقصد
امریکا نے اب تک خود کو جمہوریت اور بنیادی حقوق کا علمبردار قرار دیا ہے۔ وہ دنیا بھر میں لبرل ازم کی اقدار کو فروغ دینے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ امریکا کو لوگ فری ورلڈ کی تابندہ ترین علامت کے طور پر دیکھتے ہیں مگر ٹرمپ کے خیال میں امریکا کو اب اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا دنیا بھر میں لبرل ازم، جمہوریت اور بنیادی حقوق کے چیمپین کی حیثیت سے کوئی کردار ادا کرنے کے بارے میں سوچنا ترک کردے اور اپنی جغرافیائی حدود یا زیادہ سے زیادہ علاقائی سطح تک محدود ہوکر سوچے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکا نے دنیا بھر میں جمہوریت کے فروغ اور آزاد معاشرے کے قیام کے حوالے سے جو کچھ کیا ہے اُس سے اُس کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکا اب اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ کچھ کم کرے اور اپنی اصلاح پر توجہ دے۔
ٹرمپ کا بنیادی خیال یہ ہے کہ امریکا نے دنیا بھر میں معاملات کو درست کرنے کا جو ٹھیکا لے رکھا ہے اور اس حوالے سے خدائی خدمت گار والا رویہ اپنایا ہے، وہ غلط ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکا پر ذمہ داریوں کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے جسے کم نہ کیے جانے کی صورت میں امریکی ریاست اور امریکی عوام دونوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا ساری دنیا کو درست کرنے کے بجائے محدود کردار ادا کرنے کی تیاری کرے اور اپنی اصلاح پر بھی غیر معمولی حد تک متوجہ ہو کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں خرابیاں بڑھیں گی اور معاملات مزید الجھیں گے۔
ٹرمپ کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکا نے دنیا بھر میں آزاد معاشرے کے قیام اور جمہوریت کو فروغ دینے کے معاملات میں الجھ کر اپنے لیے مزید کمزوری کا سامان کیا ہے۔ اُن کے خیال میں امریکی پالیسیوں کا بنیادی مقصد اپنے عوام کی خوش حالی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہونا چاہیے مگر اس مقصد کو حاصل کرنے کے بجائے امریکی پالیسی ساز لبرل ازم اور جمہوریت کو فروغ دینے کی کوششوں میں جتے رہنے کے نام پر اپنے لیے صرف مشکلات بڑھاتے رہے ہیں۔ امریکی پالیسیوں کا بنیادی مقصد اپنی خوش حالی اور سلامتی کا گراف زیادہ سے زیادہ بلند کرنا ہونا چاہیے مگر اس کے بجائے معاملات کو مزید خرابی کی طرف لے جایا گیا ہے۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ اب امریکا خدائی خدمت گار کا کردار ادا کرنا چھوڑ دے اور اپنے معاملات درست کرنے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے۔
ایک بنیادی مسئلہ باڈی لینگویج کا بھی ہے۔ ٹرمپ نے اب تک آمروں سے اچھا رویہ رکھا ہے اور جمہوری قائدین کو زیادہ احترام کی نظر سے دیکھنے سے گریز کیا ہے۔ انہوں نے روس اور چین کو انسانی حقوق کے حوالے سے ان کا کردار یاد دلانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ہے اور دوسری طرف انہوں نے عرب حکمرانوں کو جبر سے باز رہنے کی تلقین کرنے پر بھی توجہ نہیں دی۔ ہاں، جرمنی کی منتخب لیڈر اینجلا مرکل کو انہوں نے طنز و تشنیع کا ہدف بنانے سے گریز نہیں کیا۔ یہ رویہ اُن تمام ممالک کو امریکا سے بدظن کرنے کا باعث بن رہا ہے جو اَب تک واشنگٹن کے پالیسی سازوں سے مطمئن رہے ہیں۔ فلپائن کے صدر نے ماورائے عدالت ہلاکتیں یقینی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی مگر ٹرمپ نے انہیں سراہنا یاد رکھا ہے اور جمہوری قائدین کو بھول بیٹھے ہیں۔
ٹرمپ نے وینزویلا، ایران، شام اور شمالی کوریا میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت ضرور کی ہے مگر یہ سب کچھ محض بیان بازی کی حد تک ہے۔ اب تک انہوں نے ایسی جامع اپروچ نہیں بنائی، جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ صورتِ حال کو بہتر بنانے کے حوالے سے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ امریکی پالیسیوں میں بہت واضح تبدیلی چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکا نے اپنے کاندھوں پر کچھ زیادہ ہی بوجھ لے رکھا ہے۔ ایک طرف وہ جمہوریت کا علم بردار ہے اور دوسری طرف واحد سپر پاور کی حیثیت سے بھی اُس پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اُسے ہر معاملے میں برتری برقرار رکھنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ خالص علمی اور تکنیکی سطح پر بھی اُسے رو بہ عمل رہنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف سفارتی معاملات میں اُسے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اُس جیسی اپروچ کسی کی نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر عسکری اپروچ ہے۔ امریکا کا جتنا بھی بھرم ہے وہ محض طاقت کے وسیلے سے ہے۔ امریکی عسکری قوت دنیا بھر کی قوتوں سے زیادہ ہے۔ اِسی قوت کی بنیاد پر وہ اب تک واحد سپر پاور ہے مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ امریکا کو واحد سپر پاور ہونے کی قیمت بھی چکانا پرتی ہے۔ امریکی معاشرے کا حال بہت برا ہے۔ اس پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ ایک طرف دوست اور اتحادی ہیں تو دوسری طرف دشمن بھی کم نہیں۔ اور سچ یہ ہے کہ امریکا کو اب دوستوں سے کہیں بڑھ کر دشمنوں کی فکر لاحق ہے۔
ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ٹرمپ نے اس بات سے انکار کیا کہ امریکا اپنی طرز حکومت کو دنیا بھر میں پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ ہر آزاد اور خود مختار ملک کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ہر ملک کو اپنے معاملات درست کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ امریکا کو ساری دنیا میں جمہوریت، لبرل اقدار اور دیگر متعلقہ امور کی فکر لاحق ہو اس سے کہیں بڑھ کر اہم یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات درست کرنے پر متوجہ ہو۔ پولینڈ میں خطاب کے دوران انہوں نے مغرب اور انقلابی اسلام کے درمیان تہذیبی جنگ کی بات کی مگر اس معاملے میں زیادہ آگے جانے سے گریز کیا۔ ان کا خطاب اقدار تک محدود تھا۔
امریکا نے نصف صدی سے بھی زائد مدت کے دوران دنیا بھر میں بحرانوں اور دیگر معاملات کی شکل میں ابھرنے والے چیلنجوں کا سامنا کیا ہے۔ کسی بھی خطے میں ابھرتی ہوئی صورتِ حال پر ردِعمل دینے کے معاملے میں امریکا سب سے آگے رہا ہے اور اس معاملے میں چند ممالک نے اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ امریکا نے کسی بھی بحرانی کیفیت کا بھرپور جواب دینے کے معاملے میں جو کچھ کیا ہے اس کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ اس کے اتحادی بھی سمجھتے ہیں کہ امریکا نے بہت کچھ برداشت کیا ہے، اس لیے تھوڑا بہت بوجھ وہ بھی بخوشی برداشت کرلیتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ اب بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکی فوج پر دباؤ بہت زیادہ ہے۔ امریکی فوج چونکہ over-stretched ہے اس لیے ٹرمپ اور ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ بوجھ تھوڑا کم کیا جائے۔ روس اور چین چونکہ معاشی اعتبار سے اپنی پوزیشن زیادہ مستحکم کرنے میں مصروف ہیں اس لیے ٹرمپ اور ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ معاملات کو کچھ بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔
امریکا عالمی سطح پر جو کردار ادا کرتا آیا ہے وہ کسی بھی ایسے ملک کے لیے ناگزیر ہے، جو خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہو اور برتر ہو۔ امریکا چونکہ واحد سپر پاور ہے اس لیے اس حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے اُسے ایسا بہت کچھ کرنا پڑتا ہے جو اُس کی مرضی کا نہیں ہوتا۔ وہ چاہے تو بھی بہت سے معاملات میں اپنے کردار کو گھٹا نہیں سکتا۔ امریکا اور اس کے ہم خیال ممالک کے لیے لازم ہے کہ وسیع تر عالمی کردار ادا کرتے رہیں۔ اب تک امریکا کے لیے حقیقی اور جینیوئن اتحادی کا کردار یورپ نے ادا کیا ہے۔ دونوں مشترکہ طور پر مغرب کہلاتے ہیں۔ ہر معاملے میں دنیا اِن دونوں کی طرف دیکھتی ہے۔ علوم و فنون میں غیر معمولی دسترس کے حوالے سے امریکا اور یورپ کا کوئی ثانی نہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا، چین، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور چند دوسرے ممالک نے بھی آگے بڑھنے اور کوئی وسیع تر کردار ادا کرنے کے حوالے سے بہت کچھ کیا ہے مگر اس کے باوجود یہ امریکا سے پیچھے رہے ہیں۔ اور یورپ بھی اِن سے آگے رہا ہے۔ امریکی پالیسی ساز امریکا کے لیے وسیع تر عالمی کردار یقینی بنانے پر خاص توجہ مرکوز کرتے آئے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ امریکی قیادت کے لیے عالمی سطح پر جانا اور کچھ کر دکھانا انتہائی لازم ہے۔ یہ کردار وہ ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتے۔
امریکا اور یورپ مل کر عالمی سیاست میں جو کردار ادا کرتے ہیں اُس کے اگر بہت سے فوائد ہیں تو چند ایک بڑے نقصانات بھی ہیں۔ امریکا نے مشرق وسطٰی اور افریقا میں جو کچھ کیا ہے اس کے سنگین نتائج اب رونما ہو رہے ہیں۔ شمالی افریقا اور عرب دنیا سے نقل مکانی کرنے والوں کا رخ یورپ کی طرف ہے۔ اٹلی، جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی طاقتوں نے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو قبول کیا ہے مگر امریکا اس معاملے میں بھی خود کو استثنائی حیثیت کا حامل سمجھتا ہے۔ اس نے نقل مکانی کرنے والوں پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ اُسے اندازہ ہے کہ اگر اس نے نقل مکانی کرنے والوں کو بڑے پیمانے پر قبول کیا تو صرف خرابیاں بڑھیں گی اور امریکی معاشرے میں انتشار کا گراف بلند ہوگا۔
ٹرمپ نے امریکی پالیسی سازوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ عالمی لیڈر کا سہرا امریکا کے سر باندھنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب امریکا یہ سہرا سر سے اتار پھینکے۔ چین اور روس تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ ٹرمپ چاہیں گے کہ عالمی قیادت کی ذمہ داری یہ دونوں ممالک مل کر سنبھالیں اور امریکا کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کریں۔ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ امریکا اب عالمی قیادت کی ذمہ داری سے سبک دوش ہوکر اپنے گھر کو درست کرنے پر متوجہ ہو۔ عالمی سیاسی کردار ادا کرتے رہنے سے امریکا کو بہت کچھ برداشت بھی کرنا پڑا ہے۔ دہشت گردی کا گراف بلند ہوا ہے جسے نیچے لانے کی بھرپور علاقائی اور عالمی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بہت سے علاقائی اور عالمی معاہدوں سے امریکا کا پیچھے ہٹ جانا انتہائی خطرناک ثابت ہوا ہے۔ پیرس میں ماحول سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے امریکا کا پسپائی اختیار کرنا اِسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔ یہ پسپائی اس بات کی مظہر ہے کہ امریکا اپنے بین الاقوامی یا عالمی معاہدوں کے حوالے سے نئی اپروچ اختیار کر رہا ہے۔
عام خیال یہ تھا کہ امریکا نے عالمی قیادت کا فریضہ انجام دینا ترک کیا تو جاپان، جرمنی یا کوئی اور یورپی قوت آگے بڑھ کر یہ منصب سنبھالنا چاہے گی مگر سچ یہ ہے کہ چند خطرناک ایکٹرز بھی آگے آرہے ہیں۔ ٹرمپ کے صدر کی حیثیت سے منتخب ہونے کے بعد سے چینی قیادت اپنی قوم کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اب اسے عالمی قائد کی حیثیت سے اپنی پوزیشن منوانے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ چین نے عالمی قائد کی حیثیت سے تیزی سے آگے آنے کو ترجیح دی ہے۔
سفارت و سیاست میں بھی ٹرمپ نے نئی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ اس کے نتیجے میں دوستوں کی تعداد بڑھی ہے اور دشمن مزید برافروختہ ہوگئے ہیں۔ چینی قیادت چاہتی ہے کہ عالمی سطح پر بڑا کردار ادا کرے مگر ساتھ ہی ساتھ اُسے امریکا کی طرف سے جوابی کارروائی کا بھی خطرہ ہے۔ امریکا اگرچہ عالمی قائد کا کردار ادا کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا مگر وہ چاہے گا کہ کوئی اور ملک بھی اِس معاملے میں آگے نہ بڑھے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ چین کے راستے میں کانٹے بچھانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔
بہر حال، یہ معاملہ ایسا آسان نہیں کہ راتوں رات کچھ کا کچھ ہو جائے۔ اس وقت جو عالمی نظام کام کر رہا ہے اُس کی بنیاد امریکا اور یورپ پر ہے۔ اگر امریکا اپنا عالمی کردار ترک کرنے کو تیار ہے تب بھی اُسے میدان چھوڑنے نہیں دیا جائے گا۔ بہت کچھ ہے جو امریکا کی کمٹمنٹس پر منحصر ہے۔ کئی خطوں کے استحکام کا مدار اس بات پر ہے کہ امریکا اپنا عالمی کردار کس طور ادا کرے گا۔ اگر امریکا پیچھے ہٹ گیا تو خرابیاں محض شدت اختیار نہیں کریں گی بلکہ اُن کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرے گا۔ امریکا نے جو عالمی کردار نصف صدی سے بھی زائد مدت سے اپنا رکھا ہے اُسے ادا کرتے رہنے ہی میں موجودہ عالمی نظام کی بقا ہے۔ اس نظام سے امریکا کو کیا ملتا ہے اور کیا نہیں ملتا اس سے بڑھ کر قابلِ بحث یہ نکتہ ہے کہ اگر امریکا اچانک پسپا ہوگیا تو بہت کچھ دھڑام سے زمین پر آ رہے گا۔ امریکا اور یورپ کے لیے بہترین آپشن یہ ہے کہ اپنے آپ کو موجودہ صورتِ حال سے رفتہ رفتہ، مرحلہ وار الگ کریں۔ اگر زیادہ سوچے سمجھے بغیر پیچھے ہٹنے کا عمل جاری رکھا گیا تو کئی خطوں میں شدید عدم استحکام پیدا ہوگا جو محض خرابیوں کو جنم دے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کے صدر کی حیثیت سے منتخب ہونے کے بعد یہ سوال سر اٹھائے ہوئے ہے کہ کیا موجودہ امریکی صدر، جو دنیا کا طاقتور ترین انسان تصور کیا جاتا ہے، عالمی سطح پر ابھرنے والے بحرانوں اور مسائل کو حل کرنے کی بھرپور صلاحیت سے متصف ہے۔ ٹرمپ نے اپنے خیالات اور بیانات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بہت سے بڑے اور نہایت اہم معاملات میں سنجیدہ نہیں۔ پاکستان سے تعلقات خراب کرنے میں ان کے ٹوئیٹ کا بنیادی کردار ہے۔ دوسرے بہت سے اتحادیوں سے تعلقات بگاڑنے میں بھی اُن کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور لاپروائی پر مبنی انٹرویوز کا کلیدی کردار ہے۔ شمالی کوریا کے بارے میں ان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے عالمی سطح پر ہلچل مچائی۔ یہی حال دوسرے بہت سے اہم معاملات کا بھی ہے۔ ایران اور شمالی کوریا کے بارے میں ٹرمپ نے ٹھوس اقدامات کی سطح پر کچھ کرنے کے بجائے اب تک محض بڑھک سے کام لیا ہے۔ وہ بڑی بڑی باتیں کرتے آئے ہیں اور باتوں ہی تک محدود رہے ہیں۔
شاید ٹرمپ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اب امریکا میں اہلیت کی وہ سطح نہیں رہی جو کسی زمانے میں تھی۔ ان کا یہ خیال ہے کہ امریکا ساری دنیا میں اپنی مرضی کے مطابق بہت کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی فوج کے کاندھوں پر بوجھ ضرورت اور گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ بیشتر اہم معاملات میں پالیسی سازوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اب پیچھے ہٹنے میں دانش مندی ہے۔ ’’فارن پالیسی‘‘ میں اسٹیفن والٹ نے لکھا ہے کہ امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جدید علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت اور برتری کی بنیاد پر دوسروں سے کہیں زیادہ فوائد بٹورے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ آج امریکا کے لیے بہت سے معاملات میں مسابقت سخت تر ہوگئی ہے۔ یورپ کے کئی ممالک امریکا کو منہ دے رہے ہیں اور اِس طرف، ایشیا میں، روس اور چین امریکی مفادات کے لیے سب سے بڑے خطرے کے روپ میں ابھرے ہیں۔ یہ سب کچھ اس بات کی طرف اشارا کر رہا ہے کہ اب امریکا کو پسپائی اختیار کرتے ہوئے دوسری قوتوں کے لیے جگہ بنانا پڑے گی۔ اس مرحلے سے گزرنے ہی پر نئے عالمی نظام کی راہ ہموار ہوگی اور روس، چین، ترکی اور جنوبی کوریا وغیرہ مل کر امریکا کے ساتھ کسی ایسے معاہدے پر متفق ہوں گے، جس کے ذریعے سب کو اپنے اپنے حصے کا کردار ملے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The unexceptional superpower: American grand strategy in the age of Trump”.(“iiss.org”. November 20, 2017)
Leave a Reply