
امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے گیارہ جولائی ۲۰۱۸ء کو اپنے اجلاس میں ’’اخوان المسلمون کی طرف سے دنیا کو خطرہ‘‘ کے موضوع پر سماعت کی۔ اس سماعت کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ اخوان المسلمون دنیا بھر میں امریکی مفادات کے لیے کن خطرات کا باعث بن رہی ہے۔ اسکالر حضرات کی ایک طویل عرصے سے یہ رائے ہے کہ اخوان المسلمون جدید اسلام ازم کی ’’مادر‘‘ تنظیم ہے تاہم کانگریس کی مذکورہ سماعت میں اسے ’’ایک ایسی بنیاد پرست اسلامی تنظیم بیان کیا گیا جس نے ۷۰ ملکوں میں باہم مربوط تحریکوں کو جنم دیا‘‘ اور القاعدہ بھی ان تحریکوں میں سے ایک ہے۔ مذکورہ سماعت میں اکثر شرکا نے کھل کر مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت سرکاری طور پر اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے۔ امریکانے دوسری کئی اسلامی تحریکوں کو، جیسے حزب اللہ اور حماس کو جو اخوان المسلمون کی ایک شاخ ہے، کئی سال سے دہشت گرد تنظیمیں قرار دے رکھا ہے۔ تاہم اخوان المسلمون کے حوالے سے امریکی حکومت نے اب تک ایسا کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
امریکااخوان المسلمون اور اس کے بانی رہنماؤں بشمول حسن البنا (۱۹۰۶ء تا ۱۹۴۹ء) کے نظریات سے کئی عشروں سے آگاہ ہے، جو مغرب اور لبرل ازم کے سخت خلاف ہیں اور وہ اس تحریک کے سیاسی ایجنڈے کو بھی بخوبی جانتا ہے۔ اس کے باوجود امریکی ڈپلومیسی نے اخوان المسلمون کے ساتھ براہِ راست تنازع کبھی کھڑا نہیں کیا۔ جب حسن البنا نے ۱۹۲۸ء میں اخوان المسلمون بنائی اور اسلامی اصلاح اور نشاۃثانیہ کو اس کا نظریہ قرار دیا تو اْن کے معروف مغرب مخالف نظریات دراصل برطانوی استعمار کے ردِ عمل میں تھے، جو اْس وقت مصر پر قابض تھا۔ دوسری طرف ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے امریکانے مشرقِ وسطیٰ میں خود کو ہمیشہ ایک مختلف شناخت دینے کی کوشش کی ہے، جس میں اس کی خواہش ہے کہ خطّے میں اس کے مفادات محفوظ رہیں جبکہ علاقے میں استحکام برقرار رہے، جس کے لیے اس نے دیگر خود مختار ملکوں کے ساتھ اتحاد اور شراکتوں کا ایک مربوط سلسلہ بنایا ہے۔ اسی بنا پر امریکااخوان المسلمون کے ساتھ مختلف وجوہات کی بنا پر تعلق استوار کرنے کی وقتاً فوقتاً کوشش کرتا رہا ہے۔
درحقیقت سرد جنگ کے دور میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ امریکااخوان المسلمون کے ساتھ قریبی بلکہ معاونت والی شراکت قائم کرنا چاہ رہا ہے۔ بعض امریکیوں کے خیال میں دنیا کے سب سے بڑے عرب ملک مصر میں اور دیگر ملکوں میں، امریکا کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اخوان المسلمون ممکنہ طور پر مفید ثابت ہو سکتی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ کی منظر عام پر لائی جانے والی قدیم خفیہ معلومات سے امریکااور اخوان کے مابین مکالمے پر روشنی پڑتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ مصر کی اسلامی تحریک کے ساتھ روابط استوار کرنے کے معاملے میں امریکا دو انتہاؤں پر رہا ہے، ایک طرف وہ نہایت متذبذب دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف وہ اخوان میں دلچسپی بھی رکھتا ہے۔
’’اخوان المسلمون کے انتہا پسند نظریات‘‘
اگرچہ اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں قائم ہو چکی تھی تاہم اس تحریک کے بارے میں قاہرہ کے امریکی سفارت خانے نے پہلی بار ۱۹۴۴ء میں ابتدائی رپورٹ تیار کی۔ بظاہر اس کا سبب یہ ہے کہ اخوان کے ابتدائی برسوں کے دوران امریکی سفارت کاروں کی توجہ اْن پر نہیں پڑی۔ مصر کے ساتھ امریکا کے تعلقات ۱۹۳۰ء کی دہائی میں بنیادی طور پر محدود اقتصادی مفادات کے گرد گھومتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے آنے تک یورپ اور شمالی افریقا میں امریکا کے تزویراتی معاملات اْس کی کاروباری دلچسپیوں پر غالب آگئے چنانچہ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ قاہرہ میں امریکی سفارت کاروں نے مصری معاشرے میں سماجی اور مذہبی رجحانات میں اْس وقت تک زیادہ دلچسپی نہیں لی تھی۔
تاہم۱۹۴۰ء کے اواخر تک اخوان المسلمون نے خود کو امریکی سفارت کاروں سے متعارف کرا دیا تھا۔ اسرائیل/ فلسطین میں صہیونی بستیوں کے لیے امریکی حمایت پر احتجاج کرتے ہوئے اخوان المسلمون کے ارکان نے قاہرہ میں امریکی سفارت خانے کو کم از کم۳۲۰خطوط ارسال کیے۔ اخوانیوں نے ان خطوط میں فرانس کے اس اقدام کی بھی مخالفت کی تھی کہ فرانس الجزائر کے بعض مسلمانوں کو شہریت دے رہا تھا اور اخوانیوں کا خیال تھا کہ یہ فرانس کی ایک چال ہے تاکہ الجزائر کی آزادی کو ٹالا جا سکے۔ ان خطوط کی بنا پر امریکی سفارتی ٹیلی گراموں میں پہلی بار اخوان المسلمون کا ذکر آیا، جن میں اس تحریک کو مصر میں ’’ایک انتہا پسند مسلم معاشرے‘‘ کی ابتدا قرار دیا گیا۔
سوویت کمیونزم کے پھیلاؤ کی روک تھام ۱۹۵۰ء کے عشرے کے اوائل میں امریکی پالیسی میں سرِ فہرست تھی، تب بھی امریکی حکام کی نظر میں اخوان المسلمون ایک انتہا پسند تحریک تھی، جو اپنے حامیوں کو ’’تمام غیر مسلموں سے نفرت کرنا‘‘ سکھاتی تھی اور ’’قرآنی قانون‘‘ کے نفاذ کی حمایت کرتی تھی۔ امریکااس لیے بھی فکرمند تھا کہ اخوان المسلمون پْرتشدد ہو سکتی ہے۔ تاہم مصر میں۱۹۵۲ء کے فوجی انقلاب کے بعد اور صدر جمال عبدالناصر کے اقتدار میں آنے پر امریکی حکام سوویت یونین کے ساتھ مصر کے قریبی تعلقات سے خوفزدہ ہونے لگے۔ چنانچہ امریکانے اخوان المسلمون کے بارے میں اپنی رائے پر نظرثانی کی جس کی روشنی میں سفارتی پیغامات میں اْسے انتہا پسند نہیں بلکہ ’’راسخ العقیدہ افراد‘‘ کہا جانے لگا۔
اس کے بعد قاہرہ میں امریکی سفارت خانے میں ناظم الامور فرینک گیفنی (Gaffney) اور اخوان المسلمون کے مرشدِ عام حسن الہضیبی کی باقاعدہ ملاقاتیں ہوئیں۔۱۹۵۰ء کے عشرے کے وسط تک جب اخوان اور مصر کے فوجی حکمرانوں کے درمیان ابتدائی تعاون کا دور اختتام کو پہنچا تو امریکی سفارت کاروں کی نظر میں اخوان کے ساتھ تعلقات بنانا پہلے سے زیادہ ضروری ہو گیا تاکہ ان تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے روس کی اتحادی مصر کی فوجی حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
تاہم سرد جنگ کے برسوں میں مصر میں امریکا کے سفارتی تجزیوں اور سرگرمیوں میں اخوان المسلمون کو مرکزی حیثیت کبھی نہیں ملی۔ امریکی حکام نے اخوان کو مصر میں ایک اہم مذہبی اور سیاسی تحریک کے طور پر تسلیم کیا۔ تاہم سیاسی کردار کے حوالے سے فوج، شہنشاہیت، وفد پارٹی اور کمیونسٹوں کے مقابلے میں اخوان المسلمون کو بہت کم اہمیت دی گئی۔ بعد میں جب اخوان المسلمون صدر ناصر کی ممکنہ واحد اپوزیشن جماعت بن کر رہ گئی تو امریکانے اُس میں گہری دلچسپی لینی شروع کردی۔
سفارتی رپورٹوں سے یہ ہرگز ظاہر نہیں ہوتا کہ امریکاکی اخوان المسلمون کے حوالے سے کوئی مخصوص پالیسی رہی تھی، اور ان رپورٹوں میں یہ بات واضح طور پر کبھی نہیں کہی گئی کہ ناصر یا سوویت کمیونزم کی مخالفت میں اخوان المسلمون امریکاکی ممکنہ اتحادی ہو سکتی ہے۔ تاہم قدیم دستاویزات میں ہر اُس موقع کو اہمیت دے کر اجاگر کیا گیا ہے، جب اخوان المسلمون نے ناصر کی فوجی حکومت کی مخالفت کی۔ مصر کی فوجی حکومت کے خلاف اخوان کے بیانیے اور مظاہروں کو جس مربوط اور منظم انداز میں (امریکی حکومت کو) پہنچایا گیا اس حقیقت سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ امریکی سفارت کار ان دونوں فریقوں کے مابین بڑھتی ہوئی نزاع پر بھرپور توجہ رکھے ہوئے تھے۔
جب۱۹۶۰ء کا عشرہ آیا اور ناصر حکومت اور اخوان المسلمون ایک دوسرے کے مقابل آ گئے تو قاہرہ میں موجود امریکی سفارت خانے کی رپورٹوں سے اخوان المسلمون مکمل طور پر غائب ہوگئی۔ اْس دور میں ناصر کے بڑھتے ہوئے اثرات کی مخالفت یقیناً امریکاکی اول ترجیح رہی تھی تاہم اخوان کے ارکان تک رسائی حاصل کرنا امریکی سفارت کاروں کے لیے زیادہ دشوار ہو گیا تھا، خاص طور پر اس لیے کہ ناصر حکومت نے اسلامی تحریک کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر مقامی حریفوں پر مظالم اور ان کے خلاف کارروائیاں مزید تیز کر دی تھیں۔
ناصر کے ظلم و ستم نے، جسے اخوان ’’ابتلا‘‘ (Ordeal) کا نام دیتے ہیں، مصر کی اسلامی تحریک میں نظریاتی تقسیم پیدا کر دی اور اسے مزید انتہا پسندی کی طرف دھکیلا۔ اخوان المسلمون کے بعض ارکان بشمول سید قطب نے اسلامی اصلاح اور حسن البنا اور اخوان کی بانی نسل کے نظریات کے احیا کی غرض سے ’’بتدریج تبدیلی‘‘ کا طریقہ مسترد کر دیا، اور اس کے بجائے ناصر کے ’’غیر اسلامی‘‘ مصر سے الگ تھلگ ہونے کے ایجنڈے پر عمل کیا، جس میں پُر تشدد جدوجہد بھی شامل تھی۔
اس کے باوجود امریکا کے سفارتی ریکارڈ میں سید قطب کا تذکرہ محض چند ایک بار ملتا ہے، حالانکہ وہ۱۹۵۰ء کے عشرے میں اخوان المسلمون کے صفِ اوّل کے نظریہ ساز بن کر ابھرے تھے۔ مصری حکومت کی طرف سے۱۹۶۶ء میں سید قطب کی پھانسی کا امریکی سفارت خانے کے مراسلات میں سرسری ذکر ملتا ہے۔ درحقیقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی سفارت خانہ مصر کی اسلامی تحریک میں پائی جانے والی تقسیم یا اس بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے آگاہ نہ تھا۔ اس کے بجائے امریکاکو فکر اس بات کی تھی کہ اخوان المسلمون میں یہ اہلیت دوسروں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے کہ وہ ناصر کے فیصلوں پر اثرات ڈال سکتے ہیں۔ اْس دور میں ناصر حکومت کے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات قریبی تھے تاہم کسی بھی وقت خراب ہو سکتے تھے۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ ۱۹۷۸ء تا ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب (جو خمینی اور شیعہ اسلام پسندوں کی قیادت میں آیا) کی اسلامی شناخت کا مصر میں واقع امریکی سفارت خانے کے۱۹۸۰ء کے اوائل کے مراسلات میں ہرگز ذکر نہیں ملتا۔ درحقیقت امریکیوں نے ایران کے ڈرامائی واقعات اور مصر کی اسلامی تحریک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو الگ الگ تصور کیا اور مصر میں امریکی حکام کو بظاہر ایسی کوئی تشویش لاحق نہیں تھی کہ ایران کا انقلاب مصر اور دوسرے مسلم ملکوں میں اسی نوعیت کی اسلامی تبدیلی کی لہر پیدا کر سکتا ہے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے تمام ابتدائی برسوں میں اخوان المسلمون کو مصر کی محض ایک اسلامی تنظیم کے طور پر دیکھا گیا۔ درحقیقت اخوان کو جس نے۱۹۷۰ء اور۱۹۸۰ء کے عشروں میں بہت سے مسلم معاشروں کا سیاسی منظر نامہ بدل کر رکھ دیا تھا، ایک بڑے اور وسیع البنیاد اسلامی احیا کا حصہ نہیں سمجھا گیا۔
مصری صدر انور سادات کو۱۹۸۱ء میں قتل کرنے والے کی مذہبی وابستگی مصر کے اسلامی جہاد سے تھی، جو اخوان المسلمون سے الگ ہونے والا ایک گروپ تھا۔ اس قاتل کا تذکرہ بھی امریکی سفارتی مراسلات میں شاذونادر ہی ملتا ہے۔ درحقیقت سادات کے قتل کا ممکنہ ذمہ دار اخوان المسلمون کو کبھی نہیں ٹھہرایا گیا اور نہ ہی مصر کی اسلامی انتہا پسندی پر سید قطب (یا ایرانی انقلاب) کے نظریاتی اثرات کا کوئی اعتراف ملتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے دفتر برائے اُمور مشرقِ قریب کے ایک سابق ڈائریکٹر کے نزدیک اگر کوئی تذکرہ ہے بھی تو یہ کہ امریکی محکمہ خارجہ میں کئی اہلکاروں کو یقین تھا کہ سادات کا قتل ایک کمیونسٹ منصوبہ تھا۔ کمیونسٹوں کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی سیاسی محرومیوں کو مسلح کیا جائے تاکہ سادات کے دورِ حکومت میں مصر کی پالیسیاں جو امریکانواز ہو چکی تھیں، انہیں ناکام بنایا جائے۔
چنانچہ ۱۹۸۰ء کے عشرے کے دوران انتہا پسند اسلام کا امریکی سفارتی رپورٹوں میں کوئی ذکر ملتا ہے اور نہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکا کے سرکاری پالیسی بیانات میں۔ امریکا کے صفِ اول کے سفارت کاروں اور پالیسی ساز افراد کے انٹرویو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بین الاقوامی اسلامی تحریک یا ’’اسلام ازم‘‘ کا تصور اْس دور کی امریکی فکر میں یکسر عنقا تھا۔
نائن الیون کے بعد امریکی مکالمے میں ’’اسلام ازم اور اسلام‘‘ ۱۹۹۰ء کے عشرے کے آغاز میں سوویت یونین کے انہدام سے امریکاکو لاحق بنیادی خطرہ ختم ہو گیا کیونکہ بطور ایک انقلابی نظریے کے کمیونزم ناکام ہوا اور عالمی منظرنامہ بدل گیا۔ اس کے بعد بعض امریکی پالیسی سازوں نے مصر کی اخوان المسلمون اور اس سے متاثر ہو کر قائم ہونے والی متعلقہ تحاریک، جیسے الجزائر کی اسلامی سالویشن فرنٹ (ایف آئی ایس)، یا حماس کو امریکا کے عالمی مفادات کو نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھنے والی اسی طرح کی بین الاقوامی اسلامی نظریاتی تحریک کا حصہ سمجھنا شروع کر دیا، جس طرح اس سے پہلے کمیونزم تھا۔
امریکی سفیر ایڈورڈ Djerejian نے اس تشویش کا واضح طور پر اظہار ۴ جون۱۹۹۲ء کو اپنی مشہور ’’میریڈین تقریر‘‘ میں کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ امریکا کے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے ’’مذہبی یا سیاسی انتہا پسندی‘‘ کو مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کے لیے اور دیگر امریکی مفادات کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ قرار دیا۔ اس کے بعد سے’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ کو امریکی سفارت کاری کے لیے ایک خطرے کے طور پر بار بار زیر تذکرہ لایا گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایک نیا امریکی مکالمہ اس موضوع پر شروع ہوا کہ اخوان المسلمون جیسی غیر متشدد ’’بنیاد پرست‘‘ تحریکوں کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات بنائے جائیں تو آیا یہ معقول ہوگا اور اس کا فائدہ ہوگا یا نہیں۔
ہوا یہ کہ قاہرہ میں امریکی سفارتخانے نے ۱۹۹۰ء کے عشرے کے پورے ابتدائی عرصے میں اخوان المسلمون کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے۔ اسلامی تحریک کو مصر کے میدانٍ سیاست میں اور ملک کے مستقبل کے لیے ایک اہم کردار کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم اخوان المسلمون مصر میں اب بھی غیر قانونی جماعت تھی، اور استبدادی حسنی مبارک کی حکومت نے اپنے اتحادی امریکاسے اس وقت شدید احتجاج کیا، جب امریکانے حسنی کی ملکی حریف جماعت کے ساتھ روابط بنائے۔ چنانچہ امریکانے۱۹۹۰ء کے عشرے کے وسط میں اخوان المسلمون کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔
اس کے بعد القاعدہ نے نائن الیون کو امریکاپر اچانک حملے کر دیے، جس سے اسلام ازم یا بنیاد پرست اسلام کی طرف سے لاحق خطرات کے بارے میں امریکامیں چھڑی ہوئی بحث شدت اختیار کر گئی۔ اگرچہ یہ واضح تھا کہ اخوان المسلمون کے نظریاتی رہنماؤں جیسے سید قطب نے القاعدہ کے قیام اور پھیلاؤ پر براہ راست اثر ڈالا تھا تاہم اخوان المسلمون کے برانڈ کے ’’سیاسی اسلام‘‘ اور بین الاقوامی جہادی تحریک کے مابین نظریے اور حکمتِ عملی پر بھی اختلاف پایا جاتا تھا چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ واشنگٹن کے بااثر حلقوں میں اور اس سے ماورا اس سوال پر ایک گرما گرم بحث چھڑ گئی کہ اخوان المسلمون اور جدید اسلام ازم کے طلوع میں اخوان کے تشکیلی کردار میں کون سے خطرات پنہاں ہیں۔ اس سلسلے میں امریکا کے علمی حلقوں اور پالیسی سازوں میں دو بالکل مختلف آرا سامنے آئیں۔
ایک نقطۂ نظر یہ تھا کہ جدید سیاسی نظریے اور تحریک کی حیثیت سے اسلام ازم محض مسلم معاشروں تک محدود ہے۔ خاص طور پر اسلام ازم کو (مذہبی کے بجائے) سیاسی قدامت پسندی کی ایک صورت قرار دیا گیا، جو مصر میں اخوان المسلمون سے شروع ہوئی اور دنیا بھر میں کامیابی سے پھیل گئی۔ اسلام ازم اگرچہ مسلم شناخت، احساسِ محرومی اور شکووں سے عبارت تھا تاہم یہ اپنی بنیاد میں کوئی مذہبی تحریک نہ تھا بلکہ اْس جبر و استبداد اور دیگر سیاسی بدقسمتی کا ایک جدید سیاسی ردِ عمل تھا، جس نے مسلم اکثریت والے بہت سے معاشروں کو مصیبت میں ڈال رکھا تھا۔
اس کے برعکس بہت سے تجزیہ کاروں نے نائن الیون حملوں کو کسی سیاسی نظریے کا نہیں بلکہ خود اسلام کے نظامِ عقائد کا ایک متشدد اظہار سمجھنا شروع کر دیا۔ مثال کے طور پر۲۰۰۳ء کی رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ “Civil Democratic Islam” میں علم سیاسیات کے ماہر Cheryl Benard نے مسلم معاشروں کی جمہوری صورت گری اور ان میں اصلاحات کے مسئلے کو واضح طور پر سیکولرائزیشن سے منسلک کیا۔ اْس کی رائے میں، بنیاد پرست اسلام اور مسلم معاشروں میں عدم جمہوریت کے خطرے سے صرف مذہبی اصلاح کے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے نہ کہ بذریعہ سیاسی اصلاح۔یہ دونوں نقطہ ہائے نظر اسلام ازم کے ساتھ معاملات چلانے کے حوالے سے دو بے حد مختلف پالیسی انداز کے حامل ہیں جن میں اخوان المسلمون کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے کا ایک نقطہ نظر بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر جارج بش (جونیئر) نے مسلم معاشروں میں جمہوری اصلاحات کے فعالیت کے ساتھ فروغ پر زور دیا۔ اْس دور میں بہت سوں کو یہ یقین تھا کہ اخوان المسلمون جیسی ردِ عمل والی سیاسی جماعت کو بھی جمہوری عمل کے ذریعے بتدریج تبدیل کر کے معتدل بنایا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کے فروغ کے اس عنوان کے تحت امریکی سفارت کاروں نے اخوان المسلمون سے متاثرہونے والی سیاسی اسلام کی بین الاقوامی تحریک میں افراد اور گروپوں تک رسائی حاصل کرنے کی از سرِ نو کوششیں کیں۔
بش کے جمہوری آئیڈیل ازم کے برعکس، صدر اوباما نے اخوان المسلمون اور اسلام ازم کے بارے میں زیادہ ’’حقیقت پسندانہ‘‘ رائے اپنائی۔ اپنے انتخاب سے پہلے، اوباما نے اخوان المسلمون کے بارے میں اپنے شبہات کا کھل کر اظہار کیا، اور اسے سیاسی اسلام اور اسلامی بنیاد پرستی کا ’’بانی‘‘، ’’ناقابلِ اعتبار‘‘، ’’امریکامخالف سوچ پروان چڑھانے والا‘‘ اور ایسی جماعت قرار دیا جو ’’اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے کا احترام‘‘ غالباً نہیں کرے گی۔
صدر اوباما کے خیال میں اسلام ازم یا سیاسی اسلام دراصل مسلم سیاست اور ثقافت کا ایک جدید شاخسانہ ہے، اور خاص طور پر اسلام کی بنیاد پرستانہ اور نہایت قدامت پسندانہ تشریح ہے۔ بعد میں مثال کے طور پر اپنے دورِ صدارت میں، اوباما نے ’دی اٹلانٹک‘ کے جیفری گولڈ برگ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام بحیثیت مجموعی اسلام کی اِس تشریح کو چیلنج کرے، اِسے الگ تھلگ کر کے تنہا کرے، اور اپنی کمیونٹی میں اس موضوع پر ایک زبردست بحث چھیڑے کہ ایک پْرامن، جدید معاشرے کے ایک حصے کے طور پر اسلام کس طرح کام کر سکتا ہے‘‘۔ تاہم بش کے برخلاف اوباما کا یہ خیال تھا کہ اسلام میں یہ مذہبی اور سیاسی تبدیلی باہر سے نافذ نہیں کی جاسکتی نہ ہی باہر سے اسے مہمیز دی جا سکتی ہے۔ اس کے بجائے ضروری یہ ہے کہ یہ تبدیلی خود مسلم معاشروں میں سے اور مسلم لیڈرشپ کے ذریعے وقوع پذیر ہو۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے امریکی اسکالر اور صفِ اول کے سیاسی حکام اخوان المسلمون اور جدید اسلام ازم کے بارے میں اوباما کے حقیقت پسندانہ تناظر کے حامی ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم اخوان المسلمون کے ساتھ سفارتی تعلقات کے مسئلے پر بہت کم اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ بعض اسکالر اب بھی اس بات کے حامی ہیں کہ اخوان المسلمون کے ساتھ روابط رکھے جائیں، ان کا خیال ہے کہ اخوان المسلمون اگر زیادہ آزاد، زیادہ جمہوری سیاسی ماحول میں کام کرے تو یہ اسلام پسند تحریک زیادہ سیکولر، تکثیریت پسند (pluralistic) اور جمہوری ہو جائے گی۔ تاہم دوسروں کی رائے ہے کہ اخوان المسلمون کے ساتھ روابط بنانا محتاط پالیسی نہیں ہوگی تاوقتیکہ وہ سیکولر ہو جائے اور اپنا تکثیریت مخالف، مغرب مخالف ایجنڈا ترک کر دے۔ اس کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون مصر اور دیگر ملکوں میں اب بھی سرکاری طور پر غیر قانونی ہے۔ امریکامیں یہ بحث دھیمی دھیمی چلتی رہی یہاں تک کہ۲۰۱۱ء کی مقبول تحریک شروع ہوگئی، جسے ’’عرب بہار‘‘ کہا جاتا ہے۔
اخوان کے لیے دروازے کھل گئے
مصری صدر حسنی مبارک جنوری اور فروری۲۰۱۱ء میں کمزور پڑنے لگے۔ تیونس میں انقلاب کے بعد مصر میں بھی بہت سے لوگوں نے خواہش ظاہر کی کہ ان کا صدر بھی ہٹ جانا چاہیے۔ مصر کی احتجاجی تحریک کے ابتدائی دنوں میں جب لاکھوں افراد تحریر اسکوائر میں جمع ہونے لگے تو امریکی حکام کو اصل فکر حسنی مبارک کی سلامتی کی تھی۔ تاہم جب یہ واضح ہو گیا کہ حکومت غیر مستحکم ہو چکی ہے تو مبارک نے اقتدار ایک فوجی بورڈ آف ڈائریکٹر کے سپرد کر دیا۔
اخوان المسلمون نے جو مصر کی سب سے منظم جماعت تھی اور سیاسی خلا کو پْر کرنے کی ممکنہ طور پر اہلیت رکھتی تھی، سیاسی اسلام کے بارے میں وہ بحث دوبارہ چھیڑ دی، جو تقریباً ایک عشرے سے امریکاکی صفِ اول کی قیادت میں چھڑی ہوئی تھی۔ امریکاکو مصر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی احتجاجی تحریک کا سامنا تھا (جو جمعہ۲۵ جنوری۲۰۱۱ء کو ’’یومِ غضب‘‘ پر عروج کو پہنچی)۔ امریکاکو اپنے شدید تحفظات کے باوجود مصر میں ایک اسلام پسند حکومت کے امکان کو ہضم کرنا پڑا۔
کیا اخوان المسلمون کی حکومت مصر کے عوام، بشمول غیر اسلامسٹ عوام کی دلی خواہشات پر کان دھرے گی؟ یا اخوان حکومت اپنے اسلام پسند ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے اپنے اقتدار کو مزید مضبوط کرنا چاہے گی؟ ان سوالات کے تناظر میں تب کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے۲۰۱۱ء کے آغاز میں کہا ’’تیونس اور مصر کی سڑکوں پر امریکانے لوگوں کو نہیں نکالا تھا، یہ انقلابات ہمارے لائے ہوئے نہیں ہیں، یہ ہمارے لیے نہیں ہیں، نہ ہمارے خلاف ہیں‘‘۔ تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ مصر کی اگلی حکومت کو عوامی امنگوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہوگی۔
اگلے مہینوں کے دوران جب امریکی حلقوں میں یہ تشویش ابھرنے لگی کہ اخوان المسلمون حکومت میں آ سکتی ہے تو ہیلری کلنٹن نے متعدد مواقع پر یہ کہہ کر کہ اسلام پسند تحریک کے ساتھ معاملہ کرنے کی ضرورت ہے، اخوان المسلمون کے لیے دروازے کھولنے شروع کیے۔ اْس موقع پر کئی سینئرسفارت کاروں اور پینٹاگون کے حکام نے بتایا کہ انہوں نے ’’متعدد اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بشمول اخوان المسلمون، حوصلہ افزا گفتگو کی ہے‘‘۔ بعد میں جون۲۰۱۱ء میں امریکی وزیر خارجہ نے بوڈاپسٹ کے ایک دورے میں امریکاکی پوزیشن اس طرح واضح کی:
’’مصر میں بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے کے پیشِ نظر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات امریکا کے مفاد میں ہے کہ اُن تمام فریقوں کے ساتھ روابط استوار کیے جائیں، جو پُرامن ہیں اور عدم تشدد پر عمل پیرا ہیں، جو پارلیمانی اور صدارتی انتخاب میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہم اخوان المسلمون کے اْن ارکان کے ساتھ مکالمہ کرنا چاہتے ہیں جو ہم سے بات چیت کے لیے تیار ہیں‘‘۔
اوباما انتظامیہ کی طرف سے اسلام پسندوں پر سفارتی دروازے کھولنے کا لازمی مطلب یہ تھا کہ امریکانے ماضی میں مشرقِ وسطیٰ کی بعض ریاستوں میں استبدادی حکمرانوں کو جو مدد اور تعاون فراہم کیا تھا، اسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ چنانچہ نومبر ۲۰۱۱ء میں ہیلری کلنٹن نے اعتراف کیا کہ ’’آمر برسوں تک اپنے عوام سے کہتے رہے کہ انہیں اْن آمروں کو قبول کرنا ہوگا جن سے وہ گریزاں رہنا چاہتے تھے، اْن انتہا پسندوں کو (قبول کرنا ہوگا) جن سے وہ خوف زدہ تھے۔۔۔ اکثروبیشتر خود ہم نے بھی اسی بیانیے کو قبول کیا ہے‘‘۔
ہیلری کلنٹن کے بعد بننے والے وزیر خارجہ جان کیری نے اس پالیسی کو آگے بڑھایا اور کہا: گزشتہ ہفتے کے واقعات کے پیشِ نظر بعض لوگ امریکاپر نکتہ چینی کر رہے ہیں کہ اس نے مصر کی (سابقہ) حکومت کو برداشت کیا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ہمارا عوامی بیانیہ ہمارے نجی معاملات سے ہمیشہ مطابقت نہیں رکھتا۔ لیکن اس بات کی حقیقت پسندانہ توجیہ بھی موجود ہے کہ ہمارے تعلقات سے امریکی خارجہ پالیسی کو فائدہ پہنچا اور خطّے میں امن کو فروغ ملا۔
مصر کی فوجی حکومت کو طویل عرصے تک مالی مدد دینا ہمارے اتحاد پر حاوی رہا۔ اس کا ثبوت اختتامِ ہفتہ دیکھا گیا: آنسو گیس کے جو کنستر مظاہرین پر فائر کیے گئے ان پر ’’ساختہ امریکا‘‘ (Made In America) لکھا تھا، امریکا کے دیے ہوئے ایف۱۶ جیٹ لڑاکا طیاروں نے مرکزی قاہرہ پر پروازیں کیں۔ کانگریس اور اوباما انتظامیہ کو چاہیے کہ سویلین امداد مہیا کریں جس سے مصر میں ملازمتیں فراہم ہوں اور سماجی صورتِ حال میں بہتری آئے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضمانت ملے کہ امریکاکی فوجی امداد اپنے اہداف پورے کرے۔
اگر ہماری دوست حکومتیں خود اپنے عوام کے غم و غصے کے زور پر گرتی رہیں اور ہم یہ دیکھتے رہیں تو ہمارے مفادات پورے نہیں ہوں گے، نہ ہی اس طرح پورے ہوں گے کہ حکومت انتہا پسندوں کو منتقل ہو جائے اور وہ انتہا پسندی پھیلائیں۔
امریکاتین عشروں تک مبارک پالیسی پر عمل کرتا رہا۔ اب ہمیں مبارک دور سے آگے دیکھنا ہوگا اور ایک مصری پالیسی بنانی ہوگی۔
اس پورے عرصے کے دوران ایسا لگتا تھا کہ امریکی حکام مصر میں نئی حقیقتوں کا سامنا کرنے کے لیے امریکی پالیسی میں اصلاح کی ضرورت پر جتنا زیادہ زور دے رہے ہیں، اخوان المسلمون کے بارے میں بحث اتنی ہی پس منظر میں جا رہی ہے۔ گویا نئے حقائق نے اخوان المسلمون یا اسلام پسندوں کا سوال امریکی انتظامیہ کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔
****
مصر کے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات۲۰۱۲ء میں اخوان المسلمون کی کامیابیوں کے بعد امریکیوں کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ اخوان حکومت خطّے میں اْن کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی۔ عرب دنیا میں آگ بھڑکی ہوئی تھی اور امریکامسلسل ایسی معلومات جمع کر کے ان کی جانچ کر رہا تھا، جن سے اس امر پر روشنی پڑتی ہو کہ اخوان المسلمون نے کیا کہا اور کیا کیا۔ اُس وقت مصر میں امریکی سفیر این پیٹرسن کے بیانات یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ امریکاکو اخوان المسلمون پر اعتبار نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکاکو اپنی ان توقعات کے پورا ہونے کا بھی یقین نہیں تھا کہ اگر وہ (یعنی امریکا) درست پالیسی اختیار کر لے تو مصر کی اسلامی تحریک زیادہ اعتدال پسند اور جمہوری بن سکتی ہے۔ امریکی سفیر نے۲۰۱۱ء میں کہا کہ وہ ’’اس حوالے سے اب تک ذاتی طور پر اتنی مطمئن نہیں ہیں کہ اخوان معاشی آزادی پر اپنے وعدے کو پورا کریں گے‘‘۔ انہیں اخوان المسلمون کے ’’خواتین کے حقوق کے حوالے سے کم لبرل موقف‘‘ اور اسرائیل کے ساتھ ۱۹۷۸ء کے امن معاہدے پر اخوان کی پوزیشن پر بھی تشویش تھی۔
اس سے قطع نظر، امریکاکی سفارتی پالیسی یہی تھی کہ اخوان المسلمون کے ساتھ تعلقات رکھے جائیں۔ وزیر خانجہ جان کیری نے اخوان کی فتوحات تسلیم کیں، اور قاہرہ میں امریکی سفارت کاروں نے واضح کیا کہ وہ ’’جیتنے والی جماعتوں‘‘ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔
اس عبوری دور میں اخوان المسلمون کے بارے میں وہ تمام دیرینہ خدشات کسی حد تک کمزور پڑ گئے، جو امریکاکو اس کی انتہا پسندی اور امریکامخالف شناخت سے تھے۔ واشنگٹن میں حکام نے اس تصور کو آگے بڑھایا کہ اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کے ساتھ تعاون کر کے اور اشتراک عمل کر کے ایک نمونہ بنایا جا سکتا ہے، جس کو کام میں لا کر بقیہ دنیا میں پرتشدد اسلامی تحریکوں کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں دفتر برائے مشرقِ قریب کے اسسٹنٹ سکریٹری جیفری فیلٹمین نے کہا:
ہم جانتے ہیں کہ مذہبی عقائد کی بنیاد پر بننے والی جماعتیں اپنا بڑا کردار ادا کریں گی۔ ہم نہیں جانتے کہ ان ملکوں کی نئی حکومتوں، پارلیمانوں، اور سول سوسائٹی کے ساتھ امریکا کے طویل مدت میں کیسے تعلقات ہوں گے۔ تاہم یہ جانتے ہیں کہ ایسی شراکتیں بنانا اور برقرار رکھنا امریکا کے لیے ضروری ہوگا جن سے ہمارے مفادات کا تحفظ ہوتا ہو، اور نتائج کو اپنی مرضی کا رخ دینے اور ان پر اثرانداز ہونے میں وہ شراکتیں ہمارے کام آئیں۔
پْرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ جائز اور قانونی حکومتوں سے تعاون کیا جائے۔ تیونس اور مصر میں پْرامن انتقالِ اقتدار بنیادی طور پر انتہا پسند موقف کی شکست ہے، جو یہ کہتا ہے کہ سیاسی تبدیلی کا واحد راستہ تشدد ہے۔ حقیقی سیاسی تبدیلی کو متبادل اور پْرامن راستہ دینے سے انتہا پسند گروپوں کا زور ٹوٹے گا اور ان کی اپیل کمزور پڑے گی۔
چنانچہ۲۰۱۲ء کے دوران اخوان المسلمون کے رہنماؤں کی امریکی حکام کے ساتھ اعلیٰ سطح کی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اپریل میں وائٹ ہاؤس میں اخوان المسلمون کے نمائندہ وفد کی میزبانی کی گئی۔ اس سے چند ماہ قبل امریکا کے اعلیٰ نمائندگان (بشمول ولیم برنس، جو اخوان کے ساتھ رابطے کے ذمہ دار تھے) نے قاہرہ کا دورہ کیا تھا۔
اس دورے میں امریکاعلاقائی سلامتی اور ملکی مسائل بشمول اقتصادی مسائل پر اخوان المسلمون اور اس کے رہنماؤں میں ’’اعتدال‘‘ کی علامات دیکھ کر کافی مطمئن تھا۔
نومبر۲۰۱۲ء میں غزہ تنازع کے دوران اخوان نے حماس پر دباؤ ڈال کر اسے باز رکھا تو امریکی مبصرین نے اسے ’’مثبت‘‘ اقدام قرار دیا۔ اس کے جواب میں مصر کو امریکاسے وہی امداد اور تعاون ملتا رہا، جو حسنی مبارک دور میں دیا جا رہا تھا۔ مثال کے طور پر ۵۵ء۱؍ ارب ڈالر بطور فوجی امداد مصر کو ملتی رہی۔
پھر جولائی ۲۰۱۳ء میں قاہرہ میں بے چینی شدید ہونے لگی اور اخوان نے چاہا کہ مصری فوج سے زیادہ طاقت اکٹھی کر لی جائے تو امریکی حکام نے ممکنہ فوجی بغاوت پر سرِعام تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ جب منتخب حکومت اور فوج میں طاقت کی کشمکش شدید ہوگئی تو امریکی حکام نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے کی حمایت کریں گے۔ جب فوج نے اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ الٹ کر صدر مرسی کو گرفتار کر لیا تو اس کے چند روز بعد صدر اوباما نے کہا:
ہمیں مصر کی مسلح افواج کے اس فیصلے پر گہری تشویش ہے کہ صدر مرسی کو برطرف اور مصر کے آئین کو معطل کیا جائے۔ اب میں مصر کی فوج سے مطالبہ کرتا ہوں کہ فوری اور ذمہ داری کے ساتھ مکمل اتھارٹی جمہوری طور پر منتخب سویلین حکومت کو جلد از جلد واپس کر دے اور اس کے لیے شمولیتی اور شفاف طریقہ کار اپنائے، اور صدر مرسی اور ان کے حامیوں کی گرفتاری سے باز رہے۔ آج کی صورتِ حال کے تناظر میں، میں نے متعلقہ محکموں اور اداروں کو بھی ہدایات دے دی ہیں کہ حکومتِ مصر کو ہماری امداد کے مضمرات کا امریکی قانون کے تحت جائزہ لیا جائے۔ امریکابدستور اس پختہ رائے پر قائم ہے کہ مصر میں پائیدار استحکام کے لیے بہترین بنیاد ایک جمہوری سیاسی نظام ہے، جس میں تمام اطراف سے اور تمام سیاسی جماعتوں کی حصہ داری شامل ہو، سیکولر اور مذہبی جماعتیں، سویلین اور فوجی۔
فوجی بغاوت اور صدر عبدالفتاح سیسی کے انتخاب کے بعد امریکانے سیسی حکومت کے ساتھ نئے تعلقات بنانا چاہے اور اخوان المسلمون پر بھی اپنے دروازے بند نہ کیے۔ یہ امریکی سفارت کاروں کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ تھا، اس لیے کہ فوجی حکومت نے اخوان المسلمون کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیا تھا۔
ایک امریکی اعلیٰ اہلکار الزبتھ جونز نے صدر مرسی پر الزام لگایا کہ وہ ملک پر شمولیتی حکومت کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے اور نہ اس کی صلاحیت رکھتے تھے جس کے سبب بہت سے مصری ان سے برگشتہ ہو گئے۔ عبوری حکومت نے مصر کے لاکھوں عوام کی امنگوں کو پورا کیا ہے کیونکہ ان عوام کا خیال تھا کہ مصر کا انقلاب ایک غلط موڑ مڑ گیا ہے۔ تاہم انہوں نے ۳جولائی کے واقعات اور وسط اگست کے تشدد پر بھی تشویش ظاہر کی جن میں مظاہرے کرنے والے اخوانیوں پر زبردست تشدد کیا گیا، گرفتاریاں ہوئیں، پریس اور سول سوسائٹی اور اپوزیشن پارٹیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں، اور ملک میں ایمرجنسی کی حالت کو توسیع دی گئی۔
مصری حکومت کی جانب سے ستمبر۲۰۱۳ء میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے باوجود امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ماری ہرف نے۱۲ فروری۲۰۱۴ء کو باضابطہ اعلان کیا کہ امریکااخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار نہیں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن مصر میں تمام جماعتوں بشمول اخوان المسلمون، کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔
بظاہر، امریکامصر میں اخوان المسلمون کے حوالے سے انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔ اگر امریکاایسا کرتا ہے تو بہت کچھ انحصار اس بات پر ہوگا کہ مصر میں اخوان المسلمون کے بچے کھچے اجزا ایسے سیاسی نظام میں اپنی بقا جاری رکھ سکتے ہیں جو بتدریج پابند اور ظالمانہ ہوتا جا رہا ہے۔ اخوان المسلمون کی قیادت کو ترکی کی صورت میں ایک پلیٹ فارم مل گیا ہے تاہم خود مصر کے اندر اخوان المسلمون کو زیرِ زمین جانے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں یہ واضح نہیں ہے کہ کوئی داخلی ترغیب یا مصر کے اندر یا باہر سے کوئی حوصلہ افزائی اخوان المسلمون کو سیکولر ہونے پر مجبور کر رہی ہے، جو اسے ایک زیادہ تکثیریت پسند اور جمہوری چہرہ عطا کرے۔ سیسی کے دورِ حکومت میں اخوان المسلمون کے بعض عناصر نے تشدد کا راستہ اپنا لیا ہے (جیسا کہ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں دورِ ابتلا میں اپنایا گیا تھا)۔ مستقبل میں یہ بھی ممکن ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون ایک زبردست طاقت کے طور پر ابھرے۔ ایسا ہوا تو اخوان المسلمون اور اس کے برانڈ کے سیاسی اسلام کے بارے میں پرانی امریکی بحثیں ایک بار پھر تازہ ہو جائیں گی۔
(ترجمہ: منصور احمد)
“The unfinished history between America and the Muslim Brotherhood”. (“s3.amazonaws.com”. July 2019)
Leave a Reply