امریکا اور یورپ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ امریکی سیاست آج بھی عدم اتحاد اور بے عقلی پر مبنی رجحانات کا مرقع ہے جبکہ یورپ کی سیاست میں دانش نمایاں ہے۔ امریکی سیاسی قائدین بڑھک مارنے کی سطح سے بلند نہیں ہو پارہے جبکہ یورپ میں حقیقی دانش کا مظہر قرار پانے والے اقدامات سب کے سامنے ہیں۔ امریکا اب تک حقیقی فلاحی ریاست بننے کی منزل سے بہت دور ہے جبکہ یورپ کے متعدد ممالک حقیقی فلاحی ریاست میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ امریکا میں آج بھی سیاست کے نام پر لوگوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں۔ یورپ میں بنیادی حقوق کی پاس داری اب سیاست دانوں کے لیے اولین ترجیح کا درجہ رکھتی ہے۔
یورپ میں فیصلہ سازی کا مرحلہ اب تھوڑا سا پیچیدہ ہوگیا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ یورپی یونین ۲۷؍ارکان پر مشتمل ہے۔ کسی بھی اہم فیصلے کے لیے سب کی رضامندی لازم ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بیشتر ریاستیں بنیادی معاملات میں سودے بازی کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ فیصلوں میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی موقع ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے مگر اس حقیقت کو بھی تو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ یورپی یونین میں کوئی بھی فیصلہ نہ تو عجلت میں کیا جاتا ہے نہ بے عقلی کے ساتھ۔ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ معاملات آخر تک ہاتھ میں رہیں، مفادات داؤ پر نہ لگیں۔ فیصلوں میں تاخیر ضرور ہو جاتی ہے مگر اُن سے بے عقلی نہیں جھلکتی۔ یورپ میں فیصلہ سازی سے جڑے ہوئے افراد اکثر فیصلوں میں تاخیر اور پیچیدگی کی شکایت کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے، وہ امریکا کی مثال بھی دیتے ہیں۔ وہاں فیصلے بہت تیزی سے ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازی کے عمل سے جڑے ہوئے یورپی قائدین کو امریکی فیصلوں کی نوعیت پر بھی تو غور کرنا چاہیے۔
امریکا میں مضبوط وفاقی نظام کام کر رہا ہے۔ امریکا ۵۰ ریاستوں کے وفاق کا نام ہے۔ امریکا میں مالیاتی یونین بھی بہت مضبوط ہے۔ یورپ میں بہت سے ترقی پسند آج بھی چاہتے ہیں کہ امریکا جیسا مالیاتی نظام یورپی یونین میں بھی دکھائی دے۔ ہاں، یورپ کے قدامت پسند ایسا نہیں چاہتے۔ حال ہی میں ختم ہونے والی یورپی سربراہ کانفرنس میں بہت شور شرابہ ہوا۔ فیصلہ سازی میں تاخیر کے معاملے کو بہت اچھالا گیا۔ کوشش یہ کی گئی کہ تیز رفتاری سے فیصلے کرنے کا کوئی میکینزم لایا جائے مگر اب بھی یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ اتنا بہت کچھ ہونے کے باوجود امریکا کا فیصلہ سازی کا عمل یورپ کے لیے کسی بھی اعتبار سے مثالی یا قابلِ ترجیح نہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا میں فیصلے تیزی سے تو کرلیے جاتے ہیں مگر ان میں معقولیت اور دانش کم ہی پائی جاتی ہے۔ وفاقی سطح پر جو کچھ بھی سوچا جاتا ہے وہ تمام ریاستوں کی خواہش، مرضی یا رائے کا آئینہ دار نہیں ہوتا۔
امریکا میں آج بھی اندرونی سطح پر غیر معمولی انتشار پایا جاتا ہے۔ دنیا کا طاقتور ترین ملک ہونے کے ناطے امریکا دنیا بھر کے باصلاحیت افراد کے لیے مسکن کا درجہ رکھتا ہے۔ اقتصادی و مالیاتی معاملات پر متصرف ہونے کی بدولت امریکا نے اپنے باشندوں کے لیے عمومی سطح پر ایک اچھا معیارِ زندگی یقینی بنائے رکھنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ امریکی معاشرے میں قبائلی اور علاقائی بنیاد پر پنپنے والی عصبیت آج بھی پائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ دبا ہوا ہے۔ جیسے ہی موقع ملے گا، دبی ہوئی ہر حقیقت سامنے آجائے گی۔ انتہا پسندی امریکی معاشرے کا عمومی مزاج ہے۔ فی الحال یہ انتہا پسندی سیاسی نوعیت کی ہے۔ کل کو یہی انتہا پسندی نسلی، علاقائی اور قبائلی عصبیت کے لبادے میں بھی کھل کر سامنے آجائے گی۔ سوال صرف حالات یعنی مواقع کے پیدا ہونے کا ہے۔
یورپی ریاستیں بھی ایک طویل مدت تک جنگ و جدل سے دوچار رہی ہیں۔ جنگ کیا ہوتی ہے اور کیسے ستم ڈھاتی ہے، یہ دو عظیم جنگوں کا بھوگ بننے والے یورپ سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ یورپ نے جنگ و جدل کی تاریخ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد بھی یورپ کے مسائل کم نہیں ہوئے۔ اس نے سرد جنگ کا عذاب بھی جھیلا اور امریکا جیسی سپر پاور کا ساتھ دینے کی پاداش میں بھی بہت سے مسائل اُس سے جڑے رہے۔ یہ کیفیت کسی حد تک اب بھی ہے۔ یورپی یونین نے اپنا راستہ الگ کرلیا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ یورپ ہر معاملے میں اس کا ساتھ دے اور دنیا کو چلانے کے حوالے سے اُس کے غلط اقدامات کی بھی بھرپور حمایت کرے۔ یورپ سمجھ چکا ہے کہ اب ایسا کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ باقی دنیا جاگ اٹھی ہے اور تیزی سے طاقت بھی حاصل کرتی جارہی ہے۔ ایسے میں اگر امریکا کا ساتھ دینے کا عمل جاری رہا تو باقی دنیا مل کر امریکا کے ساتھ یورپ کو بھی نشانے پر رکھے گی۔ یورپی یونین اب سب سے زیادہ ترجیح مالیاتی استحکام کو دیتا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے ہاتھوں پوری دنیا کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ یورپی یونین کو بھی استثنا حاصل نہیں رہا۔ یورپی قائدین نے معاشی بحالی کا عمل تیز کرنے پر توجہ دی ہے۔ حالیہ یورپی سربراہ کانفرنس میں مالیاتی استحکام کو اولین ترجیح کا درجہ حاصل رہا۔ طے کیا گیا ہے کہ سات سال تک سب سے زیادہ اہمیت مالیاتی بحالی کو دی جائے گی۔ یورپی یونین کے تمام ممالک اس نکتے پر متفق ہیں کہ معاشی اور مالیاتی استحکام ہی کو اولین ترجیح کا درجہ حاصل رہے گا۔
یورپ نے معاملات کو درست کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ جو کچھ دوسرے بہت سے معاشروں میں ہوتا ہے وہی کچھ یورپی معاشروں میں بھی ہوتا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ بھی ہوتی ہے، مفادات کے لیے حلیف بدلنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے مگر آخر میں سب کچھ درست ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ سب سے زیادہ اہمیت اس نکتے کو دی جاتی ہے کہ یورپ کا مجموعی مفاد ہر حال میں اولیت کا حامل رہنا چاہیے۔ یورپ کے عوام بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ قومی مفادات کے نگراں سمجھے جانے والے فیصلے آسانی سے نہیں ہو پاتے۔ اس حوالے سے پالیسی سازوں پر دباؤ کم سے کم ہونا چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ یورپی پارلیمنٹ پورے براعظم کے مفاد سے تعلق رکھنے والے ہر فیصلے کو مطلوب اہمیت دیتی ہے۔ بحث و تمحیص پر اچھا خاصا وقت صرف کیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ معاملات آخر تک ہاتھ میں رہیں اور کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جس پر بعد میں زیادہ پچھتانا پڑے۔ پالیسی کے معاملے میں بھی یہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی پالیسی عجلت میں تیار نہیں کی جاتی۔ اس نکتے پر خوب غور کیا جاتا ہے کہ کسی بھی پالیسی کا مستقبل بعید کے معاملات پر کیا اثر مرتب ہوسکتا ہے۔
ایسا نہیں کہ امریکا میں سبھی کچھ بہت آسانی سے منظور کرلیا جاتا ہے۔ وفاقی بجٹ کی منظوری میں وقت لگتا ہے اور خاصی دقت بھی پیش آتی ہے۔ امریکا میں بھی سخت تر فیصلے کرنا آسان نہیں کیونکہ ریاستیں مزاحمت کرتی ہیں۔ جب ان کے مفادات متاثر ہو رہے ہوتے ہیں تب ان کی طرف سے مزاحمت کا گراف بلند ہو جاتا ہے۔ یہ کیفیت ہر دور میں رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ تیزی سے کرلیا گیا۔ وفاقی سطح پر اِسی نوعیت کے فیصلے تیزی سے کیے جاسکتے ہیں۔
۰۹۔۲۰۰۸ء کے مالیاتی بحران کے دوران اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما نے ملک کو معاشی بحران کی زَد سے نکالنے پر توجہ دی اور بنیادی ڈھانچے پر غیر معمولی فنڈ خرچ کرنے کی تیاری کی۔ ماہرین کو اندازہ تھا کہ امریکا میں بنیادی ڈھانچا کمزور ہوچکا ہے۔ معاشی استحکام یقینی بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنا لازم تھا۔ اس کے لیے ہزاروں ارب ڈالر درکار تھے۔ وفاقی سطح پر یہ کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔ ریاستیں ہر معاملے میں وفاق کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہ تھیں۔ سوال ریاستی مفادات کے داؤ پر لگنے کا تھا۔
کسی بھی ملک میں اس نوعیت کی سرمایہ کاری ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو بنیادی ڈھانچے کو مستحکم تر کرنے کے لیے مطلوب فنڈ کا اہتمام کرنا زیادہ دشوار نہ ہوتا مگر امریکا میں ایسا کرنا آسان نہ تھا۔ تب ڈیموکریٹس کی حکومت تھی۔ ری پبلکنز نے یہ اعتراض کیا کہ بنیادی ڈھانچے پر غیر معمولی فنڈنگ سے اسٹیٹ سوشل ازم کو فروغ ملے گا!
امریکا میں ری پبلکنز نے خود کو زیادہ سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگر ناکام رہے ہیں۔ ری پبلکنز نے مذہب کا بھی سہارا لیا ہے۔ ری پبلکنز وطن پرست ہونے کے دعوے کرتے ہیں اور اس سلسلے میں بڑھکیں بھی بہت مارتے ہیں مگر جب حقیقی بہبودِ عامہ کی بات ہوتی ہے تب وہ فنڈنگ کے معاملے میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ۰۹۔۲۰۰۸ء کے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں براک اوباما نے جو اقدامات کیے ان کی راہ روکنے سے متعلق ری پبلکنز کی کوششیں اب رنگ لارہی ہیں۔ امریکا کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ مالیاتی پیچیدگیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ تب ری پبلکنز نے اہم فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی تھی۔ اس کا نتیجہ اب مالیاتی پیچیدگیوں کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔
ایک زمانے سے دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ ری پبلکنز نہیں چاہتے کہ امریکا میں حکومتی نظام ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل ہوسکے۔ وہ قومی مفاد کے ہر معاملے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ ان کی عمومی خواہش یہ ہوتی ہے کہ فیصلے تاخیر سے ہوں، بہبودِ عامہ کے منصوبے زیادہ سے زیادہ کمزور رہیں، مطلوب نتائج کا حصول ممکن نہ ہوسکے۔ ری پبلکنز کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام پر زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ لادا جائے اور بہبودِ عامہ کے منصوبوں پر کم سے کم خرچ کرنا پڑے۔ ڈیموکریٹس جمہوریت پسندی کے ناطے یہ چاہتے ہیں کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں میسر ہوں۔ ری پبلکنز اس معاملے میں اُن کی نہ صرف یہ کہ مدد نہیں کرتے بلکہ راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ ری پبلکنز دفاع پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی جنگ چھڑی رہے اور جنگی مشین بند نہ ہو۔ دوسری طرف وہ انتہائی مالدار طبقے کو ٹیکسوں کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایک طرف تو منتخب ایوانوں میں کیے جانے والے فیصلے ہیں اور دوسری طرف امریکی سپریم کورٹ بھی اکثر ری پبلکن پارٹی کے بازو کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام کے حق میں کیے جانے والے فیصلے گھٹتے جاتے ہیں۔
سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن صدارتی امیدوار کی حیثیت سے دو ہزار ارب ڈالر سے زائد مالیت کا ایسا پیکیج پیش کرچکے ہیں، جس کا بنیادی مقصد ملک کو ماحول کے شدید منفی اثرات سے محفوظ رکھنا ہے۔ ری پبلکنز ان کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔ جو بائیڈن کے لیے بھی کام کرنا اتنا ہی دشوار ہوگا جتنا براک اوباما کے لیے تھا۔ اوباما کو ملک کا بنیادی ڈھانچا مضبوط بنانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جو بائیڈن کو ماحول کے منفی اثرات کا سامنا کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ری پبلکنز سے جس نوعیت کی مدد درکار ہے وہ انہیں حاصل نہ ہوسکے گی۔ جو بائیڈن نے جو پیکیج پیش کیا ہے اس کے نتیجے میں ملازمت کے لاکھوں مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ ری پبلکنز مزاحم ہوں گے اور یوں خرابیاں برقرار رہیں گی۔ المیہ یہ ہے کہ ری پبلکنز نے ہر دور میں معیشت کا پہیہ جام کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر دور میں انہیں متوسط طبقے کی حمایت حاصل رہی ہے۔ جو ری پبلکنز کے پیدا کردہ معاشی بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ری پبلکن صدور ہمیشہ انتہائی مالدار امریکیوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے لڑتے آئے ہیں مگر عوام پھر بھی ان کے طرف دار رہے ہیں۔
یورپی یونین آج بھی بہت سی الجھنوں سے دوچار ہے۔ فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے اور مسائل بڑھتے ہیں، مگر اس کے باوجود ایک حقیقت بالکل عیاں ہے کہ عوام کے مفاد کو کسی بھی حال میں داؤ پر لگنے نہیں دیا جاتا۔ یورپی قائدین اول آخر اس نکتے کو اہم قرار دیتے ہیں کہ عوام کی مشکلات کم ہونی چاہییں، اور یہی یورپی یونین کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The US and the EU: A tale of two continents”. (“The Globalist”. July 23, 2020)
Leave a Reply