امریکی فوج کا معرکۂ مرجاء
افغانستان کے صوبہ ہلمند میں طالبان کے مضبوط مرکز مرجاء کو فتح کرنے کے لیے امریکی اتحادی افواج مکمل تیاریاں کر کے حملہ آور ہو چکی ہیں۔ یہ جارحانہ کارروائی تقریباً ۱۵ ؍ہزار پیادہ فوج سرانجام دے گی‘ جسے ۲۰ ہزار افغان فوج اور پولیس کے علاوہ افغانستان میں موجود تمام امریکی و نیٹو فضائی قوت کی مدد بھی حاصل ہو گی۔ اس کارروائی کا بنیادی ہدف مرجاء ہے‘ جسے طالبان کے مضبوط مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔
مرجاء پر قبضہ کرنے کے بعد دیگر علاقوں میں انہیں شکست دینے کی کارروائیوں کی راہ ہموار کرنا ہے‘ جس سے افغانستان کے مضافاتی علاقوں میں حکومت کا کنٹرول بحال ہو جائے گا۔ بلاشبہ طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کی یہ حکمتِ عملی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ طالبان کو افغانستان کے ۳۴ صوبوں میں سے تیس پر کنٹرول حاصل ہے۔
مرجاء اور ملحقہ علاقے کو ’’گوگل‘‘ سے لی گئی اس تفصیل سے جنگ کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔
مرجاء جو کہ ہلمند کے صوبائی مرکز لشکر گاہ کے مغرب میں تقریباً ۱۵ ؍کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک ہموار اور ریگستانی علاقہ ہے‘ جہاں اِکّا دُکّا اور بکھرے ہوئے مٹی کے بنے ہوئے گھر ہیں۔ جنوب اور مغرب کی جانب سبز پٹی ہے‘ جسے دریائے ہلمند سیراب کرتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے زرعی فارم اور باغات ہیں۔ سبز پٹی کے علاقے میں ۶ تا ۷ ہزار کے لگ بھگ آبادی ہے۔ تمام علاقہ میدانی ہے جو قلعہ بند ہو کر یا طالبان کی پسندیدہ گوریلا جنگ کے لیے قطعاً موزوں نہیں ہے۔ اس کھلے اور وسیع علاقے میں اتحادی فضائیہ اور مشینی متحرک دستوں کے لیے طالبان کی نقل و حرکت اور جنگی کارروائیوں کا سدباب کرنا بہت آسان ہو گا۔
اب رہا یہ سوال کہ جب اتحادی افواج کو علاقے میں کسی قسم کی شدید مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تو اس قدر بھاری تیاریاں کر کے اس علاقے کو فتح کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
دراصل اس فیصلے کے پیچھے ایک نفسیاتی اور تاریخی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ ماضی میں اس علاقے میں داخل ہونے کے بعد کوئی لشکر صحیح سلامت واپس نہیں گیا اور اگر اتحادی افواج ان علاقوں پر قابض ہو جاتی ہیں اور طالبان پسپا ہو جاتے ہیں تو اتحادی افواج کی نفسیاتی برتری قائم ہو جائے گی اور دوسرے صوبوں میں اس طرح کی کارروائی کر کی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
طالبان گزشتہ ۳۰ سال سے شمالی خطے کے صحرائی اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں جنگ لڑنے میں مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ وہ بہار اور جانباز مجاہد ہیں جنہیں اپنے آپ پر اعتماد اور قابض افواج کے خلاف فتح مند ہونے کا کامل یقین ہے۔ وقت اور حالات مکمل طور پر ان کا ساتھ دے رہے ہیں‘ لہٰذا مرجاء کے معرکے میں ان کی حکمت عملی کو سمجھنا بہت آسان ہے۔
ایک حکمتِ عملی یہ ہے کہ انہوں نے مرجاء کے دفاع کے لیے مشہور کمانڈر ملا عبدالرزاق کی کمان میں ہزار یا دو ہزار جنگجو چھوڑے ہیں جو آخری گولی اور آخری سانس تک لڑیں گے اور اتحادی افواج کو زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچائیں گے اور اس پورے علاقے میں پھیلے ہوئے منتشر لڑاکا دستوں سے علاقے کا دفاع کریں گے اور ’’عمر بم‘‘ اور بوبی ٹریپ کے استعمال سے حملہ آوروں کے خلاف کامیاب مدافعت کریں گے۔
۲۰۰۶ء میں اسرائیل کے خلاف حزب اﷲ کا اپنایا گیا زمین دوز دفاع کا تجربہ بھی مزاحمت کی کامیابی کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ چار دنوں سے جاری اس جنگ میں یہی حکمت عملی سامنے آئی ہے۔
ہلمند سے ملحقہ علاقوں میں طالبان کے لڑاکا دستوں کی تعداد ۱۰ سے ۱۲ ؍ہزار کے قریب ہے جو لڑائی کے مرکز کے ارد گرد پھیل کر اتحادی افواج کے خلاف مختلف اطراف سے حملے کر کے انہیں الجھائے رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی رسد و رسائل کی راہیں مسدود کر دیں گے۔ ایک طرف تو مرجاء کا معرکہ جاری رہے گا جبکہ طالبان اپنے زیرِ کنٹرول صوبوں میں اتحادی افواج کے خلاف کارروائیاں تیز کر کے ان کی پریشانی اور مشکلات میں اضافہ کرتے رہیں گے۔
۱۸۹۸ء میں تاج برطانیہ کو دی گئی عبرتناک شکست کی کہانی تو نہیں دہرائی جاسکے گی کیونکہ اتحادی فوجوں کی فضائیہ انہیں مکمل تباہی سے بچا لے گی۔ البتہ اتحادی افواج کو مرجاء سے بے آبرو ہو کر نکلنا پڑے گا۔
مرجاء اور افغانستان میں جاری جنگ کا نتیجہ دو متصادم قوتِ ارادی کے درمیان بڑا واضح ہے۔ اتحادی افواج ہمت ہار چکی ہیں اور شکست کو اپنے سامنے دیکھ رہی ہیں کیونکہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں‘ اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے جبکہ طالبان اپنے وطن کے دفاع‘ آزادی اور خودمختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ طالبان کو اپنے جذبے کی صداقت اور اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات پر مکمل اعتماد ہے اور یہی وہ ایمانی طاقت ہے جس پر بھروسہ کرتے ہوئے انہوں نے گزشتہ ۳۰ برسوں میں جدید اسلحہ سے لیس دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔
افغان مجاہدین کی فوج سایوں کی مانند ہے جسے ’’شیڈو آرمی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس شیڈو آرمی نے ایک غیرمنظم جنگ کے ذریعے عالمی استعماری طاقتوں کے توسیع پسندانہ اور عالمی برتری کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے اور یہی وہ طاقت ہے جس نے نئے عالمی نظام کے خد و خال متعین کیے ہیں اور موالان جلال الدین رومی کی یہ پیش گوئی پوری کر دکھائی ہے کہ افغانستان سے آنے والے غیرمعمولی صلاحیت کے حامل لوگ دنیا کا نظام بدل دیں گے۔
۲۰۰۱ء میں جب افغانستان پر اتحادی فوجوں نے قبضہ کیا تو جلال الدین حقانی پاکستان آئے اور میرے مشورے کے جواب میں انہوں نے کہا ’’ہم نے اپنی آزادی تک جنگ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ ہم قابض فوجوں کے آگے کبھی نہیں جھکیں گے کیونکہ ہماری قومی روایات ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ آزادی ہمارا اوّلین مقصد اور آخری منزل ہے اور ان شاء اﷲ ہم ہی فاتح ہوں گے۔‘‘
ہمارے ایک دوست نے جو حال ہی میں افغانستان سے واپس آئے ہیں‘ مجھے بتایا کہ میں نے طالبان کو آپس میں متحد اور پرسکون پایا۔ سلجھے ہوئے‘ ٹھنڈے مزاج والے یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے مقصد پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت اور حالات کا رخ ان کی جانب ہے۔ جبکہ یہی وقت اور حالات جارح افواج کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ اگر مرجاء کے علاقے پر اتحادی فوجیں قابض بھی ہو جائیں لیکن پھر بھی وہ بازی ہار جائیں گی‘ بلکہ انہیں بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑے گا۔ اتحادی افواج کا یہ اقدام کسی بھی زاویے سے قیامِ امن کی خاطر مددگار ثابت نہیں ہو گا۔ دانش کا تقاضا ہے کہ ان حالات میں جبکہ طالبان کو اتحادی افواج پر واضح سبقت حاصل ہے‘ اور آئے دن مزید قبائل ان کی صفوں میں شامل ہو کر ان کی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں‘ امریکا اور اس کے اتحادی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان میں قیامِ امن کے عظیم تر مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے طاقت کے زور پر ایسے اقدامات اٹھانے
سے گریز کریں۔ وہاں ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جن کا مقصد القاعدہ کو طالبان سے علیحدہ کر دینا ہے۔ مگر حقیقت میں ایسا ہو گا نہیں‘ کیونکہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو طالبان آج سے ۹ سال قبل اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کر کے اپنے ملک کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا لیتے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ طالبان کے درمیان ’’اچھے طالبان‘‘ اور ’’برے طالبان‘‘ کی کوئی تفریق نہیں ہے بلکہ وہ سب ایک ہیں جو ملا عمر کے پیروکار ہیں۔ انہیں کسی قیمت پر خریدا نہیں جاسکتا اور نہ ہی وہ بکائو مال ہیں۔ اس لیے راہِ راست صرف ایک ہے کہ اس حقیقت کو صدقِ دل سے تسلیم کرتے ہوئے قیامِ امن کے عظیم تر مقصد کی خاطر اقدامات کیے جائیں۔
افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے خاص اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے پرامن انخلا کے علاوہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے اقتدار کی سویلین نظام کی جانب منتقلی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ افغانستان میں قابض فوجوں کی شکست کے واضح آثار نظر آرہے ہیں‘ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اتحادی فوجوں کے افغانستان سے نکلنے کی جامع حکمتِ عملی کا اعلان کیا جائے کیونکہ یہی ایسا راستہ ہے جو افغانستان میں قیامِ امن کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر درج ذیل اقدامات اٹھانے ضروری ہیں:
٭ قابض افواج افغانستان سے نکلنے کے نظام الاوقات کا تعین کرتے ہوئے فائر بندی کا اعلان کریں۔ طالبان اور شمالی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کر کے ایک لوئی جرگہ تشکیل دیا جائے جو ۳ سال کے عرصہ کے لیے عارضی حکومت کے قیام کا فیصلہ کرے جس کی ذمہ داری ہو کہ وہ آئندہ انتخابات سے قبل مردم شماری کے ذریعے فریقین کی حیثیت کا تعین کرے کہ کون کتنے پانی میں ہے؟
٭ ملک کے لیے نیا آئین بنانے‘ اداروں کی تعیمرِ نو‘ بنیادی ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر تعمیر اور ۲۰۰۱ء میں منعقد ہونے والی بون کانفرنس سے بگڑے ہوئے نسلی امتیاز کے توازن کو درست کرے‘ اس کی بعد ۲۰۱۳ء میں عام انتخابات کرائے جس کے بعد عنانِ اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کر دیا جائے۔
افغانستان میں اتحادیوں کی جنگ میں طاقت کے محور پاکستانی اور افغان طالبان ہیں‘ انہیں اعتماد میں لیا جانا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہی طاقتیں قیامِ امن کے حوالے سے اصل کردار ادا کر سکتی ہیں۔ قریب ترین پڑوسی ممالک چین اور ایران کو بھی اس مقصد کے لیے شریک کار بنایا جانا لازم ہے۔
{}{}{}