
نو منتخب ایرانی صدر حسن روحانی نے ستمبر ۲۰۱۳ء میں ایرانی صدر کی حیثیت سے پہلی دفعہ اقوام متحدہ کے ۶۸ ویں اجلاس میں شرکت کی۔ ایرانی صدر کی امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات بھی دورے کا حصہ تھی۔ یہ ملاقات دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ۱۹۷۹ء کے بعد ہونے والی پہلی ملاقات تھی، جو آخر وقت میں ٹیلی فون کال تک محدود کردی گئی۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری تھا کہ امریکی و ایرانی وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات ہوئی، جس میں پہلی مرتبہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ حسن روحانی نے ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق اپنے پیش روئوں کے سخت گیر مؤقف سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے مغرب کے سامنے ایران کی خوش کن تصویر پیش کی ہے۔ نتیجتاً ان تبدیلیوں کو ایران امریکا تعلقات کے لیے خوش آئند کہا گیاہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی اشارہ دیا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے کے امکانات پہلے سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ان تمام باتوں نے فضا میں تبدیلی کے آثار ظاہر کیے ہیں۔ ایران اور امریکا کا ایک دوسرے کے لیے جارحانہ اندازِ بیاں ہونے کے باوجود حالیہ مذاکرات کا جائزہ لینے سے قبل کئی اہم امور مدنظر رکھنا ضروری ہیں۔
اولاً، مفاہمت یہ ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کوئی روابط نہیں، اور اس حقیقت کو چھپاتی ہے کہ امریکا اور ایران پہلے سے مشرق وسطیٰ میں مل کر کام کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنے دو چہرے رکھے ہیں، ایک ظاہری اور دوسرا پردے کے پیچھے۔ ظاہری طور پر امریکا ایران کو مشرق وسطیٰ میں اپنا حریف ظاہر کرتا ہے، جو دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے اور اسرائیل کے لیے خطرہ ہے اور اس کا ایٹمی پروگرام خطے کی سلامتی کے لیے معاون نہیں ہے۔ ایران کے نزدیک امریکا شیطانِ عظیم ہے، جو ایران اور خطے پر اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ جب کہ اندرون خانہ دونوں نے مل کر خطے میں ایران کو ایک کلیدی کردار سپرد کیا اور خطے پر امریکی شکنجے کی مضبوطی کو یقینی بنایا ہے۔ عراق اور افغانستان میں امریکی جنگوں نے امریکی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھایا ہے، اوران جنگوں میں ایران نے امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً جب امریکا عراق میں مزاحمت کو کچل رہا تھا، تو ایران نے امریکی سرپرستی میں قائم عراقی حکومت کو مدد فراہم کی اور قدم جمانے کا موقع دیا۔ اسی طرح ایرانی سرمایہ کاری اور اثرو رسوخ نے شمالی افغانستان کو استحکام دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ثانیاً، امریکا کے لیے بنیادی چیلنج یہ ہے کہ ایران کے خطے کے حوالے سے جو عزائم ہیں، ان سے کیسے نمٹا جائے؟ جس کے نتیجے میں امریکی پالیسی کبھی کنٹرول کرنے، مشغول کرنے اور کبھی فوجی حل کے گرد گھومتی رہی ہے۔ خطے میں بالادستی قائم کرنے کے ایرانی عزائم ممکنہ طور پر امریکی مقاصد سے متصادم ہیں اور یہی امریکا کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ امریکا کئی مواقعوں پر ایران کوخطے میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کر چکا ہے۔ تاہم امریکی سیاسی حلقوں میں کئی لوگ ایران پر اعتماد نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کئی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ عراق اور افغانستان میں درپیش مشکل صورتحال اور قدامت پسند انتظامیہ میں حکومت کی تبدیلی کے خوف نے امریکا کو مشترکہ مسائل کے حل کے لیے ایران کے ساتھ چلنے پر مجبور کیا۔ امریکی صدر نکسن ۱۹۷۰ء میں جب چین پر کام کر رہے تھے تو اس وقت امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ میں وسیع اتفاق رائے موجود تھا، جو کہ ایران کے ساتھ تعلقات میں دکھائی نہیں دیتا۔
ثالثاً ایران نے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے کئی سیاسی تدابیر کی ہیں۔ اس نے لبنان میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں حزب اللہ قائم کی اور اسے تربیت اور اسلحہ فراہم کرتے ہوئے اس کی مدد جاری رکھی۔ اسی طرح فلسطین میں حماس کو مسلح کیا۔ شام میں علوی حکومت سے تعلقات کو مضبوط کیا، اور اپنے آپ کو عالمی سطح پر شیعوں کی نمائندہ حکومت کے طور پر پیش کیا، اور شیعہ نمائندہ حکومت کا بہانہ بناتے ہوئے قابل ذکر شیعہ آبادی کے حامل ملکوں، افغانستان، سعودی عرب، بحرین اور دیگر خلیجی ریاستوں میں مداخلت شروع کردی۔ مذہبی پیشوائوں کے زیر سایہ ایرانی حکومت نے افغانستان سے لے کر بحیرۂ روم کے سا حلی علاقوں بشمول شام اور لبنان تک اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔
رابعاً، اگرچہ امریکا اور ایران کے مابین کئی امور پر اختلافات موجود ہیں،لیکن جہاں تک دونوں ممالک کے تزویراتی مفادات کا تعلق ہے، دونوں عملاً اس پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ عراق اور افغانستان میں دونوں کا ایک مفاد تھا کہ وہاں استحکام ہو اور اثر ورسوخ بڑھے۔ امریکا کے نزدیک اس نے ایک ملک کے خلاف دوسرے کی مدد کرکے مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن قائم کیا ہے۔ خطے میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا امریکا کے لیے ضروری تھا، جس کے لیے اس نے ایران کو استعمال کیا۔ اور امریکا کے لیے ایران کے عزائم کو کنٹرول کرنا بھی ضروری تھا، جس کے لیے اس نے اسرائیل کو استعمال کیا۔ دونوں ممالک کو روکنے کے لیے امریکا نے سعودی عرب کی مدد کی، جس نے بدلے میں ایسے گروپوں کی مدد کی اور اسلحہ فراہم کیا جو دونوں ملکوں کے خلاف تھے۔ اس عمل نے اس بات کو یقینی بنایا کہ امریکا کو فوجی مداخلت کی ضرورت نہیں۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے مستقل دبائو کے باوجود امریکا اس بات کا مخالف رہا، جس سے اسرائیل خطے میں یقینی طور پر مضبوط ہو جاتا۔ایران کی پالیسی امریکا پر اعتماد نہ کرنے اور بات چیت جاری رکھنے کے درمیان بدلتی رہی ہے، جس کے نتیجے میں اسے اس خطہ میں سنجیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔
امریکا اور ایران کی یہ تقریباً روایت بن گئی ہے کہ یہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں، صرف اس لیے کہ اس کو کسی قسم کی بات چیت میں تبدیل کیا جائے۔ اس قسم کے مذاکرات اس صدی کے اوائل سے جاری ہیں اور بہت معمولی پیش رفت ہو سکی ہے۔اس کے متوازی امریکا اور ایران ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ بیان بازی کے باوجود مشرق وسطیٰ میں تزویراتی نوعیت کے امور پر مل کر کام کر رہے ہیں۔ سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ستمبر ۲۰۰۸ء میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ایران کی اصل پوزیشن کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایران نے افغانستان میں تعاون کے لیے امریکا کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے۔۔۔ اور ہم نے عراق میں امن اور استحکام کے لیے امریکا کو مدد فراہم کی ہے۔ اگر چہ کہ یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہوگا کہ مفاہمت کے لیے کی جانے والی تازہ ترین کوششوں سے کیا نتیجہ بر آمد ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور ایران ایک طویل عرصے سے مصلحتوں اور مفادات کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔
(ترجمہ: سید سمیع اللہ حسینی)
(“Deciphering the US-Iran Rapprochement”… “The Revolution Observer”. Oct. 19, 2013)
Leave a Reply