
جرمن چانسلر اینجیلا مرکل نے حال ہی میں جرمن راہنما کی حیثیت سے امریکا کا آخری دورہ کیا ہے۔ اس دورے کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید قربت پیدا ہو، مگر ایک اور حقیقت بھی اس دورے سے واضح ہوگئی اور وہ ہے بیجنگ کے حوالے سے امریکا اور یورپ کے رویے میں پایا جانے والا فرق۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں ایک ہفتہ بھی بہت ہوتا ہے یعنی یہ کہ سیاست میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی اور کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ابھی یہ سب کچھ ہو ہی رہا ہوتا ہے کہ کچھ اور ایسا ہو جاتا ہے جو معاملات کو کسی اور سمت لے جاتا ہے اور یوں ایک نیا سلسلۂ واقعات رونما ہونے لگتا ہے۔ آپ بہت سے معاملات سے مطمئن ہوچکے ہوتے ہیں مگر پھر اچانک کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ آپ کو نئے سرے سے اندازے قائم کرنا پڑتے ہیں، معاملات کا نئے زاویوں سے تجزیہ کرنا پڑتا ہے۔
سیدھی سی بات ہے، سیاست سیدھے راستے کا سفر نہیں۔ کبھی یہ سفر اِس راستے پر ہوتا ہے اور کبھی اُس راستے پر۔ کوئی بھی چیز حتمی نہیں ہوتی۔ سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ امریکا، یورپ (بالخصوص جرمنی) اور چین کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ سیاسی اعتبار سے انتہائی عجیب و غریب اور حیرت انگیز امر ہے۔
۲۰۲۰ء کے آخری دن یورپ اور چین ہمہ گیر نوعیت کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر متفق ہوئے۔ یہ ایسا معاہدہ ہے جو امریکا کو بالکل ناپسند ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کو سمجھنے اور برتنے میں کوتاہی برتی اور اس کے نتیجے میں معاملات مزید بگڑے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا اور یورپ کے درمیان فاصلے بڑھانے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کلیدی کردار ادا کیا اور اِسے سفارت کاری کے میدان میں چین کی بڑی کامیابی سے تعبیر کیا جائے گا۔
صرف تین ماہ بعد یورپ نے چین کے خلاف امریکا کی طرف سے عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کا ساتھ دیا۔ یہ پابندیاں غیر معمولی اثرات کی حامل تو نہیں تھیں مگر پھر بھی ان کی علامتی حیثیت غیر معمولی تھی۔ یورپ کی طرزِ فکر و عمل پر چین کی طرف سے شدید ردعمل دکھائی دیا۔ اس کے نتیجے میں یورپی پارلیمان میں بھی بہت اتھل پتھل ہوئی۔ امریکا نواز سیاسی تجزیہ کاروں نے اس تبدیلی کو امریکا کی بڑی کامیابی سے تعبیر کیا۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ امریکا اور یورپ کو قریب آنے کا موقع فراہم کرکے چین نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔
یہ سب کچھ بھی فیصلہ کن انداز کا نہ تھا۔ تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے۔ جوزف بائیڈن کو امریکی صدر کے منصب پر فائز ہوئے ۶ ماہ سے زیادہ مدت گزر چکی ہے۔ امریکا اور یورپ کے درمیان جس قدر الجھنوں کا سوچا جارہا تھا اُن سے کہیں کم الجھنیں دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکا اور یورپ کے درمیان اب بھی بہت سے معاملات میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بالکل واضح معاملات کی جگہ بہتر تو یہ ہے کہ انسانی حقوق اور مشترکہ اقدامات سے متعلق بڑھکیں مارنے تک معاملات رہیں تو اچھا ہے۔ کسی بھی معاملے میں واضح عمل کا آپشن اپنائے بغیر معاملات کو کسی نہ کسی طور چلاتے رہنے پر یقین رکھنا زیادہ معقول طرزِ فکر و عمل کا عکاس ہے۔ صدر جوزف بائیڈن کی انتظامیہ نے بوئنگ ایئر بس تنازع کو معطل کرکے اور نارڈ اسٹریم ۲ کے منصوبے پر پابندیاں اٹھانے سمیت کئی اقدامات کیے ہیں۔ اس کے باوجود امریکا اور یورپ کے تعلقات میں وہ گرم جوشی پیدا نہیں ہو پائی ہے، جس کی اس وقت شدید ضرورت ہے۔
امریکا کی غیر معمولی کوششوں کے باوجود اب چین اور یورپی یونین کے تعلقات کسی نہ کسی طور پروان چڑھتے ہی رہے ہیں۔ جرمن لیڈر اینجیلا مرکل اور فرانسیسی صدر ایمانویل میکراں نے چینی صدر شی جن پنگ سے گفت و شنید کی ہے اور جامع سرمایہ کاری کے منصوبے کے بارے میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔ چند ایک معاملات میں اختلافات ضرور پائے جاتے ہیں مگر پھر بھی چین اور یورپی یونین نے معاملات کو درست کرنے کی سمت قدم بڑھانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بیجنگ نے پولینڈ اور چیک جمہوریہ کے رہنماؤں کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔ یورپی یونین اور چین کے درمیان تجارت تمام مشکلات کے باوجود جاری رہی ہے۔
کیا اسٹریٹجی کے اعتبار سے یورپی یونین اب بھی امریکا کے مقابلے میں چین سے زیادہ دور ہے؟ یقینا۔ معاملات کچھ ایسے ہی ہیں۔ کیا یورپی یونین اب بھی امریکا کے مقابلے پر چین پر کم اثرات کی حامل ہے؟ بالکل درست، ایسا ہی ہے۔ چند ریاستیں ایسی ہیں جو چین کی شدید مخالف ہیں۔ مثلاً لتھوانیا کی قیادت چین کے خلاف جانے کے معاملے میں بہت نمایاں رہی ہے۔ مگر خیر، لتھوانیا اور اس قبیل کی متعدد ریاستیں غیر متعلق ہیں، یعنی ان کی مخالفت سے چین کا کچھ زیادہ بگڑتا نہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ یہ ریاستیں فیصلہ سازی کے عمل میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ یورپ کے بہت سے تجزیہ کاروں اور تھنک ٹینکس نے چین کے خلاف بولنے اور لکھنے کے معاملے میں خاصی تیزی اور جوش و خروش دکھایا ہے مگر وہ اس بات کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں کہ چین نے یورپ کی مخالف ریاستوں کے خلاف سفارتی محاذ پر غیر معمولی تیاریاں کر رکھی ہیں اور اس کی نظر طویل المیعاد مقاصد و اہداف پر ہے۔
جامع سرمایہ کاری کا معاہدہ قدرے ناکام رہا ہے اور اسے سڑک پر اچانک پیدا ہو جانے والے بڑے گڑھے سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے مگر خیر، بیجنگ کو شکست کا منہ نہیں دیکھنا پڑا ہے۔ شی جن پنگ نے ہمت نہیں ہاری اور امریکا و یورپی یونین کے مشترکہ محاذ کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے گریز کیا ہے۔ چین نے یورپی یونین تعلقات بہتر بنائے رکھنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ برطانیہ سے بھی بہتر تعلقات یقینی بنانے پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ برطانیہ میں انتہا پسند عناصر چاہتے ہیں کہ چین سے فاصلہ رکھا جائے، مگر چین نے اب تک انہیں ناکامی سے دوچار رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ امریکی صدر نے اب تک چین کے خلاف فولادی نوعیت کا اتحاد قائم کرنے کے حوالے سے جو کوششیں کی ہیں انہیں بڑھک کی حد تک رکھنا شی جن پنگ کے لیے ممکن ہو پایا ہے۔
چین نے اب تک سفارت کاری میں نرمی اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ وہ کسی بھی ملک سے مخاصمانہ انداز سے نمٹنے کے موڈ میں نہیں۔ چین کسی بھی ملک پر یہ تاثر قائم نہیں کرنا چاہتا کہ وہ عسکری اعتبار سے اس پر چھا جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ طاقت کے بے محابا استعمال سے بچنے کے لیے اُس نے اب تک غیر معمولی نوعیت کی امن پسند سفارت کاری اپنائی ہے۔ یہ سب کچھ چینی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین آں جہانی ماؤ زے تنگ کے دور سے چلا آرہا ہے۔ وہ بالا دستی کو بالا دستی سے ختم کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ وہ امریکا کو بھی اگر کمزور کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے سست رفتاری پر مبنی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ امریکا کو اس کے اتحادیوں کے لیے کم اثرات کا حامل بنانے کی راہ پر گامزن رہنے کو چین نے زیادہ ترجیح دی ہے۔ امریکی طاقت کا طاقت سے مقابلہ کرنے کے بجائے کوشش یہ کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طور معاملات کو سفارت کاری اور معیشت کے محاذ پر درست کیا جائے۔ امریکا کی ساری اہمیت اس بات سے ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے لیے کس حد تک کام کا ہے۔ اگر وہ محض نام کی سپر پاور رہ جائے اور اپنے اتحادیوں کے حالات میں مثبت تبدیلی یقینی بنانے کے حوالے سے کچھ خاص نہ کر پائے تو اس کے اثرات کا دائرہ خود بخود چھوٹا ہوجائے گا۔
چینی قیادت اس بات کو سمجھتی ہے کہ یورپی یونین کو کسی کی طرف جھکنے سے روکا نہیں جاسکتا اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یورپی یونین نے کئی بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔ ہاں، چینی قیادت طویل المیعاد پالیسی اپناکر یورپی یونین کو امریکا کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ کرسکتی ہے۔ طویل المیعاد پالیسی اپنانے سے یورپی یونین کو سیاسی اعتبار سے امریکا کے خلاف جانے یا اُس کا ساتھ دینے سے روکنا ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ امریکا نے چین مخالف پالیسیوں کے ذریعے اپنے لیے جگہ بنائے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یورپی یونین اور دیگر خطوں کو چین کے خلاف جانے پر مجبور کرنے کے لیے امریکا جو کچھ کرتا آیا ہے اُس کی راہ مسدود کرنا کے لیے چین کو صبر سے کام لینا ہے اور وہ ایسا ہی کر رہا ہے۔
اگر چینی قیادت یورپی یونین کو امریکا سے مجموعی طور پر دور رکھنے میں کامیابی ممکن بناسکے تو یہ بہت بڑی کامیابی تسلیم کی جائے گی۔ امریکا اب تک یورپی یونین کو چین سے معاشی تعلقات ختم کرنے پر آمادہ نہیں کرسکا۔ یہ امریکا اور یورپ کے درمیان اختلافات کی چند بڑی وجوہ میں سے ہے۔
بہت سے امریکی تجزیہ کاروں نے اپنے طور پر یہ طے کرلیا یا سمجھ لیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین کو چین سے تعاون کرنے سے روک دیا ہے اور اب جوزف بائیڈن جادوئی طور پر تمام معاملات کو درست کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ سالِ رواں کے اوائل میں جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی ایوانِ صدر سے رخصت ہوئے اور جو بائیڈن آئے تب ایسا لگ رہا تھا کہ امریکا کی واپسی ہوچکی ہے اور اب چین یا کسی اور طاقت کو امریکا اور یورپی یونین کے درمیان دیوار کی حیثیت اختیار کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ یورپی یونین نے بھی جو بائیڈن کے صدر بننے پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ امریکا میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی کا خیر مقدم کرتی ہے اور بین الاقوامی معاملات میں بہت کچھ تبدیل کرنے پر توجہ دے گی۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ وہ سب کچھ محض رسمی کارروائی کے ذیل میں تھا اور یورپی یونین معاشی معاملات میں چین سے مل کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتا ہے۔
سیاست و سفارت کاری کے میدان میں ایک طویل کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس کھیل میں راتوں رات کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔ چین کے حوالے سے امریکا اور یورپی یونین کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان اختلافات سے فائدہ اٹھانا بیجنگ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں تو قدرے مشکل تھا مگر جوزف بائیڈن کی صدارت میں ایسا کرنا خاصا آسان ہے۔ اگر امریکا نے چین کے معاملے میں جارحانہ پالیسیاں اختیار کیں تو اپنے اتحادیوں سے اُتنی ہی تیزی سے دور ہوتا چلا جائے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The US is fooling itself if it believes the EU backs its aggression against China. Serious transatlantic rifts over Beijing remain”. (“rt.com”. July 15, 2021)
Leave a Reply