نیٹو کے سابق کمانڈر جنرل ویزلے کلارک کہتے ہیں ’’۲۰۰۱ء میں مجھے ایک بار امریکی محکمۂ دفاع میں بریفنگ میں شریک ہونا تھا۔ میں گیا تو ایک ایک افسر کے پاس مختلف امور پر بات کرنے کا خاصا وقت تھا۔ اس نے عراق پر ممکنہ حملے سے متعلق گفتگو کی مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ایک عراق ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر سات ممالک کے خلاف جنگی کارروائیاں شروع کی جانی ہیں۔ عراق کے بعد شام، لبنان، لیبیا، ایران، صومالیہ اور سوڈان کا نمبر آنا تھا‘‘۔
۷ جولائی ۲۰۱۲ء کو پیرس میں فرینڈز آف سیریا کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ جو فوجی افسران اور اہلکار اب تک شامی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں انہیں بہت جلد اندازہ ہو جائے گا کہ انہوں نے ایسا کرکے کس قدر غلط کیا۔
مغربی دنیا اور روس کے درمیان کشیدگی اور محاذ آرائی اب تک سفارتی میدان تک محدود تھی۔ سلامتی کونسل میں تھوڑی بہت گرما گرمی ہو جایا کرتی تھی مگر اب محاذ آرائی مشرقی بحیرۂ روم تک پہنچ گئی ہے۔
شام میں جاری بحران کے حل میں ناکامی اور شدید تعطل کے بعد مغربی دنیا نے شام کے گرد عسکری موجودگی مستحکم کرلی ہے۔ روس نے بھی دس جہازوں پر مشتمل بیڑا مشرقی بحیرۂ روم بھیج دیا ہے۔ اس بیڑے کی سربراہی ایڈمرل چیبانینکو (Chabanenko) اینٹی سب میرین ڈیسٹرائر کر رہا ہے۔ روسی بیڑا آج کل شام کے جنوبی ساحل پر لنگر انداز ہے۔
گزشتہ اگست میں روس کے نائب وزیر اعظم دیمتری روگوزن (Dmitry Rogozin) نے الزام عائد کیا تھا کہ نیٹو کی قیادت شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے حملے کی تیاری کر رہی ہے اور یہ کہ اس منصوبے پر عمل کا بنیادی مقصد ایران پر حملے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ گزشتہ دنوں روسی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل وکٹر چرکوف نے کہا کہ روسی بحری بیڑے میں میرینز بھی شامل ہیں تاہم شام کی طرف سے لڑائی کا کوئی ارادہ نہیں۔ دوسری طرف روسی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ روس کا اس علاقے میں بیڑا بھیجنا کوئی خطرناک بات نہیں، معمول کی مشقیں کی جانی ہیں۔
روسی بحریہ کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے امریکا، برطانیہ اور فرانس نے بڑے پیمانے پر متحرک ہونا شروع کردیا ہے۔ چند ہی ہفتوں میں درجنوں لڑاکا جہاز مشرقی بحیرۂ روم میں پہنچا دیے جائیں گے۔ مغرب اور روس کے درمیان ایک بار پھر سرد جنگ والی کیفیت پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ شام سے متعلق اہم قراردادوں کو روس اور چین کی جانب سے ویٹو کیے جانے کی صورت میں امریکا اور نیٹو نے مختلف ممکنہ آپریشنوں کی تیاری کر رکھی ہے۔ بشارالاسد انتظامیہ کا تختہ الٹنے کے لیے بہت سے آپشنز پر غور کیا گیا ہے اور اس حوالے سے تمام امور پر غور کرکے منصوبے تیار کیے جاچکے ہیں۔
امریکا اور نیٹو نے فری سیریا آرمی کی بھرپور معاونت کی تیاری کرلی ہے۔ بشار انتظامیہ کا تختہ الٹنے پر کمر بستہ فری سیریا آرمی میں ترکی، عراق، سعودی عرب اور قطر سے تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کو بھرتی کیا جارہا ہے۔ فرانس اور برطانیہ نے موسم گرما ہی کے دوران مشرقی بحیرۂ روم میں بڑے پیمانے پر جنگی مشقوں کی تیاری کر رکھی ہے۔ اس میں فرانس کا طیارہ بردار جہاز ’’چارلس ڈیگال‘‘ اور برطانیہ کا ’’ایچ ایم ایس بلوارک‘‘ شریک ہوں گے۔ ان مشقوں کا بنیادی مقصد ضرورت پڑنے پر دشمن کی سرزمین پر فوجی اتارنا ہے۔
مین اسٹریم میڈیا میں یہ بات نہیں بتائی جارہی کہ کیوگر ۱۲؍نامی مشقوں میں یہ امر بھی شامل ہے کہ اگر شام کی صورت حال بگڑے اور لڑائی لبنان اور اردن تک پھیل جائے تو تمام برطانوی شہریوں کو بھی مشرق وسطیٰ سے بحفاظت نکالا جائے۔
ایچ ایم ایس بلوارک کی بھرپور معاونت کے لیے برطانیہ ہیلی کاپٹر بردار جہاز ایچ ایم ایس اِلّسٹریئس اور ٹاسک فورس کا کام آسان بنانے کے لیے ایک ڈسٹرائر بھی بھیج سکتا ہے۔ کئی سو میرین کمانڈوز بھی مکمل تیاری کی حالت میں ہوں گے تاکہ کسی بھی وقت بگڑتی ہوئی صورت حال میں بھرپور کارروائی ممکن بنائی جاسکے۔ AH-64 ہیلی کاپٹر بھی آپریشن میں مدد کے لیے تیار رہیں گے۔ فرانس بھی ملٹری آپریشن کی صورت میں برطانیہ کی بھرپور معاونت کی تیاری کرچکا ہے۔
شام میں لڑائی کے انتہائی خطرناک شکل اختیار کیے جانے کی صورت میں ہزاروں فوجی برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے شہریوں کو نکالنے کے لیے تیاری کی حالت میں ہوں گے۔ برطانوی وزارتِ دفاع کے ذرائع نے بھی شہریوں کو نکالنے سے متعلق منصوبوں کی تصدیق کی ہے تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ برطانیہ کسی بھی حالت میں لڑائی کا حصہ نہیں بنے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی شہریوں کو نکالنے کا منصوبہ محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ اصل منصوبہ شام کی حکومت کو ڈرانا ہے۔ فرانس کے طیارہ بردار جہاز پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل لڑاکا طیاروں کا پورا دستہ موجود ہے۔ بشار الاسد انتظامیہ کو ہٹانے اور شامی افواج کو شکست دینے کے لیے ان طیاروں کو کسی بھی وقت استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایچ ایم ایس اِلّسٹریئس اِس وقت لندن میں دریائے ٹیمز میں کھڑا ہے۔ اولمپکس کے بعد یہ ہیلی کاپٹر بردار جہاز بھی مشرقی بحیرۂ روم روانہ کردیا جائے گا۔ فرانس اور برطانیہ کی معاونت کے لیے امریکی طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس جان سی اسٹینس بھی موجود ہوگا۔ یہ جہاز بہت جلد مشرق وسطیٰ بھیجا جانے والا ہے۔ ایٹمی توانائی سے چلنے والے اس جہاز پر ۹۰ لڑاکا طیارے موجود ہیں۔ ایک اور طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس آئزن ہاور بھی مشرق وسطیٰ بھیجا جانے والا ہے۔ دو طیارہ بردار جہاز پہلے ہی خطے میں ہیں جنہیں امریکا واپس بھیج دیا جائے گا۔
پریشانی کی بات یہ ہے کہ امریکی فوج پر پہلے ہی غیر معمولی دباؤ ہے۔ ایسے میں ایک اور ملٹری آپریشن کی تیاری بہت مشکل مرحلہ ثابت ہوگی۔ امریکی محکمۂ دفاع کا کہنا ہے کہ شام سے ملحق خطے میں جنگی تیاری کی درخواست میرین اور سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جیمز این میٹس کی طرف سے کی گئی ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع کو یہ وضاحت بھی کرنی پڑ رہی ہے کہ امریکا اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ ایران سے معاملات بگڑے ہوئے ضرور ہیں مگر یہ سب کچھ ایران کو کنٹرول کرنے کے لیے نہیں کیا جارہا۔
مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے اور عسکری سطح پر جو تیاریاں بڑی طاقتیں کر رہی ہیں، ان کا مقصد بظاہر اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک طرف تو شام کی حکومت کو ڈرایا دھمکایا جاسکے اور دوسری طرف روس کو بھی پیغام دیا جائے کہ وہ اس خطے میں کچھ بھی کرنے سے باز رہے۔ اگر شام کے خلاف کوئی مکمل جنگ منصوبوں کا حصہ نہ بھی ہو تو اِتنا ضرور ہے کہ ضرورت پڑنے پر مداخلت کی تیاری بھرپور انداز سے کرلی گئی ہے۔
برطانوی اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ نے ۲۴ جولائی کو لکھا کہ شام کے حوالے سے عسکری سطح پر بڑی طاقتیں جو کچھ کر رہی ہیں وہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ یہ بات زور دے کر کہی جارہی ہے کہ جنگ پہلی ترجیح نہیں۔ مگر تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ جنگ پسند و ناپسند کا معاملہ نہیں ہوتا۔ اگر معاملہ آن پڑے تو جنگ کی بھٹی میں خود کو جھونکنا ہی پڑتا ہے۔ شام کی صورت حال بگڑنے کے ساتھ ساتھ اس کے ترکی سے تعلقات میں بھی کشیدگی آ رہی ہے۔ ایسے میں مغربی طاقتوں کو مستقل تیاری کی حالت میں رہنا ہوگا۔ فی الحال مغربی ممالک میں اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ منحرفین کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جائے، انہیں رقوم اور ہتھیار دیے جائیں اور اگر اس سے بھی کام نہ بن پائے تو فوجی کارروائی کے آپشن پر غور کیا جائے۔
دنیا بہت خطرناک موڑ پر کھڑی ہے۔ مشرقی بحیرۂ روم میں غیر معمولی صورت حال ہے۔ دور حاضر کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی سطح پر کوئی ایک غلطی کسی بڑی جنگ کا سبب بنتی ہے۔ امریکا اور یورپ میں سیاست الجھی ہوئی ہے۔ کرپشن بھی ہے اور اختیارات کی جنگ بھی۔ اقتدار اور اختیار کی جنگ کسی بھی وقت کسی بڑی جنگ کو جنم دے سکتی ہے۔ مختلف خطوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ قائم کرنے کے حوالے سے رسّا کشی بھی چل رہی ہے۔
امریکا اور نیٹو نے جو عسکری تیاری کی ہے، اُس کی نگرانی ایک ایسا نظام کر رہا ہے جس میں حفظِ مراتب سب سے زیادہ اہم ہے۔ کسی بھی مرحلے پر، کوئی بھی غلطی سرزد ہوسکتی ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو ایک انتہائی خطرناک جنگ کو روکنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ خفیہ ادارے عام طور پر آزاد حیثیت میں کام کرتے ہیں اور ان کے احتساب کا میکینزم خاصا کمزور ہوتا ہے۔ شام کے معاملے میں امریکا اور نیٹو کی جانب سے کوئی بھی بے احتیاطی ایک ایسی جنگ کے شروع کرنے کا باعث بنے گی جس کی لپیٹ میں خطے کے ممالک ہی نہیں بلکہ پاکستان، ایران، وسطِ ایشیا کے ممالک اور چین بھی آسکتا ہے۔ ۲۰۰۰ء سے امریکا اور اسرائیل کے فوجی منصوبہ ساز تیسری عالمی جنگ کے مختلف منظر ناموں کے حوالے سے تیاری کی بات کرتے آئے ہیں۔ کسی بھی ملٹری ایجنڈے میں کشیدگی کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ شام اور ایران کے معاملے میں بھی اس نکتے کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔
جنگ کی تیاری کے حوالے سے پروپیگنڈا بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کا مقصد صرف عوام کو ہم نوا بنانا نہیں بلکہ سیاسی اور عسکری سطح پر اہم ترین فیصلے کرنے والوں کو بھی اس بات کا یقین دلانا ہوتا ہے کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہی حقیقت ہے اور اس کا ادراک کرتے ہوئے فوری فیصلے کرنے ہوں گے۔ طاقتور ممالک میں جنگ کی حامی لابیز رات دن پروپیگنڈے کے ذریعے اعلیٰ سرکاری افسران، عسکری قیادت اور انٹیلی جنس کمیونٹی کو اس بات کا یقین دلاتی رہتی ہیں کہ جنگ ناگزیر ہوچکی ہے اور اب ملک کو پولیس اسٹیٹ کے طور پر چلانا پڑے گا۔
جنگ کو جمہوریت اور انصاف کی بقا کے نام پر ناگزیر بنایا جاتا ہے۔ انتہائی مہارت سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کے ذریعے ہر سطح پر یہ تیقن پیدا کیا جاتا ہے کہ جنگ دراصل جمہوریت کے نفاذ اور انصاف کو یقینی بنانے کا بنیادی آلہ ہے۔ خطرناک اور افسوسناک امر یہ ہے کہ جنگ پسند لابی کو اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں ہوتی کہ جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال سے کس سطح پر اور کیسی تباہی رونما ہوسکتی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ جنگ کی حامی لابی پروپیگنڈے کے ذریعے کسی بھی سطح کے نقصان کو مشترکہ نقصان قرار دے کر اُس کی شدت کم کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔
جنگ کا فیصلہ سیاسی قیادت کرتی ہے۔ اس کا فائدہ بڑے کاروباری اداروں کو پہنچتا ہے۔ جنگ سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے بھی وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو جنگ کو بھی یقینی بناتے ہیں۔
جنگ کی تباہ کاریوں کو چھپانے کے لیے انتہائی جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بھی ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے کہ جنگ ہی سے امن قائم ہوتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے جنگ کا اہم ترین مورچہ تیار کیا جاتا ہے۔ اگر میڈیا کا سہارا نہ لیا جائے تو امریکا اور نیٹو کا جنگی پروپیگنڈا ریت کے گھروندے کی مانند بکھر جائے گا۔
امریکا اور نیٹو مل کر جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس کے نتیجے میں شام میں جنگ چھڑے گی، جس میں ترکی اور اسرائیل کو بھی ملوث ہونا پڑے گا۔ اب اگر اس جنگ کو ٹالنا ہے تو شام کے اصل حالات کا جاننا لازم ہے۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی یکطرفہ تصویر کا دکھایا جانا انتہائی خطرناک ہے اور بالآخر یہ یک رُخی تصویر ہی جنگ کی طرف لے جائے گی۔ اگر عالمی امن کو یقینی بنانا ہے تو اس امر کو بھی یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے کہ مشرقی بحیرۂ روم میں بڑی طاقتیں طیارہ بردار جہاز نہ لائیں، زیادہ تعداد میں فوجی جمع نہ کریں اور مشقوں کے نام پر دنیا کو ایک اور خطرناک اور ہمہ گیر جنگ کی دلدل میں پھنسانے کی کوشش نہ کریں۔ اس حوالے سے امریکا، برطانیہ اور فرانس کے عوام کو مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا۔
(“The US-NATO War on Syria”… “Global Research”. July 26th, 2012)
Leave a Reply